سینیٹ الیکشن ن لیگ کے حمایت یافتہ 16 اور پیپلز پارٹی کے 12 امیدوار کامیاب
تحریک انصاف نے 6 اور ایم کیو ایم نے صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔
سینیٹ الیکشن میں غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوگئے، سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے میدان مار لیا جب کہ ایم کیو ایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیٹ کی 52 نشستوں پر 113 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 9 بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام 4 بجے تک بلا تاخیر جاری رہی۔ کامیاب امیدوار 6 سال کے لیے ملک کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔
اب تک کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 16 امیدوار، پیپلز پارٹی کے 12 ، پی ٹی آئی کے 6، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، نیشنل پارٹی کے دو، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور پشتونخوا میپ کا ایک ایک جبکہ 10 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔
پنجاب سے سینیٹ کی 12 میں سے 11 نشستوں پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے جبکہ صرف ایک سیٹ تحریک انصاف کو ملی۔ جنرل نشست پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ ڈاکٹر آصف کرمانی، رانا مقبول احمد، زبیر گل، شاہین خالد بٹ، مصدق ملک اور ہارون اختر کو فتح حاصل ہوئی۔
ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم کامیاب ہوگئے۔ اقلیت کی ایک نشست پر کامران مائیکل جبکہ خواتین کی دونوں نشستوں پر سعدیہ عباسی اور نزہت صادق کامیاب ہوئیں۔
پی ٹی آئی کے چوہدری سرور ایک جنرل سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ الیکشن جیتنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری سرور نے سپورٹ کرنے پر جماعت اسلامی، آزاد اور پی ٹی آئی ارکان کا شکریہ ادا کیا۔
اسلام آباد کی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوگئے۔ جنرل نشست پر اسد جونیجو اور ٹیکنوکریٹ پر مشاہد حسین سید سینیٹر منتخب ہوگئے۔
سندھ کی 12 نشستوں میں سے 10 پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوگئی جبکہ ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کو ایک ایک سیٹ ملی۔ جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی کے 5 امیدوار رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، محمد علی جاموٹ ، مرتضیٰ وہاب اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جبکہ ایم کیو ایم کے فروغ نسیم اور مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ کامیاب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انور لال ڈین جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر پی پی پی کی ہی کرشنا کوہلی اور قرۃ العین مری الیکشن جیت گئیں۔
ایم کیو ایم کو الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 37 ارکان اسمبلی والی جماعت صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی۔ ایم کیو ایم میں وجہ تنازع بننے والے کامران ٹیسوری بھی ناکام ہوگئے۔
بلوچستان کی 7 جنرل نشستوں میں سے 5 پر آزاد امیدوار جبکہ دو پر سیاسی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔ جنرل نشستوں پر آزاد امیدوار احمد خان، صادق سنجرانی، انوار الحق کاکڑ، کہدہ بابر، پشتونخواہ میپ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یوسف کاکڑ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولوی فیض محمد اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم سینیٹر منتخب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹس کی 2 نشستوں میں سے ایک پر نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور دوسری پر ن لیگ کے حمایت یافتہ نصیب اللہ بازئی کامیاب ہوگئے۔ خواتین کی نشستوں پر پشتونخوا میپ کی عابدہ عظیم اور آزاد امیدوار ثنا جمالی کامیاب ہوئیں۔
خیبر پختونخوا کی 7 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے تین امیدوار فیصل جاوید، فدا محمد اور ایوب آفریدی، ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار پیر صابر شاہ، جے یو آئی ف کے طلحہ محمود، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی کامیاب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور ن لیگ کے حمایت یافتہ دلاور خان کامیاب ہوگئے۔ خواتین کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی مہرتاج روغانی اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کامیاب ہوگئیں۔
خیبر پختون خوا میں جے یو آئی (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ہار گئے۔ انہیں صرف 4 ووٹ ملے۔
فاٹا کی چاروں نشستوں کا نتیجہ سامنے آگیا اور امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا جن میں ہدایت اللہ ،ہلال الرحمن، شمیم آفریدی اور مرزا محمد آفریدی شامل ہیں۔ چاروں امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے سات سات ووٹ حاصل کیے۔
قومی اسمبلی میں 294 ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ ن لیگ کے 227 ارکان اور ایم کیو ایم کے 11 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے 8 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ 3 ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جن میں غالب خان، قیصر جمال اور شہاب الدین شامل ہیں۔
اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے 250 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان اسمبلی میں تمام 64 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ پنجاب اسمبلی کے 368 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ سندھ اسمبلی میں 161 ووٹ ڈالے گئے۔ خیبرپختون خوا اسمبلی میں 122 ارکان اسمبلی نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ آخری ووٹ جماعت اسلامی کے محمد علی نے کاسٹ کیا۔
سینیٹ انتخابات میں چاروں صوبوں کی 7، 7 جنرل نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ ہر صوبے سے خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی 2، 2 نشستوں پر امیدواروں کا چناؤ ہوا۔ سینیٹ میں اقلیتوں کی 2، فاٹا کی 4 اور اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے بھی مختلف جماعتوں کے امیدوار آمنے سامنے تھے۔ اسلام آباد کی ایک نشست جنرل اور دوسری ٹیکنوکریٹ پر خفیہ رائے شماری ہوئی۔
سینیٹ کی 52 نشستوں پر 113 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 9 بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام 4 بجے تک بلا تاخیر جاری رہی۔ کامیاب امیدوار 6 سال کے لیے ملک کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔
سینیٹ الیکشن کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج
اب تک کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 16 امیدوار، پیپلز پارٹی کے 12 ، پی ٹی آئی کے 6، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، نیشنل پارٹی کے دو، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور پشتونخوا میپ کا ایک ایک جبکہ 10 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔
پنجاب
پنجاب سے سینیٹ کی 12 میں سے 11 نشستوں پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے جبکہ صرف ایک سیٹ تحریک انصاف کو ملی۔ جنرل نشست پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ ڈاکٹر آصف کرمانی، رانا مقبول احمد، زبیر گل، شاہین خالد بٹ، مصدق ملک اور ہارون اختر کو فتح حاصل ہوئی۔
ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم کامیاب ہوگئے۔ اقلیت کی ایک نشست پر کامران مائیکل جبکہ خواتین کی دونوں نشستوں پر سعدیہ عباسی اور نزہت صادق کامیاب ہوئیں۔
پی ٹی آئی کے چوہدری سرور ایک جنرل سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ الیکشن جیتنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری سرور نے سپورٹ کرنے پر جماعت اسلامی، آزاد اور پی ٹی آئی ارکان کا شکریہ ادا کیا۔
اسلام آباد
اسلام آباد کی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوگئے۔ جنرل نشست پر اسد جونیجو اور ٹیکنوکریٹ پر مشاہد حسین سید سینیٹر منتخب ہوگئے۔
سندھ
سندھ کی 12 نشستوں میں سے 10 پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوگئی جبکہ ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کو ایک ایک سیٹ ملی۔ جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی کے 5 امیدوار رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، محمد علی جاموٹ ، مرتضیٰ وہاب اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جبکہ ایم کیو ایم کے فروغ نسیم اور مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ کامیاب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انور لال ڈین جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر پی پی پی کی ہی کرشنا کوہلی اور قرۃ العین مری الیکشن جیت گئیں۔
ایم کیو ایم کو الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 37 ارکان اسمبلی والی جماعت صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی۔ ایم کیو ایم میں وجہ تنازع بننے والے کامران ٹیسوری بھی ناکام ہوگئے۔
بلوچستان
بلوچستان کی 7 جنرل نشستوں میں سے 5 پر آزاد امیدوار جبکہ دو پر سیاسی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔ جنرل نشستوں پر آزاد امیدوار احمد خان، صادق سنجرانی، انوار الحق کاکڑ، کہدہ بابر، پشتونخواہ میپ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یوسف کاکڑ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولوی فیض محمد اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم سینیٹر منتخب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹس کی 2 نشستوں میں سے ایک پر نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور دوسری پر ن لیگ کے حمایت یافتہ نصیب اللہ بازئی کامیاب ہوگئے۔ خواتین کی نشستوں پر پشتونخوا میپ کی عابدہ عظیم اور آزاد امیدوار ثنا جمالی کامیاب ہوئیں۔
خیبرپختون خوا
خیبر پختونخوا کی 7 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے تین امیدوار فیصل جاوید، فدا محمد اور ایوب آفریدی، ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار پیر صابر شاہ، جے یو آئی ف کے طلحہ محمود، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی کامیاب ہوگئے۔
ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور ن لیگ کے حمایت یافتہ دلاور خان کامیاب ہوگئے۔ خواتین کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی مہرتاج روغانی اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کامیاب ہوگئیں۔
خیبر پختون خوا میں جے یو آئی (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ہار گئے۔ انہیں صرف 4 ووٹ ملے۔
فاٹا
فاٹا کی چاروں نشستوں کا نتیجہ سامنے آگیا اور امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا جن میں ہدایت اللہ ،ہلال الرحمن، شمیم آفریدی اور مرزا محمد آفریدی شامل ہیں۔ چاروں امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے سات سات ووٹ حاصل کیے۔
ووٹنگ کا عمل
قومی اسمبلی میں 294 ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ ن لیگ کے 227 ارکان اور ایم کیو ایم کے 11 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے 8 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ 3 ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جن میں غالب خان، قیصر جمال اور شہاب الدین شامل ہیں۔
اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے 250 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان اسمبلی میں تمام 64 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ پنجاب اسمبلی کے 368 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ سندھ اسمبلی میں 161 ووٹ ڈالے گئے۔ خیبرپختون خوا اسمبلی میں 122 ارکان اسمبلی نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ آخری ووٹ جماعت اسلامی کے محمد علی نے کاسٹ کیا۔
سینیٹ انتخابات میں چاروں صوبوں کی 7، 7 جنرل نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ ہر صوبے سے خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی 2، 2 نشستوں پر امیدواروں کا چناؤ ہوا۔ سینیٹ میں اقلیتوں کی 2، فاٹا کی 4 اور اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے بھی مختلف جماعتوں کے امیدوار آمنے سامنے تھے۔ اسلام آباد کی ایک نشست جنرل اور دوسری ٹیکنوکریٹ پر خفیہ رائے شماری ہوئی۔