مستقبل کا دبئی گوادر
گوادر میں جدید عمارتیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں جس سے گوادرکی خوبصورتی بڑھ رہی ہے۔
تقریباً چار عشروں قبل پی ٹی وی کا ایک ڈراما ''دبئی چلو'' بڑا مقبول ہوا تھا اور دبئی کے شاندار مستقبل کی توقع پر بہت سے پاکستانی بھی دبئی گئے تھے جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو وہاں کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ اردو بولتے اور لکھتے پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سے وہاں جانے والوں کوکوئی پریشانی نہیں ہوتی اور اپنے ملک جیسا ہی دبئی لگتا ہے اور دبئی سمیت شارجہ، ابوظہبی میں تعمیر شدہ جدید طرزکی خوبصورت اونچی اونچی عمارتیں ضرور دبئی کو پاکستان سے ممتاز کرتی ہیں جب کہ ملک کے سمندری شہر کراچی کا ڈیفنس کا علاقہ تھوڑا بہت دبئی جیسا لگتا ہے جو دبئی کی طرح سمندر کے کنارے آباد، خوبصورت عمارتوں سڑکوں، روشنیوں، صفائی ستھرائی اور قانون پر عملدرآمد کے باعث امتیازی اہمیت کا حامل پوش علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔
راقم کو متعدد بار دبئی جانے کا موقعہ ملا جہاں کاروباری سرگرمیاں تو ضرور بڑھی ہوئی ہیں اور چیزیں مہنگی اور معیاری بھی ہیں اور غیرملکی اشیا دبئی سے ضرورت کے مطابق خرید کر قانون کے مطابق پاکستان لائی جاتی ہیں جب کہ دبئی الگ ملک ہے جب کہ یہاں ایسا لگتا ہے کہ کوئٹہ پاکستان کا حصہ نہیں کیونکہ کوئٹہ کی مارکیٹیں بھی غیر ملکی اشیا سے بھری پڑی ہیں جن کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں مگرگھریلو استعمال کے لیے اگر کوئٹہ سے خرید کر اندرون ملک لایا جاتا ہے تو وہ غیر قانونی قرار پاتا ہے جب کہ اندرون ملک کہیں بھی گھریلو سامان لانے لے جانے پر کوئی پابندی ہے نہ کوئٹہ سے باہر لے جانے کی ممانعت کا کوئی قانون موجود ہے۔
کوئٹہ سے کراچی یا اندرون ملک کوئی ایک دو الیکٹرانک اشیا خرید کر لے جائی جائیں تو اسے غیر قانونی قرار دے کر ضبط کر لیا جاتا ہے جس کی کوئی رسید بھی نہیں دی جاتی اور ڈنر سیٹ تک لانے نہیں دیا جاتا اور انھوں نے کوئٹہ کو بھی علاقہ غیر بنا رکھا ہے اور ضبط شدہ سامان ان کے گھروں میں پہنچ کر قانونی ہوجاتا ہے۔
کوئٹہ بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے مگر پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جب کہ کراچی سے ساڑھے چھ سوکلومیٹر دور آباد شہر گوادر سمندر کے کنارے آباد ہے جس کو بلوچستان کی ترقی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ بلوچ پٹی پر واقع بلوچ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جسے چند سالوں قبل بندرگاہ بنائے جانے کی خبروں سے بڑی اہمیت ملی تھی اور پلاٹوں کی خریداری کے لیے نہ صرف سنہری خواب بلڈروں نے دکھائے بلکہ جعل سازی بھی کی جس سے ملک بھر سے سرمایہ کاری کرنے والوں نے گوادر کے مستقبل کی توقع میں پلاٹ بھی خریدے پھر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
اب چین کے سی پیک منصوبے کی وجہ سے گوادر پھر ملک بھر کی نظروں کا مرکز بن گیا ہے اور لوگ گوادر جاکر اپنے پلاٹ تلاش کر رہے ہیں کئی خریداروں سے فراڈ بھی ہوئے ہیں۔
کراچی سے گوادر تک نئی تعمیر شدہ خوبصورت سڑک کے ذریعے چھ گھنٹوں میں گوادر پہنچا جاسکتا ہے ۔گزشتہ پی پی دور میں گوادر میں وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا تھا جو تعمیری کم اور تفریحی زیادہ رہا اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں چین سے سی پیک معاہدہ ہوگیا ، جس کے بعد سے گوادر ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور وہاں چینی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اورگوادر بندرگاہ چین کا سامان بیرون ملک بھی جانے لگا ہے۔
گوادر میں جدید عمارتیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں جس سے گوادرکی خوبصورتی بڑھ رہی ہے۔ گوادر کا سمندر کراچی کے سمندر سے مختلف اور صاف و ستھرا ہے اور گوادر اپنے پہاڑی علاقوں کی وجہ سے نہایت خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مزید خصوصی توجہ کا طلب گار ہے۔
ماضی میں بھی پینے کے پانی کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے جب کہ جدید موجودہ دور میں بجلی ہماری اشد ضرورت بن چکی ہے مگر مستقبل کا دبئی گوادر پانی و بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور دور جدید میں انٹرنیٹ اور موبائل کی سہولتوں سے محروم ہے اور گوادر والوں کے لیے موبائل سگنل نہ ملنا اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سی پیک پر خوشی کے شادیانے بجانے والی وفاقی حکومت 5 سالہ مدت پوری توکر رہی ہے مگر گوادر والے پانی اور بجلی کو ترس رہے ہیں اور یہ دونوں اہم چیزیں گوادر کے صاف ستھرے سمندر سے حاصل کی جاسکتی ہیں جن کی فراہمی میں (ن) لیگی حکومت ہنوز ناکام ہے۔
گوادر کے عوام کو حکومتی دعوے اور حکمرانوں کے دلاسے تو بہت ملے مگر سمندر کے رہنے والوں کو اب بھی پینے کا پانی میسر نہ آسکا ہے اور نہ ہی جلد پانی کی شدید قلت دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کی ذمے دار موجودہ حکومتیں ہیں۔
دبئی حکومت نے بھی اپنے سمندر کی مدد سے پانی اور بجلی کے اہم مسائل حل کیے ہیں جب کہ پٹرول سے بجلی بناکر وہاں کبھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونے دی جب کہ سعودی عرب بھی پانی و بجلی کی بنیادی ضروریات پوری کر رہا ہے مگر پاکستان میں ان اہم مسائل پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی پینے کے پانی کی قلت ختم کی جاسکی ہے نہ مستقبل کے دبئی اور بلوچستان کے معاشی مرکز گوادر کی سب سے اہم یہ دونوں بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
سی پیک کے باعث کاروبار تو بڑھا ہے مگر غیر ضروری حفاظتی اقدامات گوادر والوں کے لیے اہم مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں جہاں اہم موقعے پر بازار بند کرا کر خاص لوگوں کی حفاظت اور شہریوں کو پریشان کرنا معمول بنا لیا گیا ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کا گوادر کا مواصلاتی رابطہ بھی اہم مسئلہ ہے جب کہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملکی میڈیا بھی گوادر کے اہم مسائل کو نظرانداز کر رہا ہے کبھی کبھی سوشل میڈیا گوادر پر توجہ دے کر عوام کی ترجمانی ضرور کردیتا ہے جو قطعی ناکافی ہے۔
گوادرکی مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ماضی میں کامیاب ہوئی ہے نہ آیندہ ہوگی۔ گوادر کے حقیقی باسیوں کی بنیادی ضروریات پوری کیے اور انھیں اعتماد میں لیے بغیر گوادر کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ بھی عوام کو ان کا حق دے کر ہی ممکن ہوگا۔
راقم کو متعدد بار دبئی جانے کا موقعہ ملا جہاں کاروباری سرگرمیاں تو ضرور بڑھی ہوئی ہیں اور چیزیں مہنگی اور معیاری بھی ہیں اور غیرملکی اشیا دبئی سے ضرورت کے مطابق خرید کر قانون کے مطابق پاکستان لائی جاتی ہیں جب کہ دبئی الگ ملک ہے جب کہ یہاں ایسا لگتا ہے کہ کوئٹہ پاکستان کا حصہ نہیں کیونکہ کوئٹہ کی مارکیٹیں بھی غیر ملکی اشیا سے بھری پڑی ہیں جن کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں مگرگھریلو استعمال کے لیے اگر کوئٹہ سے خرید کر اندرون ملک لایا جاتا ہے تو وہ غیر قانونی قرار پاتا ہے جب کہ اندرون ملک کہیں بھی گھریلو سامان لانے لے جانے پر کوئی پابندی ہے نہ کوئٹہ سے باہر لے جانے کی ممانعت کا کوئی قانون موجود ہے۔
کوئٹہ سے کراچی یا اندرون ملک کوئی ایک دو الیکٹرانک اشیا خرید کر لے جائی جائیں تو اسے غیر قانونی قرار دے کر ضبط کر لیا جاتا ہے جس کی کوئی رسید بھی نہیں دی جاتی اور ڈنر سیٹ تک لانے نہیں دیا جاتا اور انھوں نے کوئٹہ کو بھی علاقہ غیر بنا رکھا ہے اور ضبط شدہ سامان ان کے گھروں میں پہنچ کر قانونی ہوجاتا ہے۔
کوئٹہ بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے مگر پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جب کہ کراچی سے ساڑھے چھ سوکلومیٹر دور آباد شہر گوادر سمندر کے کنارے آباد ہے جس کو بلوچستان کی ترقی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ بلوچ پٹی پر واقع بلوچ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جسے چند سالوں قبل بندرگاہ بنائے جانے کی خبروں سے بڑی اہمیت ملی تھی اور پلاٹوں کی خریداری کے لیے نہ صرف سنہری خواب بلڈروں نے دکھائے بلکہ جعل سازی بھی کی جس سے ملک بھر سے سرمایہ کاری کرنے والوں نے گوادر کے مستقبل کی توقع میں پلاٹ بھی خریدے پھر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
اب چین کے سی پیک منصوبے کی وجہ سے گوادر پھر ملک بھر کی نظروں کا مرکز بن گیا ہے اور لوگ گوادر جاکر اپنے پلاٹ تلاش کر رہے ہیں کئی خریداروں سے فراڈ بھی ہوئے ہیں۔
کراچی سے گوادر تک نئی تعمیر شدہ خوبصورت سڑک کے ذریعے چھ گھنٹوں میں گوادر پہنچا جاسکتا ہے ۔گزشتہ پی پی دور میں گوادر میں وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا تھا جو تعمیری کم اور تفریحی زیادہ رہا اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں چین سے سی پیک معاہدہ ہوگیا ، جس کے بعد سے گوادر ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور وہاں چینی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اورگوادر بندرگاہ چین کا سامان بیرون ملک بھی جانے لگا ہے۔
گوادر میں جدید عمارتیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں جس سے گوادرکی خوبصورتی بڑھ رہی ہے۔ گوادر کا سمندر کراچی کے سمندر سے مختلف اور صاف و ستھرا ہے اور گوادر اپنے پہاڑی علاقوں کی وجہ سے نہایت خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مزید خصوصی توجہ کا طلب گار ہے۔
ماضی میں بھی پینے کے پانی کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے جب کہ جدید موجودہ دور میں بجلی ہماری اشد ضرورت بن چکی ہے مگر مستقبل کا دبئی گوادر پانی و بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور دور جدید میں انٹرنیٹ اور موبائل کی سہولتوں سے محروم ہے اور گوادر والوں کے لیے موبائل سگنل نہ ملنا اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سی پیک پر خوشی کے شادیانے بجانے والی وفاقی حکومت 5 سالہ مدت پوری توکر رہی ہے مگر گوادر والے پانی اور بجلی کو ترس رہے ہیں اور یہ دونوں اہم چیزیں گوادر کے صاف ستھرے سمندر سے حاصل کی جاسکتی ہیں جن کی فراہمی میں (ن) لیگی حکومت ہنوز ناکام ہے۔
گوادر کے عوام کو حکومتی دعوے اور حکمرانوں کے دلاسے تو بہت ملے مگر سمندر کے رہنے والوں کو اب بھی پینے کا پانی میسر نہ آسکا ہے اور نہ ہی جلد پانی کی شدید قلت دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کی ذمے دار موجودہ حکومتیں ہیں۔
دبئی حکومت نے بھی اپنے سمندر کی مدد سے پانی اور بجلی کے اہم مسائل حل کیے ہیں جب کہ پٹرول سے بجلی بناکر وہاں کبھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونے دی جب کہ سعودی عرب بھی پانی و بجلی کی بنیادی ضروریات پوری کر رہا ہے مگر پاکستان میں ان اہم مسائل پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی پینے کے پانی کی قلت ختم کی جاسکی ہے نہ مستقبل کے دبئی اور بلوچستان کے معاشی مرکز گوادر کی سب سے اہم یہ دونوں بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
سی پیک کے باعث کاروبار تو بڑھا ہے مگر غیر ضروری حفاظتی اقدامات گوادر والوں کے لیے اہم مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں جہاں اہم موقعے پر بازار بند کرا کر خاص لوگوں کی حفاظت اور شہریوں کو پریشان کرنا معمول بنا لیا گیا ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کا گوادر کا مواصلاتی رابطہ بھی اہم مسئلہ ہے جب کہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملکی میڈیا بھی گوادر کے اہم مسائل کو نظرانداز کر رہا ہے کبھی کبھی سوشل میڈیا گوادر پر توجہ دے کر عوام کی ترجمانی ضرور کردیتا ہے جو قطعی ناکافی ہے۔
گوادرکی مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ماضی میں کامیاب ہوئی ہے نہ آیندہ ہوگی۔ گوادر کے حقیقی باسیوں کی بنیادی ضروریات پوری کیے اور انھیں اعتماد میں لیے بغیر گوادر کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ بھی عوام کو ان کا حق دے کر ہی ممکن ہوگا۔