پشاور NA1 سیاستدانوں کیلئے سب سے پرکشش حلقہ

این اے۔1 کی اہمیت کو مد نظررکھتے ہوئے ہی ماضی میں یہاں سے محترمہ بے نظیر بھٹو بھی الیکشن کے لیے میدان میں اتریں۔

این اے۔1 کی اہمیت کو مد نظررکھتے ہوئے ہی ماضی میں یہاں سے محترمہ بے نظیر بھٹو بھی الیکشن کے لیے میدان میں اتریں۔ فوٹو: فائل

این اے ون کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ یہ ملک بھر میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ ہے اور قومی اسمبلی کا آغاز اسی حلقہ سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ حلقہ ہمیشہ سے تمام سیاستدانوں کیلئے سب سے پرکشش حلقہ رہا ہے۔

این اے۔1 کی اہمیت کو مد نظررکھتے ہوئے ہی ماضی میں یہاں سے محترمہ بے نظیر بھٹو بھی الیکشن کے لیے میدان میں اتریں، آفتاب شیر پاؤ نے بھی یہاں سے قسمت آزمائی کی تاہم بیشتر انتخابات میں اے این پی کے حاجی غلام احمدبلورہی کامیاب ہوتے آئے ہیں۔2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے یہ سیٹ جماعت اسلامی کے شبیراحمدخان بھی جیت چکے ہیں۔ 11 مئی 2013ء کو اس حلقہ میں ہونے والے الیکشن میں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، پیپلزپارٹی کے احمد فہیم ، ذوالفقارافغانی یاسابق ضلع ناظم اعظم آفریدی، جماعت اسلامی کے شبیر احمد خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے حاجی شاہنواز کے ساتھ ہونے کا امکان ہے۔

عمران خان ایک نئے امیدوار کے طور پر سامنے آرہے ہیں جنھیں اس حلقہ میں لانے والوں کا موقف واضح ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اگر الیکشن کا رخ اپنے حق میں موڑنا چاہتی ہے تو اس کے لیے عمران خان کا میدان میں آنا ضروری ہے۔این اے ون سے مسلم لیگ (ن) نے حاجی محمد افضل کو ٹکٹ دیا ہے جنھیں اس سے قبل بھی پی کے ٹو پر ٹکٹ دیاجاتا رہا ہے اور حاجی محمد جاوید کے چھوٹے بھائی ہونے کا انھیں فائدہ حاصل ہے ۔



2008 ء کے انتخابات میں حلقہ این اے ون پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 387083 تھی جن میں سے 88913 ووٹ پول ہوئے جبکہ پولنگ کی شرح 22.97 فیصد رہی کیونکہ جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اوربعض دیگرجماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے عوام کی جانب سے الیکشن میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا ۔ان انتخابات میںحاجی غلام احمد بلور نے 44210 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے سید ایوب شاہ کو 37682 ووٹ ملے تھے۔پچھلے انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو

1988 ء میں ضیاء الحق کی وفات کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحٰق خان کی نگرانی میں عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر آفتاب احمد شیر پاؤ اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حاجی غلام احمد بلور کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں آفتاب احمد شیر پاؤ 44658 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ ان کے مقابلے میں حاجی غلام احمد بلور نے 35947 ووٹ حاصل کیے تھے۔ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے یہ نشست خالی کردی تھی اورصوبائی سیٹ اپنے پاس رکھ کر صوبہ کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔اس نشست پرمنعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کامیاب ہوگئے جنھیں پیپلزپارٹی کی بھی حمایت حاصل تھی کیونکہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے درمیان عام انتخابات کے بعد اتحاد ہوگیا تھا۔

1990 ء کے انتخابات میں حاجی غلام احمدبلور بے نظیر بھٹو کو شکست دے کر اس حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے ،ان انتخابات میںحاجی غلام احمد بلور نے 51233 جبکہ ان کے مقابلے میں محترمہ بے نظیربھٹونے 38951 ووٹ حاصل کیے تھے اوران انتخابات کے بعد حاجی غلام احمد بلور میاں نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ 1993ء کے انتخابات کا میدان جب سجا تو عوامی نیشنل پارٹی نے اس مرتبہ بھی حاجی غلام احمد بلورکوہی ٹکٹ جاری کیا جبکہ پیپلزپارٹی پشاور کی نامی گرامی شخصیت آغا سید ظفرعلی شاہ کو میدان میں لائی ، آغا سید ظفر علی شاہ نے 40343 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ حاجی غلام احمدبلور35755 ووٹ حاصل کرکے شکست کھا گئے۔



1997 ء میں جب عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو این اے ون پر الیکشن میں حصہ لینے والے ایک امیدوار گل فراز کے اچانک انتقال کی وجہ سے عام انتخابات کو مذکورہ حلقہ پر ملتوی کردیا گیا اور دو ماہ بعد اپریل کے مہینہ میں اس حلقہ پر الیکشن کا انعقاد ہو اجس میں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے اپنے مقامی سطح پر جانے پہچانے رہنما سید قمر عباس کو میدان میں اتارا۔ حاجی غلام احمد بلور نے 25930 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ انکے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے سید قمر عباس 11275 ووٹ حاصل کرپائے تھے۔

مذکورہ انتخابات حاجی غلام احمد بلور جیت تو گئے تاہم یہ الیکشن پشاور کے لیے اس اعتبار سے خونی ثابت ہوئے کہ مذکورہ الیکشن میں حاجی غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحبزادے شبیر احمد بلور قتل ہوگئے جس کا الزام بلور فیملی نے سید قمر عباس پر لگایا جس کی وجہ سے سید قمر عباس بعد میں کئی سالوں تک جیل میں بھی رہے اور 2007 ء میں جب سید قمر عباس کو ان کی خواہر نسبتی کے صاحبزادہ کے ساتھ فائرنگ کرکے ہلا ک کیا گیا تو اس کا الزام بلور فیملی پر لگا۔ بعدازاں دونوں خاندانوں کے درمیان راضی نامہ پر یہ تنازع ختم کرادیا گیا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار سنبھالنے اور تین سال تک اقتدار غیر منتخب افراد کے ذریعے چلانے کے بعد جب 2002 ء کے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا تو ان انتخابات کے حوالے سے شرط عائد کردی گئی کہ صرف وہی امیدوار عام انتخابات میں حصہ لے پائیں گے جن کے پاس گریجوایشن کی ڈگری ہوگی ،بی اے کی شرط آڑے آنے کی وجہ سے حاجی غلام احمد بلور انتخاب نہ لڑسکے اور اے این پی نے اس حلقہ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاجی غلام احمد بلور کے بھتیجے اور سابق سینئر وزیر بشیر احمدبلور کے صاحبزادے عثمان احمد بلور کو دے دیا۔



ان انتخابات میں اے این پی اور پیپلزپارٹی نے 1988 ء کے بعد ایک مرتبہ پھر اتحاد کا تجربہ کیا اور دونوں جماعتیں مشترکہ امیدوار میدان میں لے کر اتریں ۔اس لیے عثمان بلور کو اے این پی کے ساتھ پیپلزپارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی اورتوقع کی جارہی تھی کہ وہ آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد بننے والے دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے جماعت اسلامی کے شبیر احمد خان کو ٹکٹ دے کر اس حلقے میں اتارا ۔ ایم ایم اے کے شبیراحمدخان منتخب ہوگئے اور عثمان بلور یہ انتخاب ہارگئے۔2008ء کے انتخابات میں حاجی غلام احمدبلورکوہی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اب جبکہ 2013 ء کے انتخابات ہونے جارہے ہیں تو حاجی غلام احمد بلور ہی اے این پی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ پھر اسی حلقہ سے قسمت آزمائی کریں گے۔


1988 ء سے 2008 ء کے دوران منعقد ہونے والے چھ عام انتخابات کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد بخوبی پتا چلتا ہے کہ اس حلقہ کے عوام بار ،بار حاجی غلام احمد بلور پرہی اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں تاہم اگر این اے ون میں شامل علاقوں کو جائزہ لیاجائے پورا اندرون شہر کا علاقہ ہے تو یہ بات بڑی واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو ترقیاتی کام اتنے ہوئے ہیں جتنا اس حلقہ کا حق تھا اور نہ ہی این اے ون میں کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی دیکھنے کو ملتی ہے ،ہر الیکشن کے آنے سے قبل گلیاں اور نالیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں تاہم پشاور میں مرکزی حیثیت رکھنے کی وجہ سے اس حلقہ میں جس طریقہ سے مختلف ترقیاتی کام ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں ہوسکے ،ابھی حال ہی میں ختم ہونے والے اے این پی کی حکومت کے دور میں دو فلائی اوور ضرور بنے ہیں اور سابق گورنر سید افتخار حسین شاہ کے دور میں شروع اور ایم ایم اے دور میں ختم ہونے والی سورے پل فلائی اوور کے علاوہ اس پورے علاقہ میں کوئی بھی ایسا میگا پراجیکٹ نظر نہیں آتا جسے این اے ون کے شایان شان کہا جاسکے ۔

پی کے 1' پشاور

خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی کا پہلا حلقہ پی کے ون جو 2002 ء کے انتخابات سے تبدیل ہوچکا ہے اور اب دلہ زاک روڈ،فقیر آباد ،رنگ روڈ اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔2008 ء کے انتخابات میں پی کے۔1 کی اس نشست پر اصل مقابلہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہوا جس میں میدان اے این پی عالمزیب کے ہاتھ رہا جبکہ پیپلزپارٹی کے اکبر خان نے دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ ڈاکٹر ذاکر شاہ تیسرے نمبر پر رہے ۔اب 2013 ء کے عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے اکبر خان ایڈووکیٹ،اے این پی کے غضنفر بلور ،جماعت اسلامی کے ضلعی امیر بحر اللہ ایڈوکیٹ،قومی وطن پارٹی کے ملک ندیم،تحریک انصاف کے سلیم جان ،مسلم لیگ(ن)کے اقبال ظفر جھگڑا ،ڈاکٹر ذاکر شاہ اور جے یو آئی کے عرفان اللہ شاہ مابین انتہائی کاٹنے دار مقابلہ کا امکان ہے۔

1988 ء کے انتخابات میں پی ایف ون پر پیپلزپارٹی کے سید ایوب شاہ اور اے این پی کے بشیر احمد بلور کے درمیان مقابلہ تھا ،گو کہ اس مقابلہ میں جے یو آئی (ف)کے امیدوار حاجی غلام علی (موجودہ سنیٹر)بھی موجود تھے تاہم سید ایوب شاہ 13442 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے، بشیر احمد بلور نے 11197 ووٹ لیے جبکہ ان کے مقابلے میں حاجی غلام علی نے صرف 3118 ووٹ لیے تھے ۔1988ء کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اے این پی کے بشیر احمد بلور نے 1990 سے 1997 ء تک مسلسل اس حلقہ پر کامیابی حاصل کی جن میں 1993 ء کے انتخابات اس اعتبار سے اعصاب شکن تھے کہ اس میں بشیر بلور نے میدان صرف 42 ووٹوں کے مارجن سے مارا تاہم 1997 ء میں ایک مرتبہ پھر دونوں میں ووٹوں کا فرق بڑھ کر 11ہزار پر پہنچ گیا ۔

2002 ء کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں ہونے کے بعد مذکورہ حلقہ میں نئے علاقے شامل ہوگئے اور اس حلقہ سے 2002 ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن کرنے والے ڈاکر ذاکر شاہ نے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مقابلے میں نہ صرف پیپلزپارٹی کے سید ایوب شاہ بلکہ مسلم لیگ(ق)کے آغا سید علی شاہ بھی ناکام رہے اور ان ناکام امیدواروں میں پیپلزپارٹی شیر پاؤ(قومی وطن پارٹی)کے ملک ندیم بھی شامل تھے

پی کے 2 پشاور

پشاور کے حلقہ پی کے 2 جو اندرون شہر گلبہار ،لاہور ی ،کریم پورہ ،گنج اور شیخ آباد سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل ہے کو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے تاہم یہاں سے ماضی میں مسلم لیگ ن بھی کامیابی حاصل کرتی آئی ہے۔ 2008 ء کے انتخابات میں اس نشست پر اصل مقابلہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہوا ،پیپلز پارٹی کے امیدوار سید ظاہرعلی شاہ جبکہ اے این پی کے ہارون بلور تھے ۔ سید ظاہرعلی شاہ کواس نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ۔

2002 ء کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں ہونے کے بعد پی ایف 2 کی حدود لگ بھگ وہی رہیں جو اس سے قبل کے انتخابات میں تھیں اور اس نشست پر پیپلزپارٹی نے سید ظاہرعلی شاہ کو میدان میں اتارا جنھیں اے این پی کی حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ اس الیکشن میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کاآپس میں اتحاد تھا تاہم اس مرتبہ ان دونوں پارٹیوں کے امیدوار کا مقابلہ متحدہ مجلس عمل کے اویس احمد قادری ایڈووکیٹ سے تھا، تاہم سید ظاہرعلی شاہ گیارہ ہزار سے زائد ووٹ لے کر میدان مار گئے۔

اس سے پچھلے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو1988 ء کے انتخابات میں پی ایف ٹو سے پیپلزپارٹی کے سید قمر عباس نے کامیابی حاصل کی جبکہ اے این پی کے حاجی محمد عدیل اور آئی جے آئی کے شبیر احمد رنر اپ رہے ،1990 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اس حلقہ سے آغا سید ظفر علی شاہ کو میدان میں اتارا تاہم وہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور اس حلقہ سے آئی جے آئی کے امیدوار حاجی محمد جاوید کامیاب ہوئے، 1993ء میں پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر یہ حلقہ واپس لے لیا اور اس حلقہ سے سید قمر عباس کامیاب ٹھہرے جن کے مقابلہ کرنے والے مسلم لیگ(ن)کے آغاسیدعلی شاہ ساڑھے آٹھ سو ووٹوں کے فرق سے رنر اپ ٹھہرے ۔

تاہم 1997 ء کے انتخابات میں آغاسید علی شاہ نے مسلم لیگ(ن)ہی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے سید قمر عباس کے ساتھ حساب برابر کردیا اور نشست پر کامیابی حاصل کی ۔2013 کے انتخابات کے لیے پی کے 2 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار تو سید ظاہرعلی شاہ ہی ہیں تاہم اے این پی اپنے سیکرٹری اطلاعات ملک غلام مصطفی کو میدان میں اتاررہی ہے ،جماعت اسلامی کی جانب سے سراج الدین قریشی اور جے یو آئی (ف)نے مولانا خیر البشر کو ٹکٹ دیا ہے،تحریک انصاف کی جانب سے یونس ظہیر ایڈوکیٹ اور مسلم لیگ(ن)کی جانب سے سید بادشاہ میدان میں ہیں جس سے اس نشست پر سخت مقابلے کا امکان ہے ۔

پی کے 3 پشاور

پشاور کا پی کے تین کا حلقہ جو آج پرانے پی ایف ون کے علاقوں پر مشتمل ہے 1997 ء تک یونیورسٹی روڈ اور تہکال سمیت ان علاقوں پر مشتمل تھا جو اس وقت پی کے پانچ میں شامل ہیں ۔2008 ء میں اس حلقہ سے بشیر احمد بلور16648ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی ان کامقابلہ پیپلزپارٹی کے محمد اقبال مہمند سے تھا جنہوںنے 12506 ووٹ حاصل کیے۔

پی کے3 پر 1998 ء میں ارباب محمد جہانگیر سابق وزیراعلیٰ نے کامیابی حاصل کی تاہم 1990 سے 1997 ء تک اس نشست پر اے این پی اے این پی کے ارباب سیف الرحمن جیتتے رہے جن کے مقابلے میں عالمگیر خلیل نے دو مرتبہ شکست کھائی ۔2002 ء میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت مذکورہ حلقہ اندرون پشاور کے ان حلقوں پر مشتمل ہوگیا جو پرانے پی ایف ون میں شامل تھے ،پی کے تھری پر 2002 ء کے انتخابات میں گو کہ اے این پی کے بشیر احمد بلور نے کامیابی حاصل کی تاہم متحدہ مجلس عمل کے عبدالرؤف جان نے ان کا انتہائی شدت سے مقابلہ کیا۔

11مئی کو ہونے والے انتخابات کے لیے اے این پی نے سابق سینئر وزیر بشیر احمد بلور کے صاحبزادے ہارون بلور کو ٹکٹ جاری کیا ہے، حالانکہ ہارون بلور خود اس نشست پر الیکشن کرنے کے خواہش مند نہیں تھے۔ وہ پی کے 2 ہی سے الیکشن میںحصہ لینا چاہتے تھے تاہم پارٹی فیصلہ کے مطابق وہ پی کے تین سے الیکشن میں حصہ لیں گے جن کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے محمد اقبال مہمند ،جماعت اسلامی کے خالد گل مہمند،تحریک انصاف کے جاوید نسیم اور جے یو آئی کے عبدالجلیل جان سے ہے جو عبدالرؤف جان کے بھائی ہیں ۔
Load Next Story