ٹاسک فورس کا پیغام پاکستان کے نام
ہمارے قائد کے انداز سیاست ان کی روش کو اپنا کر ہی ملک کو چلانا ہوگا نہ کہ انداز شہنشاہی کو رفیق کار بنانا۔
گزشتہ دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا عالمی اجلاس پیرس میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا، یہ تھی عالمی اخبارات کی خبر۔ یہ کیسے اور کیوں کر ہوا آئیے اس پر کچھ گفتگو کر لی جائے۔
اس میں شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم خود ہی وزیر اعظم بھی تھے اور وزیر خارجہ کا قلم دان بھی انھی کے ہاتھوں میں تھا البتہ ان کے دو عدد معاونین تھے جن کی نظر عالمی افق پر اپنے نظریات کی مناسبت سے تھی، اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر صرف نظر کریں تو یہ محسوس ہوگا کہ ان کی سیاست کا محور سعودی دارالحکومت ریاض ہے۔
سال میں 4 یا 6 مرتبہ کے دورے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اور پھر گزشتہ عرب ممالک اور شام کی جنگ میں کون کس کا حامی تھا اور سیاست کا بیرونی اور اندرونی رخ کیا تھا۔ ان تمام امور پر پاکستان کے حکمرانوں نے غور نہ کیا اور ہر بار مشورے کے لیے شہزادوں اور بادشاہوں کی رفاقت سے لبریز ہوتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک برادر اسلامی ملک ہے اس کی تکریم یقینی کیونکہ ہمارے مقدس ترین مقامات یہی ہیں مگر یہاں خلافت نہیں بادشاہت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے سعودی دارالحکومت کو ریاض میں ہی رکھا گیا ہے اور مکہ و مدینہ عالمی حرمت کے مقامات ہیں ۔ لہٰذا سیاست پر مقام مقدسہ پر اثرات ضرور پڑتے ہیں مگر یہ شہنشاہوں کا زیر اثر ملک ہے یہاں انھی کی سیاست کا علم لہرا رہا ہے اور تمام فیصلے انھی کے نوک قلم سے ہوتے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا کہ سعودی عرب میں ایک بھونچال آیا تھا جس میں سیکڑوں شہزادے اور اہم عہدوں پر فائز لوگ پس زنداں ہوئے جس میں منی لانڈرنگ اور دوسرے الزامات لگے اور ان تمام چیزوں کا حاصل یہ تھا کہ سعودی سیاست قدامت پرستی کو چھوڑ کر جدت پسندی کی جانب مائل ہوئی۔ اس سیاسی عمل کے روح رواں محمد بن سلمان ہیں جن کا اصرار نئی جدید داخلہ پالیسی، عورتوں کی آزادی اور دیگر امور ہیں اور امریکا کی قربت میں خاصے پیش پیش ہیں۔
امریکا کی قربت اسرائیل سے نزدیک تر اور بھارت سے ایک جان دو قالب کی سی۔ ان وجوہات کو پاکستان کو سمجھنا تھا مگر پاکستان کی سیاست ندارد، پی آر (PR) پر چل رہی ہے عقل کا دور دور گمان نہیں۔ اب بھارت میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی یا گاندھی جی کی سیاست نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی حکومت ہے جو مہاتما گاندھی جی کے فکری طور پر قاتلوں کے طرفدار ہیں اور بھارت کے پرانے لیڈروں کی وجہ سے آج بھارت میں 75 فیصد سے زائد اپر مڈل کلاس ہے (Upper Middle Class) جس کی آمدنی دو لاکھ ماہانہ سے زائد ہے اور اس کے علاوہ دنیا کے امیر ترین صنعت کاروں کی بھیڑ ہے اسی لیے ہر ملک بھارت سے قربت رکھنا چاہتا ہے بشمول چین۔
چین کے متعلق پاکستان میں دائیں بازو کا کوئی بھی حکمران سیاسی تجزیہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا جب تک کہ اس نے ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کا جائزہ نہ لیا ہو اور اس وقت کے فاضل معاشی رہنما نے چین کے مستقبل کے لیے کیا پالیسی تشکیل دی تھی اور چین اس وقت کس کی پالیسی پر چل رہا ہے، اس کا سیاسی پہلوکیا تھا؟ کیا پاکستان کے حاکموں کو جو پیرس کی فنانشل میٹنگ میں پاکستان کی نمایندگی کر رہے تھے، ان کو معلوم ہے کہ چین گزشتہ 40 برس سے کس کی سیاسی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟
جی جناب ان کا نام ہے تن سیاؤ پنگ، ثقافتی انقلاب Cultural Revolution میں ان کو چین میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی مگر عمل جاری تھا یہ پالیسی گوکہ 20 سال کے لیے تھی مگر مزید اس کو 20 برس کے لیے آگے بڑھا دیا گیا اور چین کی نئی کانگریس نے مزید اس کی توثیق کردی اور موجودہ صدر بھی اس پر کارفرما ہیں۔
وہ یہ ہے کہ کسی نئے تصادم سے گریز جس کے عالمی اثرات ہوں۔ کیونکہ چین کی انڈسٹری غیر ملکی صنعتی پیداوار سے چل رہی ہے۔ مغرب کی تمام الیکٹرانک اورغیرالیکٹرانک مصنوعات چین میں تیار ہو رہی ہیں لہٰذا چین نے روس کا حمایتی ہونے کے باوجود بھی اپنے فوجی دستے شام نہ بھیجے گوکہ وہ روسی موقف کی حمایت کرتا رہا۔
چین 1970ء میں بھی پاکستان کی فوجی حمایت نہ کرسکا کیونکہ چین میں ثقافتی انقلاب کی کشمکش جاری تھی مگر یہ ہم ہیں کہ بغیر مباحثہ اور غوروفکرکے ہر کام کرنے پر تیار ہیں خواہ اس کا مستقبل پر کیا اثر پڑے۔ اس لیے چین نے آخر موقع پر ہماری حمایت سے کیوں خاموشی کو بہتر جانا کیونکہ فی الحال کسی قسم کا تصادم چین کی عالمی سیاست کے خلاف ہے۔
رہ گیا ریاض کی سیاست تو وہ امریکا کے رخ کے تابع ہے کیونکہ یہ امریکی نظراندازگی کا مظہر ہے کہ یمن کی جنگ پر عالمی مخالفت کے باوجود امریکا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہ کہیے کہ یہ تو اچھا ہوا جو افق سے سوویت یونین جاتا رہا ورنہ وہ قومی آزادی کی تحریک قرار دے کر یمن کے ساتھ ہو جاتا اور یہ جنگ ایک نیا رخ اختیار کرلیتی، ویسے بھی یہ ایران عرب پراکسی وارکی شکل اختیار کرچکی ہے اس لیے نریندر مودی نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا دورہ کیا اور ایران سے معاہدہ کیا۔
عجیب بات ہے کہ بھارت نے ایران اور سعودی تعلقات میں یکسانیت پیدا کر رکھی ہے جب کہ ایران اور سعودی عرب الفاظ کی جنگ میں کئی برس سے مبتلا ہیں۔ بہرصورت ایران کا یہ پہلو قابل تحسین ہے کہ وہ بلوچستان کے بارڈر کو آسودہ رکھے ہوئے ہے، اس میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ایسی صورتحال جس سے پاکستان گزر رہا ہے وزارت خارجہ کا محکمہ کافی اہمیت کا حامل ہے، مگر 24 فروری کو ایک مقامی چینل سے پیرس کانفرنس پر ایک گفتگو ہو رہی تھی جس میں پاکستان کی جانب سے ایک گراں قدر سیاسی مبصر جو حکومت کے کرتا دھرتا ہیں جب ان سے سعودی عرب اور چین کے تذبذب پر اینکر نے پوچھا کہ مصباح اسماعیل صاحب ان دونوں ممالک کے مندوبین نے پاکستان کی حمایت کیوں نہ کی بلکہ بلیک لسٹ ہونے سے پاکستان بچ گیا تو اس کی کیا وجہ ہے تو وہ بتانے سے قاصر رہے بلکہ انھوں نے خود کو مورد الزام ٹھہرایا، سو پھر ایسی صورت میں ان کو ہم کیونکر دوش دے سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت خارجہ کی جو بھی کمیٹی ہے۔
اس پر نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اہم ممالک کی خارجہ پالیسی پر مباحثہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی ایسی دستاویز ہے جس کو انھیں پڑھنے کو کہا جائے۔ گو کہ راقم نے ماضی میں کئی ماہ تک صرف خارجہ امور پر ہی تحریریں پیش کیں بلکہ ایران اور سعودی تعلقات اور چین کی خارجہ حکمت عملی پر اور ثقافتی انقلاب چین پر بھی قلم اٹھایا تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے سیاست کو مقام مقدسہ کی وجہ سے سعودی عرب کے قریب ترکردیا ہے اب یہاں اس پہلو پر ہمارے حکمرانوں نے بالکل غور نہیں کیا کہ چین اور ایران کے تعلقات میں سیاسی قربت نزدیک تر ہے اور حالیہ دنوں میں اس قربت میں مزید اضافہ ہوا ہے لہٰذا یہاں قدم اٹھانا ایسا ہے کہ جیسے شیشے کے تعمیر کردہ فرش پر ہیوی بوٹ پہن کر قدم رکھنا۔ اس پہلو کو ہماری وزارت خارجہ کے حضرات اور خواتین نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔
رہ گئی کشمیر پالیسی پر جس انداز میں پاکستانی حکومت سیاسی تحریک کی آبیاری کر رہی ہے اس سے دنیا کے دیگر ممالک شوروغوغا نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ اس خطے میں بھارت نے اسرائیلی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ اس موقعے پر قائد اعظم جیسی مدبرانہ سیاسی قدم اٹھانا ہے، شاید آپ کو یاد ہو کہ قیام پاکستان کے لیے جو تحریک چل رہی تھی اس وقت امریکا اور روس دونوں نے تقسیم ہند پر اتفاق کیا تھا ورنہ کہاں سوویت یونین کے اس وقت کے مرد آہن جوزف اسٹالن جو سخت گیر کمیونسٹ تھے جس پر ان کی موت کے بعد بھی ان پر تنقید جاری رہی۔
تو یہ تھی ہمارے قائد کے انداز سیاست ان کی روش کو اپنا کر ہی ملک کو چلانا ہوگا نہ کہ انداز شہنشاہی کو رفیق کار بنانا جس میں مذہبی شدت پسندی کی رمق ہو، یہ پاکستان کا ابتدائی دور تھا جس وقت عالمی سیاست اس انداز میں پاکستان کو دیکھ رہی تھی کہ سوویت یونین اور امریکا دونوں نے لیاقت علی خان کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ مگر آج پاکستان کو تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سیاسی طرز میں تبدیلی پیدا کرے بصورت دیگر بلیک لسٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر خدانخواستہ حکمرانوں اور خصوصاً خارجہ امور کے دانشوروں نے اپنے انداز نہ بدلے تو پاکستان کو زبردست معاشی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ قرض ملنا محال ہوگا جب کہ پاکستان کو سود ادا کرنے کے لیے قرض مانگنا پڑتا ہے۔
اس میں شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم خود ہی وزیر اعظم بھی تھے اور وزیر خارجہ کا قلم دان بھی انھی کے ہاتھوں میں تھا البتہ ان کے دو عدد معاونین تھے جن کی نظر عالمی افق پر اپنے نظریات کی مناسبت سے تھی، اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر صرف نظر کریں تو یہ محسوس ہوگا کہ ان کی سیاست کا محور سعودی دارالحکومت ریاض ہے۔
سال میں 4 یا 6 مرتبہ کے دورے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اور پھر گزشتہ عرب ممالک اور شام کی جنگ میں کون کس کا حامی تھا اور سیاست کا بیرونی اور اندرونی رخ کیا تھا۔ ان تمام امور پر پاکستان کے حکمرانوں نے غور نہ کیا اور ہر بار مشورے کے لیے شہزادوں اور بادشاہوں کی رفاقت سے لبریز ہوتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک برادر اسلامی ملک ہے اس کی تکریم یقینی کیونکہ ہمارے مقدس ترین مقامات یہی ہیں مگر یہاں خلافت نہیں بادشاہت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے سعودی دارالحکومت کو ریاض میں ہی رکھا گیا ہے اور مکہ و مدینہ عالمی حرمت کے مقامات ہیں ۔ لہٰذا سیاست پر مقام مقدسہ پر اثرات ضرور پڑتے ہیں مگر یہ شہنشاہوں کا زیر اثر ملک ہے یہاں انھی کی سیاست کا علم لہرا رہا ہے اور تمام فیصلے انھی کے نوک قلم سے ہوتے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا کہ سعودی عرب میں ایک بھونچال آیا تھا جس میں سیکڑوں شہزادے اور اہم عہدوں پر فائز لوگ پس زنداں ہوئے جس میں منی لانڈرنگ اور دوسرے الزامات لگے اور ان تمام چیزوں کا حاصل یہ تھا کہ سعودی سیاست قدامت پرستی کو چھوڑ کر جدت پسندی کی جانب مائل ہوئی۔ اس سیاسی عمل کے روح رواں محمد بن سلمان ہیں جن کا اصرار نئی جدید داخلہ پالیسی، عورتوں کی آزادی اور دیگر امور ہیں اور امریکا کی قربت میں خاصے پیش پیش ہیں۔
امریکا کی قربت اسرائیل سے نزدیک تر اور بھارت سے ایک جان دو قالب کی سی۔ ان وجوہات کو پاکستان کو سمجھنا تھا مگر پاکستان کی سیاست ندارد، پی آر (PR) پر چل رہی ہے عقل کا دور دور گمان نہیں۔ اب بھارت میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی یا گاندھی جی کی سیاست نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی حکومت ہے جو مہاتما گاندھی جی کے فکری طور پر قاتلوں کے طرفدار ہیں اور بھارت کے پرانے لیڈروں کی وجہ سے آج بھارت میں 75 فیصد سے زائد اپر مڈل کلاس ہے (Upper Middle Class) جس کی آمدنی دو لاکھ ماہانہ سے زائد ہے اور اس کے علاوہ دنیا کے امیر ترین صنعت کاروں کی بھیڑ ہے اسی لیے ہر ملک بھارت سے قربت رکھنا چاہتا ہے بشمول چین۔
چین کے متعلق پاکستان میں دائیں بازو کا کوئی بھی حکمران سیاسی تجزیہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا جب تک کہ اس نے ماؤزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کا جائزہ نہ لیا ہو اور اس وقت کے فاضل معاشی رہنما نے چین کے مستقبل کے لیے کیا پالیسی تشکیل دی تھی اور چین اس وقت کس کی پالیسی پر چل رہا ہے، اس کا سیاسی پہلوکیا تھا؟ کیا پاکستان کے حاکموں کو جو پیرس کی فنانشل میٹنگ میں پاکستان کی نمایندگی کر رہے تھے، ان کو معلوم ہے کہ چین گزشتہ 40 برس سے کس کی سیاسی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟
جی جناب ان کا نام ہے تن سیاؤ پنگ، ثقافتی انقلاب Cultural Revolution میں ان کو چین میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی مگر عمل جاری تھا یہ پالیسی گوکہ 20 سال کے لیے تھی مگر مزید اس کو 20 برس کے لیے آگے بڑھا دیا گیا اور چین کی نئی کانگریس نے مزید اس کی توثیق کردی اور موجودہ صدر بھی اس پر کارفرما ہیں۔
وہ یہ ہے کہ کسی نئے تصادم سے گریز جس کے عالمی اثرات ہوں۔ کیونکہ چین کی انڈسٹری غیر ملکی صنعتی پیداوار سے چل رہی ہے۔ مغرب کی تمام الیکٹرانک اورغیرالیکٹرانک مصنوعات چین میں تیار ہو رہی ہیں لہٰذا چین نے روس کا حمایتی ہونے کے باوجود بھی اپنے فوجی دستے شام نہ بھیجے گوکہ وہ روسی موقف کی حمایت کرتا رہا۔
چین 1970ء میں بھی پاکستان کی فوجی حمایت نہ کرسکا کیونکہ چین میں ثقافتی انقلاب کی کشمکش جاری تھی مگر یہ ہم ہیں کہ بغیر مباحثہ اور غوروفکرکے ہر کام کرنے پر تیار ہیں خواہ اس کا مستقبل پر کیا اثر پڑے۔ اس لیے چین نے آخر موقع پر ہماری حمایت سے کیوں خاموشی کو بہتر جانا کیونکہ فی الحال کسی قسم کا تصادم چین کی عالمی سیاست کے خلاف ہے۔
رہ گیا ریاض کی سیاست تو وہ امریکا کے رخ کے تابع ہے کیونکہ یہ امریکی نظراندازگی کا مظہر ہے کہ یمن کی جنگ پر عالمی مخالفت کے باوجود امریکا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہ کہیے کہ یہ تو اچھا ہوا جو افق سے سوویت یونین جاتا رہا ورنہ وہ قومی آزادی کی تحریک قرار دے کر یمن کے ساتھ ہو جاتا اور یہ جنگ ایک نیا رخ اختیار کرلیتی، ویسے بھی یہ ایران عرب پراکسی وارکی شکل اختیار کرچکی ہے اس لیے نریندر مودی نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا دورہ کیا اور ایران سے معاہدہ کیا۔
عجیب بات ہے کہ بھارت نے ایران اور سعودی تعلقات میں یکسانیت پیدا کر رکھی ہے جب کہ ایران اور سعودی عرب الفاظ کی جنگ میں کئی برس سے مبتلا ہیں۔ بہرصورت ایران کا یہ پہلو قابل تحسین ہے کہ وہ بلوچستان کے بارڈر کو آسودہ رکھے ہوئے ہے، اس میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ایسی صورتحال جس سے پاکستان گزر رہا ہے وزارت خارجہ کا محکمہ کافی اہمیت کا حامل ہے، مگر 24 فروری کو ایک مقامی چینل سے پیرس کانفرنس پر ایک گفتگو ہو رہی تھی جس میں پاکستان کی جانب سے ایک گراں قدر سیاسی مبصر جو حکومت کے کرتا دھرتا ہیں جب ان سے سعودی عرب اور چین کے تذبذب پر اینکر نے پوچھا کہ مصباح اسماعیل صاحب ان دونوں ممالک کے مندوبین نے پاکستان کی حمایت کیوں نہ کی بلکہ بلیک لسٹ ہونے سے پاکستان بچ گیا تو اس کی کیا وجہ ہے تو وہ بتانے سے قاصر رہے بلکہ انھوں نے خود کو مورد الزام ٹھہرایا، سو پھر ایسی صورت میں ان کو ہم کیونکر دوش دے سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت خارجہ کی جو بھی کمیٹی ہے۔
اس پر نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اہم ممالک کی خارجہ پالیسی پر مباحثہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی ایسی دستاویز ہے جس کو انھیں پڑھنے کو کہا جائے۔ گو کہ راقم نے ماضی میں کئی ماہ تک صرف خارجہ امور پر ہی تحریریں پیش کیں بلکہ ایران اور سعودی تعلقات اور چین کی خارجہ حکمت عملی پر اور ثقافتی انقلاب چین پر بھی قلم اٹھایا تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے سیاست کو مقام مقدسہ کی وجہ سے سعودی عرب کے قریب ترکردیا ہے اب یہاں اس پہلو پر ہمارے حکمرانوں نے بالکل غور نہیں کیا کہ چین اور ایران کے تعلقات میں سیاسی قربت نزدیک تر ہے اور حالیہ دنوں میں اس قربت میں مزید اضافہ ہوا ہے لہٰذا یہاں قدم اٹھانا ایسا ہے کہ جیسے شیشے کے تعمیر کردہ فرش پر ہیوی بوٹ پہن کر قدم رکھنا۔ اس پہلو کو ہماری وزارت خارجہ کے حضرات اور خواتین نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔
رہ گئی کشمیر پالیسی پر جس انداز میں پاکستانی حکومت سیاسی تحریک کی آبیاری کر رہی ہے اس سے دنیا کے دیگر ممالک شوروغوغا نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ اس خطے میں بھارت نے اسرائیلی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ اس موقعے پر قائد اعظم جیسی مدبرانہ سیاسی قدم اٹھانا ہے، شاید آپ کو یاد ہو کہ قیام پاکستان کے لیے جو تحریک چل رہی تھی اس وقت امریکا اور روس دونوں نے تقسیم ہند پر اتفاق کیا تھا ورنہ کہاں سوویت یونین کے اس وقت کے مرد آہن جوزف اسٹالن جو سخت گیر کمیونسٹ تھے جس پر ان کی موت کے بعد بھی ان پر تنقید جاری رہی۔
تو یہ تھی ہمارے قائد کے انداز سیاست ان کی روش کو اپنا کر ہی ملک کو چلانا ہوگا نہ کہ انداز شہنشاہی کو رفیق کار بنانا جس میں مذہبی شدت پسندی کی رمق ہو، یہ پاکستان کا ابتدائی دور تھا جس وقت عالمی سیاست اس انداز میں پاکستان کو دیکھ رہی تھی کہ سوویت یونین اور امریکا دونوں نے لیاقت علی خان کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ مگر آج پاکستان کو تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سیاسی طرز میں تبدیلی پیدا کرے بصورت دیگر بلیک لسٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر خدانخواستہ حکمرانوں اور خصوصاً خارجہ امور کے دانشوروں نے اپنے انداز نہ بدلے تو پاکستان کو زبردست معاشی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ قرض ملنا محال ہوگا جب کہ پاکستان کو سود ادا کرنے کے لیے قرض مانگنا پڑتا ہے۔