پاکستان اور عالم اسلام کا فخر
بھٹو صاحب پاکستان کے وہ واحد رہنماء تھے جو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی بیٹھکوں، تھڑوں اور شاہراہوں پر۔۔۔
تاریخ میں ایسے کم ہی لیڈرگزرے ہیں جن کی قومی و عالمی خدمات کے اعتراف میں انھیں پوری دنیا میں شہرت، عزت اور سرفرازی نصیب ہوئی ہو، پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد سیاسی رہنماء تھے جنھیں تاریخ عالم میں ایسا باعزت و بلند مقام و مرتبہ عطا کیا اور بجا طور پر وہ اس کے مستحق تھے۔
پاکستان کے کسی اور سیاستدان کو آج تک ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایسی مقبولیت، پذیرائی، عزت اور عوامی محبت نہ مل سکی جو قائد عوام کے نام سے تاریخ کے اوراق میں امر ہو چکی ہے۔ 4 اپریل 1979 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب ایک جابر و آمر مطلق حکمران نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے والے، اسلامی دنیا کو متحد کرنے والے بین الاقوامی سطح کے ایک عظیم مدبر، سیاسی فلسفی اور عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے سیاسی رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔
بھٹو صاحب سندھ کے ایک ممتاز سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد سر شاہنواز بھٹو برطانوی عہد حکومت میں اہم سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، بھٹو صاحب نے تعلیم کے ابتدائی مدارج ممبئی میں طے کیے۔ بعد ازاں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا امریکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بھٹو صاحب نے بیرسٹری کی تعلیم لِنکنز اِن سے حاصل کی یہ وہی اسکول ہے جہاں سے قائد اعظم نے بھی ''قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔
بھٹو صاحب ابتداء سے ہی اسلامی ممالک میں سوشلزم کے امکانات کے حوالے سے گہرے مطالعے اور لیکچرز میں دلچسپی لیتے تھے جو آگے چل کے ان کے نظریات کا اثاثہ بنی، جب1967 میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر لاہور میں بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا نعرہ پی پی پی کے منشور ریاست کی بنیاد قرار پایا، جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں جب پاکستان دولخت ہوا تو بھٹو صاحب کو ایک شکست خوردہ پاکستان کی قیادت کا بارگراں اٹھانا پڑا، یہ وہ وقت تھا کہ آمریت کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں کے باعث نہ صرف ملک ٹوٹ چکا تھا۔
عوام دلبرداشتہ و مایوسی کا شکار تھے بلکہ قومی معیشت تباہ حال و خزانہ خالی تھا،90 ہزار فوجی بھارتی قید میں تھے اور 5000 ہزار مربع میل کا علاقہ بھارتی قبضے میں تھا، بھٹو صاحب نے ریڈیو و ٹیلی ویژن پر اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ''میرے عزیز ہم وطنو! میرے پیارے دوستو! میرے پیارے طالب علمو! مزدورو، کسانو... وہ لوگ جو پاکستان کے لیے لڑے... ہم اور ہمارے ملک کی زندگی ایک مہلک اور بد ترین بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہمیں ٹکڑے ٹکڑے چننے ہیں ... بہت ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے... لیکن ہم ایک نیا پاکستان ایک خوشحال اور ترقی پسند پاکستان ... ایسا پاکستان جو استحصال سے پاک ہو اور ایسا پاکستان جو قائد اعظم بنانا چاہتے تھے، کی تعمیر کرنا ہے'' اور پھر بھٹو صاحب نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا بلکہ مایوسی، اضطراب اور دل شکستہ قوم کے مورال کو بلند کرنے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں رات دن ایک کر دیا، بھٹو صاحب ایک جری، بہادر، محب وطن اور پیش آمدہ خطرات سے آگاہ دور بین سیاستدان تھے، وہ بھارت کی بد نیتی، ناپاک عزائم، چالبازیوں اور پاکستان دشمنی سے پوری طرح آگاہ تھے، سقوط بنگال کے سانحے نے بھٹو صاحب کو بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اگر بقیہ پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانا ہے تو جوہری طاقت کا حصول ناگزیر ہے۔
انھوں نے بھارتی عزائم کا بہت پہلے ادراک کر لیا تھا،1965 کی جنگ کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''پاکستان جنگ لڑے گا اور ایک ہزار سال تک جنگ لڑے گا ... اگر انڈیا نے ایٹم بم بنایا تو پاکستانی گھاس اور پتے کھائیں گے یہاں تک کہ بھوکے رہیں گے ... لیکن ہم ایٹم بم بنائیں گے، ہمارے پاس اس کے سوا چارہ نہیں، پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ جب انھیں پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا تو اپنے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنا دیا اور وطن عزیز کو جوہری طاقت بنانے اور دنیا میں ایک باوقار، خود مختار و آزاد قوم کا باعزت مقام دلانے میں بھٹو صاحب نے بنیادی کردار ادا کیا۔
بھٹو صاحب پاکستان کے وہ واحد رہنماء تھے جو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی بیٹھکوں، تھڑوں اور شاہراہوں پر لے آئے، وہ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، مزارعوں اور تمام محروم، مایوس عوام کی نمایندہ آواز تھے، بھٹو صاحب نے پسماندہ طبقات کو شعور بخشا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کرنے کا حوصلہ دیا۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد بھٹو صاحب نے ملک میں فلاحی نظام کو متعارف کراتے ہوئے عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے بنائے، جن میں تعلیمی پالیسی، مزدوروں کی بہتری کے اقدامات، زمینی اصلاحات، معاشی اصلاحات وغیرہ شامل ہیں۔
بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں پاکستان اور عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکی تسلط سے آزاد کرایا، انھی کی فہم و تدبر کی بدولت ملک کی مذہبی و سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے سے1973 کا متفقہ آئین تشکیل دیا گیا۔ شراب پر پابندی، جمعۃ المبارک کی چھٹی اور قادیانیوں کا 90 سالہ پرانا مسئلہ حل کرایا، عالم اسلام کے اتحاد کو اجاگر کرنے کے لیے اسلامی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے، بھارت سے93 ہزار قیدیوں کی واپسی اور5000 مربع میل کا علاقہ واپس لیا اور کشمیر پر پاکستانی مؤقف کو بھارت سے تسلیم کرایا، اپنی شاندار قومی و عالمی خدمات کے باعث بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کا ایسا لا فانی کردار بن چکے ہیں۔
جو گڑھی خدا بخش میں محو خواب ہونے کے باوجود آج بھی ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' کے عوامی نعرے کی صورت میں موجود ہیں، بھٹو کی شہید بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد شہید بھٹو کے فکر و فلسفے و نظریات کو توانائی بخشی اور اب آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی بھٹو شہید کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہے، چونکہ بھٹو صاحب مزدوروں، کسانوں اور دیگر محروم طبقات سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور ان کے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے تھے اب یہی پالیسی صدر آصف علی زرداری کی بھی ہے، انھوں نے 2013 کے انتخابات کے لیے جو منشور جاری کیا ہے اس میں اسمبلیوں میں مزدوروں کو نمایندگی دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے ممتاز مزدور رہنماء سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی شمشاد قریشی نے صدر آصف زرداری کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے صدر صاحب کی مزدور دوستی سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے کراچی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جس پر ان کے حلقے کے عوام بالخصوص مزدور طبقے نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ شمشاد قریشی نے کہا کہ اگر پارٹی نے انھیں خدمت کا موقع دیا تو وہ صدر زرداری کی رہنمائی اور بھٹو شہید کے فلسفۂ خدمت کے تحت اپنے حلقے کے عوام کی بھرپور خدمت کریں گے، پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اسے بھٹو جیسا عظیم فلسفی سیاستدان، مفکر اور عالمی سطح کا لیڈر ملا اسی طرح پی پی پی کی یہ خوش بختی ہے کہ ایسے جیلیں کاٹنے، کوڑے کھانے، پھانسیاں چڑھتے اور آمروں سے جمہوریت کی بقا کے لیے لڑنے والے مخلص کارکن ملے۔
پاکستان کے کسی اور سیاستدان کو آج تک ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایسی مقبولیت، پذیرائی، عزت اور عوامی محبت نہ مل سکی جو قائد عوام کے نام سے تاریخ کے اوراق میں امر ہو چکی ہے۔ 4 اپریل 1979 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب ایک جابر و آمر مطلق حکمران نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے والے، اسلامی دنیا کو متحد کرنے والے بین الاقوامی سطح کے ایک عظیم مدبر، سیاسی فلسفی اور عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے سیاسی رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔
بھٹو صاحب سندھ کے ایک ممتاز سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد سر شاہنواز بھٹو برطانوی عہد حکومت میں اہم سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، بھٹو صاحب نے تعلیم کے ابتدائی مدارج ممبئی میں طے کیے۔ بعد ازاں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا امریکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بھٹو صاحب نے بیرسٹری کی تعلیم لِنکنز اِن سے حاصل کی یہ وہی اسکول ہے جہاں سے قائد اعظم نے بھی ''قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔
بھٹو صاحب ابتداء سے ہی اسلامی ممالک میں سوشلزم کے امکانات کے حوالے سے گہرے مطالعے اور لیکچرز میں دلچسپی لیتے تھے جو آگے چل کے ان کے نظریات کا اثاثہ بنی، جب1967 میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر لاہور میں بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا نعرہ پی پی پی کے منشور ریاست کی بنیاد قرار پایا، جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں جب پاکستان دولخت ہوا تو بھٹو صاحب کو ایک شکست خوردہ پاکستان کی قیادت کا بارگراں اٹھانا پڑا، یہ وہ وقت تھا کہ آمریت کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں کے باعث نہ صرف ملک ٹوٹ چکا تھا۔
عوام دلبرداشتہ و مایوسی کا شکار تھے بلکہ قومی معیشت تباہ حال و خزانہ خالی تھا،90 ہزار فوجی بھارتی قید میں تھے اور 5000 ہزار مربع میل کا علاقہ بھارتی قبضے میں تھا، بھٹو صاحب نے ریڈیو و ٹیلی ویژن پر اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ''میرے عزیز ہم وطنو! میرے پیارے دوستو! میرے پیارے طالب علمو! مزدورو، کسانو... وہ لوگ جو پاکستان کے لیے لڑے... ہم اور ہمارے ملک کی زندگی ایک مہلک اور بد ترین بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہمیں ٹکڑے ٹکڑے چننے ہیں ... بہت ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے... لیکن ہم ایک نیا پاکستان ایک خوشحال اور ترقی پسند پاکستان ... ایسا پاکستان جو استحصال سے پاک ہو اور ایسا پاکستان جو قائد اعظم بنانا چاہتے تھے، کی تعمیر کرنا ہے'' اور پھر بھٹو صاحب نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا بلکہ مایوسی، اضطراب اور دل شکستہ قوم کے مورال کو بلند کرنے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں رات دن ایک کر دیا، بھٹو صاحب ایک جری، بہادر، محب وطن اور پیش آمدہ خطرات سے آگاہ دور بین سیاستدان تھے، وہ بھارت کی بد نیتی، ناپاک عزائم، چالبازیوں اور پاکستان دشمنی سے پوری طرح آگاہ تھے، سقوط بنگال کے سانحے نے بھٹو صاحب کو بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اگر بقیہ پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانا ہے تو جوہری طاقت کا حصول ناگزیر ہے۔
انھوں نے بھارتی عزائم کا بہت پہلے ادراک کر لیا تھا،1965 کی جنگ کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''پاکستان جنگ لڑے گا اور ایک ہزار سال تک جنگ لڑے گا ... اگر انڈیا نے ایٹم بم بنایا تو پاکستانی گھاس اور پتے کھائیں گے یہاں تک کہ بھوکے رہیں گے ... لیکن ہم ایٹم بم بنائیں گے، ہمارے پاس اس کے سوا چارہ نہیں، پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ جب انھیں پاکستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا تو اپنے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنا دیا اور وطن عزیز کو جوہری طاقت بنانے اور دنیا میں ایک باوقار، خود مختار و آزاد قوم کا باعزت مقام دلانے میں بھٹو صاحب نے بنیادی کردار ادا کیا۔
بھٹو صاحب پاکستان کے وہ واحد رہنماء تھے جو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی بیٹھکوں، تھڑوں اور شاہراہوں پر لے آئے، وہ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، مزارعوں اور تمام محروم، مایوس عوام کی نمایندہ آواز تھے، بھٹو صاحب نے پسماندہ طبقات کو شعور بخشا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کرنے کا حوصلہ دیا۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد بھٹو صاحب نے ملک میں فلاحی نظام کو متعارف کراتے ہوئے عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے بنائے، جن میں تعلیمی پالیسی، مزدوروں کی بہتری کے اقدامات، زمینی اصلاحات، معاشی اصلاحات وغیرہ شامل ہیں۔
بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں پاکستان اور عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکی تسلط سے آزاد کرایا، انھی کی فہم و تدبر کی بدولت ملک کی مذہبی و سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے سے1973 کا متفقہ آئین تشکیل دیا گیا۔ شراب پر پابندی، جمعۃ المبارک کی چھٹی اور قادیانیوں کا 90 سالہ پرانا مسئلہ حل کرایا، عالم اسلام کے اتحاد کو اجاگر کرنے کے لیے اسلامی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے، بھارت سے93 ہزار قیدیوں کی واپسی اور5000 مربع میل کا علاقہ واپس لیا اور کشمیر پر پاکستانی مؤقف کو بھارت سے تسلیم کرایا، اپنی شاندار قومی و عالمی خدمات کے باعث بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کا ایسا لا فانی کردار بن چکے ہیں۔
جو گڑھی خدا بخش میں محو خواب ہونے کے باوجود آج بھی ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' کے عوامی نعرے کی صورت میں موجود ہیں، بھٹو کی شہید بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد شہید بھٹو کے فکر و فلسفے و نظریات کو توانائی بخشی اور اب آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی بھٹو شہید کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہے، چونکہ بھٹو صاحب مزدوروں، کسانوں اور دیگر محروم طبقات سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور ان کے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے تھے اب یہی پالیسی صدر آصف علی زرداری کی بھی ہے، انھوں نے 2013 کے انتخابات کے لیے جو منشور جاری کیا ہے اس میں اسمبلیوں میں مزدوروں کو نمایندگی دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے ممتاز مزدور رہنماء سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی شمشاد قریشی نے صدر آصف زرداری کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے صدر صاحب کی مزدور دوستی سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے کراچی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جس پر ان کے حلقے کے عوام بالخصوص مزدور طبقے نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ شمشاد قریشی نے کہا کہ اگر پارٹی نے انھیں خدمت کا موقع دیا تو وہ صدر زرداری کی رہنمائی اور بھٹو شہید کے فلسفۂ خدمت کے تحت اپنے حلقے کے عوام کی بھرپور خدمت کریں گے، پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اسے بھٹو جیسا عظیم فلسفی سیاستدان، مفکر اور عالمی سطح کا لیڈر ملا اسی طرح پی پی پی کی یہ خوش بختی ہے کہ ایسے جیلیں کاٹنے، کوڑے کھانے، پھانسیاں چڑھتے اور آمروں سے جمہوریت کی بقا کے لیے لڑنے والے مخلص کارکن ملے۔