شادی کے کھانے ہمیں کھا رہے ہیں
ہم شادی کے یہ منوں ٹنوں روز کے حساب سے کھانے ضایع کرکے کروڑوں انسانوں کا حق مار رہے ہیں۔
ISLAMABAD:
یہاں ٹریفک کے گرین سگنل اور شادی کے کھانے کو سامنے پاکر لوگوں کی ایک سی کیفیت ہوتی ہے۔ دور سے ٹریفک سگنل کو گرین دیکھیں گے تو ایسے دیوانہ وار گاڑی دوڑائیں گے کہ جیسے یہ ان کی زندگی میں ٹریفک کا آخری گرین سگنل ہے، یہ سرخ ہوگیا تو پھر کبھی دوبارہ انھیں گرین نہیں ملے گا۔
اسی طرح شادی کے کھانوں کی قابوں پر سے ڈھکن اٹھتے ہی یہ کھانوں پر ایسے مربھکوں کی طرح ٹوٹتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی زندگی کا آخری کھانا ہے۔ ادھر جیسے یہ ٹریفک میں زگ زیگ، رانگ سائیڈ، اس کو دباتے، اسے سائیڈ مارتے، جا بجا ہارن بجاتے، ادھر بھگاتے، ادھر دوڑاتے ہوئے گاڑی چلانے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں ویسے ہی یہ کھانوں کی بوفے ٹیبل کے بالکل قریب مورچہ لگانے، سب سے پہلے سب سے زیادہ کھانا لوٹ کر اپنی پلیٹوں میں سجانے، ایک پلیٹ میں پورے تھال کی بوٹیوں کا پہاڑ بنانے، بچوں کو الگ سے کئی کئی پلیٹیں کھانے سے بھر بھر کر لانے، کئی کئی من جتنا کھانا اپنے پھولے پیٹوں میں اتارنے اور کئی کئی من جتنا کھانا پلیٹوں میں چھوڑنے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جب حد سے زیادہ ہوشیار ہوجائیں تو انھیں پتا بھی نہیں چلتا اور وہ حد سے زیادہ بدعقل ہوجاتے ہیں۔ بدعقل کی نشانی کیا ہے؟ بدعقل اپنا فوری فائدہ دیکھتا ہے، مثلاً ہمارے ناقابل اصلاح کرپٹ حکمراں طبقے کے بدعقل جو اپنے اور اپنی سات بلکہ ستر نسلوں کے لیے اس ملک کو لوٹنے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں، یہ بدعقل یہ نہیں سمجھ سکتے تاآنکہ قبروں میں پہنچ جائیں کہ یہ خود اپنے اور اپنی ستر نسلوں کے لیے خدا کا عذاب اور لعنت جمع کر رہے ہیں۔
کچھ ایسے ہی حد سے زیادہ ہوشیار یعنی بدعقل فوری طور پر اپنی گاڑی سب سے پہلے سب سے آگے نکال لیتے ہیں، بے شک دوسروں کے پہلے نکلنے کا حق مار جائیں، دوسروں کے لیے ٹریفک جام کر جائیں، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ الٹا خود ہی اپنے پیدا کردہ ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں۔ کچھ ایسے کرپٹ حکمران طبقے کے حد سے زیادہ کرپٹ، حد سے زیادہ ہوشیار یعنی بدعقل حکمران خاندان اپنی پیدا کردہ کرپشن کے مقدموں میں پھنس جاتے ہیں۔
اس سے ذرا ایک درجے آگے چلیں تو ٹریفک میں اپنی طرح طرح کی چالاکیاں دکھاتے دکھاتے جیسے بدعقل کبھی اپنی گاڑی کا اور کبھی خود اپنے ہاتھ پاؤں یہاں تک کہ جانوں تک کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ کچھ ایسے کرپٹ حکمران طبقے کے کم عقل اپنے خاندانوں اور سیاسی پارٹیوں، یہاں تک کہ اپنے مسلح اداروں تک کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں اور کبھی خود اڈیالہ و لانڈھی جیل پہنچ جاتے ہیں۔
شادی کے کھانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہاں بدعقل زیادہ سے زیادہ کھانا اپنے پرانے مشک جیسے پھولے معدوں میں ٹھونس ٹھونس کر سمجھتے ہیں کہ جیسے انھوں نے پالا مار لیا۔ جی نہیں آپ نے پالا نہیں مارا بلکہ شادی کا کھانا آپ کو مار رہا ہے۔
یہ صحت کے لیے ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ رات کا بھاری کھانا جسم کی ضروریات سے زائد ہوتا ہے۔ رات کو سونے میں جسم کو اتنی زیادہ توانائی خرچ نہیں کرنی ہوتی جتنی کہ دن میں کام کاج چلنے پھرنے کے دوران درکار ہوتی ہے، چنانچہ جسم کو کیونکہ اس کی ضرورت سے زیادہ غذا ملتی ہے تو وہ اسے رات بھر میں چربی میں منتقل کرکے محفوظ کرتا جاتا ہے، یعنی موٹاپا پیدا ہوتا ہے۔
بھاری کے علاوہ رات دیر سے کھایا گیا کھانا ہضم بھی نہیں ہو پاتا اور ہم سوجاتے ہیں، سوتے میں ہاضمے کی سست روی سے یہ کھانا ہمیں موٹاپے کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ نظام ہاضمہ کی خرابی سمیت صحت کے دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ بدخوابی کا تحفہ بھی دے جاتا ہے۔ شادیوں وغیرہ میں کھانا عموماً سب سے آخر میں ہوتا ہے، جس کے فوراً بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں، عام طور پر گھر پہنچ کے کچھ ہی دیر میں سو جاتے ہیں۔
شادی کا بھاری بھرکم مرغن منوں کے حساب سے معدوں میں ٹھونسا گیا کھانا پھر چربی کے ڈھیر میں منتقل ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ چربی کے پہاڑ میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ ادھر شادی کے کھانے کیونکہ ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانے ہوتے ہیں لہٰذا ہم لقمے زیادہ چبائے بغیر نگلتے ہیں جس سے ہمارے نظام ہضم کو یہ بھاری اور مرغن، ادھ چبائی غذا کو ہاضمے کے قابل بنانے میں زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نتیجہ جس کا ظاہر ہے کہ صحت کی مزید خرابی کے ساتھ ساتھ مزید موٹاپا۔
موٹاپے کے نقصانات بے شمار ہیں جیسے کہ کینسر کا عارضہ، دل کے لاحقے، گردے کے امراض، شوگر کی تکلیف وغیرہ وغیرہ۔ موٹاپا نہ صرف جسم بلکہ چہرے پہ بھی چربی کی تہیں چڑھا دیتا ہے جس سے انسان زیادہ عمر کا لگتا ہے۔
ویسے موٹاپا ہمارے ہاں کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ دنیا میں میڈیکل کے معتبر ترین جریدے دا لینسٹ میڈیکل جرنل کی مئی 2014 میں جاری کردہ ''گلوبل برڈن آف ڈزیز'' اسٹڈی کے مطابق دنیا کے 188 ممالک میں موٹاپے کی شرح سے پاکستان نمبر 9 پہ پایا گیا۔ جی ہاں یہ وہی پاکستان ہے جہاں خود وفاقی حکومت کے وزیر احسن اقبال کی 20 جون 2016 کو پیش کی گئی سرکاری رپورٹ کے مطابق 40 فیصد پاکستانی شدید ترین غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ وہی پاکستان ہے جہاں وفاقی محتسب اور یونیسف کے ''پاکستان ڈیموگریفک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13'' کے مطابق 45 فیصد بچے دائمی غذائی کمی کا شکار ہیں اور خوراک کی کمی سے ان کی نشوونما بھی صحیح طور نہیں ہو پاتی۔ تو جناب جب آپ اپنی اپنی پلیٹوں میں انبار کیے گئے ڈھیروں کھانے کو ضایع کریں تو ان آٹھ کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کا بھی سوچ لیں جنھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ ملک میں کوئی غذائی قلت بھی نہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ کھانا چاہے ذرا سا بھی ہو اسے ضایع کرنا پروردگار عالم کے عطا کیے گئے رزق کی بے حرمتی ہے، جس کا جواب ہمیں خدا کو دینا ہی ہوگا۔
ہم شادی کے یہ منوں ٹنوں روز کے حساب سے کھانے ضایع کرکے کروڑوں انسانوں کا حق مار رہے ہیں جو کھانے کی اشیا مہنگی ہونے کی بنا پر اپنا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ اتنی باتوں کے بعد بھی اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہفتوں یا مہینوں میں چند بار کے شادی کے کھانے خوب بھر بھر کر کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے تو یہ نہ بھولیے کہ ہمارے ہاں فائیو اسٹار ہوٹلوں، ملٹی نیشنل و نیشنل فوڈ چین کی دکانوں سے لے کر شادی ہالوں تک گلے سڑے مرغی گوشت، سبزی، پھپھوندی لگے اناج، انتہائی غیر معیاری کئی کئی بار استعمال شدہ کھانے کے تیل کا استعمال عام ہے۔
اوپر سے یہ کہ یہ کھانے عموماً انتہائی غلیظ جگہوں پر انتہائی گندی حالت میں موجود لوگ بناتے ہیں، چنانچہ اس طرح کے کھانے اگر آپ پلیٹیں بھر بھر کر کھائیں گے تو یہ آپ کو ہفتوں مہینوں کا نقصان پہنچائیں گے۔ یہاں تو کھانے کی پلیٹیں تک گندے جراثیم زدہ کپڑے کے ٹکڑوں سے صاف کی جاتی ہیں۔
ادھر ہمارا لائف اسٹائل بھی ورزش سے کوسوں دور ہے۔ ہماری انٹرٹینمنٹ کھانے اور پڑے پڑے ٹی وی دیکھنا ہے۔ اوپر سے یہ اتنے اتنے شادی کے کھانے جو ہم نہیں کھا رہے بلکہ یہ ہمیں کھا رہے ہیں، جسمانی، روحانی، اعصابی اور اخلاقی ہر طرح، یہ شادی کے کھانے ہماری زندگی کے سال اور چہرے اور جسم کی خوبصورتی کھا رہے ہیں، ہمارا ڈاکٹر کا بل بڑھا رہے ہیں۔ شادی کے کھانے ہمیں کھا رہے ہیں۔
یہاں ٹریفک کے گرین سگنل اور شادی کے کھانے کو سامنے پاکر لوگوں کی ایک سی کیفیت ہوتی ہے۔ دور سے ٹریفک سگنل کو گرین دیکھیں گے تو ایسے دیوانہ وار گاڑی دوڑائیں گے کہ جیسے یہ ان کی زندگی میں ٹریفک کا آخری گرین سگنل ہے، یہ سرخ ہوگیا تو پھر کبھی دوبارہ انھیں گرین نہیں ملے گا۔
اسی طرح شادی کے کھانوں کی قابوں پر سے ڈھکن اٹھتے ہی یہ کھانوں پر ایسے مربھکوں کی طرح ٹوٹتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی زندگی کا آخری کھانا ہے۔ ادھر جیسے یہ ٹریفک میں زگ زیگ، رانگ سائیڈ، اس کو دباتے، اسے سائیڈ مارتے، جا بجا ہارن بجاتے، ادھر بھگاتے، ادھر دوڑاتے ہوئے گاڑی چلانے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں ویسے ہی یہ کھانوں کی بوفے ٹیبل کے بالکل قریب مورچہ لگانے، سب سے پہلے سب سے زیادہ کھانا لوٹ کر اپنی پلیٹوں میں سجانے، ایک پلیٹ میں پورے تھال کی بوٹیوں کا پہاڑ بنانے، بچوں کو الگ سے کئی کئی پلیٹیں کھانے سے بھر بھر کر لانے، کئی کئی من جتنا کھانا اپنے پھولے پیٹوں میں اتارنے اور کئی کئی من جتنا کھانا پلیٹوں میں چھوڑنے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جب حد سے زیادہ ہوشیار ہوجائیں تو انھیں پتا بھی نہیں چلتا اور وہ حد سے زیادہ بدعقل ہوجاتے ہیں۔ بدعقل کی نشانی کیا ہے؟ بدعقل اپنا فوری فائدہ دیکھتا ہے، مثلاً ہمارے ناقابل اصلاح کرپٹ حکمراں طبقے کے بدعقل جو اپنے اور اپنی سات بلکہ ستر نسلوں کے لیے اس ملک کو لوٹنے کو اپنی چالاکی اور کامیابی سمجھتے ہیں، یہ بدعقل یہ نہیں سمجھ سکتے تاآنکہ قبروں میں پہنچ جائیں کہ یہ خود اپنے اور اپنی ستر نسلوں کے لیے خدا کا عذاب اور لعنت جمع کر رہے ہیں۔
کچھ ایسے ہی حد سے زیادہ ہوشیار یعنی بدعقل فوری طور پر اپنی گاڑی سب سے پہلے سب سے آگے نکال لیتے ہیں، بے شک دوسروں کے پہلے نکلنے کا حق مار جائیں، دوسروں کے لیے ٹریفک جام کر جائیں، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ الٹا خود ہی اپنے پیدا کردہ ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں۔ کچھ ایسے کرپٹ حکمران طبقے کے حد سے زیادہ کرپٹ، حد سے زیادہ ہوشیار یعنی بدعقل حکمران خاندان اپنی پیدا کردہ کرپشن کے مقدموں میں پھنس جاتے ہیں۔
اس سے ذرا ایک درجے آگے چلیں تو ٹریفک میں اپنی طرح طرح کی چالاکیاں دکھاتے دکھاتے جیسے بدعقل کبھی اپنی گاڑی کا اور کبھی خود اپنے ہاتھ پاؤں یہاں تک کہ جانوں تک کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ کچھ ایسے کرپٹ حکمران طبقے کے کم عقل اپنے خاندانوں اور سیاسی پارٹیوں، یہاں تک کہ اپنے مسلح اداروں تک کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں اور کبھی خود اڈیالہ و لانڈھی جیل پہنچ جاتے ہیں۔
شادی کے کھانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہاں بدعقل زیادہ سے زیادہ کھانا اپنے پرانے مشک جیسے پھولے معدوں میں ٹھونس ٹھونس کر سمجھتے ہیں کہ جیسے انھوں نے پالا مار لیا۔ جی نہیں آپ نے پالا نہیں مارا بلکہ شادی کا کھانا آپ کو مار رہا ہے۔
یہ صحت کے لیے ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ رات کا بھاری کھانا جسم کی ضروریات سے زائد ہوتا ہے۔ رات کو سونے میں جسم کو اتنی زیادہ توانائی خرچ نہیں کرنی ہوتی جتنی کہ دن میں کام کاج چلنے پھرنے کے دوران درکار ہوتی ہے، چنانچہ جسم کو کیونکہ اس کی ضرورت سے زیادہ غذا ملتی ہے تو وہ اسے رات بھر میں چربی میں منتقل کرکے محفوظ کرتا جاتا ہے، یعنی موٹاپا پیدا ہوتا ہے۔
بھاری کے علاوہ رات دیر سے کھایا گیا کھانا ہضم بھی نہیں ہو پاتا اور ہم سوجاتے ہیں، سوتے میں ہاضمے کی سست روی سے یہ کھانا ہمیں موٹاپے کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ نظام ہاضمہ کی خرابی سمیت صحت کے دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ بدخوابی کا تحفہ بھی دے جاتا ہے۔ شادیوں وغیرہ میں کھانا عموماً سب سے آخر میں ہوتا ہے، جس کے فوراً بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں، عام طور پر گھر پہنچ کے کچھ ہی دیر میں سو جاتے ہیں۔
شادی کا بھاری بھرکم مرغن منوں کے حساب سے معدوں میں ٹھونسا گیا کھانا پھر چربی کے ڈھیر میں منتقل ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ چربی کے پہاڑ میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ ادھر شادی کے کھانے کیونکہ ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانے ہوتے ہیں لہٰذا ہم لقمے زیادہ چبائے بغیر نگلتے ہیں جس سے ہمارے نظام ہضم کو یہ بھاری اور مرغن، ادھ چبائی غذا کو ہاضمے کے قابل بنانے میں زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نتیجہ جس کا ظاہر ہے کہ صحت کی مزید خرابی کے ساتھ ساتھ مزید موٹاپا۔
موٹاپے کے نقصانات بے شمار ہیں جیسے کہ کینسر کا عارضہ، دل کے لاحقے، گردے کے امراض، شوگر کی تکلیف وغیرہ وغیرہ۔ موٹاپا نہ صرف جسم بلکہ چہرے پہ بھی چربی کی تہیں چڑھا دیتا ہے جس سے انسان زیادہ عمر کا لگتا ہے۔
ویسے موٹاپا ہمارے ہاں کتنا بڑا مسئلہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ دنیا میں میڈیکل کے معتبر ترین جریدے دا لینسٹ میڈیکل جرنل کی مئی 2014 میں جاری کردہ ''گلوبل برڈن آف ڈزیز'' اسٹڈی کے مطابق دنیا کے 188 ممالک میں موٹاپے کی شرح سے پاکستان نمبر 9 پہ پایا گیا۔ جی ہاں یہ وہی پاکستان ہے جہاں خود وفاقی حکومت کے وزیر احسن اقبال کی 20 جون 2016 کو پیش کی گئی سرکاری رپورٹ کے مطابق 40 فیصد پاکستانی شدید ترین غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ وہی پاکستان ہے جہاں وفاقی محتسب اور یونیسف کے ''پاکستان ڈیموگریفک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13'' کے مطابق 45 فیصد بچے دائمی غذائی کمی کا شکار ہیں اور خوراک کی کمی سے ان کی نشوونما بھی صحیح طور نہیں ہو پاتی۔ تو جناب جب آپ اپنی اپنی پلیٹوں میں انبار کیے گئے ڈھیروں کھانے کو ضایع کریں تو ان آٹھ کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کا بھی سوچ لیں جنھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ ملک میں کوئی غذائی قلت بھی نہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ کھانا چاہے ذرا سا بھی ہو اسے ضایع کرنا پروردگار عالم کے عطا کیے گئے رزق کی بے حرمتی ہے، جس کا جواب ہمیں خدا کو دینا ہی ہوگا۔
ہم شادی کے یہ منوں ٹنوں روز کے حساب سے کھانے ضایع کرکے کروڑوں انسانوں کا حق مار رہے ہیں جو کھانے کی اشیا مہنگی ہونے کی بنا پر اپنا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ اتنی باتوں کے بعد بھی اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہفتوں یا مہینوں میں چند بار کے شادی کے کھانے خوب بھر بھر کر کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے تو یہ نہ بھولیے کہ ہمارے ہاں فائیو اسٹار ہوٹلوں، ملٹی نیشنل و نیشنل فوڈ چین کی دکانوں سے لے کر شادی ہالوں تک گلے سڑے مرغی گوشت، سبزی، پھپھوندی لگے اناج، انتہائی غیر معیاری کئی کئی بار استعمال شدہ کھانے کے تیل کا استعمال عام ہے۔
اوپر سے یہ کہ یہ کھانے عموماً انتہائی غلیظ جگہوں پر انتہائی گندی حالت میں موجود لوگ بناتے ہیں، چنانچہ اس طرح کے کھانے اگر آپ پلیٹیں بھر بھر کر کھائیں گے تو یہ آپ کو ہفتوں مہینوں کا نقصان پہنچائیں گے۔ یہاں تو کھانے کی پلیٹیں تک گندے جراثیم زدہ کپڑے کے ٹکڑوں سے صاف کی جاتی ہیں۔
ادھر ہمارا لائف اسٹائل بھی ورزش سے کوسوں دور ہے۔ ہماری انٹرٹینمنٹ کھانے اور پڑے پڑے ٹی وی دیکھنا ہے۔ اوپر سے یہ اتنے اتنے شادی کے کھانے جو ہم نہیں کھا رہے بلکہ یہ ہمیں کھا رہے ہیں، جسمانی، روحانی، اعصابی اور اخلاقی ہر طرح، یہ شادی کے کھانے ہماری زندگی کے سال اور چہرے اور جسم کی خوبصورتی کھا رہے ہیں، ہمارا ڈاکٹر کا بل بڑھا رہے ہیں۔ شادی کے کھانے ہمیں کھا رہے ہیں۔