چیف جسٹس کو چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی سےالگ ہوجانا چاہئے جسٹس ثاقب نثار

نیب کے قانون کے مطابق جو جج توہین عدالت کا نوٹس لے وہ کیس دوسرے جج کو بھیج دیتا ہے,جسٹس ثاقب نثار

جسٹس ثاقب نثار چیرمین نیب کی جانب سے توہین عدالت نوٹس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ ہیں ۔ فوٹو: فائل

چیئرمین نیب کے جانب سے توہین عدالت نوٹس کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کو فصیح بخاری کے خلاف کارروائی سے الگ ہوجانا چاہئے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیئرمین نیب کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت توہین عدالت کا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے، اس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں اس سے متعلق جواب دیا جا چکا ہے۔


لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ چیئرمین نیب نے صدر کو خفیہ خط لکھا، قانون کے مطابق چیئرمین کی تقرری صدر مملکت کرتے ہیں اس لیے چیئرمین نیب کی صدر سے خط و کتابت کو تحفظ حاصل ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ خفیہ ہونے کے باوجود خط میڈیا میں کیسے آیا جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کے مؤکل یہ بات نہیں جانتے لیکن انہوں نے یہ خط میڈیا کو نہیں دیا، ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے خط کا نوٹس لیا اس لئے قانون کے مطابق انہیں چیئرمین نیب کے خلاف خود سے یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا۔

لطیف کوسہ نے کہا کہ نیب کے تحقیقاتی معاملات میں کوئی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، چیئرمین نیب کا ٹرائل ہوگا تو ارسلان افتخار کا نام بھی گواہوں میں شامل ہوگا، سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار کیس کی تحقیقات نیب کو سونپی تھی لیکن بعد میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیئرمین نیب کو ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات سے روکا تھا، سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نیب کے قانون کے مطابق جو جج توہین عدالت کا نوٹس لے وہ کیس دوسرے جج کو بھیج دیتا ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ چیف جسٹس کو اس کیس سے الگ ہونا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد چیئرمین نیب کو فیئر ٹرائل کا موقع ملے گا، ان کے خلاف ثبوت نہ ملے تو وہ بری ہو جائیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 11 اپریل تک ملتوی کردی۔

Recommended Stories

Load Next Story