ماڈرن ریاست کی جانب سعودی عرب کا سفر
بعض لوگ سعودی حکومت کے ان اقدامات کو دینی تناظر میں دیکھ کر تنقید کر رہے ہیں۔
MULTAN:
سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی اور معاشرتی اصلاحی پروگرام کے حوالے سے حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں جس پر لوگوں کی فکرمندی اور خوشی دونوں طرح کے جذبات سامنے آرہے ہیں۔ آنے والی ان تبدیلوں کے تحت سعودی عرب میں تفریحی و صنعتی ترقی کے لیے آیندہ سال 64 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔
جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کے مطابق تقریباً پانچ سو تقریبات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں امریکی پوپ بینڈمرون 5 اور کینڈین پرفارمرز سرک ڈوسولیل کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ خواتین کو اسٹیڈیم میں آکر میچز دیکھنے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے کمرشل سینما گھروں کے قیام پر پابندی ہٹادی گئی ہے اور آیندہ دس سے بارہ برس کے دوران کم ازکم تین سو سینما گھر لوگوں کو تفریح کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں کہ ماضی میں جس وقت وہ جدہ میں شوٹنگ کرتی تھیں تو قریب سے گزر نے والے لوگ حرام، حرام کہتے سنائی دیتے تھے۔ یہ سب کچھ اور بہت کچھ 23 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی اور معاشرتی اصلاحی پروگرام وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کا آغاز دو برس قبل ہوچکا ہے۔
آخر یہ سب کچھ سعودی عرب میں کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب میڈیا پر جاری ہونے والی اس خبر سے بخوبی مل جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد ملکی معشیت کا انحصار تیل کے ذخائر پر کم کرتے ہوئے متنوع معیشت چاہتے ہیں، جس میں گھرانوں کی جانب سے ثقافتی اور تفریحی پروگراموں میں خرچ بڑھانا بھی شامل ہے۔
اس خبر کے تناظر میں اگر مستقبل کے سعودی عرب کا ہم جائزہ لیں تو یہ اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ جب حکومت اپنے پروگرام میں کامیاب ہو جائے گی تو لوگوں کا ماہانہ خرچ بڑھ جائے گا، یعنی عوام کی مالی حالت کمزور ہوتی چلی جائے گی، کیونکہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ وہ لوگوں کے گھریلو خرچ میں ثقافتی اور تفریحی خرچ بڑھانا چاہتی ہے، یعنی جب لوگ گھر سے باہر نکل کر ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے تو یہ سرگرمیاں ملک کی متبادل معیشت کو سہارا دے گی۔ لیکن عین دوسری طرف ایک گھرانے کی ماہانہ آمدنی تو وہی رہے گی، مثلاً ایک ملازم کی ماہانہ تنخواہ تو وہی رہے گی مگر گھر کا خرچ بڑھ جائے گا، یعنی اب اہل خانہ سینما دیکھنے بھی جائیں گے، اسٹیڈیم اور میوزیکل و فیشن شوز میں بھی جائیں گے اور پھر جب باہر کی ایک خوبصورت اور اعلی معیار کی زندگی دیکھیں گے تو اس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
یہ کیسے ممکن ہوگا کہ کوئی فیشن شوز میں جائے اور نت نئے ڈیزائن کے سوٹ خریدنے کی خواہش نہ کرے؟ ظاہر ہے لوگ اشیاء خریدیں گے اور یہی تو حکمران چاہتے ہیں، کیونکہ اس سے ہی یہاں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ لیکن کیا اس نئی لہر کی خواہشات گھر کے ایک عام سربراہ کے اختیار میں ہوگی؟ جب سینما جانے کے بعد خواہشات کاسمندر موجیں مارے گا تو ان خواہشات کو پورا کرنا آسان ہوگا؟
بات یہ ہے کہ ان تفریحی اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے والے یقیناً اربوں روپیہ کمالیں گے، حکومت کے خزانے میں بھی اضافہ ہوگا، مگر یہ سب جائے گا کس کی جیب سے؟ صرف اور صرف عوام کی جیب سے۔ اس عمل میں امیر تو امیر تر ہوسکتا ہے مگر عام لوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔
ایک عام شخص یہ اخراجات برداشت کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ وقت ملازمت کو دے گا (یعنی پہلے کی طرح بیوی بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکے گا)، پھر گھر کی عورتیں بھی زیادہ دولت کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا شروع ہوں گی (یوں گھر کے بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہوگا) پھر اس کا حل ڈے کیئر سینٹر میں بچوں کو داخل کرکے نکالا جائے گا تاکہ خواتین گھر سے باہر مردوں کی طرح صبح سے رات تک ملازمت کو وقت دے کر مزید دولت گھرکے خرچے کے لیے کما سکیں، جب بات اور آگے بڑھے گی تو بزرگ والدین کو اولڈ ہاؤسز میں داخل کیا جائے گا کیونکہ جب بچوں کے لیے ہی وقت نہ ہوگا تو بوڑھے ماں باپ کی تیمارداری، خدمت کے لیے وقت اور دوا وغیرہ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟
ترقی یافتہ ممالک اور خاص کر چین کا تجربہ اور مشاہدہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں لوگ اپنے بزرگوں کے انتقال پر محبت میں ان کی تصاویر اور مورتیاں بنا لیتے تھے مگر پھر ترقی کے چکر میں پڑ کر اولاد پالنے کا بھی وقت ان کے پاس نہ رہا، اولاد کے لیے ڈے کیئر سینٹر قائم کیے گئے، اسی طرح جب والدین کے لیے بھی وقت نہ رہا تو اولڈ ہاؤسز قائم کیے گئے اور آخرکار اولڈ ہاؤسز میں پڑے اپنے والدین سے کبھی ملاقات کرنے کا بھی نہ وقت رہا اور مجبوراً حکومت کو ہی قانون بنانا پڑا کہ مہینے میں ایک بار تو اپنے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں جا کر دیکھ لو۔
یہ نہایت واضح اور عقلی بات ہے جب کسی معاشرے میں اجتماعی طور پر خواتین مردوں کے برابر آکر ان جیسا ہی وقت باہر گزارنے لگیں گی تو پھر گھر اور خاندان کو وقت کون دے گا؟ چنانچہ بچوں اور بزرگوں کو گھر پر دیکھنے والا کوئی نہیں ہوگا اور یوں خاندان ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا بلکہ معاشرے میں شرح پیدائش ہی صفر ہوجائے گی، جیسا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اب یہ مسئلہ ہے کہ وہاں کی آبادی میں کیسے اضافہ کیا جائے، والدین کو زائد بچوں کی پیدائش پر کیسے راضی کیا جائے، اس ضمن میں حکومتیں شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کی پیدائش پر مختلف قسم کی مراعات کا اعلان بھی کرتی ہیں مگر اب وہاں کی خواتین اولاد کی پرورش پر تیار نہیں کیونکہ جو خواتین مردوں کی برابری اور آزادی چاہتی ہیں کہ وہ بھی صبح و شام باہر وقت گزار سکیں، وہ اولاد کے سبب باہر وقت نہیں گزار سکتیں۔
کبھی مغرب کے نامور ماہر معاشیات نے یہ پیغام دیا تھا کہ وسائل جتنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اگر یہی رفتار جاری رہی تو ایک دن کھانے کی قلت بھی ہوجائے گی، لہٰذا آبادی کو کنٹرول یعنی کم کرو۔ ان کا نظریہ اور اندازہ ناکام ہوگیا اورآج مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کو کیسے بڑھایا جائے۔ چین جیسے ترقی یافتہ ملک کا بھی یہی مسئلہ ہے۔
آج سعودی عرب بھی مستقبل کی بھوک و افلاس اور کمزور معیشت کے خوف سے ترقی یافتہ ممالک کے وژن کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے اور معاشی و معاشرتی اصلاحی پروگرام کو وژن 2030 کا نام دے رہا ہے۔ یہ کیسا وژن ہے کہ جس میں وہ خود فرما رہے ہیں کہ عام لوگوں کے گھرانوں کے خرچ میں ثقافتی اور تفریحی خرچ بڑھا دیا جائے گا۔ اس خرچ کے نتیجے میں کیا ہوگا شاید اس بارے میں ابھی نہیں سوچا گیا اور نہ ہی جن کی اندھی تقلید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں کے معاشرتی و عوامی مسائل کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی حکومت کا یہ صرف معاشی و معاشرتی اصلاحی پروگرام نہیں ہے، درحقیقت اس پروگرام سے ہر سطح پر یکسر تبدیلیاں آجائیں گی، مثلاً سعودی ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جہاں خواتین روایتی طور پر گھروں میں رہتی ہیں، جب وہ گھر سے نکلیں گی تو کئی طرح کے مسائل جنم لیں گے، جس میں ایک اہم مسئلہ آبادی میں کمی کا بھی ہوگا، کیونکہ جب عورت گھر سے باہر وقت گزارتی ہے تو اس کے پاس اولاد کی پرورش جیسے کام کے لیے وقت نہیں ہوتا۔
ایک مشہور مغربی مفکر جان رالس کہتا ہے کہ جہاں خواتین گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں وہاں شرح پیدائش کم ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ بھارت کی ریاست کیرالا کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہاں خواتین میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے اور تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلنے والے خواتین نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے گھر سے باہر مصروفیت قائم کرلی، چنانچہ ان کے پاس اولاد کی پروش کے لیے وقت نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ اس ریاست میں شرح پیدائش چین کے مقابلے میں بھی کم ہے۔
بعض لوگ سعودی حکومت کے ان اقدامات کو دینی تناظر میں دیکھ کر تنقید کر رہے ہیں جب کہ وہاں کے علما اپنے فتوؤں کے ذریعے جدید ریاست کے قیام کی راہیں ہموار کر رہے ہیں، جب کہ (ترقی یافتہ ممالک کے) شواہد اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ مذہبی لحاظ سے نقصان دہ ہو یا نہ ہو، کم ازکم معاشرتی لحاظ سے سعودی معاشرے کو وہ نقصان پہنچائے گا کہ جس کی تلافی صدیوں تک ممکن نہ ہوگی۔
سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی اور معاشرتی اصلاحی پروگرام کے حوالے سے حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں جس پر لوگوں کی فکرمندی اور خوشی دونوں طرح کے جذبات سامنے آرہے ہیں۔ آنے والی ان تبدیلوں کے تحت سعودی عرب میں تفریحی و صنعتی ترقی کے لیے آیندہ سال 64 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔
جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کے مطابق تقریباً پانچ سو تقریبات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں امریکی پوپ بینڈمرون 5 اور کینڈین پرفارمرز سرک ڈوسولیل کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ خواتین کو اسٹیڈیم میں آکر میچز دیکھنے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے کمرشل سینما گھروں کے قیام پر پابندی ہٹادی گئی ہے اور آیندہ دس سے بارہ برس کے دوران کم ازکم تین سو سینما گھر لوگوں کو تفریح کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں کہ ماضی میں جس وقت وہ جدہ میں شوٹنگ کرتی تھیں تو قریب سے گزر نے والے لوگ حرام، حرام کہتے سنائی دیتے تھے۔ یہ سب کچھ اور بہت کچھ 23 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی اور معاشرتی اصلاحی پروگرام وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کا آغاز دو برس قبل ہوچکا ہے۔
آخر یہ سب کچھ سعودی عرب میں کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب میڈیا پر جاری ہونے والی اس خبر سے بخوبی مل جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد ملکی معشیت کا انحصار تیل کے ذخائر پر کم کرتے ہوئے متنوع معیشت چاہتے ہیں، جس میں گھرانوں کی جانب سے ثقافتی اور تفریحی پروگراموں میں خرچ بڑھانا بھی شامل ہے۔
اس خبر کے تناظر میں اگر مستقبل کے سعودی عرب کا ہم جائزہ لیں تو یہ اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ جب حکومت اپنے پروگرام میں کامیاب ہو جائے گی تو لوگوں کا ماہانہ خرچ بڑھ جائے گا، یعنی عوام کی مالی حالت کمزور ہوتی چلی جائے گی، کیونکہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ وہ لوگوں کے گھریلو خرچ میں ثقافتی اور تفریحی خرچ بڑھانا چاہتی ہے، یعنی جب لوگ گھر سے باہر نکل کر ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے تو یہ سرگرمیاں ملک کی متبادل معیشت کو سہارا دے گی۔ لیکن عین دوسری طرف ایک گھرانے کی ماہانہ آمدنی تو وہی رہے گی، مثلاً ایک ملازم کی ماہانہ تنخواہ تو وہی رہے گی مگر گھر کا خرچ بڑھ جائے گا، یعنی اب اہل خانہ سینما دیکھنے بھی جائیں گے، اسٹیڈیم اور میوزیکل و فیشن شوز میں بھی جائیں گے اور پھر جب باہر کی ایک خوبصورت اور اعلی معیار کی زندگی دیکھیں گے تو اس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
یہ کیسے ممکن ہوگا کہ کوئی فیشن شوز میں جائے اور نت نئے ڈیزائن کے سوٹ خریدنے کی خواہش نہ کرے؟ ظاہر ہے لوگ اشیاء خریدیں گے اور یہی تو حکمران چاہتے ہیں، کیونکہ اس سے ہی یہاں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ لیکن کیا اس نئی لہر کی خواہشات گھر کے ایک عام سربراہ کے اختیار میں ہوگی؟ جب سینما جانے کے بعد خواہشات کاسمندر موجیں مارے گا تو ان خواہشات کو پورا کرنا آسان ہوگا؟
بات یہ ہے کہ ان تفریحی اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے والے یقیناً اربوں روپیہ کمالیں گے، حکومت کے خزانے میں بھی اضافہ ہوگا، مگر یہ سب جائے گا کس کی جیب سے؟ صرف اور صرف عوام کی جیب سے۔ اس عمل میں امیر تو امیر تر ہوسکتا ہے مگر عام لوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔
ایک عام شخص یہ اخراجات برداشت کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ وقت ملازمت کو دے گا (یعنی پہلے کی طرح بیوی بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکے گا)، پھر گھر کی عورتیں بھی زیادہ دولت کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا شروع ہوں گی (یوں گھر کے بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہوگا) پھر اس کا حل ڈے کیئر سینٹر میں بچوں کو داخل کرکے نکالا جائے گا تاکہ خواتین گھر سے باہر مردوں کی طرح صبح سے رات تک ملازمت کو وقت دے کر مزید دولت گھرکے خرچے کے لیے کما سکیں، جب بات اور آگے بڑھے گی تو بزرگ والدین کو اولڈ ہاؤسز میں داخل کیا جائے گا کیونکہ جب بچوں کے لیے ہی وقت نہ ہوگا تو بوڑھے ماں باپ کی تیمارداری، خدمت کے لیے وقت اور دوا وغیرہ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟
ترقی یافتہ ممالک اور خاص کر چین کا تجربہ اور مشاہدہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں لوگ اپنے بزرگوں کے انتقال پر محبت میں ان کی تصاویر اور مورتیاں بنا لیتے تھے مگر پھر ترقی کے چکر میں پڑ کر اولاد پالنے کا بھی وقت ان کے پاس نہ رہا، اولاد کے لیے ڈے کیئر سینٹر قائم کیے گئے، اسی طرح جب والدین کے لیے بھی وقت نہ رہا تو اولڈ ہاؤسز قائم کیے گئے اور آخرکار اولڈ ہاؤسز میں پڑے اپنے والدین سے کبھی ملاقات کرنے کا بھی نہ وقت رہا اور مجبوراً حکومت کو ہی قانون بنانا پڑا کہ مہینے میں ایک بار تو اپنے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں جا کر دیکھ لو۔
یہ نہایت واضح اور عقلی بات ہے جب کسی معاشرے میں اجتماعی طور پر خواتین مردوں کے برابر آکر ان جیسا ہی وقت باہر گزارنے لگیں گی تو پھر گھر اور خاندان کو وقت کون دے گا؟ چنانچہ بچوں اور بزرگوں کو گھر پر دیکھنے والا کوئی نہیں ہوگا اور یوں خاندان ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا بلکہ معاشرے میں شرح پیدائش ہی صفر ہوجائے گی، جیسا کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اب یہ مسئلہ ہے کہ وہاں کی آبادی میں کیسے اضافہ کیا جائے، والدین کو زائد بچوں کی پیدائش پر کیسے راضی کیا جائے، اس ضمن میں حکومتیں شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کی پیدائش پر مختلف قسم کی مراعات کا اعلان بھی کرتی ہیں مگر اب وہاں کی خواتین اولاد کی پرورش پر تیار نہیں کیونکہ جو خواتین مردوں کی برابری اور آزادی چاہتی ہیں کہ وہ بھی صبح و شام باہر وقت گزار سکیں، وہ اولاد کے سبب باہر وقت نہیں گزار سکتیں۔
کبھی مغرب کے نامور ماہر معاشیات نے یہ پیغام دیا تھا کہ وسائل جتنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اگر یہی رفتار جاری رہی تو ایک دن کھانے کی قلت بھی ہوجائے گی، لہٰذا آبادی کو کنٹرول یعنی کم کرو۔ ان کا نظریہ اور اندازہ ناکام ہوگیا اورآج مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کو کیسے بڑھایا جائے۔ چین جیسے ترقی یافتہ ملک کا بھی یہی مسئلہ ہے۔
آج سعودی عرب بھی مستقبل کی بھوک و افلاس اور کمزور معیشت کے خوف سے ترقی یافتہ ممالک کے وژن کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے اور معاشی و معاشرتی اصلاحی پروگرام کو وژن 2030 کا نام دے رہا ہے۔ یہ کیسا وژن ہے کہ جس میں وہ خود فرما رہے ہیں کہ عام لوگوں کے گھرانوں کے خرچ میں ثقافتی اور تفریحی خرچ بڑھا دیا جائے گا۔ اس خرچ کے نتیجے میں کیا ہوگا شاید اس بارے میں ابھی نہیں سوچا گیا اور نہ ہی جن کی اندھی تقلید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں کے معاشرتی و عوامی مسائل کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی حکومت کا یہ صرف معاشی و معاشرتی اصلاحی پروگرام نہیں ہے، درحقیقت اس پروگرام سے ہر سطح پر یکسر تبدیلیاں آجائیں گی، مثلاً سعودی ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جہاں خواتین روایتی طور پر گھروں میں رہتی ہیں، جب وہ گھر سے نکلیں گی تو کئی طرح کے مسائل جنم لیں گے، جس میں ایک اہم مسئلہ آبادی میں کمی کا بھی ہوگا، کیونکہ جب عورت گھر سے باہر وقت گزارتی ہے تو اس کے پاس اولاد کی پرورش جیسے کام کے لیے وقت نہیں ہوتا۔
ایک مشہور مغربی مفکر جان رالس کہتا ہے کہ جہاں خواتین گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں وہاں شرح پیدائش کم ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ بھارت کی ریاست کیرالا کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہاں خواتین میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے اور تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلنے والے خواتین نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے گھر سے باہر مصروفیت قائم کرلی، چنانچہ ان کے پاس اولاد کی پروش کے لیے وقت نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ اس ریاست میں شرح پیدائش چین کے مقابلے میں بھی کم ہے۔
بعض لوگ سعودی حکومت کے ان اقدامات کو دینی تناظر میں دیکھ کر تنقید کر رہے ہیں جب کہ وہاں کے علما اپنے فتوؤں کے ذریعے جدید ریاست کے قیام کی راہیں ہموار کر رہے ہیں، جب کہ (ترقی یافتہ ممالک کے) شواہد اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب کچھ مذہبی لحاظ سے نقصان دہ ہو یا نہ ہو، کم ازکم معاشرتی لحاظ سے سعودی معاشرے کو وہ نقصان پہنچائے گا کہ جس کی تلافی صدیوں تک ممکن نہ ہوگی۔