حج پالیسی اور قرعہ اندازی کی شفافیت
اخلاقی ڈھانچہ ان سیاستدانوں نے تباہ کردیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے۔
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اور پھر یہ دولت، ارباب اختیار کا ہجوم، خاطر مدارت، جائیدادیں، لمبی لمبی گاڑیاں، حفاظت پر مامور سیکڑوں اہلکار، درباری ذہن مالش کرنے والے خوشامدی، بعد انتقال لمحوں میں جدا ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ خوشحال لوگ بالکل نہیں سوچ رہے آخری منزل پر جاکر ہمارے لیے کیا کچھ ہوگا۔ سب اپنی دنیا میں مست ہیں۔ جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو حکومتی اہلکار ''رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہے'' کی مانند اپنی سیاست کا پرچم بلند کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
رب ذوالجلال نے پاکستانی قوم کو بہت صبر سے نوازا ہے، مسائل کی وجہ سے عوام کے حقوق ملیامیٹ ہوکر رہ گئے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، ایک پارٹی اپنوں کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے جن کو عوام نے انتظامی ڈھانچے کا قبلہ درست کرنے کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا تھا وہ اپنے بڑوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے سرگرداں ہیں کہ تاج 2018 میں پھر ان کے سر پر سجے۔
عدالتوں کے چکر لگانے کے باوجود بھی بہت پرامید ہیں۔ ایک پارٹی دعوے کرتی پھر رہی ہے کہ اس دفعہ اقتدار ہمارے پاس ہوگا، ایک پارٹی غیر سنجیدہ سیاست کرکے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہے اور ہر ضمنی الیکشن میں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ایک پارٹی ایسی ہے جو گزشتہ 25 سال سے ایک پلیٹ فارم پر کھڑی تھی، اب اس کے بھی حصے بخرے ہوئے، ان سب نے ادھم مچا رکھی ہے، کسی کے بھی دامن میں گراں خدمات کا لیبل نہیں۔
یہ کسی المیہ سے کم نہیں، ان سیاستدانوں میں بصیرت افروز خیالات کی کمی اتنی ہوچکی ہے کہ جو گریجویٹ ہے اور سلجھا ہوا ہے وہ ان کے بیانات پڑھنے کے بعد مایوسی کی دلدل میں اتر جاتا ہے۔ یہ لوگ مفادات کے جنگل میں سر پٹ دوڑ رہے ہیں، انھیں عوام سے کوئی لینا دینا نہیں، بس ان کی ہانڈی پکتی رہے۔ جب ان پر مشکل وقت آتا ہے تو یہ صرف اپنی ذات کو دیکھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ماضی کے حوالے سے جو یہ کہہ رہے ہیں کیا مستقبل میں کبھی ان کا بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔ عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے اور آپس میں بے مقصد تصادم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے مگر یہ سلگتے عوام خاموش لب بستہ ہیں۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس ملک اور عوام کی تقدیر کوئی اللہ کا سپاہی ہی بدلے گا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب قومی سلامتی اور استحکام کے لیے جو کام کر رہے ہیں اس بنا پر قوم انھیں لمحہ لمحہ خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ ان سیاستدانوں کی مثال کچھ اس طرح بھی دی جاسکتی ہے کہ (1) 1977 میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے مارشل لا لگایا وہ ٹھیک تھا۔ (2) 1999 میں مشرف نے جو مارشل لا لگایا وہ غلط تھا۔ (3) 1988 میں جنرل ضیا نے جونیجو حکومت برطرف کی وہ ٹھیک تھی۔ (4) 1998 میں جنرل مشرف نے جو حکومت برخاست کی وہ غلط تھی۔ (5) 1990 میں سابق صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت پر 58 ٹو بی استعمال کی وہ ٹھیک تھا۔ (6) 1993 میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے خلاف 58 ٹو بی استعمال کی وہ غلط تھا۔ (7) 1994 میں بے نظیر کے خلاف جو تحریک نجات چلائی گئی وہ ٹھیک تھی۔ (8) 1998 اور 2014 میں نواز حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا وہ غلط تھا۔ (9) 1993 میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی وہ ٹھیک فیصلہ تھا۔ (10) 2017 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو برطرف کیا وہ غلط تھا۔ (11) 2012 میں سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا وہ ٹھیک تھا۔ (12) 2017 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا وہ غلط تھا۔ (13) 2008 میں مشرف دور میں اس کی ساری کی ساری ٹیم غلط تھی۔ (14) 2013 میں حکومت بنانے کے بعد مشرف کی آدھی ٹیم کو وزارتیں دینا ٹھیک تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر پی ٹی آئی اور پی پی پی مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو عوام مسائل کی دلدل سے کب کے نکل چکے ہوتے۔
اب میں قارئین کی توجہ ایک انتہائی اہم معاملے کی نذر کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حج ادا کرنے والوں کی تقریباً 3,75000 درخواستیں حکومت نے جمع کرائیں اور فی فرد 2,70,000 روپے وصول کیے۔ یہ ٹوٹل رقم بنتی ہے 194 ہزار ارب روپے۔ 24 جنوری آخری تاریخ تھی فارم جمع کرانے کی اور 26 جنوری کو قرعہ اندازی تھی ، جب کہ حجاج کے 40 دن سے کم کر کے 30 دن کردیے گئے اور مزے کی بات دیکھیں رقم یہی ہے یعنی 2,70,000 روپے۔ اب 40 دن کے بجائے 30 دن مقرر کردیے گئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جمعرات کو وزارت مذہبی امور نے جلد بازی میں 50 فی صد قرعہ اندازی کر ڈالی اور ناکام رہ جانیوالے درخواست گزاروں کو بینکوں سے پیسہ نکلوانے کی اجازت دے دی جس سے ہزاروں عازمین باقی ماندہ 17 فی صد کوٹہ سے محروم رہ سکتے تھے، تاہم اس غلطی کا جب پنجاب آئی ٹی بورڈ کو احساس ہوا تو فوراً فیصلہ ہوا کہ قرعہ اندازی میں کامیاب عازمین کے ساتھ ساتھ قرعہ اندازی میں ناکام عازمین کو بھی موبائل فون پر پیغام دیا جائے گا کہ وہ اب بھی ویٹنگ لسٹ میں موجود ہیں، پیسہ نہ نکلوائیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ پیسہ شرح سود 5 فیصد کے حساب سے بھی رکھا گیا ہے تو ایک ماہ کا پرافٹ 4 ارب روپے بنتا ہے اور اگر یہ پیسہ کسی اسلامی بینک میں ہوتا تو ایک لاکھ پر 290 روپے ملتے، اس طرح ایک ماہ میں 27 کروڑ روپے پرافٹ ملتا ہے۔ 40 دن کے بجائے 30 دن حج کے مقرر کردیے ہیں تو 10 دن کے پیسے کون واپس کرے گا اور اگر 10 دن کے پیسے حکومت واپس نہیں کرتی ہے تو وہ بے انصافی کے زمرے میں آئیگا۔ یا پھر حجاج حضرات کے لیے اعلیٰ مراعات کا اعلان کیا جائے۔ان کی ذہنی اذیت کا ادراک کیا جائے۔
افسوس اس مسئلے پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ صرف ایک شخص کو بچانے کے لیے سب دندناتے پھر رہے ہیں۔ اخلاقی ڈھانچہ ان سیاستدانوں نے تباہ کردیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ خوف خدا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلی حکومت میں ایک وفاقی وزیر نے جو حال حجاج کے ساتھ کیا تھا وہ قوم کو آج تک یاد ہے۔ امید تھی کہ اس حکومت میں ایسا کوئی کام نہیں ہوگا۔ مانا کہ حکومت نے فراڈ نہیں کیا ہے مگر اس مسئلے کو جلدی حل کیا جائے۔
ایک قاری نے مجھے بتایا جن کی عمر 70 سال ہے کہ میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے پیسے جمع کرتا رہا اور حکومت کو 2,70,000 روپے ادا کردیے۔ انھوں نے برسر اقتدار حضرات کے لیے کہا کہ مجھے تو نہ حج نظر آرہا ہے اور نہ پیسے۔ خدارا برسر اقتدار اور خاص طور پر چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب ان بے کسوں پر رحم کرتے ہوئے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں اور اپنی دانشورانہ بصیرت سے اس مسئلے کو پہلی فرصت میں حل کروائیں۔
رب ذوالجلال نے پاکستانی قوم کو بہت صبر سے نوازا ہے، مسائل کی وجہ سے عوام کے حقوق ملیامیٹ ہوکر رہ گئے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، ایک پارٹی اپنوں کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے جن کو عوام نے انتظامی ڈھانچے کا قبلہ درست کرنے کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا تھا وہ اپنے بڑوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے سرگرداں ہیں کہ تاج 2018 میں پھر ان کے سر پر سجے۔
عدالتوں کے چکر لگانے کے باوجود بھی بہت پرامید ہیں۔ ایک پارٹی دعوے کرتی پھر رہی ہے کہ اس دفعہ اقتدار ہمارے پاس ہوگا، ایک پارٹی غیر سنجیدہ سیاست کرکے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہے اور ہر ضمنی الیکشن میں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ایک پارٹی ایسی ہے جو گزشتہ 25 سال سے ایک پلیٹ فارم پر کھڑی تھی، اب اس کے بھی حصے بخرے ہوئے، ان سب نے ادھم مچا رکھی ہے، کسی کے بھی دامن میں گراں خدمات کا لیبل نہیں۔
یہ کسی المیہ سے کم نہیں، ان سیاستدانوں میں بصیرت افروز خیالات کی کمی اتنی ہوچکی ہے کہ جو گریجویٹ ہے اور سلجھا ہوا ہے وہ ان کے بیانات پڑھنے کے بعد مایوسی کی دلدل میں اتر جاتا ہے۔ یہ لوگ مفادات کے جنگل میں سر پٹ دوڑ رہے ہیں، انھیں عوام سے کوئی لینا دینا نہیں، بس ان کی ہانڈی پکتی رہے۔ جب ان پر مشکل وقت آتا ہے تو یہ صرف اپنی ذات کو دیکھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ماضی کے حوالے سے جو یہ کہہ رہے ہیں کیا مستقبل میں کبھی ان کا بھی واسطہ پڑسکتا ہے۔ عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے اور آپس میں بے مقصد تصادم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے مگر یہ سلگتے عوام خاموش لب بستہ ہیں۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس ملک اور عوام کی تقدیر کوئی اللہ کا سپاہی ہی بدلے گا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب قومی سلامتی اور استحکام کے لیے جو کام کر رہے ہیں اس بنا پر قوم انھیں لمحہ لمحہ خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ ان سیاستدانوں کی مثال کچھ اس طرح بھی دی جاسکتی ہے کہ (1) 1977 میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے مارشل لا لگایا وہ ٹھیک تھا۔ (2) 1999 میں مشرف نے جو مارشل لا لگایا وہ غلط تھا۔ (3) 1988 میں جنرل ضیا نے جونیجو حکومت برطرف کی وہ ٹھیک تھی۔ (4) 1998 میں جنرل مشرف نے جو حکومت برخاست کی وہ غلط تھی۔ (5) 1990 میں سابق صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت پر 58 ٹو بی استعمال کی وہ ٹھیک تھا۔ (6) 1993 میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے خلاف 58 ٹو بی استعمال کی وہ غلط تھا۔ (7) 1994 میں بے نظیر کے خلاف جو تحریک نجات چلائی گئی وہ ٹھیک تھی۔ (8) 1998 اور 2014 میں نواز حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا وہ غلط تھا۔ (9) 1993 میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی وہ ٹھیک فیصلہ تھا۔ (10) 2017 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو برطرف کیا وہ غلط تھا۔ (11) 2012 میں سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا وہ ٹھیک تھا۔ (12) 2017 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا وہ غلط تھا۔ (13) 2008 میں مشرف دور میں اس کی ساری کی ساری ٹیم غلط تھی۔ (14) 2013 میں حکومت بنانے کے بعد مشرف کی آدھی ٹیم کو وزارتیں دینا ٹھیک تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر پی ٹی آئی اور پی پی پی مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو عوام مسائل کی دلدل سے کب کے نکل چکے ہوتے۔
اب میں قارئین کی توجہ ایک انتہائی اہم معاملے کی نذر کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حج ادا کرنے والوں کی تقریباً 3,75000 درخواستیں حکومت نے جمع کرائیں اور فی فرد 2,70,000 روپے وصول کیے۔ یہ ٹوٹل رقم بنتی ہے 194 ہزار ارب روپے۔ 24 جنوری آخری تاریخ تھی فارم جمع کرانے کی اور 26 جنوری کو قرعہ اندازی تھی ، جب کہ حجاج کے 40 دن سے کم کر کے 30 دن کردیے گئے اور مزے کی بات دیکھیں رقم یہی ہے یعنی 2,70,000 روپے۔ اب 40 دن کے بجائے 30 دن مقرر کردیے گئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جمعرات کو وزارت مذہبی امور نے جلد بازی میں 50 فی صد قرعہ اندازی کر ڈالی اور ناکام رہ جانیوالے درخواست گزاروں کو بینکوں سے پیسہ نکلوانے کی اجازت دے دی جس سے ہزاروں عازمین باقی ماندہ 17 فی صد کوٹہ سے محروم رہ سکتے تھے، تاہم اس غلطی کا جب پنجاب آئی ٹی بورڈ کو احساس ہوا تو فوراً فیصلہ ہوا کہ قرعہ اندازی میں کامیاب عازمین کے ساتھ ساتھ قرعہ اندازی میں ناکام عازمین کو بھی موبائل فون پر پیغام دیا جائے گا کہ وہ اب بھی ویٹنگ لسٹ میں موجود ہیں، پیسہ نہ نکلوائیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ پیسہ شرح سود 5 فیصد کے حساب سے بھی رکھا گیا ہے تو ایک ماہ کا پرافٹ 4 ارب روپے بنتا ہے اور اگر یہ پیسہ کسی اسلامی بینک میں ہوتا تو ایک لاکھ پر 290 روپے ملتے، اس طرح ایک ماہ میں 27 کروڑ روپے پرافٹ ملتا ہے۔ 40 دن کے بجائے 30 دن حج کے مقرر کردیے ہیں تو 10 دن کے پیسے کون واپس کرے گا اور اگر 10 دن کے پیسے حکومت واپس نہیں کرتی ہے تو وہ بے انصافی کے زمرے میں آئیگا۔ یا پھر حجاج حضرات کے لیے اعلیٰ مراعات کا اعلان کیا جائے۔ان کی ذہنی اذیت کا ادراک کیا جائے۔
افسوس اس مسئلے پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ صرف ایک شخص کو بچانے کے لیے سب دندناتے پھر رہے ہیں۔ اخلاقی ڈھانچہ ان سیاستدانوں نے تباہ کردیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ خوف خدا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلی حکومت میں ایک وفاقی وزیر نے جو حال حجاج کے ساتھ کیا تھا وہ قوم کو آج تک یاد ہے۔ امید تھی کہ اس حکومت میں ایسا کوئی کام نہیں ہوگا۔ مانا کہ حکومت نے فراڈ نہیں کیا ہے مگر اس مسئلے کو جلدی حل کیا جائے۔
ایک قاری نے مجھے بتایا جن کی عمر 70 سال ہے کہ میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے پیسے جمع کرتا رہا اور حکومت کو 2,70,000 روپے ادا کردیے۔ انھوں نے برسر اقتدار حضرات کے لیے کہا کہ مجھے تو نہ حج نظر آرہا ہے اور نہ پیسے۔ خدارا برسر اقتدار اور خاص طور پر چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب ان بے کسوں پر رحم کرتے ہوئے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں اور اپنی دانشورانہ بصیرت سے اس مسئلے کو پہلی فرصت میں حل کروائیں۔