سورۂ العصر حقائق و مُعارف کا خزینہ

سورۂ العصر میں رب کائنات نے ایک مسلمان کی زندگی کا جامع لائحہ عمل بتا دیا ہے۔

سورۂ العصر میں رب کائنات نے ایک مسلمان کی زندگی کا جامع لائحہ عمل بتا دیا ہے۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR/JAMRUD:
قرآن کے دیگر لامحدود اوصاف و محاسن میں ایک بہت بڑا اعجاز یہ بھی ہے کہ مختصر ترین آیات بیّنات میں حقائق کے خزائن و معارف چھپے ہوئے ہیں۔

ان سورتوں میں ایک سورۂ مبارکہ '' العصر'' بھی ہے، اختصار و جامعیت جس کا طرّۂ امتیاز ہے۔ اس کے معانی و اسرار و رموز میں جو گہرائی پائی جاتی ہے وہ حیات انسانی کے لیے ایک واضح کلیدِ کام رانی عطا کرتی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس میں چار ایسے راہ نما اصول وضع فرما دیے ہیں جس کو حرزِجاں بنا کر عالم انسانیت تمازت جہنم سے بچ کر بہارِ خُلدِبریں سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ اسی لیے مفسّرین کرام نے سورۂ عصر کو بابِ فردوس قرار دیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو انسان بھی اس میں متعین ضوابط پر عمل پیرا ہوگا دین و دنیا کی سرفرازی اُس کا مقدر ٹھہر ے گی۔ اُس کے لیے ہوائے سموم، بادِ نسیم کے فرحت بخش جھونکوں میں تبدیل کر دی جائے گی۔

سورۂ مبارکہ کا آغاز والعصر سے ہوتا ہے۔ خالق و مالک زمانے کی قسم کھا رہے ہیں، خود خدائے عز و جل کو زمانے کی قسم کھانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس میں مفسرین کی مختلف آرائیں ہیں۔ لیکن سب سے قرین مصلحت و حکمت یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ جس زمانے کی قسم ربِ محمد ؐ اٹھا رہا ہے، یقیناً وہ مفیض و پُرانوار و بابرکت زمانہ اُس کے محبوب مکرم سیدالمرسلین حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کا عہد پُرفیوض ہے۔ جس میں محبوب ِ ذی شان پر وہ خود اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت درود کی برسات کرتے ہیں۔ اُسی کا وہ دور بہار جس میں وہ اپنے رفقاء کے ساتھ محوِخرام رہا کرتے تھے اُس کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔

بہار آفریں ہے تری خوش خرامی
چمن کھِل رہے ہیں ہر اک نقش پا سے

اُس حیات آفریں دور کی قسم اٹھانے کے بعد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اس جملے کو اگر مختلف زاویوں سے پرکھا اور دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنی عمر طبعی بل کہ اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے تنزلی کی طرف لُڑھکتا جا رہا ہے اور مسجود ملائک ہونے کے باوجود اُس کی ذہنی سطح کا پیمانۂ بصیرت و بصارت فروتر ہوتا جا رہا ہے۔

اس سورہ میں مادہ پرستی، خود فریبی، دہشت گردی اور گُفتار و کردار میں بڑھتے ہوئے تضاد میں، موجودہ انسانی خسارے کا زبردست منظر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر وہ کون سے ارباب و ذکر و دانش اور خوش مقدر ہیں جو کسی دور میں بھی کسی فریب سود و زیاں کا شکار نہیں رہے اور نہ ہوں گے۔ یہاں بھی رحمتِ خداوندی اُن پر سایہ فگن رہی ہے اور وہاں بھی وہ شاخساران ِ فردوس بریں پر طائران ِ بامِ حرم کی طرح چہچہاتے ہوں گے۔

خسارے کی حدود سے ماوریٰ یہ عظیم لوگ پہلے تو دولتِ ایمان سے فیض یاب ہوتے ہیں کیوں کہ بڑے سے بڑا نجیب النفس اور پاک طینت انسان نعمت و دولت ِ ایمان کے بغیر ہر اعتبار سے ادھورا ہوتا ہے۔ نارِ جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ ایمان سے باریابی ہے۔


دوسرا مقدم ترین اور بھاری فرضِ اعمال ِ صالح ہیں کیوں کہ اعمال ِ صالح کے بغیر پیغمبر زادہ بھی اللہ کے غیض و غضب سے نہ بچ سکا اور حضرت نوح علیہ السلام جیسا برگزیدہ پیغمبر پکارتا ہی رہا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن آسمان سے ندا آئی، یہ تمہاری اہل میں سے نہیں ہے۔ اس لیے دولت ایمان سے بہرہ یاب ہونے کے بعد صراط مستقیم پر گام زن رہنا فوز و فلاح کا باعث ہے۔

مشیت ایزدی نے دو بڑے حقائق انسان کے سامنے رکھنے کے بعد فرمایا کہ ایمان صالح کے بعد کسی قسم کی عزلت نشینی تمہارا مقدر نہ بن جائے بل کہ جرأت و استقامت کی تیغ ِ بُراں ہاتھ میں لیے میدان عمل میں کود پڑو اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے اپنی ہر قسم کی متاع ِ گراں مایہ نچھاور کردو۔

تیسرے اصول میں ارشاد فرمایا کہ جب اعلان حق کے لیے ایک مردِ مومن کارگۂ حیات میں اترتا ہے تو پھر دور ابتلا شروع ہوجاتا ہے۔ حق گوئی کی پاداش میں جو لوگ لغزیدہ خرامی کا شکار ہوجاتے ہیں اُن پر سایہ فگن بارانِ رحمت اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ بے کراں عنایاتِ خداوندی کا استحقاق ان سے چھن جاتا ہے۔ حضور سرور کائنات ؐ اور اُن کے موقر و محترم رفقاء ؓ نے اس ضمن میں جو عدیم النظیر استقامت و استقلال دکھایا، تاریخ انسانیت اس کی نظیر طلوع ِ آفتاب قیامت تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اگر منشائے ایزدی چاہتی تو وہ اپنے محبوب ِ محتشم ؐ کے راستے کی تمام تکالیف و مصائب دور کرکے آپ ؐ کی حیاتِ طیبہ کو دنیا میں ہی بہار ِخلدِ بریں آشنا کر دیتا۔ مگر آزمائش سے آپ ؐ کو بھی حکمتاً اور مصلحتاً گزرنا پڑا تاکہ آپ ؐ کے غلاموں کو اگر ایسی کرب ناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑے تو ڈگمگا نہ جائیں۔

اور آخر میں دنیوی فوز و فلاح اور نجات ِ اُخروی کا پیمانہ صبر کو قرار دیا کہ دین حق کی سربلندی کے لیے سوئے دار بھی جانا پرے تو معاندین اسلام کے جبر و استبداد سے گھبرا کر صبر و استقامت کا دمن ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔ اور ایک دست ِ مومن میں یہ عظیم الشان ہتھیار ہے جس سے طوفانی آندھیوں کے رُخ موڑے جا سکتے ہیں۔

سورۂ العصر میں رب کائنات نے ایک مسلمان کی زندگی کا جامع لائحہ عمل بتا دیا ہے کہ وہ خسارہ جو زمانے کی قسم اٹھاکر انسانی زندگی کا خاصا بتا دیا گیا ہے اُس سے مندرجہ بالا اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر مکمل طور نہ صرف بچا جاسکتا ہے بل کہ قُرب خدا و مصطفی ﷺ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جس قلب میں اللہ کے انوار مکیں ہوں
اُس قلب کو چُھوسکتا نہیں دستِ قضا بھی
Load Next Story