یہ الیکشن یا ریفرنڈم ہو گا
اپنے اپنے صوبوں میں کارکردگی کے بارے میں ریفرینڈم ہوگا دیکھتے ہیں کہ اس ریفرینڈم میں جیت کس کی ہوتی ہے۔
DUBAI:
آیئے سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ ہمارے حکمران آنے والے الیکشن سے نجات پا لیں۔وہ اچھے بھلے آرا م کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے ہی بقول ان کے ساتھ قوم بھی ترقی اور خوشحالی کے مزے اُڑا رہی ہے اس وجہ سے حکمران اس بات کو ضروری سمجھ رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں بھی اگر عوام کو یہی ترقی اور خوشحالی چاہیئے تو ان کو ووٹ دیں اس ترقی اور خوشحالی کے سفر کو جاری رکھیں۔
حکمرانوں کی خواہشات کو اگر دیکھا جائے تو پانچ سال کے بعد ترقی اورخوشحالی کے باوجود عوام کے پاس دوبارہ ووٹ کے حصول کے لیے جانا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن ایک کتاب یا کتابچہ ہے جسے آئین کہا جاتا ہے اس میں الیکشن کے لیے کہا گیا ہے لیکن جو سیاستدان اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہیں وہ اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے ہیں اور اس کتاب کو بوقت ضرورت استعمال بھی کیا جاتا ہے اور اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں نکال کر ان پر عمل کر لیا جاتا ہے اور اس کتاب کے ایسے ماہرین موجود ہیں جو کہ ہر طرح کی صورتحال میں اس کتاب میں سے کوئی نہ کوئی ایسی درفطنی نکال لیتے ہیں جو کہ وقت کے حکمران کو پسند آجاتی ہے اور وہ اس کے سہارے موج اُڑاتا رہتا ہے۔ جس کسی نے آئین بنایا تھا اس نے غالباً حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے یہ حرکت کی تھی۔
یہ آئین آخر ہے ہی کیا اس آئین کی اصل حقیقت کے بارے میں مرحوم صدر ضیاء الحق نے ان چند ورقوں کو پھاڑ کر پرے پھینکنے کی بات کی تھی۔ صدر ضیاء کے جانشینوں نے اگرچہ اس وقت تک ایسی کوئی بات نہیں کہی لیکن آخر کسی نے صدر ضیاء الحق کا کیا بگاڑ لیا تھا جو ان کے جانشینوں کا بگاڑ لے گا۔ یہ جو الیکشن ہے یہ اسی آئین نامی کتاب کا کیا دھرا ہے اور حالات کاکچھ پتہ نہیں کہ کس قدر خراب ہو جائیں کہ ان کے اندر الیکشن جیسا قومی سرگرمی اور حرکت کا عمل مشکل ہو جائے اور کوئی بھی بہانہ بنا کر اسے قومی مفاد میں مناسب نہ سمجھا جائے۔
اس لیے عرض ہے کہ اقتدار کے شیدائی سب لوگ خصوصاً اقتدار کے لیے بے صبرے نوجوان باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ جائیں اور یہ دعائیں شروع کر دیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہو جائیں۔ ان دنوں ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور وہ ہے آئندہ الیکشن کا جس میں ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اس ملک کے مستقبل کے حکمران وہ ہی ہوں گے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان دعویداروں میں سے صرف ایک کو چھوڑ کر باقی سب کو ہم کئی بار بھگت چکے ہیں اور ان کی حکمرانی میں آسودگی کے مزے چکھ چکے ہیں ایک بار پھر وہی لوگ دعویدار ہیں کہ ماضی میں ان کی بد ترین حکمرانی کے باوجودعوام ایک بار پھر ان ہی کو منتخب کریں گے اس کو اک دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کے حالات سے قوم گزر رہی ہے وہ اگر ایک بار پھر ان ہی آزمودہ لوگوں کو اپنے سر پر بٹھانا چاہتی ہے تو پھر اس قوم اور اس ملک کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔
الیکشن کے لیے اگر کسی جماعت کو جلدی ہے تو وہ تحریک انصاف ہے جس کے لیڈروں نے ابھی قومی سطح پر حکمرانی کا مزہ نہیں چکھا اور گزشتہ الیکشن میں صرف ایک صوبہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے اور اس صوبہ میں دودھ اور شہد کی نہروں کے دعوے بھی کیے گئے جن کا فیصلہ آنے والا الیکشن کرے گا کہ خیبر پختونخوا کے عوام کس حد تک ان دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید ہوئے ۔ پٹھانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر بار اپنی حکمرانی کے لیے نئے لیڈر منتخب کرتے ہیں اگلا الیکشن یہ بتائے گاکہ تحریک انصاف نے ان کے ساتھ پانچ سال تک کس حد تک انصاف کیا۔
سیاستدان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جیت کے بعد الیکشن کا عمل دوبارہ جلد نہ ہو کیونکہ ہر سیاستدان عوام کے پاس جانے سے خوفزدہ رہتا ہے چونکہ اس کو عوام کے موڈ کا علم ہوتا ہے اس لیے وہ الیکشن میں اُلٹ پلٹ کے عمل سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ الیکشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا مشاہدہ ہم سب کر رہے ہیں کہ مقبول عام پارٹیاں الیکشن میں اس بری طرح ہار گئیں جن کے بارے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے الیکشن کی اگر کسی کو جلدی ہے تو وہ ہمارے 'نوجوان' لیڈر عمران خان کی پارٹی کو ہے جو کہ جلد از جلد اقتدار سنبھال کر ملک کے تمام مسائل کو راتوں رات ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔
اس وقت یہ واحد پارٹی ہے جو اقتدار میں نہیں آئی اور جس کے لیڈر پر کوئی داغ دھبہ نہیں اس لیے جناب عمران خان علی الاعلان بقیہ تمام سیاستدانوں کو مطعون ٹھہراتے ہیں اور ان کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اگلی باری ان کی ہے۔ ان کے مخالف سیاستدان اس ٹوہ میں ہیں کہ کس بل بوتے پر عمران اتنے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں البتہ ابھی تک کے حالات میں ایک اچھی اپوزیشن کا کردار انھوں نے ضرور ادا کیا ہے لیکن آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی ابھی واضح نظر نہیں آرہی ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ ملک کی حکمران جماعت نواز لیگ کو سیاسی میدان میں زبردست مقابلہ دیں گے اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہی مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔
اب یہ بال شہباز شریف کے کورٹ میں پہنچ چکی ہے کہ وہ صوبہ پنجاب میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں آنے والا الیکشن شہباز شریف اور عمران خان کی پارٹی کی اپنے اپنے صوبوں میں کارکردگی کے بارے میں ریفرینڈم ہوگا دیکھتے ہیں کہ اس ریفرینڈم میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ ضیاء الحق کے جانشین ریفرینڈم کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
آیئے سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ ہمارے حکمران آنے والے الیکشن سے نجات پا لیں۔وہ اچھے بھلے آرا م کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے ہی بقول ان کے ساتھ قوم بھی ترقی اور خوشحالی کے مزے اُڑا رہی ہے اس وجہ سے حکمران اس بات کو ضروری سمجھ رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں بھی اگر عوام کو یہی ترقی اور خوشحالی چاہیئے تو ان کو ووٹ دیں اس ترقی اور خوشحالی کے سفر کو جاری رکھیں۔
حکمرانوں کی خواہشات کو اگر دیکھا جائے تو پانچ سال کے بعد ترقی اورخوشحالی کے باوجود عوام کے پاس دوبارہ ووٹ کے حصول کے لیے جانا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن ایک کتاب یا کتابچہ ہے جسے آئین کہا جاتا ہے اس میں الیکشن کے لیے کہا گیا ہے لیکن جو سیاستدان اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہیں وہ اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے ہیں اور اس کتاب کو بوقت ضرورت استعمال بھی کیا جاتا ہے اور اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں نکال کر ان پر عمل کر لیا جاتا ہے اور اس کتاب کے ایسے ماہرین موجود ہیں جو کہ ہر طرح کی صورتحال میں اس کتاب میں سے کوئی نہ کوئی ایسی درفطنی نکال لیتے ہیں جو کہ وقت کے حکمران کو پسند آجاتی ہے اور وہ اس کے سہارے موج اُڑاتا رہتا ہے۔ جس کسی نے آئین بنایا تھا اس نے غالباً حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے یہ حرکت کی تھی۔
یہ آئین آخر ہے ہی کیا اس آئین کی اصل حقیقت کے بارے میں مرحوم صدر ضیاء الحق نے ان چند ورقوں کو پھاڑ کر پرے پھینکنے کی بات کی تھی۔ صدر ضیاء کے جانشینوں نے اگرچہ اس وقت تک ایسی کوئی بات نہیں کہی لیکن آخر کسی نے صدر ضیاء الحق کا کیا بگاڑ لیا تھا جو ان کے جانشینوں کا بگاڑ لے گا۔ یہ جو الیکشن ہے یہ اسی آئین نامی کتاب کا کیا دھرا ہے اور حالات کاکچھ پتہ نہیں کہ کس قدر خراب ہو جائیں کہ ان کے اندر الیکشن جیسا قومی سرگرمی اور حرکت کا عمل مشکل ہو جائے اور کوئی بھی بہانہ بنا کر اسے قومی مفاد میں مناسب نہ سمجھا جائے۔
اس لیے عرض ہے کہ اقتدار کے شیدائی سب لوگ خصوصاً اقتدار کے لیے بے صبرے نوجوان باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ جائیں اور یہ دعائیں شروع کر دیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہو جائیں۔ ان دنوں ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور وہ ہے آئندہ الیکشن کا جس میں ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اس ملک کے مستقبل کے حکمران وہ ہی ہوں گے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان دعویداروں میں سے صرف ایک کو چھوڑ کر باقی سب کو ہم کئی بار بھگت چکے ہیں اور ان کی حکمرانی میں آسودگی کے مزے چکھ چکے ہیں ایک بار پھر وہی لوگ دعویدار ہیں کہ ماضی میں ان کی بد ترین حکمرانی کے باوجودعوام ایک بار پھر ان ہی کو منتخب کریں گے اس کو اک دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کے حالات سے قوم گزر رہی ہے وہ اگر ایک بار پھر ان ہی آزمودہ لوگوں کو اپنے سر پر بٹھانا چاہتی ہے تو پھر اس قوم اور اس ملک کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔
الیکشن کے لیے اگر کسی جماعت کو جلدی ہے تو وہ تحریک انصاف ہے جس کے لیڈروں نے ابھی قومی سطح پر حکمرانی کا مزہ نہیں چکھا اور گزشتہ الیکشن میں صرف ایک صوبہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے اور اس صوبہ میں دودھ اور شہد کی نہروں کے دعوے بھی کیے گئے جن کا فیصلہ آنے والا الیکشن کرے گا کہ خیبر پختونخوا کے عوام کس حد تک ان دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید ہوئے ۔ پٹھانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر بار اپنی حکمرانی کے لیے نئے لیڈر منتخب کرتے ہیں اگلا الیکشن یہ بتائے گاکہ تحریک انصاف نے ان کے ساتھ پانچ سال تک کس حد تک انصاف کیا۔
سیاستدان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جیت کے بعد الیکشن کا عمل دوبارہ جلد نہ ہو کیونکہ ہر سیاستدان عوام کے پاس جانے سے خوفزدہ رہتا ہے چونکہ اس کو عوام کے موڈ کا علم ہوتا ہے اس لیے وہ الیکشن میں اُلٹ پلٹ کے عمل سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ الیکشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا مشاہدہ ہم سب کر رہے ہیں کہ مقبول عام پارٹیاں الیکشن میں اس بری طرح ہار گئیں جن کے بارے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے الیکشن کی اگر کسی کو جلدی ہے تو وہ ہمارے 'نوجوان' لیڈر عمران خان کی پارٹی کو ہے جو کہ جلد از جلد اقتدار سنبھال کر ملک کے تمام مسائل کو راتوں رات ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔
اس وقت یہ واحد پارٹی ہے جو اقتدار میں نہیں آئی اور جس کے لیڈر پر کوئی داغ دھبہ نہیں اس لیے جناب عمران خان علی الاعلان بقیہ تمام سیاستدانوں کو مطعون ٹھہراتے ہیں اور ان کو یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اگلی باری ان کی ہے۔ ان کے مخالف سیاستدان اس ٹوہ میں ہیں کہ کس بل بوتے پر عمران اتنے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں البتہ ابھی تک کے حالات میں ایک اچھی اپوزیشن کا کردار انھوں نے ضرور ادا کیا ہے لیکن آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی ابھی واضح نظر نہیں آرہی ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ ملک کی حکمران جماعت نواز لیگ کو سیاسی میدان میں زبردست مقابلہ دیں گے اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہی مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔
اب یہ بال شہباز شریف کے کورٹ میں پہنچ چکی ہے کہ وہ صوبہ پنجاب میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں آنے والا الیکشن شہباز شریف اور عمران خان کی پارٹی کی اپنے اپنے صوبوں میں کارکردگی کے بارے میں ریفرینڈم ہوگا دیکھتے ہیں کہ اس ریفرینڈم میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ ضیاء الحق کے جانشین ریفرینڈم کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔