شفاف اسکروٹنی کے لیے عوام کی الیکشن کمیشن سے توقعات وابستہ

انتخابات کے دوران دہشت گردی کے خطرات ایک بڑا چیلنج ہے اور نگران حکومت ان خطرات سے نپٹنے کیلئے سرگرداں ہے۔

انتخابات کے دوران دہشت گردی کے خطرات ایک بڑا چیلنج ہے اور نگران حکومت ان خطرات سے نپٹنے کیلئے سرگرداں ہے۔ فوٹو اے پی پی/فائل

ملک بھر میں تمام انتخابی امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ہی 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کا پہلا مرحلہ پُرامن انداز میں مکمل ہو گیا ہے۔

سیاسی اور سفارتی حلقے اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات ملکی تاریخ میں درپیش چیلنجز اور خارجی و داخلی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات کی کئی حوالوں سے اہمیت مسلمہ ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کی گئی ہے اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے، موجودہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم جیسی بے داغ اور ایماندار شخصیت سے قوم کو بے شمار توقعات وابستہ ہیں۔

پاکستان کی طویل پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر سیاسی نگران حکومتیں معرض وجود میں آئی ہیں، اس وقت نگران وزیر اعظم اور چاروں صوبائی نگران وزراء اعلیٰ غیر سیاسی شخصیات ہیں،الیکشن کمیشن آف پاکستان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نااہل اور کرپٹ لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے والے ہی انتخابات میں حصہ لینے اور عوام کی نمائندگی کے اہل ہیں، امیدواروں کی چھان بین کے عمل کو موثر بنانے کیلئے کئی طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے حکام نے یہ عزم دہرایا ہے کہ امیدواروں کی سکروٹنی بے رحمانہ ہو گی۔

ماضی میں نادہندہ، بدعنوان اور جعلی ڈگری والے ایوان اقتدار میں پہنچتے رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے بدعنوان ٹولے کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کو درپیش چیلنجز اور مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ملک دبا ہوا ہے، اب لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل ایسے شفاف اور آزادانہ انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے کہ تمام ایسے لوگ جو ڈیفالٹرز ہیں وہ نااہل قرار دیئے جائیں ۔ 7 اپریل تک امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اب تک کے اقدامات پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک جامع اور شفاف ضابطہ اخلاق کا اعلان کر دیا ہے، انتخابی مہم کے دوران اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد کر کے ایک مستحسن فیصلہ کیا گیا ہے،اسلحہ کی نمائش کرنے والے کو جیل میں ڈالنے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن کے حکام کا یہ کہنا کہ اب کوئی بندوق کے زور پر الیکشن نہیں جیت سکے گا، انتخابی ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرانا شفاف انتخابات کے انعقاد میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔


تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہر جلسے میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چند ہفتوں کے بعد تحریک انصاف کی حکومت آنے والی ہے وہ آئندہ وزیر اعظم بننے کے دعوے تواتر سے کر رہے ہیں، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائدین بھی آئندہ انتخابات میں کلین سویپ کرنے کے دعوے کر رہے ہیں، ہر لیڈر دوسرے لیڈر کو نیچا دکھانے کیلئے آخری حدوں تک جانے کو تیار بیٹھا ہے۔ بعض ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان ملک کی نوجوان نسل کو سہانے خواب دکھا رہے ہیں ۔ انتخابی دنگل میں تمام کھلاڑی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شریک ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ 11 مئی کو پاکستان کے عوام کیا فیصلہ دیتے ہیں؟

انتخابات کے دوران دہشت گردی کے خطرات ایک بڑا چیلنج ہے اور نگران حکومت ان خطرات سے نپٹنے کیلئے سرگرداں ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت اندرونی اختلافات کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کی قیادت نہیں کر رہے ہیں، صدر مملکت آصف علی زرداری پر آئینی قدغن ہے کہ وہ معینہ صدارت پر فائز ہونے کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے، پیپلز پارٹی کے دو سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر اور سردار لطیف خان کھوسہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اپنی انتخابی مہم بھر پور انداز میں تاحال شروع نہیں کر سکی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے حتمی امیدواروں کے ناموں کا تاحال اعلان نہیں کیا ہے، ان بڑی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈز کے اجلاس کئی کئی روز تک جاری رہے مگر یہ قائدین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے، بڑی جماعتوں کے امیدواروں اور رہنمائوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، انتخابی امیدواروں میں بے یقینی کی فضاء پائی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں کے قائدین میاں نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، اسفند یار ولی اور دیگر قائدین 3 سے زائد نشستوں سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، بعض بڑی سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر شدت اختیار کر گئے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کوشاں ہیں، مگر مولانا فضل الرحمن کو مسلم لیگ (ن) کے حلقوں سے اس دفعہ پذیرائی نہ مل سکی، مسلم لیگ (ن) کے بعض قائدین نے مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے انتخابی اتحاد پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا ہے، اطلاعات یہ ہیں کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان اب انتخابی اتحاد خارج از امکان نظر آ رہا ہے، تاہم مولانا فضل الرحمن بدستور مذاکرات کیلئے پُرامید ہیں۔

چودہ رکنی نگران وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے جس میں چاروں صوبوں کو نمائندگی دی گئی ہے، کابینہ میں ملک حبیب، ڈاکٹر مشتاق خان، احمر بلال صوفی، عارف نظامی اور دیگر شامل ہیں۔ سابق ارکان پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد کے سروں پر جعلی ڈگری کیس کی وجہ سے نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، عدالت عظمیٰ نے ایسے تمام ارکان اسمبلی کو ڈگری کی تصدیق کرانے کا آخری موقع دیتے ہوئے 5 اپریل کی ڈیڈ لائن دے دی ہے، جعلی ڈگری کی زد میں آ کر بہت سارے نامی گرامی سیاستدان انتخابی عمل سے باہر ہو جائیں گے۔
Load Next Story