افغان بحران کا حل کیا ہے

افغانستان پر امریکی حل مسلط نہیں ہوسکے گا، اس بحران کے حل کے لیے ٹرمپ کارڈ اور پالیسی بھی بے نتیجہ رہے گی۔

افغانستان پر امریکی حل مسلط نہیں ہوسکے گا، اس بحران کے حل کے لیے ٹرمپ کارڈ اور پالیسی بھی بے نتیجہ رہے گی۔ فوٹو: فائل

افغانستان بحران کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور وہاں امن عمل کا سفر کس قدر دشوار ہے اس کی کچھ تفہیم تو امریکا کی افغان صورتحال میں ناقابل بیان الجھاؤ اور مستقل عسکری ہزیمت میں موجود ہے جب کہ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی پر عملدرآمد میں جارحانہ اقدامات اور دنیا کے شورش زدہ علاقوں میں امن کے روڈ میپ اور دہشتگردی کے خاتمہ کے جو دعوے کیے وہ سب صدا بہ صحرا ثابت ہوتے جا رہے ہیں اور امریکی پالیسیوں کے اندر سے شکست و پسپائی کا افغانی دھواں فضائے سیاست پر چھا رہا ہے اس کا صرف ایک سین ہی بار بار امریکی لا شعور میں اٹکا ہوا ہے اور وہ ہے ''ڈو مور'' ۔

حقیقت میں جو نظریں افغان سیاست اور تاریخ پر مرکوز ہیں اور جنھیں خطے کی جدلیات اور تزویراتی تناظر سے خوب آگہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صدر اشرف غنی کی طالبان کو مذاکرات کی دعوت دینا کوئی نئی پیش قدمی نہیں اور طالبان کا جواب بھی حیرت ناک نہیں۔ اس لیے حل یہ ہے کہ جب تک امریکا اور اس کے حواری پاکستان کو افغان مسئلہ میں اس کے اہم اور کلیدی کردار سے محروم کرکے مورد الزام ٹھہرانے کی دیوانگی ترک نہیں کریں گے افغانستان امریکی ڈراؤنے خواب کا بے آب وگیاہ صحرا ہی بنا رہے گا اور کوئی طاقت پاکستان کو معتوب و مطعون کرتے ہوئے افغان مسئلہ کا جامع سیاسی حل تلاش نہیں کرسکے گی۔

افغانستان پر امریکی حل مسلط نہیں ہوسکے گا، اس بحران کے حل کے لیے ٹرمپ کارڈ اور پالیسی بھی بے نتیجہ رہے گی کیونکہ اس کی اساس محض پاکستان مخاصمت، خطے کی حرکیات کے غلط اندازوں پر مبنی ہے۔ افغانستان اور بھارت پاکستان دشمنی میں امریکا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا اور کچھ نہیںکر پائے۔

باریک بین حضرات جانتے ہیں کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، امریکی عہدیداروں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ امن عمل میں اپنا کردار ادا کرے، حالانکہ سوال تو امریکیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ 17 سالہ طویل افغان جنگ میں ان کے پاس افغان مسئلہ کے حل کے کتنے مواقع نکلے تھے جو انکل سام کی عاقبت نااندیش گن بوٹ، ڈو مور ڈپلومیسی اور جنگی طاقت کے بے محابہ مگر لاحاصل حکمت عملی کے باعث بے کار ثابت ہوئے۔

امریکی قائم مقام معاون وزیرخارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ افغان طالبان امریکا یا عالمی برادری کے بجائے افغان حکومت اور اپنے عوام سے مذاکرات کریں، میڈیا کے مطابق ایلس ویلزنے افغان طالبان کی جانب سے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادگی کے اظہار پر اپنے ردعمل میں کابل امن عمل کے دوسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کا قیامِ امن کا عزم واضح اور ان کا موقف جراتمندانہ ہے لیکن اب طالبان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا عملی مظاہرہ کریں کہ وہ بات چیت پر تیار ہیں۔


افغانستان میں سرگرم طالبان نے صدر اشرف غنی کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش پر کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل میں ہونے والی کانفرنس کے پیچھے یہ خواہش کار فرما تھی کہ طالبان کسی بھی طرح بس ہتھیار ڈال دیں۔ افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق امریکا افغانستان پر قابض ہے،اس لیے افغان حکومت سے بات کرنا امریکی قبضہ کو تسلیم کرنا ہے۔

دریں اثنا واشنگٹن میں صحافیوں کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان پینٹاگون ڈانا وائٹ نے پاکستان سے ایک بار پھر ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کا موقع ہے اور پاکستان علاقائی سلامتی کے لیے مزید اقدامات کر سکتا ہے کیوں کہ دہشتگردی کے خلاف کامیابی سب کے حق میں ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ علاقائی سلامتی کے لیے پاکستان کی کوششوں کا خیر مقدم کریں گے جب کہ جنوبی ایشیائی پالیسی کے تحت پاکستان سے رابطے میں رہیں گے۔ امریکا نے پاکستان پر''واضح'' کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مشتبہ دہشتگردوں کے ٹھکانے اور پشت پناہی سے دستبردار ہو کر افغانستان میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرے تو ایف اے ٹی ایف پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کا نام گر ے لسٹ سے نکلوانے میں کردار ادا کرے گا۔

اس غیر لچکدار اور تاجرانہ امریکی بیانیے میں ایک اعتراف جھلکتا نظر آتا ہے اور وہ طالبان سے کابل حکومت سے بات چیت کا اصرار ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان کی طویل امریکی جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اگر مذاکرات ہی واحد حل ہیں تو پینٹاگان نے تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھا ۔ آخر پاکستان سمیت عالمی امن پسند قوتوں کے اشتراک سے گریٹر مکالمہ سے گریز میں کیا حکمت پنہاں تھی؟

افغانستان نے ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گرایا جب کہ ٹرمپ کو بھارت اور افغانستان اسی مغالطے کی دلدل میں پھنسائے ہوئے ہیں کہ افغان منظرنامہ سے پاکستان کو اس کے کلیدی کردار سمیت باہر نہیں نکالا جائے گا خطے میں کوئی بہتری نہیں آسکتی، بہرحال بھارتی کارستانیاں تو اس لیے سمجھ میں آتی ہیں کہ اسے افغانستان میں مکمل اثر و نفوذ اور بلوچستان میں دہشتگردوں اور سہولت کاروں کی مدد کرنا ہے، امریکا کے لیے اتنی موٹی حقیقت نہ معلوم کیوں ناقابل فہم بنی ہوئی ہے۔

 
Load Next Story