مولانا روم اور اتاترک کے مزار پر

اتاترک کے مزار پر دعا اور نوافل کی ادائیگی کے بعد شاپ پر زائرین کو یاد گاری اشیاء خریدتے دیکھا۔

h.sethi@hotmail.com

ترکی میں ہمارا قیام صرف دس روز کا ہونے کی وجہ سے جبران نے اگلے ہی دن کے لیے استنبول سے قونیا کے لیے ٹرین کی ٹکٹیں لے رکھی تھیں جونہی گھڑی کی سوئی سوا سات پر پہنچی تو ٹرین روانگی کے لیے حرکت میں آ چکی تھی' اچھا ہوا میں نے پاسپورٹ ساتھ رکھ لیے تھے کیونکہ ایک پاکستانی کو جو پاسپورٹ جیب میں رکھنا بھول گیا تھا سفر کی اجازت نہ ملی ۔یوں اس کا وقت اور ٹکٹ منسوخی کا نقصان ہوا۔

دو سو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے باوجود ٹرین میں پیش کیا گیا ناشتہ ہم نے بڑے آرام سے کیا اور طلب کرنے پر ترک میزبان خاتون نے ہمیں دوبارہ کافی بھی خوش اخلاقی سے پلائی۔ ٹرین پہاڑیوں' درختوں' چھوٹے مکانوں' دیہاتوں' کھیتوں' سرنگوں اور کسی کسی جگہ سمندر کے مناظر دکھاتی ہوئی ایک منٹ زیادہ نہ کم میں پورے ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں مولانا رومی کے شہر KONYA لے گئی جہاں سے موٹر کیب کے ذریعے ہوٹل پہنچ گئے۔

ہمیں اگلی صبح9بجے انقرہ کے لیے ٹرین ہی سے روانہ ہونا تھا نصف گھنٹہ آرام کے بعد ہمارے پاس Konya کی سیاحت کے لیے 9گھنٹے تھے۔ ترکی میں خوبصورت گنبدوں اور طویل میناروں والی مسجدیں دیکھ دیکھ کر ہی ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے جب کہ ہمارے ہاں کے برعکس یہاں موذن بھی خوش الحال ہوتے ہیں۔ اکثر ریاستی اور دیگر عمارات پر قومی جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں۔ جھنڈوں کی ایسی بہتات اور بہار کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔

قونیا میں ہمارا پہلا پڑاؤ ہوٹل سے پیدل چل کر راستہ پوچھ پوچھ کر مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر تھا۔ دوپہر کے ساڑھے بجے وہاں زائرین کا ہجوم تھا۔ ہم نے میوزیم دیکھنا شروع کیا جو چھوٹے چھوٹے کمروں کی قطاروں پر مشتمل تھا۔ وہ ترکی کے شہر قونیا میں سکونت اختیار کر کے آخری وقت تک وہیں رہے۔ یوں قونیا کو عالمگیر شہرت مولانا رومی کا شہر اور ان کی آخری قیام گاہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔

میوزیم کے تیس سے زیادہ کمروں میں مختلف قسم کے تبرکات شیشے کے بکسوں میں ڈسپلے کیے گئے ہیں ان میں مولانا کی بیٹی فاطمہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک اور اس کے علاوہ کئی ہاتھ سے لکھے آیات و قرآن کے خوبصورت نسخے تھے۔ کئی جگہ مولانا کے زیراستعمال رہے سامان اور دیگر اشیاء کا ڈسپلے تھا۔

مولانا کی ٹوپی عربی فارسی اور ترکی میں لکھی تحریریں ایک صوفے پر ٹوپی پہنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے مولانا کی شبیہ اور ان کے زیراستعمال کپڑے تھے۔ مزار کے حصے سے مسجد باالکل الگ ہے۔ مزار میں مولانا کی قبر کے برابر ان کے بیٹے ولید اور دیگر ساتھیوں کی قبریں تھی۔ مزار کے مرکز میں شیشے کے اندر محفوظ کیا ہوا ایک خوبصورت بڑے پاندان کی شکل کا بکس تھا۔

بتایا گیا کہ اس میں حضورؐ کی ریش مبارک کے بال ہیں، بکس کے چاروں کونوں میں باریک سوراخ تھے' کئی لوگ ان کے قریب ناک لا کر سوراخوں کو سونگھ رہے تھے، ہم نے بھی ایسا کیا تو ہلکی خوشبو آئی، ایک بزرگ نے بتایا کہ ان سوراخوں پر کسی قسم کا سپرے نہیں کیا گیا۔ صدیوں سے اس مہک کا ماخذ وہ ریش مبارک ہے جس کے بالوں سے وہ ہلکی خوشبو آج تک آ رہی ہے۔

امام غزالی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی بیٹا دنیا میں ایمان کے بعد اگر کوئی چیز ڈھونڈنا ہو تو اچھا دوست ڈھونڈو کیونکہ اچھا دوست ایسے درخت کی مانند ہے جو سایہ بھی دے گا اور پھل بھی شاید اسی لیے مولانا رومی نے شمس تبریز میں ایک دوست ایک استاد اور ایک رفیق تلاش کیا تھا جب کہ وہ خود ایک بے مثال شاعر' قانون دان اور اسلامی اسکالر ہونے کے علاوہ حب الٰہی میں غرق شخصیت تھے۔

مثنوی رومی صوفی شاعری کی ایسی اعلیٰ تخلیق ہے جس سے متاثر ہو کر علامہ اقبال نے اس کا زبانِ شعر ہی میں ترجمہ کیا۔ علامہ محمد اقبال کا اسی حوالے سے کتبہ مزار رومی میں موجود ہے۔


دو گھنٹے مزار رومی میں گزار کر ہم مزار شمس تبریز پہنچے وہاں بھی نوافل ادا کر کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر عالم' شاعر اور خلوت پسند سیلانی کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں جو مولانا رومی تک سے فرار حاصل کر لیتے اور مولانا انھیں ڈھونڈ نکالتے۔ مولانا ایک صاحب ثروت جب کہ شمس فاقہ کش شخصیت تھے۔ مولانا نے انھیں تنہائی کی زندگی سے نکالنے کے لیے اپنی سوتیلی بیٹی سے شادی بھی کرا دی تھی لیکن وہ پھر فرار ہو کر گم ہو گئے تھے جب کہ ان کی نو عمر خوبصورت اور نازوں میں پلی بیوی اس جدائی میں انتقال کر گئی۔

قونیا میں شام کے وقت جبران ہمیں تتلی گھر نامی میوزیم دکھانے لے گیا۔ تتلیاں تو ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں بلکہ کھیل کھیل میں پکڑتے بھی رہے ہیں لیکن بے شمار رنگ برنگی اور بڑے سائز کی تتلیوں کا وسیع میوزیم پہلی بار دیکھا۔ ان کی افزائش خوراک اور اڑان دیکھ کر لطف آ گیا۔ میوزیم میں بے شمار پھولوں کے پودے تھے۔ تتلیاں ان پر بیٹھ کر رس چوستیں اور کبھی تماشائیوں کے کندھوں پر آ بیٹھتیں۔ تتلیوں کے اتنے رنگ اور ان رنگوں کے ڈیزائن کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میوزیم میں خطرناک کیڑے بھی شیشے کے کمرے میں رکھے دیکھنے کو ملے۔

رات آٹھ بجے قونیا میونسپل آڈیٹوریم جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ کرسیاں گولائی میں رکھی گئی تھیں جن کے درمیان گول اسٹیج تھا۔ پہنچنے ترکی زبان اور انگریزی میں تعارفی تقاریر کے بعد جلتی بجھتی روشنیوں میں رقص پیش کرنے درویشوں کی آمد شروع ہو گئی۔Wherling Darvash کا مشہور زمانہ رقص ہونے جا رہا تھا۔ ایک درویش نے مولانا رومی کی صورت جائے نماز بجھا کر قبلہ روسجدہ کیا۔ دوسرا درویش استاد تھا ان کے پیچھے 27 درویش اسٹیج پر گولائی میں آ کر بیٹھ گئے۔

موسیقی کے دوران وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک خاص انداز میں مولانا کے Symbal درویش کے سامنے سے تعظیم میں سر کو جھکا کر گزرنے کے بعد الٹے پاؤں چل کر سیدھے ہو جاتے اور ایک ایک کر کے رقص میں شامل ہو جاتے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد رقص کے دور چلتے اور وقفہ لیتے رہے۔ موسیقی کی دھن کبھی مدھم کبھی تیز ہوتی رہی۔ اس رات پہلی بار اتنا بھرپور اور مسحور کن درویشوں کا رقص جسے Wherling Darvesh کہتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے تک قونیا میں دیکھا۔

آئندہ صبح کی ٹرین سے ہمیں قونیا سے انقرہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس لیے سارے دن کے تھکے ہوٹل پہنچتے ہی سو گئے ٹرین کا ڈھائی گھنٹے کا سفر رہا اور ہم انقرہ کے شاندار ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ ایک ریسٹورنٹ میں کافی پی کر ٹیکسی پکڑی اور میوزیم و مزار اتاترک پہنچ گئے۔

ہم سب نے قائداعظم کے پاکستان کو جس میں Unity کے علاوہ Faith اور Diripline قائم کیے جانے تھے مال غنیمت کی طرح لوٹنے اور برباد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی، لیکن ترکوں نے اپنے اتاترک یعنی باپ کی وراثت کو جس طرح سنبھالا ہے میں نے صرف استنبول قونیا اور انقرہ کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا۔ ہماری اس منزل کا پورا نام Attatwark and of independence Museum ہے۔

میوزیم میں جنگ آزادی کی بہت سی تصاویر کے علاوہ جنگ کے سازوسامان سمیت توپوں بندوقوں کی آوازوں کے ساتھ منظر کشی کی گئی تھی۔ میوزیم میں بے شمار تصاویر' جنگی سامان اور تحریروں کے ذریعے مصطفے کمال پاشا اور ان کے ساتھیوں کی بے مثال جدوجہد کی کہانیاں بیان ہوئی تھیں۔ میوزیم کی اکثر جگہوں پر فوٹو گرافی کی ممانعت جب کہ کئی جگہ اجازت کے ساتھ فلیش کا استعمال منع تھا۔

اتاترک کے زیراستعمال اشیاء کا ڈسپلے تھا۔ ان میں پاشا کی کلائی کی گھڑی' تلواریں' خنجر' میڈل' سگریٹ کیس' سگار' کی رِنگ' سکے' بٹوے' پانی کے جگ گلاس' پین نوٹ بک' چائے کی پیالیاں' پلیٹیں' تیل والا لیمپ' کف لنکس' پرفیوم' یونیفارم وغیرہ یاد رہ گئیں۔

اتاترک کے مزار پر دعا اور نوافل کی ادائیگی کے بعد شاپ پر زائرین کو یاد گاری اشیاء خریدتے دیکھا، خود خریداری کی اور پھر انقرہ شہر کے خوبصورت راستوں اس کی فلک بوس عمارتوں کو ٹیکسی میں سیر کرتے ہوئے دیکھا۔ شام ہوتے ہی انقرہ روشنیوں سے جگمگا اٹھا اور ہم استنبول واپسی کی ٹرین پکڑنے کے لیے ریلوے کے طلسم کدے میں داخل ہو گئے۔
Load Next Story