فیصل آباد NA81 پیپلز پارٹی کے سوا کوئی پارٹی امیدوار فائنل نہیں کرسکی

اس بار سیاسی جماعتیں امیدواروں کے ساتھ گیم کھیل رہی ہیں اور امیدوار جماعتوں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔

اس بار سیاسی جماعتیں امیدواروں کے ساتھ گیم کھیل رہی ہیں اور امیدوار جماعتوں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

این اے 81 ضلع فیصل آباد کا ایسا دیہی حلقہ ہے جہاں ہمیشہ زبردست سیاسی معرکے بپا ہوتے رہے ہیں۔

اس کے ضمنی حلقوں میں پی پی 63 اور پی پی 64 شامل ہیں 2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ میں کل رجسٹرڈ ووٹرزدو لاکھ 52ہزار 974تھی جو اب بڑھ کر تین لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے چودھری سعید اقبال گذشتہ الیکشن میں 65,322 ووٹ لیکرکامیاب ہوئے تھے ۔ان کے قریب ترین حریف مسلم لیگ ق کے ڈاکٹر نثار احمدنے 55,646 ووٹ لیے تھے۔مسلم لیگ کے امیدوار نثاراکبرخان تھے جنہیں23,305 ووٹ ملے تھے۔ 1,53406ووٹ کاسٹ ہوئے ،مجموعی ٹرن آؤٹ 60.64فیصد رہا، 3,616ووٹ مسترد ہوئے تھے ۔

2002 ء کے انتخابات میں اس حلقے سے ق لیگ کے چودھری طالب حسین 51,125 ووٹ لے کر جیتے تھے، پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر نثار احمد کو 58,855 ووٹ ملے تھے۔چودھری سعیداقبال آئندہ الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی کی طرف سے حصہ لے رہے ہیں، مسلم لیگ ن کی طرف سے اب ڈاکٹر نثار احمد امیدوار ہو سکتے ہیں ،تاہم جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں یہ حلقہ جماعت اسلامی کوبھی مل سکتا ہے، اس صورت میں جماعت اسلامی کے عظیم رندھاوا دونوں جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔

دوسری طرف بعض باخبر حلقے پورے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلم لیگ ن نے چودھری الیاس جٹ یا ان کے داماد ڈاکٹر نثار احمد کو ٹکٹ نہ دیا تو چودھری الیاس جٹ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق ضلع ناظم رانا زاہد توصیف اور ان کے بھائی رانا آصف توصیف جوکہ این اے 80 سے ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے متفقہ امیدوار ہیں نے این اے 81 سے بھی آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں۔ توصیف فیملی ، عاصم نذیر فیملی کے بارے میں ن لیگ کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔



اگر مسلم لیگ ن نے این اے 77 سے عاصم نذیر کو ٹکٹ نہ دیا(اب تک کی اطلاعات کے مطابق قیادت نے انہیں این اے 76 سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے) تو نذیر فیملی،توصیف فیملی تاندلیانوالہ سے صفدر شاکر کے ساتھ مل کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر سکتی ہے۔ صفدر شاکر کی جگہ رجب بلوچ کو این اے 78سے ن لیگ کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔ رانا زاہد توصیف اور رانا آصف توصیف کی طرف سے این اے 81 سے کاغذات نامزدگی جمع کرانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ توصیف فیملی نے بھی ن لیگ کے ساتھ ٹکٹ کے لئے مذاکرات کئے مگر انہیں مطلوبہ تعداد میں ٹکٹ نہیں دئیے جا رہے،وہ پھر بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

اس بار سیاسی جماعتیں امیدواروں کے ساتھ گیم کھیل رہی ہیں اور امیدوار جماعتوں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ بعض جماعتیں اپنے ٹکٹوں کے بارے میں جان بوجھ کر تاخیر سے فیصلے کر رہی ہیں تاکہ ان کے ناراض ارکان دوسری جماعتوں میں نہ چلے جائیں مگر دوسری جماعتوں نے بھی اپنے امیدواروں کو حتمی شکل دینے کے معاملہ کو طول دیدیا ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ایک آدھ روز میں اس کا مرکزی پارلیمانی بورڈ 50فیصد سے زائد حلقوں کے بارے میں ٹکٹوں کے فیصلے کر لے گا تاہم باقی ماندہ حلقوں کے فیصلے سوچ سمجھ کر ہوں گے،تحریک انصاف نے بھی دوسری جماعتوں کے ناراض رہنماؤں کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔

این اے 81 اور اس کے صوبائی حلقوں پی پی 63 اور پی پی 64 کا جائزہ لیا جائے تو تازہ ترین صورت حال کچھ اس طرح ہے کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے حلقہ کی اہم برادریوں میں راجپوت، جٹ، آرائیں، گجر، ڈوگر، شیخ، انصاری اور غیر کاشتکار برادریاں شامل ہیں۔ گذشتہ روز تک این اے 81 کے لئے جن اہم امیدواروں نے کاغذات داخل کر ادئیے تھے ان میں پیپلزپارٹی کے چودھری سعید اقبال ، جہانزیب امتیاز گل کے علاوہ چودھری الیاس جٹ، ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر یٰسین' جماعت اسلامی کے عظیم رندھاوا، تحریک انصاف کے چودھری شہباز کسانہ، رانا زاہد توصیف اور رانا آصف توصیف شامل ہیں۔




پی پی 63 میں غالب اکثریت راجپوت برادری کی ہے دوسرے نمبر پر جٹ برادری ہے، آرائیں اور گجر بھی کافی تعداد میں ہیں جبکہ دوسری برادریاں بھی معقول تعداد میں موجود ہیں ۔پی پی63 کے اہم علاقوں میں ٹھیکری والا، پینسرہ، سدھار، دھاندرہ، ائیر پورٹ ، میانی ، سرہالہ، عباس پور، چنچل سنگھ والا اور چکیرہ شامل ہیں گذشتہ سہ پہر تک پیپلزپارٹی کی طرف سے خان شبیر حسین، مسلم لیگ ن کی طرف سے ڈاکٹر یسٰین،اجمل آصف، نجمہ اجمل آصف، جماعت اسلامی کی طرف سے رانا اکرام اللہ خاں، رانا راشد خاں ، دلبر حمید بل،رانا عبدالرزاق ، پی ٹی آئی کی طرف سے رانا نعیم عظیم،راؤ عمر شہر یاراور رانا آصف توصیف نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔

جبکہ پی پی 64 میں امین پور بنگلہ، نڑوالا بنگلہ، نتھو چک، کمال پور،رام دیوالی، بابا بکالہ، کھیالہ، بوڑے وال، شہباز پور،ملاں پور وغیرہ شامل ہیں یہاں جٹ برادری اکثریت میں ہے راجپوت ، گجر، آرائیں ، شیخ ، انصاری اور دیگر برادریاں بھی ہیںگذشتہ سہ پہر تک پی پی 64 کیلئے پیپلزپارٹی کے ندیم آفتاب سندھو، ن لیگ کے ظفر اقبال ناگرہ ، پی ٹی آئی کے امتیاز اکرم واہلہ ، ندیم عزیز سندھو ،حافظ عطاء ، چودھری عبدالمجید سمیت متعدد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔

2008ء میںپی پی 63 سے مسلم لیگ ن کے اجمل آصف 36031ووٹ لے کر جیت گئے تھے، پیپلزپارٹی کے رانا آفتاب احمد خاں 28,455 دوسرے نمبر پر رہے تھے، چودھری امجد علی وڑائچ 2,467اور لیبر پارٹی کے میاں عبدالقیوم 1979 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے،کل 59.87فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے ،پی پی 64 سے مسلم لیگ ن کے ظفر اقبال ناگرہ 32,635لے کر کامیاب ہوئے، پیپلزپارٹی کے جہانزیب امتیاز گل 27,261ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور مسلم لیگ ق کے خالد صدیق ڈھلوں12 ، 328 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے' کل 56.09 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔



2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر نثار احمد، چودھری سعید اقبال کے انکل چودھری طالب حسین کو شکست دیکر ایم این اے منتخب ہوئے تھے ، پی پی63 سے پیپلزپارٹی کے رانا آفتاب احمد خاں مسلم لیگ ق کے ڈاکٹر یسٰین کو شکست دیکر جیتے ، ن لیگ کے امیدوار نے محض 1,849، پی پی 64 پیپلزپارٹی کے جہانزیب امتیاز گل،مسلم لیگ ق کے چودھری محمد نسیم، مسلم لیگ ن کے جمیل احسن گل اور متحدہ مجلس عمل کے عظیم رندھاوا کو شکست دیکر جیتے تھے ۔

یہ حلقہ 2002ء کے انتخابات سے پہلے این اے 61 اور این اے 62 میں منقسم تھا پی پی 63 این اے 61 اور پی پی 64 این اے 62 میں آتا تھا، این اے 62 کا دوسرا صوبائی حلقہ چک جھمرہ کے علاقوں پر مشتمل تھا، این اے 62 سے 1990ء میں محمد خان جونیجوکامیاب ہوئے جنہوں نے بعد میں سانگھڑ والی سیٹ رکھ لی اور یہاں سے راجہ نادر پرویز ضمنی الیکشن میں جیت گئے، مصطفی باجوہ ایک بار یہاں سے جیتے جبکہ دلدار چیمہ اور راجہ نادر پرویز یہاں سے جیتتے رہے جبکہ این اے 62 سے1990ء میں چودھری نذیر ، چودھری الیاس کو ہرا کر 1993ء میں چودھری الیاس ، چودھری طالب کو ہرا کر جبکہ 1997ء میاں فاروق، شاہد نذیر کو ہرا کر جیتے۔

2002 ء کے بعد پی پی63 اور پی پی64 کا علاقہ نئی حلقہ بندیوں اور سیٹوں میں اضافے کے بعد این اے 81 کا حصہ بن گیا۔الیکشن2013ء میں یہ حلقہ انتہائی غیر یقینی صورت حال اختیار کر گیا ہے۔پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار تو 2008ء کے الیکشن والے یعنی چودھری سعید اقبال ہی ہیں مگر ان کے ضمنی حلقوں پی پی 63اور پی پی 64 سے ان کے دونوں امیدوار تبدیل ہو رہے ہیں۔

پی پی 63 سے ابتداء میں رانا آفتاب احمد خاں کو ٹکٹ نہ دینے کی باتوں کے باعث وہ الیکشن سے دستبردار ہوگئے جبکہ پی پی 64 میں جہانزیب امتیاز گل کی جگہ چودھری ندیم آفتاب سندھو کو ٹکٹ دیا جا رہا ہے مگر جہانزیب امتیاز گل کو یہ فیصلہ قبول نہیں اس لئے انہوں نے آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں۔دوسری طرف سعید اقبال کو پی پی 63 سے کوئی مضبوط امیدوار نہیں مل رہا اگر جہانزیب امتیاز گل نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تو قومی اور صوبائی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے لئے شدید مشکلات پیدا ہو جائینگی۔

تحریک انصاف کی طرف سے بھی جہانزیب امتیاز گل کو قومی یا صوبائی حلقے سے ٹکٹ دینے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں، پی پی 64 سے الیکشن لڑنے کے لئے پیپلزپارٹی کے رہنما سابق ٹاؤن ناظم لائلپور ٹاؤن، چیف ایگزیکٹو میڈیا کام نے فیسکو کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ پی پی 63 کا بہت سا حصہ لائلپورٹاؤن میں آتا ہے جہاں سے ندیم آفتاب سندھو ٹاؤن ناظم رہ چکے ہیں اس لئے وہ پی پی 63 سے پیپلزپارٹی کے مضبوط امیدوار ہیں،دوسری طرف الیاس جٹ اور ان کے داماد ڈاکٹر نثار کو ن لیگ نے ٹکٹ نہ دیا تو وہ بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے سامنے آ سکتے ہیں۔ بعض باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ چودھری الیاس جٹ اور جہانزیب امتیاز گل مل کر الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔

اگر کسی وجہ سے اجمل آصف یا ان کی اہلیہ کو ن لیگ نے ٹکٹ نہ دیا تو وہ بھی اس اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں ،ایسا نہ ہوا تو پی پی 63 سے کوئی اور امیدوار بھی ان سے مل سکتا ہے، ادھر زاہد توصیف فیملی جہانزیب گل اور کسی تیسرے امیدوار کا الائنس بھی ہو سکتا ہے مگر جہانزیب امتیاز گل چودھری الیاس کو ترجیح دیں گے ، فی الحال ان کا اصرار ہے کہ پیپلزپارٹی انہیں ٹکٹ دیگی امیدواروں کا حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ، جماعت اسلامی کے ساتھ مسلم لیگ ن کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا حتمی فیصلہ بھی ابھی ہونا ہے اور جماعت اسلامی کے حصے میں کونسا حلقہ آئے گا یہ بھی جلد واضح ہوجائے گا این اے 81 اور اس کے ضمنی حلقے فی الحال چوں چوں کا مربہ بنے ہوئے ہیں۔ ٹکٹوں کے حتمی فیصلے ہونے تک مختلف امیدواروں کی حیثیت کے بارے میں کچھ کہنا حد درجہ مشکل ہے۔
Load Next Story