ملک پر سات چیزوں کی حکمرانی ہے

کیا کوئی ریاست اس طرح بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہوتی جیسا کہ ہماری ریاست پھنسی ہوئی ہے۔

ہمارے ملک کے اہم سیاسی کردار، اگر باشعور عقل مند، سوچ بچار اور وسیع مطالعہ کرنے والے ہوتے تو ان کے کردار وگفتار اعمال، بالکل مختلف ہوتے تو پھر ملک کے سماجی اور سیاسی حالات بھی یکسر تبدیل شدہ ہوتے۔ دنیا کے چھ بڑے مذاہب تمام کے تمام وہ ہی بنیادی اعتقاد سکھاتے ہیں کہ ''آپ جو کچھ بوئیں گے وہ ہی کچھ کاٹیں گے'' اور ''الفاظ سے بڑھ کر افعال اہمیت کے حامل ہیں'' اسی لیے سیسل بی۔ ڈی مل نے کہا تھا کہ ''یہ ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم قانون کو توڑیں ہم محض اپنے آپ کو قانون کے خلاف توڑ سکتے ہیں'' مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ سات چیزیں ہمیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیں گی ان ساتوں چیزوں کا تعلق سماجی اور سیاسی صورت حال سے ہے۔

(1) کام کیے بغیر حاصل کی جانے والی دولت :۔ یہ اس عمل درآمد کا حوالہ ہے جس کے تحت مفت میں سب کچھ حاصل کیا جاتا ہے، ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر سب کچھ حاصل کیا جاتا ہے کچھ دیے بغیر حاصل کیا جاتا ہے ساز باز کی جاتی ہے جو ڑ تو ڑ کیا جاتا ہے ناجائز اثرات سے کام نکالا جاتا ہے ۔

(2) ضمیر کی رضامندی کے بغیر خوشی :۔ ناپختہ کار ، لالچی اور خود غرض لوگ ہمیشہ یہ ہی سوال کرتے ہیں '' اس میں میرے لیے کیا ہے'' ''کیا یہ مجھے خوش کردے گا، کیا یہ مجھے آرام پہنچائے گا؟'' بہت سے لوگ ان خوشیوں کو ضمیر کی رضا مندی کے بغیر حاصل کرنا چاہتے ہیں یا ذمے داری کے شعور کے بغیر حاصل کرنا چاہتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنے بچوں اور جیون ساتھیوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

(3) کردار کے بغیر علم :۔ کہا جاتا ہے کہ کم علم خطرناک ہوتا ہے لیکن کردار کے بغیر علم اس سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے حتیٰ کہ مضبوط کردار کے بغیر زیادہ علم بھی خطرناک ہوتا ہے خالصتاً دانشورانہ نشو و نما اور ترقی کردار کی تعمیر کی عدم موجودگی میں بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایک تیز رفتار گاڑی ایک ایسے نو عمر بچے کے حوالے کردی جائے جو کم عمری کے ساتھ منشیات کا بھی عادی ہو۔

(4) اخلاق کے بغیر کاروبار :۔ اپنی کتاب ''اخلاقی جذبات '' میں ایڈم اسمتھ بیان کرتا ہے کہ ہمارے نظاموں کی کامیابی کے لیے اخلاقی بنیاد کس قدر ضروری ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں ؟ ہمارا خیرخواہی اور خیراندیشی کا جذبہ کیا ہے ؟ ہمارا خدمت سر انجام دینے کا جذبہ کیا ہے ؟ دست تعاون دراز کرنے کا ہمارا جذبہ کیا ہے ؟ اگر ہم اخلاقی بنیادوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور معاشرتی نظاموں کو روبہ عمل رہنے کی اجازت فراہم کرتے ہیں ۔ اخلاقی بنیاد کی عدم موجودگی میں اور مسلسل تعلیم کی عدم موجودگی میں ۔ تب ہم بداخلاق معاشرہ اور کاروبار تخلیق دیں گے معاشی اور سیاسی نظام اخلاقی بنیاد پر استوار ہیں ۔


(5) عاجزی / انکساری کے بغیر سائنس :۔ اگر تمام تر مہارت اور ٹیکنالوجی سائنس ہی بن جائے یہ جلد ہی انسان کو عاجزی / انکساری کے خلاف کر دیتی ہے۔ ٹیکنالوجیز سائنس کے نمونوں سے جنم لیتی ہیں اور اگر بلند ترین انسانی مقاصد کی بہت کم سمجھ بوجھ ہوگی کہ ٹیکنالوجی خدمت کے لیے ہے ہم اپنی ہی ٹینکوکریسی کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔

(6 ) قربانی کے بغیر مذہب :۔ قربانی کی عدم موجودگی میں ہم اپنی اپنی عبادت گاہوں میں فعال ہوسکتے ہیں لیکن اپنی مقدس کتابوں میں غیر فعال ہی رہ سکتے ہیں ۔ باالفاظ دیگر ہم مذہب کے سماجی چہرے مہرے کی جانب توجہ دے سکتے ہیں اور مذہبی عمل درآمد کی پارسائی اور پرہیزگاری کی جانب توجہ دے سکتے ہیں لیکن لوگوں کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتے یا اپنے سماجی مسائل نہیں نپٹا سکتے، جو ہماری معاشی نظام کو نشانہ بناتے ہیں ۔ دوسرے لوگوں کی ضروریات کی خدمات سرانجام دینا قربانی کا جذبہ درکار رکھتا ہے۔

(7) اصول کے بغیر سیاست :۔ اگر کوئی اصول نہیں ہے تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس پر انحصار کر سکیں ۔ شخصیت کی اخلاقیات پر توجہ مرکوز کرنا ایک ایسے تصور کی تخلیق سرانجام دینا ہے جو سماجی اور معاشی مارکیٹ میں بہتر قیمت پر فروخت ہوتا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ ان ہی سات چیزوں نے ہمیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے تو کیا یہ کہنا غلط ہوگا، کیا ان ہی ساتوں چیزوں کی ہماری ملک پر مکمل حکمرانی قائم نہیں ہے اگر ان ہی ساتوں چیزوں کی حکمرانی قائم نہ ہوتی تو کیا ملک کے وسائل اور خزانے ا س بے دردی کے ساتھ لوٹے جارہے ہوتے۔

اسی بے دردی جسے دیکھ کر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں تڑپ تڑپ جاتی ہیں تو کیا ملک کے قانون ، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں اور آئین کی دھجیاں اڑانے کی کسی میں ہمت اور جرأت ہوتی کیا، ملک کے اداروں کا یہ حال ہوتا کیا کسی بیوروکریٹ کو ہڑتال کرنے کا خیال آتا ۔کیا کوئی پارلیمنٹ میں کھڑا ہوکر ریاست کے خلاف بولنے کی ہمت کرتا ۔ کیا راتوں رات کوئی خاندان اس طرح دولت مند ہوجاتا ہے، کیا چند لوگ اس طرح بیس کروڑ لوگوں کو ذلیل و خوار کر رہے ہوتے۔

کیا کوئی ریاست اس طرح بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہوتی جیسا کہ ہماری ریاست پھنسی ہوئی ہے کیا کوئی حکمران اپنے حلف کی اس طرح خلاف ورزی کر رہے ہوتے۔ کیا ملک کے وزراء وہ ہی سب کچھ کررہے ہوتے جو وہ آج کل کررہے ہیں ، اگر ان ساتوں چیزوں کی ملک پر حکمرانی نہ ہوتی تو ملک میں یہ انہونیاں بالکل نہیں ہورہی ہوتیں اور ملک کے سماجی اور سیاسی حالات یکسر مختلف ہوتے اور ہم اس طرح ماتم نہ کر رہے ہوتے۔
Load Next Story