سارے مسائل حل کرنے کا فارمولا

فارمولے میں دو نکتے اور بھی ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتے۔

barq@email.com

ویسے تو پاکستان میں بھانت بھانت کے ''فلو'' آتے رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ''لے کر'' جاتے بھی رہتے ہیں جیسے برڈ فلو، ڈینگی فلو، سوائن فلو، ''پنامہ فلو، صومبائی فلو، کرکٹ فلو، دبئی فلو، اقامہ فلو، نواز فلو ، پی پی فلو اور عمران فلو وغیرہ۔ لیکن ایک فلو ایسابھی ہے جو پاکستان کامستقل اورجدی پشتی فلو ہے بلکہ یوں کہئے کہ جیسے خاندانی حکیم ہوتے ہیں ویسے ہی یہ ''خاندانی'' فلو بھی ہے جو پاکستان کو لاحق ہے، معلوم نہیں اس ''فلو'' کا تعلق ''یونان'' سے ہے یا نہیں لیکن ایک زمانے میں اس ''فلو'' کا بہت زور تھا اور جسے بھی یہ لاحق ہو جاتا تھا وہ یا تو ''ط'' ہو جاتا تھا یا ''ق'' ہو جاتا تھا بلکہ بعض کو تو دونوں بھی ہو جاتے تھے جیسے سقراط، بقراط، دمیقراط ، پلو قراط، بلیو قراط، ریڈ قراط گرین قراط وغیرہ، ورنہ ایک تو ضرور اس فلو کا نتیجہ ہوتا تھا جیسے ارسطو، افلاطون، میراطون، تیرا طون اور اس کا ''طون'' وغیرہ،۔

کچھ محققین (جن کا تعلق سرکاری اکادمیوں سے ہے) کا ماننا ہے کہ شاید جب سکندر یہاں آیا تھا تب ہی اس کی فوج کے ذریعے یہ ''فلو'' یہاں پہنچ گیا ہوگا جسے بعد میں اہل پاکستان پیوند در پیوند، قلم در قلم اور کراس در کراس کرکے بہت ہی طاقتور بنا دیا اور جو اسی طاقتور یعنی ہائی پونسٹی شکل میں آج کل سیاست، صحافت، ادب اور شاعری کو لاحق ہے۔ اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ دانش اور فلسفہ فلو کی طرف ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ لوگ سادہ اور سیدھی بات کرنا مکمل طور پر بھول چکے ہیں اور اگر گالی بھی دیں گے تو فلسفہ اور دانش کوٹڈ کرکے دیں گے،کوئی آپ سے پانی مانگے گا تو یہ ہر گز نہیں کہے گا کہ مجھے پانی پلادو۔ بلکہ یہ کہے گا میں تمہیں ثواب کمانے کا موقع دے رہا ہوں، چائے مانگے گا تو چائے مانگنے کے بجائے وہ آپ کو شرف مہربانی سے مشرف کرے گا۔ اس پر ایک کہانی بھی ہے کہ ایک شاگرد نے اپنے استاد سے بگلا پکڑنے کی ترکیب پوچھی تھی تو اس نے صبح سویرے دریا کنارے جانے اور بگلے کے سر پر موم رکھنے کی ترکیب بتائی تھی، دھوپ چڑھنے پر وہ موم پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں چلا جائے گا اورکسی پاکستانی سیاسی پارٹی کا ''نظریاتی کارکن''بن جائے گا، تو جاکر پکڑ لینا، شاگرد جو دانش اور فلسفے سے یکسر خالی ''عوام'' تھا حجت کی کہ جب میں اس کے سر پر ''موم'' رکھنے جاؤں تو اسی وقت گردن سے کیوں نہ پکڑلو ں، اس پر استاد نے اس کی جوتا کاری کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ماہرانہ فلسفیانہ اور دانشانہ طریقہ سکھا رہا ہوں اور تم اسی عوامی جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔

ظاہر ہے کہ فلسفے اور دانش کا اظہار کرنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ تجاویز اور مشورے دینا ہے۔ خاص طور پر معاشرے اور ملک و قوم کی سدھار کے لیے بھی سب سے بہتر ذریعہ مشورے اور تجاویز دینا ہوتا ہے۔ اور چشم قہر خداوندی نے بھی اس نیک اور دانش مندانہ و فلسفیانہ کام کو بڑے وسیع پیمانے پر بلکہ جنگی بنیادوں پر شروع کیا ہوا ہے۔ لیکن دوسرے روایتی دانشوروں اور فلاسفہ کے برعکس اس نے معاشرے ملک و قوم بلکہ انسانیت کو لاحق تمام برائیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے باقاعدہ ایک فارمولا بھی وضع کیا ہوا ہے، سن کر ہم تو سن ہو کر رہ گئے۔ سارے جسم میں سنسنی پھیل گئی، ہر طرف سناٹا چھا گیا اور زمین و آسمان سنسانے لگے پھر ہوش آیا تو عش عش کرنے لگے یہاں تک کہ نوبت غشی تک پہنچ گئی، ''ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی''


جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبد صورت دیوار میں آئے

کمال تو یہ ہے کہ فارمولا نہایت عام فہم آسان اور سہل الحصول ہے۔بس تھوڑا سا اسے عملی جامہ پہنچانے کی ضرورت ہے۔

بولا۔ اس وقت ملک میں دنیا میں اور کائنات میں جتنے بھی امراض اور عوارض پھیلے ہوئے ہیں روگ لاحق ہیں اور عوام کی زندگی امراض کے ہاتھوں جس طرح اجیرن ہور ہی ہے یہاں تک کہ ذی حیات کے علاوہ بے جان چیزوں جیسے عمارات سڑکوں، شہروں اور اینٹ پتھروں کو بھی طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہیں، ان سب کا واحد آسان اور جامع علاج یہ ہے کہ تمام ڈاکٹروں حکیموں اور طبیبوں، مسیحاؤں کو ''مار'' دیا جائے اور پھر دوا ساز کمپنیوں، اسپتالوں کلینکوں اور میڈیکل اسٹوروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اگر ایک ماہ میں ساری دنیا مکمل طور پر صحت مند نہ ہوئی تو جو ''سزا'' مریض کو دی جاتی ہے وہ مجھے دی جائے۔

دوسرے نمبر پر جرائم ہیں ان کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کے لیے تھانوں پولیس والوں اور قانون نافذ کرنے والوں ۔۔۔۔ پتہ نہیں اس کے بعد اس کی آواز غائب کیوں ہوگئی، ہونٹ ہل رہے لیکن ہم ''لپس ریڈنگ '' سے نا اشنا تھے۔ اس لیے آپ خود بھی تو ہوشیار اور لپس ریڈنگ کے ماہر ہیں خود ہی ساتھ میں متعلقہ تفصیل جوڑ دیجیے۔ صرف آخر میں ہم اتنا سن پائے کہ اگر ساری دنیا سے جرائم مکمل طور پر یکسر مٹ نہیں گئے تو میری سزا وہ جو ''شریف'' کو دی جاتی ہے

فارمولے میں دو نکتے اور بھی ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتے کیونکہ نہ تو ہمیں مشال خان بننے کی اتنی جلدی ہے اور نہ نقیب اللہ محسود بننے کی۔ کیونکہ ہمیں اپنے لطیف چوہدری جیسے ناصح مشفق کی رہنمائی حاصل ہے لیکن آپ کو باقی دو نکتوں کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ہوگی کہ ''امراض'' تو سامنے موجود ہیں جو ہر فرد و بشر کو لاحق ہیں،کرنا صرف یہ ہے کہ ان امراض کا تعاقب کرتے ہوئے آپ کو اس کی جڑ تک پہنچنا ہوگا کیونکہ جڑیں بھی زیر زمین نہیں بلکہ برسرزمین اور کھلی ڈتی ہیں کسی برگد کے ''پیڑ'' اور اس کی جڑوں کی طرح ۔
Load Next Story