جدید ٹیکنالوجی سے موسیقی روح کی غذا کے بجائے وبا بن گئی مہر حسن
پہلے ممی ڈیڈی گلوکاروں نے پاپ کی جگہ ریپ میوزک متعارف کروایا اوراب اس کی حالت بھی بگاڑ دی ہے، اداکارہ
اداکارہ وماڈل مہرحسن نے کہا کہ بلاشبہ موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیارکرچکی ہے۔
''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے مہرحسن نے کہا کہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اوردیگرذرائع سے ہمیشہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، محمد رفیع، ملکہ ترنم نورجہاں، کشور کمار، فریدہ خانم، استاد نصرت فتح علی خاں، لتامنگیشکر، آشا بھوسلے اوردیگرکے گیت سننے کوترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن اب توٹی وی دیکھ لیں یا ریڈیوسنیں آپ کو ایسے عجیب وغریب انداز کے سنگرسننے اور دیکھنے کوملیں گے کہ ان کی آواز اوراندازہمیں یہ سوچنے پرضرور مجبورکردیتا ہے کہ کیا موسیقی کا حال اس قدر برا بھی ہونا تھا۔ بلاشبہ موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیارکرچکی ہے۔
مہر حسن نے کہا کہ پہلے ممی ڈیڈی گلوکاروں نے پاپ میوزک کی جگہ ریپ کومتعارف کروایا اوراب اس کوبھی اپنی زہانت سے کچھ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میوزک کوکون سا نیا نام دیا جائے۔
اداکارہ نے کہا کہ اگردیکھا جائے تواس وقت پاکستانی فلم سے بھی میوزک کی چھٹی ہوچکی ہے۔ نہ کوئی اچھا گیت بنارہا ہے اورنہ ہی کوئی ایسی آواز متعارف کروائی جارہی ہے، جس کوپلے بیک سنگرکہا جاسکے۔ یہ سب تکلیف دہ مراحل ہیں اوران پرقابو پانے اوربہتربنانے پرغورکرنا بے حد ضروری ہے۔
مہر حسن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جن شائقین کیلیے فلمیں بناتے ہیں، ان کی پسند کا خیال رکھیں اوریہ اچھے میوزک کے بنا کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔
''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے مہرحسن نے کہا کہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اوردیگرذرائع سے ہمیشہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، محمد رفیع، ملکہ ترنم نورجہاں، کشور کمار، فریدہ خانم، استاد نصرت فتح علی خاں، لتامنگیشکر، آشا بھوسلے اوردیگرکے گیت سننے کوترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن اب توٹی وی دیکھ لیں یا ریڈیوسنیں آپ کو ایسے عجیب وغریب انداز کے سنگرسننے اور دیکھنے کوملیں گے کہ ان کی آواز اوراندازہمیں یہ سوچنے پرضرور مجبورکردیتا ہے کہ کیا موسیقی کا حال اس قدر برا بھی ہونا تھا۔ بلاشبہ موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیارکرچکی ہے۔
مہر حسن نے کہا کہ پہلے ممی ڈیڈی گلوکاروں نے پاپ میوزک کی جگہ ریپ کومتعارف کروایا اوراب اس کوبھی اپنی زہانت سے کچھ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میوزک کوکون سا نیا نام دیا جائے۔
اداکارہ نے کہا کہ اگردیکھا جائے تواس وقت پاکستانی فلم سے بھی میوزک کی چھٹی ہوچکی ہے۔ نہ کوئی اچھا گیت بنارہا ہے اورنہ ہی کوئی ایسی آواز متعارف کروائی جارہی ہے، جس کوپلے بیک سنگرکہا جاسکے۔ یہ سب تکلیف دہ مراحل ہیں اوران پرقابو پانے اوربہتربنانے پرغورکرنا بے حد ضروری ہے۔
مہر حسن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جن شائقین کیلیے فلمیں بناتے ہیں، ان کی پسند کا خیال رکھیں اوریہ اچھے میوزک کے بنا کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔