تبدیلی ووٹ سے
اکبر بگٹی نے مسلم لیگ کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کو مذاکرات کا اختیار دیا مگر اکبر بگٹی۔۔۔
بلوچستان کا ایک اور صحافی لاپتہ ہوگیا۔ حاجی عبدالرزاق بلوچ کوئٹہ سے شایع ہونیوالے اردو کے اخبار توار میں کاپی ایڈیٹر ہیں، وہ لیاری میں اپنے دوست کے گھر سے لاپتہ ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی بھی ختم کردی اور کراچی پہنچنے کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔
نواب بگٹی کے صاحبزادے طلال بگٹی نے بھی بعض شرائط کے ساتھ انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی قیادت میں الیکشن کمیشن کے اراکین نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور نگراں حکومت کے سربراہ نواب باروزئی سمیت قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں سے مذاکرات کیے۔ بلوچوں کی ایک اور اہم قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی جو ڈاکٹر عبدالمالک کی قیادت میں سرگرم ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کرچکی ہے۔ معمر بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سمیت کئی اہم رہنما نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔
مسلم لیگ ق اور ن، پیپلزپارٹی اور پختون قوم پرست جماعتوں سمیت جمعیت علمائے اسلام پہلے ہی انتخابات میں شرکت کے لیے تیار تھے۔ 2008 کے انتخابات کے مقابلے میں حالات زیادہ بہتر نظر آرہے ہیں، حالات کو بہتر بنانے کے لیے مزید بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے گزشتہ دس سال کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم معاملہ اعتماد کا بحران کا ہے، یہ بحران ایوب خان کے دور سے شروع ہوا جو نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد انتہائی بلندی تک پہنچ گیا۔
بلوچستان کی تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ نواب سردار نوروز خان جب ایوب خان کے فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمت کے لیے پہاڑو ں پر چلے گئے تو جنر ل ایوب خان حکومت کے ایک جنرل نے قرآن شریف پر حلف اٹھا کر نواب نوروز خان اور ان کے رشتے داروں کو ہتھیارڈانے پر آمادہ کیا مگر بعد میں نواب اور ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو سزائے موت دی گئی۔ تقریباً 50 سال بعد نواب اکبر بگٹی سیکیورٹی اداروں کے آپریشن کے دوران غار بیٹھ جانے سے مارے گئے تو بلوچ لیڈروں کے لیے اسلام آباد کی حکومت پر اعتماد کرنے کا جواز ختم ہوگیا۔
بلوچستان میں 50 کی دہائی سے اسلام آباد سے ہی انتظامیہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے تو فوجی ادوار تھے مگر پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت 1972 سے 1977 کا جائزہ لیا جائے تو حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کی 18 ماہ کی مختصر حکومت کے سوا بلوچستان کی انتظامیہ کو وفاقی قوتیں کنٹرول کرتی رہیں۔ ایٹمی تجربات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں ایٹمی تجربات ریگستانوں میں کیے جاتے ہیں، بھارت نے بھی ریگستانی ریاست راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کیا مگر مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت نے بلوچستان کے پہاڑی علاقے چاغی کو ایٹمی دھماکے کے لیے منتخب کیا، پھر اس دھماکے کے لیے سردار اختر مینگل کی حکومت کو برطرف کیا۔
سردار مینگل کے قریبی ذرایع کہتے ہیں کہ اختر مینگل کی صوبائی حکومت بلوچستان کو ایٹمی تابکاری کا مرکز بنانے کے حق میں نہیں تھی۔ جب 2002 میں جام یوسف کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت کو پورے صوبے پر اپنی عملداری قائم کرنے نہیں دی گی ۔یوں فرنٹیئر کانسٹبلیری نے صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر آپریشن شروع کیا جس کے بعد بلوچ قوم پرستوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب اکبر بگٹی کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔
اکبر بگٹی نے مسلم لیگ کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کو مذاکرات کا اختیار دیا مگر اکبر بگٹی ایک آپریشن میں مارے گئے۔ نواب نوروز خان کے ساتھ وعدہ خلافی سے لے کر اکبر بگٹی کے قتل کے بعد صورتحال زیادہ خراب ہوئی۔ 2008 کے انتخابات کے وقت وفاق پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی بے بس ہوگئیں، نیشنل پارٹی اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی میں انتہا پسندوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کا پرچار کرنا شروع کیا۔
بعض ذرایع کہتے ہیں کہ اس وقت سردار عطااللہ مینگل انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں ان کی جماعت کے ارکان بلوچستان کی صورتحال پر آواز تو اٹھا سکیں گے مگر سردار اختر مینگل کی ایک بے معنی مقدمے میں طویل نظر بندی اور سیاسی کارکنوں کے مسلسل اغوا کی وارداتوں کی بنا پر ان قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ کچھ سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ خفیہ طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں۔ میاں نواز شریف بھی اس ہی طرح کی صورتحال کا شکار تھے مگر پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو شہید اور پیپلزپارٹی کی شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری کے مشورے پر میاں صاحب نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر اس ساری صورتحال میں بلوچستان کا نقصان بہت ہوا۔
اس سیاسی ماحول میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بنی مگر بقول اسلم رئیسانی ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ تک محدود رہی ، پورے صوبے میں ایف سی کی عملداری قائم رہی۔ اس دوران دوسرے صوبوں سے آنے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، سرکاری اور پولیس افسران، حجام، دکانداروں کے قتل کی لہر آئی، پھر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں نے دنیا کو ہلا دیا۔ ہزارہ برادری فوج کو بلانے کا مطالبہ کرنے لگی تو نیا تضاد ابھر کر سامنے آیا۔ صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان کو بھیج دیا ۔ اس مشن کی آمد پر اسلام آباد کی مقتدرہ حلقے سخت ناراض ہوئے۔ دائیں بازو کے بعض صحافیوں کو حب الوطنی کے درس کا خیال آیا مگر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ نہ رک سکا۔
2008 سے 2013 کے سیاسی منظر نامے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ایک دفعہ پھر بلوچستان کا معاملہ حل کرنے میں ناکام ہوئی، اگر چہ صدر زرداری کی حکومت کو آئین میں 18ویں، 19 ویں اور 20 ویں ترامیم منظور کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، ان ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری قومی مالیاتی ایوارڈ جیسے 60 سالہ پرانے مسئلے حل ہوئے، مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ زرداری حکومت محض قوانین کی منظوری کو ہی مقصد جانتی ہے۔
وفاق میں جسٹس کھوسہ ملک کے نگراں وزیراعظم بنے، بلوچستان میں سردار باروزئی وزیراعلیٰ بن گئے اور جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کے بلوچستان میں انتخابات کو شفاف بنانے کے عزم سے صورتحال بہتر ہوتی معلوم ہوئی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سردار اختر مینگل نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے جو تجاویز پیش کی تھیں ان پر عملدرآمد کیاجائے، بلوچستان کو مکمل طور پر صوبائی حکومت کی عملداری میں دیا جائے۔ خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں جتنے سیاسی کارکن موجود ہیں انھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
سپریم کورٹ مسخ شدہ لاشوں کے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کرے، اس طرح گوادر پورٹ کو کراچی پورٹ کی طرح ایک ٹرسٹ میں تبدیل کیا جائے اور ٹرسٹ میں بلوچستان کے عوام کے نمایندوں اور ٹیکنوکریٹس کی نشستیں مختص کی جائیں تاکہ بلوچستان کے عوام کو اس منصوبے میں نمایندگی کا حق مل سکے، یہ طریقہ کار دیگر پروجیکٹ میں بھی اختیار کیا جائے، اس کے ساتھ پہاڑوں پر جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ بندوق سے تبدیلی گزشتہ صدی کے ابتدائی عشرے میں تو ممکن تھی لیکن اب صرف ووٹ سے تبدیلی ممکن ہے۔ شایدحالات بہتر ہونے پر پہاڑوں میں موجود گوریلا رہنما ڈاکٹر اﷲ داد نذرکچھ عرصے مزید انتظار کی اہمیت کو محسوس کریں، یوں عملی اقدامات سے اعتماد کے بحران کو کم کیا جاسکتا ہے اور دیگرمعاملات آیندہ ہونے والے الیکشن میں منتخب نمایندوں پرچھوڑ دیے جائیں۔
نواب بگٹی کے صاحبزادے طلال بگٹی نے بھی بعض شرائط کے ساتھ انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی قیادت میں الیکشن کمیشن کے اراکین نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور نگراں حکومت کے سربراہ نواب باروزئی سمیت قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں سے مذاکرات کیے۔ بلوچوں کی ایک اور اہم قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی جو ڈاکٹر عبدالمالک کی قیادت میں سرگرم ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کرچکی ہے۔ معمر بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سمیت کئی اہم رہنما نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔
مسلم لیگ ق اور ن، پیپلزپارٹی اور پختون قوم پرست جماعتوں سمیت جمعیت علمائے اسلام پہلے ہی انتخابات میں شرکت کے لیے تیار تھے۔ 2008 کے انتخابات کے مقابلے میں حالات زیادہ بہتر نظر آرہے ہیں، حالات کو بہتر بنانے کے لیے مزید بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے گزشتہ دس سال کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم معاملہ اعتماد کا بحران کا ہے، یہ بحران ایوب خان کے دور سے شروع ہوا جو نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد انتہائی بلندی تک پہنچ گیا۔
بلوچستان کی تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ نواب سردار نوروز خان جب ایوب خان کے فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمت کے لیے پہاڑو ں پر چلے گئے تو جنر ل ایوب خان حکومت کے ایک جنرل نے قرآن شریف پر حلف اٹھا کر نواب نوروز خان اور ان کے رشتے داروں کو ہتھیارڈانے پر آمادہ کیا مگر بعد میں نواب اور ان کے بیٹے اور بھتیجوں کو سزائے موت دی گئی۔ تقریباً 50 سال بعد نواب اکبر بگٹی سیکیورٹی اداروں کے آپریشن کے دوران غار بیٹھ جانے سے مارے گئے تو بلوچ لیڈروں کے لیے اسلام آباد کی حکومت پر اعتماد کرنے کا جواز ختم ہوگیا۔
بلوچستان میں 50 کی دہائی سے اسلام آباد سے ہی انتظامیہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے تو فوجی ادوار تھے مگر پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت 1972 سے 1977 کا جائزہ لیا جائے تو حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کی 18 ماہ کی مختصر حکومت کے سوا بلوچستان کی انتظامیہ کو وفاقی قوتیں کنٹرول کرتی رہیں۔ ایٹمی تجربات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں ایٹمی تجربات ریگستانوں میں کیے جاتے ہیں، بھارت نے بھی ریگستانی ریاست راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کیا مگر مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت نے بلوچستان کے پہاڑی علاقے چاغی کو ایٹمی دھماکے کے لیے منتخب کیا، پھر اس دھماکے کے لیے سردار اختر مینگل کی حکومت کو برطرف کیا۔
سردار مینگل کے قریبی ذرایع کہتے ہیں کہ اختر مینگل کی صوبائی حکومت بلوچستان کو ایٹمی تابکاری کا مرکز بنانے کے حق میں نہیں تھی۔ جب 2002 میں جام یوسف کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت کو پورے صوبے پر اپنی عملداری قائم کرنے نہیں دی گی ۔یوں فرنٹیئر کانسٹبلیری نے صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر آپریشن شروع کیا جس کے بعد بلوچ قوم پرستوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب اکبر بگٹی کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔
اکبر بگٹی نے مسلم لیگ کے قائدین چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کو مذاکرات کا اختیار دیا مگر اکبر بگٹی ایک آپریشن میں مارے گئے۔ نواب نوروز خان کے ساتھ وعدہ خلافی سے لے کر اکبر بگٹی کے قتل کے بعد صورتحال زیادہ خراب ہوئی۔ 2008 کے انتخابات کے وقت وفاق پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی بے بس ہوگئیں، نیشنل پارٹی اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی میں انتہا پسندوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کا پرچار کرنا شروع کیا۔
بعض ذرایع کہتے ہیں کہ اس وقت سردار عطااللہ مینگل انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں ان کی جماعت کے ارکان بلوچستان کی صورتحال پر آواز تو اٹھا سکیں گے مگر سردار اختر مینگل کی ایک بے معنی مقدمے میں طویل نظر بندی اور سیاسی کارکنوں کے مسلسل اغوا کی وارداتوں کی بنا پر ان قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ کچھ سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ خفیہ طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں۔ میاں نواز شریف بھی اس ہی طرح کی صورتحال کا شکار تھے مگر پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو شہید اور پیپلزپارٹی کی شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری کے مشورے پر میاں صاحب نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر اس ساری صورتحال میں بلوچستان کا نقصان بہت ہوا۔
اس سیاسی ماحول میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بنی مگر بقول اسلم رئیسانی ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ تک محدود رہی ، پورے صوبے میں ایف سی کی عملداری قائم رہی۔ اس دوران دوسرے صوبوں سے آنے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، سرکاری اور پولیس افسران، حجام، دکانداروں کے قتل کی لہر آئی، پھر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں نے دنیا کو ہلا دیا۔ ہزارہ برادری فوج کو بلانے کا مطالبہ کرنے لگی تو نیا تضاد ابھر کر سامنے آیا۔ صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان کو بھیج دیا ۔ اس مشن کی آمد پر اسلام آباد کی مقتدرہ حلقے سخت ناراض ہوئے۔ دائیں بازو کے بعض صحافیوں کو حب الوطنی کے درس کا خیال آیا مگر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ نہ رک سکا۔
2008 سے 2013 کے سیاسی منظر نامے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ایک دفعہ پھر بلوچستان کا معاملہ حل کرنے میں ناکام ہوئی، اگر چہ صدر زرداری کی حکومت کو آئین میں 18ویں، 19 ویں اور 20 ویں ترامیم منظور کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، ان ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری قومی مالیاتی ایوارڈ جیسے 60 سالہ پرانے مسئلے حل ہوئے، مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ زرداری حکومت محض قوانین کی منظوری کو ہی مقصد جانتی ہے۔
وفاق میں جسٹس کھوسہ ملک کے نگراں وزیراعظم بنے، بلوچستان میں سردار باروزئی وزیراعلیٰ بن گئے اور جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کے بلوچستان میں انتخابات کو شفاف بنانے کے عزم سے صورتحال بہتر ہوتی معلوم ہوئی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سردار اختر مینگل نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے جو تجاویز پیش کی تھیں ان پر عملدرآمد کیاجائے، بلوچستان کو مکمل طور پر صوبائی حکومت کی عملداری میں دیا جائے۔ خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں جتنے سیاسی کارکن موجود ہیں انھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
سپریم کورٹ مسخ شدہ لاشوں کے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کرے، اس طرح گوادر پورٹ کو کراچی پورٹ کی طرح ایک ٹرسٹ میں تبدیل کیا جائے اور ٹرسٹ میں بلوچستان کے عوام کے نمایندوں اور ٹیکنوکریٹس کی نشستیں مختص کی جائیں تاکہ بلوچستان کے عوام کو اس منصوبے میں نمایندگی کا حق مل سکے، یہ طریقہ کار دیگر پروجیکٹ میں بھی اختیار کیا جائے، اس کے ساتھ پہاڑوں پر جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ بندوق سے تبدیلی گزشتہ صدی کے ابتدائی عشرے میں تو ممکن تھی لیکن اب صرف ووٹ سے تبدیلی ممکن ہے۔ شایدحالات بہتر ہونے پر پہاڑوں میں موجود گوریلا رہنما ڈاکٹر اﷲ داد نذرکچھ عرصے مزید انتظار کی اہمیت کو محسوس کریں، یوں عملی اقدامات سے اعتماد کے بحران کو کم کیا جاسکتا ہے اور دیگرمعاملات آیندہ ہونے والے الیکشن میں منتخب نمایندوں پرچھوڑ دیے جائیں۔