گناہوں کی دلدل جیل کہانی
اس کے بعد وکیل کو شہزین گھسیٹتے ہوئے باتھ روم لے گئی جہاں پستول کے بٹ مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے قیدی خواتین کی کس کس طرح مدد کی جا رہی ہے، ڈی ڈبلیو ویب سائٹ کے مطابق اس کی ایک مثال حکمت یار نامی خاتون بھی ہیں۔ حکمت یار پر اپنے شوہر کے قتل کا مقدمہ چلا تو انہیں اور ان کے تین بیٹوں کو، جو شریک ملزم تھے، سات سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
حکمت یار نے ڈی ڈبلیو ویب سائٹ کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا، ''اس ٹرسٹ نے گھر میں اکیلی رہ جانے والی میری تین بیٹیوں کو اسلام آباد میں آشیانہ نامی ادارے میں پناہ دلوائی۔ میری قانونی مدد کی اور اب جیل سے باہر بھی زندگی گزارنے میں میری معاونت کی جا رہی ہے۔''حکمت یار نے پاکستان میں اجتماعی معاشرتی رویوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا، ''گناہ اور غلطی تو سب سے ہو ہی جاتی ہے، لیکن یہ معاشرہ جیل میں قید کی سزا ختم ہو جانے کے بعد بھی پوری زندگی کےلیے سزا دیتا ہے۔ جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک؛ معاشرہ کبھی معاف نہیں کرتا۔''
آن لائن اخبار ''ابلاغ'' کے مطابق مختلف کیسوں میں جیلوں میں قید خواتین اور کم عمر نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے، کراچی میں عورتوں کی سینٹرل جیل میں 126 عورتیں قید ہیں۔ کراچی میں کم عمر قیدیوں کے لیے قائم جیل میں قیدی لڑکوں کی تعداد 140 ہے۔ خواتین قیدیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہونے کے باعث بے گناہ قید کاٹنے والے ان معصوم بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔
ماؤں کے ساتھ جیلوں میں قید معصوم بچوں میں 22 بچے کراچی ویمن جیل میں ہیں، جبکہ 10 بچے ویمن جیل حیدرآباد اور 5 بچے لاڑکانہ کی خواتین جیل میں مقیم ہیں۔ سکھر میں قید عورتوں میں ایک بھی ایسی ماں نہیں جس کا کوئی معصوم بچہ ہو۔ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر سندھ کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 18 ہزار 899 ہے، جن میں 14 ہزار 410 قیدی مختلف کیسوں میں سزا یافتہ ہیں جبکہ 390 ایسے قیدی ہیں جنھیں مختلف وجوہ کی بنا پر نظربند کیا گیا ہے۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد میں تقریباً 10 ہزار قیدی کراچی کی دوجیلوں میں قید ہیں۔ ہمیشہ کی طرح صوبہ سندھ کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا مسئلہ تاحال جیلوں کی انتظامیہ کو درپیش ہے۔ موجودہ اعداد وشمار کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کی گنجائش 2400 ہے لیکن جیل میں 4 ہزار 954 قیدیوں کو رکھا گیا ہے، اسی طرح کل 1500 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والی ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں قیدیوں کی موجودہ تعداد 4 ہزار 785 ہے۔
1994ء میں ویٹ (ویمن ایڈ ٹرسٹ) کی سرگرمیوں کے آغاز کے وقت مرکزی انتظامیہ میں شاہدہ سمیع اور فریدہ علوی شامل تھیں جو تمام صوبوں سے رپورٹ لیتی تھیں۔ 1999ء میں کام کے پھیلاؤ کے باعث تمام صوبوں کی انتظامیہ علیحدہ کام کرنے لگی جس کی رپورٹ مرکز کو جاتی ہے۔ کراچی میں صوبائی انتظامیہ بنی جس کی صدر فیض خاتون تھیں جبکہ اقبال النساء اور اسماء شاہین نائب صدور تھیں۔ اب مرکز کی نگرانی عافیہ سرور کرتی ہیں۔
جیل کی زندگی کے بعد بہت سے لوگ اپنے جاننے والوں، عزیزوں، چاہنے والوں، رشتہ داروں اور احباب کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ جیل میں قید کے دوران اور سزا کے بعد قیدی خواتین کی معاشی و قانونی امداد کےلیے کوشاں یہ ادارہ اگرچہ وسائل کی شدید کمی کا شکار رہتا ہے، لیکن خدمت کے جذبے سے سرشار ویٹ کے رضاکار اپنے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے اور پاکستان کے اندر ہی ایسے افراد کو تلاش کرنے کےلیے ہمہ تن مصروف عمل ہیں جو ایسی غریب و لاچار اور بےبس خواتین کی مدد کرسکیں؛ معاشرے میں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلاسکیں۔
کراچی ویمن ایڈ ٹرسٹ میں گزشتہ 13 برسوں سے آئی ٹی انچارج کے طور پر وابستہ زینب منیر نے جیلوں میں کام کے حوالے سے بتایا کہ ایم ایس آفس کا تربیتی پروگرام جس کا نام ''آئی ٹی ٹریننگ فار پرزنرز'' ہے، آئی جی سندھ کا مرتب کیا ہوا نصاب ہے۔ یہ کورس خواتین جیلوں میں کروایا جاتا ہے جس میں قیدی خواتین کی دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ اس کورس کو کرنے سے ان کی سزامیں 6 ماہ کی تخفیف کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیدی خواتین دلچسپی سے کمپیوٹر پر کام سیکھتی ہیں۔ نصاب مکمل ہونے کے بعد آئی جی کے ذریعے ان خواتین کو سرٹیفکیٹ دلوایا جاتا ہے جس کے بعد ان کی سزا کم کردی جاتی ہے۔
جیل کی انتظامیہ نے اس مقصد کےلیے آئی جی سندھ کی خصوصی اجازت سے ایک کمرہ کراچی جیل کے اندر مخصوص کیا ہوا ہے جس میں ہم قیدی خواتین کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتے ہیں، تاکہ جیل کی زندگی کے بعد وہ خود اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر اپنی معاشی زندگی کا بوجھ بہ حسن و خوبی اٹھا سکیں۔
کراچی جیل میں مخیر و صاحبِ ثروت حضرات کے تعاون سے خواتین قیدیوں کی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ماہانہ دروسِ قرآن، خصوصی ایام کی مناسبت سے مختلف پروگرام اور قیدی خواتین میں کپڑے، ضروری استعمال کی تقسیم، رمضان و عید میں خصوصی گفٹ پیکٹس ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تعاون سے قیدی خواتین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جیل میں وقفےوقفے سے قیدی خواتین کو اپنے مالک حقیقی اور مقصدِ زندگی سے روشناس کروانے کےلیے کراچی جیل کے اندر قیدی خواتین کو مختلف دینی اسکالرز مثلاً کوثر مسعود، افشاں نوید، اقبال النساء، صفیہ محمود، نیر خاتون، رافعہ شاہد اور خیر النساء شامل ہیں، کے لیکچرز کے ذریعے قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خیر النساء جو ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ایک معتبر ممبر بھی ہیں، قیدی خواتین کی مالی تعاون کے علاوہ بھی ہر طرح کی مدد کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ بچوں کےلیے خصوصی گفٹس بھی دئیے جاتے ہیں۔ ویٹ کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بہت سی خواتین اپنے مقصد زندگی سے آگاہ ہوکر گناہوں کی زندگی سے نکلنے کا عزم مصمم لیے جیل میں قید کے بقیہ ایام گزار رہی ہیں، جبکہ بعض قیدی خواتین قید ختم ہونے کے بعد گناہوں سے پاک تائب زندگی گزار تے ہوئے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی ہیں۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے بہت سے مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ قیدی خواتین کے گھر والوں کی کاؤنسلنگ کی جائے تاکہ وہ قید کے بعد خواتین کو اپنانے میں عار محسوس نہ کریں۔
یہاں ہم جیل میں موجود 26 سالہ شہزین کی کہانی معمولی ردّ و بدل کے بعد اپنے قاری تک پہنچارہے ہیں کہ کس طرح ایک معصوم جان گناہوں کے دلدل میں پھنستی چلی گئی۔
شہزین کا تعلق خدا کی بستی کے ایک چھوٹے سے گھرانے سے ہے۔ 12 سال کی تھی جب ہی اس کی سہیلیاں، دوست، احباب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو ایک بیوٹی پارلر میں جاب کرنے لگی۔
پارلر والی بھی یہی کہتیں کہ تمہیں تو ماڈل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ ماڈلنگ کی فیلڈ میں بہت پیسہ ہے، لڑکیاں اگر مشہور ہوجائیں تو وہ راتوں رات امیر ہوجاتی ہیں۔ ان باتوں کی وجہ سے وہ ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ میں کس طرح ماڈل بن سکتی ہوں؟
ایک مرتبہ بیوٹی پارلر والی نے اسے اپنے پاس بلایا اور رازداری کے انداز میں اسے ایک میڈیا سینٹر کا پتا بتایا جو ڈیفنس میں تھا۔ نام نہ آنے کی شرط پر آنٹی اس کے ساتھ چلنے پر آمادہ بھی ہوگئی۔ آنٹی نے بتایا انہیں نئے چہروں کی ضرورت ہے اور تم اس جاب کےلیے پرفیکٹ ہو۔ اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ایک اچھی جاب کی آفر آئی ہے، شاید ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ گھر والے بہ آسانی راضی ہوگئے۔ وہ آنٹی کے ساتھ ڈیفنس جاپہنچی۔ شہزین کے مطابق انہوں نے ایک اسٹیٹ ایجنسی بنائی ہوئی تھی۔ ہم اندر داخل ہوئے تو پتا چلا اندر ایک اور کمرہ ہے جو فوٹو شوٹ کےلیے مختص تھا۔ یہاں تین لوگ تھے جن میں ایک اسٹیٹ ایجنٹ، ایک فوٹوگرافر اور ایک وکیل تھے، تینوں مل کر یہ اسٹیٹ ایجنسی چلا رہے تھے۔ مجھ سے ایک فارم فِل کروایاگیا جس میں میرے ضروری کوائف، میرے گھر کا پتا، فون نمبر سب کچھ درج تھا۔ وہاں ایک اور لڑکا بھی ماڈلنگ کےلیے آیا ہوا تھا۔ آنٹی ان کے ساتھ گھل مل گئیں۔
تھوڑی دیر بعد چائے آگئی، ہم سب نے چائے پی۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو میری ساری امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔ وہ تینوں مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
میں جیسے تیسے گھر پہنچی۔ ایک ہفتہ بعد دوبارہ میرے نمبر پر کال آئی، مجھے وہیں بلایا گیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ گھر والوں کو کیا بتاتی، یہی کہا کہ جاب کےلیے انٹرویوز ہورہے ہیں۔ ایک بار وہاں سے واپس آرہی تھی کہ وہی لڑکا نظر آیا جو میری ہی طرح ماڈلنگ کےلیے آیا ہوا تھا۔ مجھے اس نے آفر کی کہ آؤ تمہیں اسٹاپ تک چھوڑ دوں۔ میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس سے باتوں میں پتا چلا کہ وہ یہیں ڈیفنس کا رہائشی ہے۔ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہے جو میرے ساتھ ہوچکا تھا۔ اس کو بھی مسلسل بلیک میل کیا جاتا ہے۔ شہزین اور فرحان نے مل کر یہ منصوبہ بنایا کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا پایا جائے تاکہ ہم اس عذاب سے نکل سکیں۔ دوسرے ہفتے دونوں آفس میں ان تینوں کے ساتھ موجود تھے۔ اچانک شہزین اٹھی اور کہا کہ آج چائے میں بناؤں گی۔ پھر وہی ہوا کہ وہ ان تینوں کو بے ہوش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چائے میں نشہ آور دوا کا انتظام فرحان نے کردیا تھا۔ وہ تینوں بلیک میلر نیم بے ہوش ہوچکے تھے۔ فرحان اپنے ساتھ پستول بھی لایا تھا۔ پہلے اس نے ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل سے اپنی فحش تصاویر ڈیلیٹ کی جو وہ پتا نہیں کہاں کہاں بھیج چکے تھے۔ اس کے بعد وکیل کو شہزین گھسیٹتے ہوئے باتھ روم لے گئی جہاں پستول کے بٹ مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
اس کا منہ کموڈ کی طرف کردیا تاکہ چیخوں کی آواز سے اہل محلہ چوکنا نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد فرحان نے بقیہ دونوں کو بھی پستول کے بٹ مار مار کر ادھ موا کردیا۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان میں اب کوئی نہیں بچے گا تو خاموشی سے دکان سے باہر نکل آئے اور تالا لگا دیا۔ لیکن جس طرح جرم اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے بالکل اسی طرح دونوں کا دھیان باہر کھڑی وکیل کی بائیک کی جانب نہیں گیا۔ دو دن وہ لوگ گھر ہی میں رہے تیسرے دن عین اس وقت جب وہ دونوں کراچی سے باہر جانے کےلیے سہراب گوٹھ میں گاڑی میں سوار ہو رہے تھے، پولیس کے نرغےمیں آگئے؛ اور وہ انہیں لے کر مکمل شواہد کی موجودگی میں جیل لے آئی جہاں یہ دونوں اپنے جرم سے مکمل انکاری ہیں۔ لیکن چائے کی پیالیوں، کموڈ، اور دروازوں پر موجود انگلیوں کے نشانات سے ان دونوں کے جرم کی تصدیق ہورہی تھی۔ دوسری جانب یہ ہوا کہ جب وہ لوگ واردات کر کے نکلے تو اہل محلہ نے انہیں دیکھ لیا، کسی کو کوئی شک نہ گزرا کیونکہ وہ لوگ یہاں آتے رہتے تھے۔ لیکن دو دن تک دکان کے دروازے پر موٹر سائیکل کھڑی رہی جس پر اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس تالےتوڑ کر اندر گئی تو دو دن پرانی لاشیں اور ان پر انگلیوں کے نشانات بہت کچھ بتارہے تھے۔ پولیس بہ آسانی شہزین و فرحان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
اب مختلف وکلاء و این جی اوز کی مدد سے ان دونوں کا کیس پچھلے دس سال سے کرمنل کورٹ کے زیر سماعت ہے۔ گناہوں کی دلدل سے نکلنے اور نیکی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے ویٹ کی جانب سے شہزین کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ وہ ''ویٹ'' کے تحت کمپیوٹر کورس کرچکی ہے۔ مختلف دروس میں شرکت کرتی ہے اور نعتیں بھی پڑھتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکمت یار نے ڈی ڈبلیو ویب سائٹ کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا، ''اس ٹرسٹ نے گھر میں اکیلی رہ جانے والی میری تین بیٹیوں کو اسلام آباد میں آشیانہ نامی ادارے میں پناہ دلوائی۔ میری قانونی مدد کی اور اب جیل سے باہر بھی زندگی گزارنے میں میری معاونت کی جا رہی ہے۔''حکمت یار نے پاکستان میں اجتماعی معاشرتی رویوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا، ''گناہ اور غلطی تو سب سے ہو ہی جاتی ہے، لیکن یہ معاشرہ جیل میں قید کی سزا ختم ہو جانے کے بعد بھی پوری زندگی کےلیے سزا دیتا ہے۔ جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک؛ معاشرہ کبھی معاف نہیں کرتا۔''
آن لائن اخبار ''ابلاغ'' کے مطابق مختلف کیسوں میں جیلوں میں قید خواتین اور کم عمر نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے، کراچی میں عورتوں کی سینٹرل جیل میں 126 عورتیں قید ہیں۔ کراچی میں کم عمر قیدیوں کے لیے قائم جیل میں قیدی لڑکوں کی تعداد 140 ہے۔ خواتین قیدیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہونے کے باعث بے گناہ قید کاٹنے والے ان معصوم بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔
ماؤں کے ساتھ جیلوں میں قید معصوم بچوں میں 22 بچے کراچی ویمن جیل میں ہیں، جبکہ 10 بچے ویمن جیل حیدرآباد اور 5 بچے لاڑکانہ کی خواتین جیل میں مقیم ہیں۔ سکھر میں قید عورتوں میں ایک بھی ایسی ماں نہیں جس کا کوئی معصوم بچہ ہو۔ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر سندھ کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 18 ہزار 899 ہے، جن میں 14 ہزار 410 قیدی مختلف کیسوں میں سزا یافتہ ہیں جبکہ 390 ایسے قیدی ہیں جنھیں مختلف وجوہ کی بنا پر نظربند کیا گیا ہے۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد میں تقریباً 10 ہزار قیدی کراچی کی دوجیلوں میں قید ہیں۔ ہمیشہ کی طرح صوبہ سندھ کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کا مسئلہ تاحال جیلوں کی انتظامیہ کو درپیش ہے۔ موجودہ اعداد وشمار کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کی گنجائش 2400 ہے لیکن جیل میں 4 ہزار 954 قیدیوں کو رکھا گیا ہے، اسی طرح کل 1500 قیدیوں کی گنجائش رکھنے والی ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں قیدیوں کی موجودہ تعداد 4 ہزار 785 ہے۔
1994ء میں ویٹ (ویمن ایڈ ٹرسٹ) کی سرگرمیوں کے آغاز کے وقت مرکزی انتظامیہ میں شاہدہ سمیع اور فریدہ علوی شامل تھیں جو تمام صوبوں سے رپورٹ لیتی تھیں۔ 1999ء میں کام کے پھیلاؤ کے باعث تمام صوبوں کی انتظامیہ علیحدہ کام کرنے لگی جس کی رپورٹ مرکز کو جاتی ہے۔ کراچی میں صوبائی انتظامیہ بنی جس کی صدر فیض خاتون تھیں جبکہ اقبال النساء اور اسماء شاہین نائب صدور تھیں۔ اب مرکز کی نگرانی عافیہ سرور کرتی ہیں۔
جیل کی زندگی کے بعد بہت سے لوگ اپنے جاننے والوں، عزیزوں، چاہنے والوں، رشتہ داروں اور احباب کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ جیل میں قید کے دوران اور سزا کے بعد قیدی خواتین کی معاشی و قانونی امداد کےلیے کوشاں یہ ادارہ اگرچہ وسائل کی شدید کمی کا شکار رہتا ہے، لیکن خدمت کے جذبے سے سرشار ویٹ کے رضاکار اپنے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے اور پاکستان کے اندر ہی ایسے افراد کو تلاش کرنے کےلیے ہمہ تن مصروف عمل ہیں جو ایسی غریب و لاچار اور بےبس خواتین کی مدد کرسکیں؛ معاشرے میں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلاسکیں۔
کراچی ویمن ایڈ ٹرسٹ میں گزشتہ 13 برسوں سے آئی ٹی انچارج کے طور پر وابستہ زینب منیر نے جیلوں میں کام کے حوالے سے بتایا کہ ایم ایس آفس کا تربیتی پروگرام جس کا نام ''آئی ٹی ٹریننگ فار پرزنرز'' ہے، آئی جی سندھ کا مرتب کیا ہوا نصاب ہے۔ یہ کورس خواتین جیلوں میں کروایا جاتا ہے جس میں قیدی خواتین کی دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ اس کورس کو کرنے سے ان کی سزامیں 6 ماہ کی تخفیف کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیدی خواتین دلچسپی سے کمپیوٹر پر کام سیکھتی ہیں۔ نصاب مکمل ہونے کے بعد آئی جی کے ذریعے ان خواتین کو سرٹیفکیٹ دلوایا جاتا ہے جس کے بعد ان کی سزا کم کردی جاتی ہے۔
جیل کی انتظامیہ نے اس مقصد کےلیے آئی جی سندھ کی خصوصی اجازت سے ایک کمرہ کراچی جیل کے اندر مخصوص کیا ہوا ہے جس میں ہم قیدی خواتین کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتے ہیں، تاکہ جیل کی زندگی کے بعد وہ خود اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر اپنی معاشی زندگی کا بوجھ بہ حسن و خوبی اٹھا سکیں۔
کراچی جیل میں مخیر و صاحبِ ثروت حضرات کے تعاون سے خواتین قیدیوں کی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ماہانہ دروسِ قرآن، خصوصی ایام کی مناسبت سے مختلف پروگرام اور قیدی خواتین میں کپڑے، ضروری استعمال کی تقسیم، رمضان و عید میں خصوصی گفٹ پیکٹس ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تعاون سے قیدی خواتین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جیل میں وقفےوقفے سے قیدی خواتین کو اپنے مالک حقیقی اور مقصدِ زندگی سے روشناس کروانے کےلیے کراچی جیل کے اندر قیدی خواتین کو مختلف دینی اسکالرز مثلاً کوثر مسعود، افشاں نوید، اقبال النساء، صفیہ محمود، نیر خاتون، رافعہ شاہد اور خیر النساء شامل ہیں، کے لیکچرز کے ذریعے قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خیر النساء جو ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ایک معتبر ممبر بھی ہیں، قیدی خواتین کی مالی تعاون کے علاوہ بھی ہر طرح کی مدد کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ بچوں کےلیے خصوصی گفٹس بھی دئیے جاتے ہیں۔ ویٹ کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بہت سی خواتین اپنے مقصد زندگی سے آگاہ ہوکر گناہوں کی زندگی سے نکلنے کا عزم مصمم لیے جیل میں قید کے بقیہ ایام گزار رہی ہیں، جبکہ بعض قیدی خواتین قید ختم ہونے کے بعد گناہوں سے پاک تائب زندگی گزار تے ہوئے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی ہیں۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے بہت سے مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ قیدی خواتین کے گھر والوں کی کاؤنسلنگ کی جائے تاکہ وہ قید کے بعد خواتین کو اپنانے میں عار محسوس نہ کریں۔
یہاں ہم جیل میں موجود 26 سالہ شہزین کی کہانی معمولی ردّ و بدل کے بعد اپنے قاری تک پہنچارہے ہیں کہ کس طرح ایک معصوم جان گناہوں کے دلدل میں پھنستی چلی گئی۔
شہزین کا تعلق خدا کی بستی کے ایک چھوٹے سے گھرانے سے ہے۔ 12 سال کی تھی جب ہی اس کی سہیلیاں، دوست، احباب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو ایک بیوٹی پارلر میں جاب کرنے لگی۔
پارلر والی بھی یہی کہتیں کہ تمہیں تو ماڈل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ ماڈلنگ کی فیلڈ میں بہت پیسہ ہے، لڑکیاں اگر مشہور ہوجائیں تو وہ راتوں رات امیر ہوجاتی ہیں۔ ان باتوں کی وجہ سے وہ ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ میں کس طرح ماڈل بن سکتی ہوں؟
ایک مرتبہ بیوٹی پارلر والی نے اسے اپنے پاس بلایا اور رازداری کے انداز میں اسے ایک میڈیا سینٹر کا پتا بتایا جو ڈیفنس میں تھا۔ نام نہ آنے کی شرط پر آنٹی اس کے ساتھ چلنے پر آمادہ بھی ہوگئی۔ آنٹی نے بتایا انہیں نئے چہروں کی ضرورت ہے اور تم اس جاب کےلیے پرفیکٹ ہو۔ اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ایک اچھی جاب کی آفر آئی ہے، شاید ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ گھر والے بہ آسانی راضی ہوگئے۔ وہ آنٹی کے ساتھ ڈیفنس جاپہنچی۔ شہزین کے مطابق انہوں نے ایک اسٹیٹ ایجنسی بنائی ہوئی تھی۔ ہم اندر داخل ہوئے تو پتا چلا اندر ایک اور کمرہ ہے جو فوٹو شوٹ کےلیے مختص تھا۔ یہاں تین لوگ تھے جن میں ایک اسٹیٹ ایجنٹ، ایک فوٹوگرافر اور ایک وکیل تھے، تینوں مل کر یہ اسٹیٹ ایجنسی چلا رہے تھے۔ مجھ سے ایک فارم فِل کروایاگیا جس میں میرے ضروری کوائف، میرے گھر کا پتا، فون نمبر سب کچھ درج تھا۔ وہاں ایک اور لڑکا بھی ماڈلنگ کےلیے آیا ہوا تھا۔ آنٹی ان کے ساتھ گھل مل گئیں۔
تھوڑی دیر بعد چائے آگئی، ہم سب نے چائے پی۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو میری ساری امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔ وہ تینوں مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
میں جیسے تیسے گھر پہنچی۔ ایک ہفتہ بعد دوبارہ میرے نمبر پر کال آئی، مجھے وہیں بلایا گیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ گھر والوں کو کیا بتاتی، یہی کہا کہ جاب کےلیے انٹرویوز ہورہے ہیں۔ ایک بار وہاں سے واپس آرہی تھی کہ وہی لڑکا نظر آیا جو میری ہی طرح ماڈلنگ کےلیے آیا ہوا تھا۔ مجھے اس نے آفر کی کہ آؤ تمہیں اسٹاپ تک چھوڑ دوں۔ میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس سے باتوں میں پتا چلا کہ وہ یہیں ڈیفنس کا رہائشی ہے۔ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہے جو میرے ساتھ ہوچکا تھا۔ اس کو بھی مسلسل بلیک میل کیا جاتا ہے۔ شہزین اور فرحان نے مل کر یہ منصوبہ بنایا کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا پایا جائے تاکہ ہم اس عذاب سے نکل سکیں۔ دوسرے ہفتے دونوں آفس میں ان تینوں کے ساتھ موجود تھے۔ اچانک شہزین اٹھی اور کہا کہ آج چائے میں بناؤں گی۔ پھر وہی ہوا کہ وہ ان تینوں کو بے ہوش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چائے میں نشہ آور دوا کا انتظام فرحان نے کردیا تھا۔ وہ تینوں بلیک میلر نیم بے ہوش ہوچکے تھے۔ فرحان اپنے ساتھ پستول بھی لایا تھا۔ پہلے اس نے ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل سے اپنی فحش تصاویر ڈیلیٹ کی جو وہ پتا نہیں کہاں کہاں بھیج چکے تھے۔ اس کے بعد وکیل کو شہزین گھسیٹتے ہوئے باتھ روم لے گئی جہاں پستول کے بٹ مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
اس کا منہ کموڈ کی طرف کردیا تاکہ چیخوں کی آواز سے اہل محلہ چوکنا نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد فرحان نے بقیہ دونوں کو بھی پستول کے بٹ مار مار کر ادھ موا کردیا۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان میں اب کوئی نہیں بچے گا تو خاموشی سے دکان سے باہر نکل آئے اور تالا لگا دیا۔ لیکن جس طرح جرم اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے بالکل اسی طرح دونوں کا دھیان باہر کھڑی وکیل کی بائیک کی جانب نہیں گیا۔ دو دن وہ لوگ گھر ہی میں رہے تیسرے دن عین اس وقت جب وہ دونوں کراچی سے باہر جانے کےلیے سہراب گوٹھ میں گاڑی میں سوار ہو رہے تھے، پولیس کے نرغےمیں آگئے؛ اور وہ انہیں لے کر مکمل شواہد کی موجودگی میں جیل لے آئی جہاں یہ دونوں اپنے جرم سے مکمل انکاری ہیں۔ لیکن چائے کی پیالیوں، کموڈ، اور دروازوں پر موجود انگلیوں کے نشانات سے ان دونوں کے جرم کی تصدیق ہورہی تھی۔ دوسری جانب یہ ہوا کہ جب وہ لوگ واردات کر کے نکلے تو اہل محلہ نے انہیں دیکھ لیا، کسی کو کوئی شک نہ گزرا کیونکہ وہ لوگ یہاں آتے رہتے تھے۔ لیکن دو دن تک دکان کے دروازے پر موٹر سائیکل کھڑی رہی جس پر اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس تالےتوڑ کر اندر گئی تو دو دن پرانی لاشیں اور ان پر انگلیوں کے نشانات بہت کچھ بتارہے تھے۔ پولیس بہ آسانی شہزین و فرحان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
اب مختلف وکلاء و این جی اوز کی مدد سے ان دونوں کا کیس پچھلے دس سال سے کرمنل کورٹ کے زیر سماعت ہے۔ گناہوں کی دلدل سے نکلنے اور نیکی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے ویٹ کی جانب سے شہزین کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ وہ ''ویٹ'' کے تحت کمپیوٹر کورس کرچکی ہے۔ مختلف دروس میں شرکت کرتی ہے اور نعتیں بھی پڑھتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔