اسٹالن کے مرغے

اسٹالن اگر پاکستان میں رائج جمہوریت نما نظام کو دیکھ لیتا تو شاید غش کھاکر گر جاتا اور کبھی ہوش میں نہ آتا

اسٹالن اگر پاکستان میں رائج جمہوریت نما نظام کو دیکھ لیتا تو شاید غش کھاکر گر جاتا اور کبھی ہوش میں نہ آتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

BERLIN:
کیمونزم کا بڑا نام، آنجہانی سوویت یونین کے سربراہان میں سے ایک جوزف اسٹالن بھی تھا۔ ایک دن وہ اپنی پارلیمنٹ میں آیا تو اس نے بغل میں ایک مرغ دبایا ہوا تھا۔ سب ممبرانِ پارلیمنٹ نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا تو وہ مسکرایا اور پھر اس نے سب کے سامنے اس مرغے کے پر نوچنے شروع کردیئے۔ مرغا بے چارہ بلبلاتا اور چیختا رہا مگر اسٹالن بڑی مستقل مزاجی اور انہماک سے، اس کے بلبلانے کی پروا کئے بغیر، اپنا کام کرتا رہا۔ بہت سارے پر نوچنے کے بعد اس نے مرغے کو اپنی گرفت سے آزاد کرکے فرش پر چھوڑ دیا۔ مرغا ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد اسٹالن نے اسے پچکارا اور پاس بلایا۔ پھر جیب سے کچھ دانے نکالے اور ایک ایک دانہ مرغے کے سامنے ڈالتا ہوا چلنے لگا، مرغا بھی دانہ چگتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

اسٹالن کا یہ سارا فعل ممبران پارلیمنٹ بڑے تجسس، حیرت اور خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ اسٹالن نے ہال میں دانے گراتے ہوئے ایک چکر لگایا اور مرغا پیھچے پیھچے دانے چگتا ہوا پھرتا رہا۔ اسٹالن چکر لگا کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور ممبران پارلیمنٹ سے پوچھا، کچھ سمجھے؟ ممبران نے نفی میں جواب دیا۔ اسٹالن نےاپنی گونج دار آواز میں کہا: معزز ممبران، میں نے ابھی ابھی آپ کے سامنے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی عملی تصویر پیش کی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے حکمراں اور قائدین بلکل اسی ترتیب پر چلتے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے، وہ اپنی عوام سے سب کچھ نوچ کر انہیں بے حال و بدحال کر دیتے ہیں، اور پھر تھوڑا سا واپس لوٹا دیتے ہیں؛ اور بے چاری عوام اسی تھوڑے سے کو اپنا مقدر اور حق سمجھ کر راضی خوشی ان کے پیچھے چلتی رہتی ہے۔

یہ واقعہ آپ نے پڑھا۔ بلاشبہ اسٹالن ایک ذہین آدمی اور کیمونزم کے بڑے داعیوں میں سے ایک تھا اور اس نے سرمایہ دارانہ جمہوریت پر یہ بڑا بلیغ اور عملی تبصرہ کیا۔ مگر یاد رہے کہ وہ یہ تبصرہ و تنقید مغربی اور یوروپی جمہوریت پر کر رہا تھا جہاں پھر بھی عوامی حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ ہمارے پاکستانی رائج شدہ جمہوریت نما نظام کو دیکھ لیتا تو مجھے یقین ہے کہ غش کھاکر گر جاتا اور کچھ بعید نہیں کہ دوبارہ ہوش میں آنے کے بجائے کومے میں چلا جاتا۔

آپ ذرا اس واقعے کو پاکستانی برانڈ جمہوریت اور اپنے وطن کے حالات پر منطبق کرکے دیکھیے تو لگے گا جیسے آنجہانی اسٹالن ہمارے حالات ہی بیان کررہے تھے۔ ہمارے ساتھ بھی تو یہی ہورہا ہے۔ برسوں بیت گئے، یہ عمل تسلسل سے جاری و ساری ہے کہ ہمارے حقوق بے دردی سے غضب کرلیے جاتے ہیں اور احتجاج بھی نہیں کرنے دیا جاتا۔ یعنی زبردست مارے بھی اور رونے بھی نہ دے!


ہمیں تعلیم، شعور، امن، خوشحالی اور اسی نوعیت کے دوسرے فوائد سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محروم کیا گیا؛ اور آج تک کیا جارہا ہے۔ ہمارے ہی بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں پر پلنے والے اس اشرافیہ کے بے حس، سنگ دل اور ظالم ہجوم نے ہمارے اور ہماری گزشتہ و آئندہ نسلوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے ہوئے ہمیں بڑی بے دردی سے اسٹالن کے پر نچے مرغے کی طرح بنا ڈالا ہے۔ پھر چند چچڑی ہوئی ہڈیوں کی طرح ہمیں تھوڑا سا دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے؛ اور ہم الاماشاء اللہ اسی میں خوش ہوجاتے ہیں اور انہی کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد کے نعرے مارتے مارتے مرجاتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں رہا کہ کس بے دردی اور سفاکی سے ہماری نسلوں تک کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔

اب بھی وقت ہے۔ خدارا ہماری قوم، وطن عزیز کے مظلومین اور مقہورین کو، اس سوئی ہوئی عوام کو چاہیے کہ اب جاگ جائیں، ہوش کے ناخن لیں تاکہ کم از کم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے تو سُرخ رُو ہوں۔

وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story