اہلِ جمہور اور جمہوریت کی بدبختی

لگتا نہیں کہ ہم کبھی اس نازکی سے باہرآسکیں گے کبھی حالتِ اطمینان ہمارا نصیب ہوگا۔

اور نواز شریف کے خلاف پھر نااہلی کا فیصلہ آگیا ، اس بار وہ عہدہ صدارت سے گئے۔ فیصلے کے مطابق کوئی ایسا شخص پارٹی کی صدارت کے عہدے کے لیے موزوں نہیں جو آرٹیکل 62,63 پر پورا نہ اُترتا ہو، لہٰذا میاں صاحب کو یہاں سے بھی فارغ کردیا گیا ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ آیندہ اورکہاں کہاں سے فارغ کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی لفظی لڑائی سے باز آنے کے لیے تیار نہیں جو ججزکے خلاف ہے ۔

بہرحال ملک کا جو ہو سو ہو، قوم جس سانحے سے دوچار ہے ہمارے اداروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور بیرونی دنیا میں ملک کا جو تماشہ بنتا ہو اُس سے بھی کوئی علاقہ نہیں،البتہ پاکستان میں ان کی عملداری قائم ہوجائے ،اُن کا حکم مانا جائے،کہا جائے کہ یہاں اُن کی چلتی تھی،آج بھی اُنہی کی چلتی ہے یہ ایک فخریہ اعزاز انھیں مل جائے اور بس ۔ میاں صاحب کے تو وہ سارے فیصلے بھی معطل کردیے گئے جو اُن کے قلم سے جاری کیے گئے تھے ۔سینیٹ کے امیدواروں کے ٹکٹ ، لودھراں، چکوال کا الیکشن اوروزیرِاعظم کی نامزدگی ۔ ان سب کا کیِا ہوگا؟ چلیے اگرکوئی راستہ نکال بھی دیا گیا، تب بھی ایک اخلاقی جوازکے طور پر جو خلاِ پیدا ہُوا وہ کیسے پر ہوگا؟

بہت سے سوال ہیں ، بہت سے جواب بھی درکار، مجھے یاد ہے میں جب کمسن تھا اُس وقت سے سنتا آرہا ہُوں ''پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے'' اور آج جب میری عمر 53 سال ہوچکی تب بھی یہی آواز تعاقب میں ہے ۔

لگتا نہیں کہ ہم کبھی اس نازکی سے باہرآسکیں گے کبھی حالتِ اطمینان ہمارا نصیب ہوگا۔اُدھر پنجاب حکومت کے افسران کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات ،جس پر سابق چیف جسٹس کا یہ نقطہ نظر بھی سامنے آچکا کہ کارروائی توپھر اُن تمام کیسز میں اسی رفتار سے ہونی چاہیے جس سے ان دنوں حکومتِ پنجاب کے خلاف عمل میں ہے ۔ گویا پہلے وزیرِاعظم پھر وزیرِاعلیٰ اور بائے بائے جمہوریت یا اس سے کم درجے پر نواز شریف اینڈ فیملی ، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یہ تو آپ ماضی میں بھی کرچکے اور یہی کچھ بار بار دہرایا جاچکا ، پاکستان میں کچھ قوتیں موجود ہیں جن کے ہاتھوں اس ملک کی بربادی لکھی جاچکی۔کچھ آدھی اُودھی توہو بھی چکی، باقی پر تیزی سے کام ، سمجھ سے باہِر ہے کہ یہ سب کیِا ہو رہا ہے؟

ایک طرف تسلیم کیِا جاتا ہے، پارلیمنٹ بالادست ہے، دوسری طرف اُسی پارلیمنٹ کا تماشہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے ، قانون،آئین بنانا جن کاکام ہے وہ اُنہی کو ساجھے آپ جوکچھ کر رہے ہیں یا جن کے کہنے پرکررہے ہیں وہ کیِا ہے ؟ یقین مانیں اس وقت تو وہ کسی ذی شعورکے سمجھنے کی ساری صلاحیتوں سے کہیں باہر ہے ۔

اپنے تو ہمیشہ کے لیے اہلِ جمہور اور جمہوریت کو الوداع کرنے کا اِرادہ کر لیِا ''کیِا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ۔۔۔ بن جائے نشیمن توکوئی آگ لگادے'' ۔جاوید ہاشمی غلط دعویٰ کرتے ہیں تو ،خدارا اسے ثابت کیجیے ، ورنہ اُن کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے اور تاریخ کے حساب سے،یعنی میں نے جب بھی انھیں سنا تو یہی سوچا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ،پاکستان ایک ملک ہے جہاں بہرحال ادارے ہیں جیسی تیسی جمہوریت ہے ،ٹوٹا پھوٹا ہی سہی لیکن ایک نظامِ حکومت ہے ،عدلیہ ہے اور جب اُن کے کیے گئے دعوے بعینہِ پورے ہوتے دیکھے تو میں بُری طرح خوفزدہ ہوگیا کہ کیِا واقعی ایسا ہوسکتا ہے ، کیِا کوئی اس حد پر جاکر بھی ملک کی سالمیت سے کھیل سکتا ہے؟

میں نا تو نواز شریف کا حامی ہُوں نا اُن کی حکومت کا نا ہی ان کی طرزِ حکومت کا اور نا ہی میرے آج کے دلائل کا مقصد ان کی حکومت کا دفاع کرنا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کیِا اس کی سزا انھیں ضرور ملنی چاہیے۔ان کا احتساب بالکل ہو ،اگرگرفتار بھی کرنا پڑے تو کیا جانا چاہیے۔


میں دراصل کچھ اور دیکھ رہا ہوں اور کچھ اور ہی کہہ رہا ہوں ، یہ معاملہ نا تو نوازشریف کی نا اہلی کا ہے نا عمران خان کو جبراً وزیرِ اعظم بنانے کا ، بلکہ یہ تو ایک ایسا نافذ نافذ کرنے کا ہے جو شکل وصورت سے مارشل لاء لگتا بھی نہیں اور ہے مارشل لاء سے کہیں زیادہ خطرناک ، جس سے شاید جان بھی آسانی سے نہیں چھوٹے گی ۔ ہے وہ ایک مکمل حکومت ،جسے آئین کا نام دیا جارہا ہے اور اُس میں آئین کی کوئی بات ہی نہیں وہ تو اپنا گھڑا ہُوا آئین ہے ،اپنی من مانی کو آئین وقانون قرار دے کرکہنا کہ اب دیکھو آنے والے ایک سال میں ملک کی قسمت کیسے بدلتی ہے؟

ظلم ہے زیادتی ہے ،ایسی قسمت آپ پہلی بار نہیں بدلنے جا رہے ، پہلے بھی ''میرے عزیز ہم وطنوں'' کی صدا بلند ہوتی رہی ، پہلے بھی پھانسی پھٹکے ہوتے رہے،کوڑے بھی برسائے گئے برسہا برس حکومت کی گئی پھر انھی پھانسی والوں سے مذاکرات کیے گئے انھیں ملک میں عزت واحترام سے لے آیا گیا ،این آراوز تشکیل دیے گئے اور انھی کو حکومت دے دی گئی ! یہ ہم نے دیکھا ہے بارہا، باربار۔

کیا پاکستان ایک تماشہ ہے؟ یا یہ خطہ زمین پر انسانوں کا کوئی ملک نہیں !آخرکیوں یہاں حکومت کو چلنے نہیں دیا جاتا؟ کون اِ س ملک کا خود ساختہ ٹھیکیدار بنا ہوا ہے ،جو نہیں چاہتا کہ یہاں پر لوگ عزت وامن سے زندگی گزارسکیں ۔ قارئین ِکرام! یہ تلخی میرے لہجے کی نہیں ، بلکہ پوری قوم یہی جذبات رکھتی ہے ۔

لوگ جاننا چاہتے ہیں ان کے ساتھ کونسا کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟ اور جوکھیل رہا ہے وہ جان لے کہ اب جو ہوگا وہ ان کے وہم وگمان میں بھی شاید نا ہو ، وہ یہ سمجھتے ہیں قوم فرقوں اور قومیتوں میں تقسیم ہے یہ کیسے ہمارے خلاف صف آراء ہوگی ؟ میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ دو ہزار اٹھارہ ہے۔

یہ ایک اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر اس کی آزادی حاصل کی تھی ،ہم نے اور ہماری نسلوں نے اپنا خون پلا کر اس کی حفاظت کی، یہ عوام ہیں جوکرپٹ نہیں، یہ قوم ہے جس کی عظیم قربانیوں کی باعث پاکستان ستر سالوں کا ہُوا ،اب اگرکوئی اس کی مزید تقسیم چاہتا ہے تو ہم اس کے ہاتھ توڑدیں گے، ہم جمہوریت کو پسندکرتے ہیں یہی ہمارا نظام ہے۔

طرزِ معاشرت ہے اور ہونا چاہیے،کون ہے جو ہمیں اب اپنے طریقے پر جینے کے لیے مجبور کرسکتا ہے؟ اگرکوئی سیاستدان بے ایمان ہے تو اُسے چنا ہم نے تھا۔ہٹائیں گے بھی ہم اور ایسا ہم اپنے ووٹ کے ذریعے سے چاہتے ہیں، نہ کہ کسی فیصلوں سے ناکہ کسی ڈنڈے سے اور ڈنڈے کے ذکر پر یاد آیا کہ ہم نے تو آپ کو بھی بارہا قبول کیِا ،دس دس سالوں تک آپ حکومتوں میں رہے،آپ کو تو ووٹ بھی نہیں لینے تھے،عوامی دباؤ سے بھی آپ آزاد تھے پھر اپنے اداروں کو ٹھیک کیوں نہیں کرلیا؟کیوں نہیں ملک نے ان ادوار میں عظیم ترقی کرلی؟کیونکہ آپ کی نیت ملک ٹھیک کرنے کے بجائے صرف حکومت تھی صرف سیاست تھی تو میرے بھائی آپ اِدھر ہی آجائیں نا،اُدھرکیوں بھرتی ہونے جاتے ہیں؟آجائیں اور ملک سدھار تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

قارئینِ کرام ! اِس وقت سوشل میڈیا پر میں جو دیکھ ، پڑھ رہا ہوں وہ ایک ایسا عوامی طوفان ہے جس میں لوگ پوچھ رہے ہیں ''اُن کا ووٹ کہاں گیا '' اور وہ آیندہ الیکشن میں ووٹ کی قطاروں میں کیوں لگیں؟ اس لیے کہ ان کے وزیرِاعظم کو جب کوئی چاہے نا اہل کردے ! یہ بے یقینی ہے ،اعتبارکا ٹوٹنا ہے ،سب کچھ ختم ہونے کی نشانی ہے، معاشرتی اکائیاں بکھرنے کی علامت ہے۔ یقین ختم تو سب ختم ، میں پھر نہایت ادب سے التماس کروں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجیے ،اس ملک میں بہت سے نواز شریف آئیں گے، جائیں گے ، بات سسٹم کی ہے ، ایک نظامِ معاشرت کی ۔ غصہ تھوک دیجیے، ملک کے لیے، قوم کے لیے، سزاوارکو پھر بھی سزا دی جاسکتی ہے وہ کہیں بھاگ کر نہیں جارہا بلکہ وہ آپ کو مشتعل کرکے اپنا جرم چھپا رہا ہے ۔ آپ معاملہ فہم ہیں،آپ کے ہاتھوں میں نظامِ حکومت ، نظامِ زندگی،آئین، قانون کی حفاظت ہے۔ بات ایک فردکی ہوتی توکوئی گلہ نہیں تھا ،لیکن بات ملک وقوم کی ہے،امید ہے میری آوازآپ تک پہنچے گی۔
Load Next Story