ماضی اور آج
ایسا استقبال جو نہ کبھی ماضی میں اور نہ آج تک ہوا، نہ ہی شاید ہوگا۔
70ء کی دہائی میں پہلے تو بھٹو اور شیخ مجیب آمنے سامنے تھے، دونوں ہی بہترین مقرر تھے مگر دونوں کے پاس تاریخ کی تشریح مختلف تھی اور شیخ مجیب بمع مشرقی پاکستان الگ ہوئے۔ ایک طرف بھٹو تھے اور دوسری طرف NAP کی قیادت تھی۔ بھٹو کو جو بات سمجھ نہ آئی وہ یہ تھی کہ ہر منظر کے دو پہلو ہوتے ہیں، وہ اگر تھے تو کیا برائی تھی کہ NAP کا وجود بھی ہو۔ انھوں نے ریاست کے آہنی ہاتھوں سے NAP کو روند ڈالا اور NAP نہ رہا، NAP پر پابندی بہ مہر سپریم کورٹ پر لگی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایک طرف بھٹو تھے اور دوسری طرف جنرل ضیاء الحق اور ان کی آمریت، اور ان کا ساتھ دینے کے لیے NAP کے لیڈر۔ بھٹو سر مقتل سولی پر چڑھ گئے۔ اپنی بیٹی کو اپنی موت کی شکل میں ایک خوبصورت سیاسی اثاثے کا وارث بنا کر اور بیٹی نے خوب نبھایا ڈنکے کی چوٹ پر۔ بھٹو کی تحریک یا یوں کہیے کہ بحالی جمہوریت کی تحریک لاوارث نہ ہوئی۔ وہ ایک Narrative تھا، تاریخ کے پس منظر میں بنا ایک Narrative۔
سرد جنگ کے سرد خانوں میں دفن پاکستان کو جدید نوآبادیاتی نظام سے آزادی دلانے کا Narrative۔ یہ وہی سینٹرل پنجاب تھا جہاں گلی گلی بھٹو کے نعرے تھے۔ (بھٹو دے نعرے وجن گے) وہ جب لاہور اتریں، تو لاہور میں ایک لاجواب تاریخ رقم ہوئی۔ ایسا استقبال جو نہ کبھی ماضی میں اور نہ آج تک ہوا، نہ ہی شاید ہوگا۔
پھر یوں ہوا کہ سرد جنگ نے ہمیں کسی اور طرح سے ڈسا۔ سامراجی قوت کو ضیاء الحق کی ضرورت تھی۔ بات صرف یہاں تک ہوتی تو بھی قابل برداشت تھی مگر سامراجی قوت نے ہمارے مذہب کو بھی ایک ہتھیار بنا کر استعمال کیا اور یہ بات ضیاء الحق کے مفاد کے عین مطابق تھی کہ اس نے آئین کو اپنے پاؤں تلے روندا تھا اور اسے اپنی آمریت کو بھی ustify کرنا تھا۔ ہم بہت حساس لوگ ہیں اور مذہب ہمارا حساس معاملہ ہے، پاکستان کے خلاف مذہب کے نام پر بہت سی سازشیں ہوئیں، وہ شاید اس لیے کہ جناح کے بعد اس ملک کا وارث کون ہے، وہ سوال ادھورا رہا۔ اس ملک کی طاقت عوام ہے اور اسی طاقت کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا۔ مگر جناح کے بعد اس ملک کا وارث کون؟
پھر سے ایک نئی جنگ شروع ہوگئی۔ سیاستدانوں کو سول بیوروکریسی نے مار دیا اور سول بیوروکریسی کو ملٹری بیوروکریسی نے۔ اور پھر اس طرح جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سلسلہ چل پڑا۔ غلامی کے طوق بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ صدیوں تک ہم انگریز کے غلام رہے۔ پھر ہم اپنے اندر کے راجاؤں اور مہاراجاؤں کے غلام رہے، چوہدریوں، سرداروں، اور وڈیروں کے غلام رہے۔ ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلامی میں رہے۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے دہائیاں بیت گئیں مگر اس ملک کی وراثت کا سوال ابھی تک ادھورا ہے۔
سعودی عرب میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، سنا ہے کہ عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے، خواتین کے فیشن شوز بھی ہونے لگے ہیں اور نقاب نہ اوڑھنے کا فتویٰ بھی دے دیا گیا ہے۔ ہماری قوم پر سعودی روایات کا بہت گہرا اثر ہے۔ چلو ایک کھڑکی تو کھلی، کم از کم ماڈرن ریاست بننے کا تصور تو واضح ہوا۔
میں نے بات شروع کی تھی 70ء کی دہائی سے، اس وقت بہت کچھ معقول تھا، سرد جنگ تو تھی مگر مذہب کے نام پر لوگوں کے ساتھ فریب نہ تھا۔ جو بیج ضیاء الحق نے بوئے تھے وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ جس طرح سے بھٹو نے NAP کو اپنے پاؤں تلے روندا تھا وہی پالیسی نواز شریف نے اپنائی، پیپلز پارٹی کی افادیت کو کم کرنے کے لیے۔ یہ آدھی حقیقت ہے کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو زداری نے ختم کیا، مگر آدھی حقیقت یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کو ضیاء الحق کے Narrative نے تباہ کیا اور نواز شریف ان کے سیاسی وارث ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آج نواز شریف، ضیاء الحق کے سیاسی وارث نہ بھی ہوں مگر وہ Narrative اب بھی موجود ہے اور آہستہ آہستہ اس Narrative کے اب عمران خان وارث بننے جارہے ہیں۔ بظاہر یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں مگر ان دونوں کے Narrative ایک مختصر فرق کے ساتھ ایک ہی ہیں۔ جب کہ پیپلز پارٹی کا Narrative ان دونوں کے Narrative کے مخالف ہے۔
سوشل سائنسز کے اعتبار سے جو معاشرے کی ماہیت ہوتی ہے اس میں بنیادی طور پر دو نظریے ہیں، ایک لبرل اور دوسرا کنزرویٹو۔ بھٹو اور شیخ مجیب میں جو ٹکراؤ تھا وہ نظریاتی نہیں بلکہ تاریخ کے حوالے سے تھا۔ شیخ مجیب تاریخ کی تشریح چاہتے تھے اور یہ دونوں لیڈر ماڈرن، سیکولر اور لبرل تھے۔ مگرسرد جنگ کی وجہ سے دونوں لیڈران مختلف کیمپس میں تھے، بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف اور عمران خان میں کوئی نظریاتی فرق نہیں ہے، بس یہ دونوں مقامی طور پر دو مختلف کیمپوں میں بٹے ہوئے ہیں، جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ۔
ستر کی دہائی میں بھٹو بھی اسٹبلشمنٹ فرینڈلی تھے اور شیخ مجیب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف۔ مگر جو واضح فرق آج کی اور ستر کی دہائی کی اسٹبلشمنٹ میں ہے وہ یہ کہ آج کی اسٹبلشمنٹ امریکا نواز نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کے نواز شریف اسٹبلشمنٹ کے ٹکراؤ میں امریکا کو بھاتے ہوں، مگر نواز شریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا کو پاکستان میں جمہوریت سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے۔ ہماری اسٹبلشمنٹ میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں، اب وہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
اسٹبلشنٹ صرف پاکستان میں نہیں ہر ملک کے اندر وجود رکھتی ہے، یہ ایک وسیع ٹرم ہے اور بہت وسیع معنی رکھتی ہے۔ ایک طرح سے اسٹبلشمنٹ مختلف اداروں کو بھی کہا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر سول اور ملٹری بیوروکریسی۔ عدلیہ، پارلیمان اور مقننہ وغیرہ۔
ٹرمپ کا جو کردار آج کل جمہوریت کے نام پر ہے، امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے اور بہت جلد ایسا مودی کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ پوتن کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، جب کہ اس نے اپنے ملک کی جمہوریت کو یرغمال بنایا۔ چین میں بھی صدر ذی (XI) تاحیات صدر بننے جارہے ہیں اور اگر چین میں ایسا ہورہا ہے تو یہ دنیا کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہ کبھی کبھی مجموعی مفادات کے ٹکراؤ میں آتے ہیں، مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ عمل جو پارلیمنٹ کرے وہ صحیح ہو۔ جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ ہر ملک میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کسی بیرونی طاقت کے زیر اثر نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے خارجہ پالیسی کو ایک نئی ترتیب میں لانا ہوگا۔
جو بات سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آج کی ضرورت کے مطابق ہمارے ملک کے تمام ادارے، جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اندر تبدیلیاں لائیں، پالیسیز بنائیں اور ایک اصول کے مطابق اس سے تجاوز نہ کریں۔ ورنہ صرف یہ کہنا کہ ہم آئین کو مانتے ہیں یہ ایک سرسری سی بات ہوجائے گی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایک طرف بھٹو تھے اور دوسری طرف جنرل ضیاء الحق اور ان کی آمریت، اور ان کا ساتھ دینے کے لیے NAP کے لیڈر۔ بھٹو سر مقتل سولی پر چڑھ گئے۔ اپنی بیٹی کو اپنی موت کی شکل میں ایک خوبصورت سیاسی اثاثے کا وارث بنا کر اور بیٹی نے خوب نبھایا ڈنکے کی چوٹ پر۔ بھٹو کی تحریک یا یوں کہیے کہ بحالی جمہوریت کی تحریک لاوارث نہ ہوئی۔ وہ ایک Narrative تھا، تاریخ کے پس منظر میں بنا ایک Narrative۔
سرد جنگ کے سرد خانوں میں دفن پاکستان کو جدید نوآبادیاتی نظام سے آزادی دلانے کا Narrative۔ یہ وہی سینٹرل پنجاب تھا جہاں گلی گلی بھٹو کے نعرے تھے۔ (بھٹو دے نعرے وجن گے) وہ جب لاہور اتریں، تو لاہور میں ایک لاجواب تاریخ رقم ہوئی۔ ایسا استقبال جو نہ کبھی ماضی میں اور نہ آج تک ہوا، نہ ہی شاید ہوگا۔
پھر یوں ہوا کہ سرد جنگ نے ہمیں کسی اور طرح سے ڈسا۔ سامراجی قوت کو ضیاء الحق کی ضرورت تھی۔ بات صرف یہاں تک ہوتی تو بھی قابل برداشت تھی مگر سامراجی قوت نے ہمارے مذہب کو بھی ایک ہتھیار بنا کر استعمال کیا اور یہ بات ضیاء الحق کے مفاد کے عین مطابق تھی کہ اس نے آئین کو اپنے پاؤں تلے روندا تھا اور اسے اپنی آمریت کو بھی ustify کرنا تھا۔ ہم بہت حساس لوگ ہیں اور مذہب ہمارا حساس معاملہ ہے، پاکستان کے خلاف مذہب کے نام پر بہت سی سازشیں ہوئیں، وہ شاید اس لیے کہ جناح کے بعد اس ملک کا وارث کون ہے، وہ سوال ادھورا رہا۔ اس ملک کی طاقت عوام ہے اور اسی طاقت کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا۔ مگر جناح کے بعد اس ملک کا وارث کون؟
پھر سے ایک نئی جنگ شروع ہوگئی۔ سیاستدانوں کو سول بیوروکریسی نے مار دیا اور سول بیوروکریسی کو ملٹری بیوروکریسی نے۔ اور پھر اس طرح جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سلسلہ چل پڑا۔ غلامی کے طوق بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ صدیوں تک ہم انگریز کے غلام رہے۔ پھر ہم اپنے اندر کے راجاؤں اور مہاراجاؤں کے غلام رہے، چوہدریوں، سرداروں، اور وڈیروں کے غلام رہے۔ ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلامی میں رہے۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے دہائیاں بیت گئیں مگر اس ملک کی وراثت کا سوال ابھی تک ادھورا ہے۔
سعودی عرب میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، سنا ہے کہ عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے، خواتین کے فیشن شوز بھی ہونے لگے ہیں اور نقاب نہ اوڑھنے کا فتویٰ بھی دے دیا گیا ہے۔ ہماری قوم پر سعودی روایات کا بہت گہرا اثر ہے۔ چلو ایک کھڑکی تو کھلی، کم از کم ماڈرن ریاست بننے کا تصور تو واضح ہوا۔
میں نے بات شروع کی تھی 70ء کی دہائی سے، اس وقت بہت کچھ معقول تھا، سرد جنگ تو تھی مگر مذہب کے نام پر لوگوں کے ساتھ فریب نہ تھا۔ جو بیج ضیاء الحق نے بوئے تھے وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ جس طرح سے بھٹو نے NAP کو اپنے پاؤں تلے روندا تھا وہی پالیسی نواز شریف نے اپنائی، پیپلز پارٹی کی افادیت کو کم کرنے کے لیے۔ یہ آدھی حقیقت ہے کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو زداری نے ختم کیا، مگر آدھی حقیقت یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کو ضیاء الحق کے Narrative نے تباہ کیا اور نواز شریف ان کے سیاسی وارث ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آج نواز شریف، ضیاء الحق کے سیاسی وارث نہ بھی ہوں مگر وہ Narrative اب بھی موجود ہے اور آہستہ آہستہ اس Narrative کے اب عمران خان وارث بننے جارہے ہیں۔ بظاہر یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں مگر ان دونوں کے Narrative ایک مختصر فرق کے ساتھ ایک ہی ہیں۔ جب کہ پیپلز پارٹی کا Narrative ان دونوں کے Narrative کے مخالف ہے۔
سوشل سائنسز کے اعتبار سے جو معاشرے کی ماہیت ہوتی ہے اس میں بنیادی طور پر دو نظریے ہیں، ایک لبرل اور دوسرا کنزرویٹو۔ بھٹو اور شیخ مجیب میں جو ٹکراؤ تھا وہ نظریاتی نہیں بلکہ تاریخ کے حوالے سے تھا۔ شیخ مجیب تاریخ کی تشریح چاہتے تھے اور یہ دونوں لیڈر ماڈرن، سیکولر اور لبرل تھے۔ مگرسرد جنگ کی وجہ سے دونوں لیڈران مختلف کیمپس میں تھے، بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف اور عمران خان میں کوئی نظریاتی فرق نہیں ہے، بس یہ دونوں مقامی طور پر دو مختلف کیمپوں میں بٹے ہوئے ہیں، جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ۔
ستر کی دہائی میں بھٹو بھی اسٹبلشمنٹ فرینڈلی تھے اور شیخ مجیب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف۔ مگر جو واضح فرق آج کی اور ستر کی دہائی کی اسٹبلشمنٹ میں ہے وہ یہ کہ آج کی اسٹبلشمنٹ امریکا نواز نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کے نواز شریف اسٹبلشمنٹ کے ٹکراؤ میں امریکا کو بھاتے ہوں، مگر نواز شریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا کو پاکستان میں جمہوریت سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے۔ ہماری اسٹبلشمنٹ میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں، اب وہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
اسٹبلشنٹ صرف پاکستان میں نہیں ہر ملک کے اندر وجود رکھتی ہے، یہ ایک وسیع ٹرم ہے اور بہت وسیع معنی رکھتی ہے۔ ایک طرح سے اسٹبلشمنٹ مختلف اداروں کو بھی کہا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر سول اور ملٹری بیوروکریسی۔ عدلیہ، پارلیمان اور مقننہ وغیرہ۔
ٹرمپ کا جو کردار آج کل جمہوریت کے نام پر ہے، امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے اور بہت جلد ایسا مودی کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ پوتن کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، جب کہ اس نے اپنے ملک کی جمہوریت کو یرغمال بنایا۔ چین میں بھی صدر ذی (XI) تاحیات صدر بننے جارہے ہیں اور اگر چین میں ایسا ہورہا ہے تو یہ دنیا کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہ کبھی کبھی مجموعی مفادات کے ٹکراؤ میں آتے ہیں، مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ عمل جو پارلیمنٹ کرے وہ صحیح ہو۔ جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ ہر ملک میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کسی بیرونی طاقت کے زیر اثر نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے خارجہ پالیسی کو ایک نئی ترتیب میں لانا ہوگا۔
جو بات سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آج کی ضرورت کے مطابق ہمارے ملک کے تمام ادارے، جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اندر تبدیلیاں لائیں، پالیسیز بنائیں اور ایک اصول کے مطابق اس سے تجاوز نہ کریں۔ ورنہ صرف یہ کہنا کہ ہم آئین کو مانتے ہیں یہ ایک سرسری سی بات ہوجائے گی۔