افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا درست موقف
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان اگر سرحد پر باڑ لگانے کی بات کرتا ہے تو اس پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے افغانستان میںایساف کے کمانڈر جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ نے پیر کو جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ آئی ایس پی آرکے مطابق ملاقات میںدونوں فوجی رہنماؤں نے باہمی تعاون کو مضبوط بنانے اور پاک افغان سرحد کے ساتھ سیکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں پر دباؤ سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس موقعے پر کہاکہ پاکستان پرامن ، مستحکم اور متحدہ افغانستان کا خواہاں ہے لیکن افغانستان سے شدت پسندوں کی سرحد پارکارروائیاں امن عمل کو سبوتاژ کررہی ہیں ۔ خبر کے مطابق انھوں نے ایساف کمانڈر پر زور دیا کہ افغانستان سے سرحد پارحملوں کی روک تھام کے لیے پاکستان کی مدد کی جائے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق ایساف کمانڈر جنرل ایف ڈنفورڈ نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اورعالمی برادری سب خطے میں امن اورسلامتی چاہتے ہیں۔
انھوں کا کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں اس مقصد کے حصول کے لیے اہم ہیں کیونکہ ہم اپنے تعلقات بڑھانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ جنرل ایف ڈنفورڈ کا بحیثیت ایساف کمانڈر یہ پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ترک مسلح افواج کے کمانڈر جنرل مجدت اوزل نے بھی ملاقات کی۔ ترک مسلح افواج کے کمانڈر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے بھی ملے۔ پاک افغان اسٹرٹیجک معاملات کے حوالے سے یہ ملاقاتیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایسی ملاقاتیں تسلسل سے ہونی چاہئیں تاکہ افغانستان میں مقیم اتحادی افواج اور پاکستان کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی مشکلات واضح ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد خاصی طویل اور انتہائی ڈھیلی ڈھالی ہے، اس لیے یہاں ناپسندیدہ عناصر آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں تو صورت حال بہتر رہی اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوئے لیکن نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس خطے کی صورت حال انتہائی خراب ہو گئی۔ امریکا نے جب طالبان حکومت ختم کی اور افغانستان میں فوج اتاری تو القاعدہ اور طالبان کے بہت سے لوگ ڈیورنڈ لائن کے آر پار قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز نے طالبان کے خلاف کارروائی شروع کر دی تو طالبان نے بھی مزاحمت کا آغاز کر دیا۔
یوں پاک افغان سرحد مزید غیر محفوظ ہو گئی اور یہاں دراندازی بڑھ گئی' اس وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ نیٹو فورسز اور افغان فوج کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے واقعات بڑھنے لگے۔ پاک افغان سرحد پر متعدد بار ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں' ان واقعات کی بنا پر امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔ سانحہ سلالہ کشیدگی کا نقطہ عروج تھا' اتحادی افواج کی اس بلا جواز حملے میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادت ہوئی۔ جس کے ردعمل میں پاکستان نے افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے سپلائی روٹ بند کر دیے' یہ پاکستان کا درست فیصلہ تھا۔ پھر امریکا نے اس واقعہ پر پاکستان سے معافی مانگی' یوں یہ تنازعہ طے ہوا۔
یہ معاملات ایسے ہیں جن کا سدباب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکا کی فوجیں موجود ہیں' یہ فوجیں طالبان کے ساتھ برسراقتدار ہیں' افغانستان کی قومی فوجی بھی تشکیل پا چکی ہے لیکن اس فورس کی پیشہ ورانہ اہلیت مسلمہ نہیں ہے۔ افغانستان میں ایسی لابی طاقتور ہے جو پاکستان کے بارے میں بغض اور عناد رکھتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان پالیسی سازوں نے کبھی اپنی غلطیوں' ناکامیوں اور کوتاہیوں پر غور نہیں کیا۔ ظاہر شاہ کے دور سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کی پالیسی یہی رہی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے مصائب اور مشکلات کی ذمے داری پاکستان پر عائد کرتے رہے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان اگر سرحد پر باڑ لگانے کی بات کرتا ہے تو اس پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ افغان ماجرین اب تک پاکستان میں موجود ہیں حالانکہ انھیں اپنے ملک واپس جانا چاہیے اور کرزئی انتظامیہ کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی بنا پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کبھی بھی اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔ اس وقت پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت پاکستانی بھگوڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ افغانستان میں تعینات ایساف فورسز کو ان معاملات پر غور کرنا چاہیے' ایساف کمانڈرز کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاںکرنے والے کئی گروہ افغانستان میں مقیم ہیں۔
یہ گروہ افغانستان سے سرحد کراس کر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ شہریوں کی شہادت بھی ہوئی ہے۔ ایساف فورسز جدید ترین آلات سے لیس ہیں۔ ان کی تربیت بھی جدید ہے' ان کے پاس انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی موجود ہے' ایسی صورت میں افغانستان کی جانب سے کسی دہشت گردگروپ کے ارکان کا پاکستان میں داخل ہونا' خاصا مشکل کام ہونا چاہیے لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ سوات سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینے والے مولوی فضل اللہ کے لوگ متعدد مرتبہ پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں خون ریزی کر کے فرار ہو گئے۔ ایساف کمانڈرز کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے' پاکستان اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا' ویسے بھی امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں' دونوں میں جتنا زیادہ اعتماد ہو گا' اطلاعات کا تبادلہ ہو گا' اتنا ہی بہتر ہو گا۔ امریکا اوراس کے اتحادیوں نے اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسے پاکستان کے تحفظات کو اہمیت دینی ہو گی۔ ایساف فورسز اگر افغان سرحد کو بہتر انداز میں کنٹرول کریں تو پاکستان میں دراندازی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں امریکا اور پاکستان اس مسئلے کا باقاعدہ حل تلاش کریں گے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس موقعے پر کہاکہ پاکستان پرامن ، مستحکم اور متحدہ افغانستان کا خواہاں ہے لیکن افغانستان سے شدت پسندوں کی سرحد پارکارروائیاں امن عمل کو سبوتاژ کررہی ہیں ۔ خبر کے مطابق انھوں نے ایساف کمانڈر پر زور دیا کہ افغانستان سے سرحد پارحملوں کی روک تھام کے لیے پاکستان کی مدد کی جائے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق ایساف کمانڈر جنرل ایف ڈنفورڈ نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اورعالمی برادری سب خطے میں امن اورسلامتی چاہتے ہیں۔
انھوں کا کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں اس مقصد کے حصول کے لیے اہم ہیں کیونکہ ہم اپنے تعلقات بڑھانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ جنرل ایف ڈنفورڈ کا بحیثیت ایساف کمانڈر یہ پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ترک مسلح افواج کے کمانڈر جنرل مجدت اوزل نے بھی ملاقات کی۔ ترک مسلح افواج کے کمانڈر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے بھی ملے۔ پاک افغان اسٹرٹیجک معاملات کے حوالے سے یہ ملاقاتیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایسی ملاقاتیں تسلسل سے ہونی چاہئیں تاکہ افغانستان میں مقیم اتحادی افواج اور پاکستان کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی مشکلات واضح ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد خاصی طویل اور انتہائی ڈھیلی ڈھالی ہے، اس لیے یہاں ناپسندیدہ عناصر آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں تو صورت حال بہتر رہی اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوئے لیکن نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس خطے کی صورت حال انتہائی خراب ہو گئی۔ امریکا نے جب طالبان حکومت ختم کی اور افغانستان میں فوج اتاری تو القاعدہ اور طالبان کے بہت سے لوگ ڈیورنڈ لائن کے آر پار قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز نے طالبان کے خلاف کارروائی شروع کر دی تو طالبان نے بھی مزاحمت کا آغاز کر دیا۔
یوں پاک افغان سرحد مزید غیر محفوظ ہو گئی اور یہاں دراندازی بڑھ گئی' اس وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ نیٹو فورسز اور افغان فوج کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے واقعات بڑھنے لگے۔ پاک افغان سرحد پر متعدد بار ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں' ان واقعات کی بنا پر امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔ سانحہ سلالہ کشیدگی کا نقطہ عروج تھا' اتحادی افواج کی اس بلا جواز حملے میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادت ہوئی۔ جس کے ردعمل میں پاکستان نے افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے سپلائی روٹ بند کر دیے' یہ پاکستان کا درست فیصلہ تھا۔ پھر امریکا نے اس واقعہ پر پاکستان سے معافی مانگی' یوں یہ تنازعہ طے ہوا۔
یہ معاملات ایسے ہیں جن کا سدباب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکا کی فوجیں موجود ہیں' یہ فوجیں طالبان کے ساتھ برسراقتدار ہیں' افغانستان کی قومی فوجی بھی تشکیل پا چکی ہے لیکن اس فورس کی پیشہ ورانہ اہلیت مسلمہ نہیں ہے۔ افغانستان میں ایسی لابی طاقتور ہے جو پاکستان کے بارے میں بغض اور عناد رکھتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان پالیسی سازوں نے کبھی اپنی غلطیوں' ناکامیوں اور کوتاہیوں پر غور نہیں کیا۔ ظاہر شاہ کے دور سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کی پالیسی یہی رہی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے مصائب اور مشکلات کی ذمے داری پاکستان پر عائد کرتے رہے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان اگر سرحد پر باڑ لگانے کی بات کرتا ہے تو اس پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ افغان ماجرین اب تک پاکستان میں موجود ہیں حالانکہ انھیں اپنے ملک واپس جانا چاہیے اور کرزئی انتظامیہ کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی بنا پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کبھی بھی اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔ اس وقت پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت پاکستانی بھگوڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ افغانستان میں تعینات ایساف فورسز کو ان معاملات پر غور کرنا چاہیے' ایساف کمانڈرز کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاںکرنے والے کئی گروہ افغانستان میں مقیم ہیں۔
یہ گروہ افغانستان سے سرحد کراس کر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ شہریوں کی شہادت بھی ہوئی ہے۔ ایساف فورسز جدید ترین آلات سے لیس ہیں۔ ان کی تربیت بھی جدید ہے' ان کے پاس انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی موجود ہے' ایسی صورت میں افغانستان کی جانب سے کسی دہشت گردگروپ کے ارکان کا پاکستان میں داخل ہونا' خاصا مشکل کام ہونا چاہیے لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ سوات سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینے والے مولوی فضل اللہ کے لوگ متعدد مرتبہ پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں خون ریزی کر کے فرار ہو گئے۔ ایساف کمانڈرز کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے' پاکستان اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا' ویسے بھی امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں' دونوں میں جتنا زیادہ اعتماد ہو گا' اطلاعات کا تبادلہ ہو گا' اتنا ہی بہتر ہو گا۔ امریکا اوراس کے اتحادیوں نے اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسے پاکستان کے تحفظات کو اہمیت دینی ہو گی۔ ایساف فورسز اگر افغان سرحد کو بہتر انداز میں کنٹرول کریں تو پاکستان میں دراندازی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں امریکا اور پاکستان اس مسئلے کا باقاعدہ حل تلاش کریں گے۔