خطے میں نئی صف بندیاں
امریکی ایجنڈے کے مطابق اب برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا کلچر پروان چڑھے گا۔
ہمارے خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ خطے کے ممالک اپنی داخلہ و خارجہ پالیسوں میں تبدیلی لارہے ہیں تاکہ مستقبل کے خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔کسی ملک کے مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے، وقت کے ساتھ ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کو کل کا دوست بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ دنیا کی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
فرانس اور جرمنی ایک زمانے میں ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے، خوفناک جنگیں ہوئیں، لاکھوں لوگ مارے گئے، سیکڑوں سال یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن بدلتے ہوئے زمینی حقائق نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ ایک دوسرے کے دوست بن جائیں۔ (چند دن پیشتر بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ پاکستان سے متعلق بھارتی خارجہ پالیسی بندگلی کی جانب چلی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی پر گرفت کھوچا ہے۔ بھارت امریکی کیمپ میں چلاگیا ہے جب کہ اس کے بدلے میں اس کو بہت کم فائدہ ہوا ہے)
فروری کے تیسرے ہفتے میں ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھارت کا دورہ کیا جس میں مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ایرانی صدر نے اپنے دورے میں چاہ بہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول انڈیا کے سپرد کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو 18 مہینوں کے لیے بندرگاہ کے لیے پہلے فیز کا آپریشنل کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔ صرف ایران کے ساتھ ہی بھارت کے تعلقات گہرے نہیں ہورہے بلکہ اس دوڑ میں خلیج کی دیگر بادشاہتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
چاہ بہار بندرگاہ ایران نے تو 18 ماہ کے لیے انڈیا کو دی ہے لیکن اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ خلیج کی ریاست اومان نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے بالمقابل اپنی بندرگاہ جس کا نام DUQM ''دوقم'' ہے، بھارت کے حوالے کردی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے تین روزہ دورہ اومان کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے بھارت اس اومانی بندرگاہ کا صرف تجارتی استعمال ہی نہیں بلکہ بھارتی فضائیہ اور بحریہ اس کا فوجی استعمال بحیرہ عرب کی نگرانی کی صورت میں کرسکیں گی جب کہ پاکستانی عوام کو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔
گزشتہ برس سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر انھیں سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا۔ بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے ہوئے، اس دوڑ میں متحدہ عرب امارات بھی پیچھے نہیں۔ اس نے گزشتہ سال بھارت میں بہت بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ جب سے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک اتحادی بنا ہے، بھارتی اثرورسوخ خلیجی ریاستوں میں بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا۔ بھارتی اسرائیلی اور امریکی مفادات اس خطے میں یک جان ہوگئے ہیں۔ جب سے امریکا نے خلیج میں بھارت کو بڑا رول دیا ہے۔ خلیجی ریاستیں مستقبل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کے قریب ہورہی ہیں۔
اس صورت حال میں پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ بتدریج امریکی کیمپ سے اپنے آپ کو دور کرے۔ امریکی کیمپ سے نکل کر دوسرے کیمپ میں جانا کوئی آسان بات نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی خطرناک راستہ ہے جو گہری کھاٹیوں اور بلائنڈ ٹرنز سے پر ہے۔ آج جس سوچ کو اپنایا جارہا ہے بھٹو کی بھی یہی سوچ تھی کہ ہمیں ہزاروں میل دور امریکا کا اتحادی بننے کے بجائے مقامی طاقتوں چین اور روس کے ساتھ اتحاد بنانے چاہئیں۔ اس وقت واقعی یہ ایڈوانچر خودکشی کا راستہ تھا جسے بھٹو جیسا شخص ہی کرسکتا تھا۔ یہ طوفانی ہواؤں کے مخالف چلنے والی بات تھی۔
80ء کی دہائی میں جب نواز شریف کو سیاسی طور پر طاقتور بنایا گیا تو اس کے تین بڑے مقاصد تھے۔ پہلا پیپلزپارٹی کا ڈنک پاکستان خصوصاً پنجاب سے غیر مؤثر کرنا۔ دوسرا مذہبی شدت پسندی کا نواز شریف کے ذریعے راستہ روکنا۔ اب اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے آخری مرحلے کا آغازہوگیا ہے۔
اب اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ٹکڑ لے سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہی ہے۔ اس سے پہلے جس نے ٹکڑ لی وہ بھٹو سمیت عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کی اتحادی تھی،اب اس کے ساتھ لڑائی ہے۔ نواز شریف کے ذریعے ہی پنجاب میں انتہا پسند لابی کو غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے اس معاملے میں امریکا اور نواز شریف کی ہمنوا ہیں۔ یہ ان کے لیے سنہری موقعہ ہے کہ 70 سالہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں طاقت کو توڑ کر رکھ دیا جائے۔ یہ اب نہیں تو کبھی نہیں کا معاملہ ہے۔
امریکی ایجنڈے کے مطابق اب برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا کلچر پروان چڑھے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی لیکن جنگ اور دشمنی کی فضا ختم ہوجائے گی۔ پاکستانی اور بھارتی پنجاب ، سندھ کراچی اور بمبئی کے درمیان معاشی تجارتی ثقافتی تعلقات پاکستانی اور بھارتی انتہا پسندوں کو بے معنی بنادیں گے۔ لیکن اس راستے پر چلتے چلتے بیچ میں گہری کھائی بھی آسکتی ہے۔ اکانو مسٹ ہو یا نیویارک ٹائمز وہ امریکی برطانوی مفادات کو خوب سمجھتے ہیں۔ بلاوجہ ان کا قلم نواز شریف کے حق میں نہیں چلتا۔
سیل فون: 0346-4527997
فرانس اور جرمنی ایک زمانے میں ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے، خوفناک جنگیں ہوئیں، لاکھوں لوگ مارے گئے، سیکڑوں سال یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن بدلتے ہوئے زمینی حقائق نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ ایک دوسرے کے دوست بن جائیں۔ (چند دن پیشتر بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ پاکستان سے متعلق بھارتی خارجہ پالیسی بندگلی کی جانب چلی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی پر گرفت کھوچا ہے۔ بھارت امریکی کیمپ میں چلاگیا ہے جب کہ اس کے بدلے میں اس کو بہت کم فائدہ ہوا ہے)
فروری کے تیسرے ہفتے میں ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھارت کا دورہ کیا جس میں مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ایرانی صدر نے اپنے دورے میں چاہ بہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول انڈیا کے سپرد کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو 18 مہینوں کے لیے بندرگاہ کے لیے پہلے فیز کا آپریشنل کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔ صرف ایران کے ساتھ ہی بھارت کے تعلقات گہرے نہیں ہورہے بلکہ اس دوڑ میں خلیج کی دیگر بادشاہتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
چاہ بہار بندرگاہ ایران نے تو 18 ماہ کے لیے انڈیا کو دی ہے لیکن اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ خلیج کی ریاست اومان نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے بالمقابل اپنی بندرگاہ جس کا نام DUQM ''دوقم'' ہے، بھارت کے حوالے کردی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے تین روزہ دورہ اومان کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے بھارت اس اومانی بندرگاہ کا صرف تجارتی استعمال ہی نہیں بلکہ بھارتی فضائیہ اور بحریہ اس کا فوجی استعمال بحیرہ عرب کی نگرانی کی صورت میں کرسکیں گی جب کہ پاکستانی عوام کو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔
گزشتہ برس سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر انھیں سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا۔ بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے ہوئے، اس دوڑ میں متحدہ عرب امارات بھی پیچھے نہیں۔ اس نے گزشتہ سال بھارت میں بہت بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ جب سے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک اتحادی بنا ہے، بھارتی اثرورسوخ خلیجی ریاستوں میں بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا۔ بھارتی اسرائیلی اور امریکی مفادات اس خطے میں یک جان ہوگئے ہیں۔ جب سے امریکا نے خلیج میں بھارت کو بڑا رول دیا ہے۔ خلیجی ریاستیں مستقبل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کے قریب ہورہی ہیں۔
اس صورت حال میں پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ بتدریج امریکی کیمپ سے اپنے آپ کو دور کرے۔ امریکی کیمپ سے نکل کر دوسرے کیمپ میں جانا کوئی آسان بات نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی خطرناک راستہ ہے جو گہری کھاٹیوں اور بلائنڈ ٹرنز سے پر ہے۔ آج جس سوچ کو اپنایا جارہا ہے بھٹو کی بھی یہی سوچ تھی کہ ہمیں ہزاروں میل دور امریکا کا اتحادی بننے کے بجائے مقامی طاقتوں چین اور روس کے ساتھ اتحاد بنانے چاہئیں۔ اس وقت واقعی یہ ایڈوانچر خودکشی کا راستہ تھا جسے بھٹو جیسا شخص ہی کرسکتا تھا۔ یہ طوفانی ہواؤں کے مخالف چلنے والی بات تھی۔
80ء کی دہائی میں جب نواز شریف کو سیاسی طور پر طاقتور بنایا گیا تو اس کے تین بڑے مقاصد تھے۔ پہلا پیپلزپارٹی کا ڈنک پاکستان خصوصاً پنجاب سے غیر مؤثر کرنا۔ دوسرا مذہبی شدت پسندی کا نواز شریف کے ذریعے راستہ روکنا۔ اب اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے آخری مرحلے کا آغازہوگیا ہے۔
اب اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ٹکڑ لے سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہی ہے۔ اس سے پہلے جس نے ٹکڑ لی وہ بھٹو سمیت عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کی اتحادی تھی،اب اس کے ساتھ لڑائی ہے۔ نواز شریف کے ذریعے ہی پنجاب میں انتہا پسند لابی کو غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے اس معاملے میں امریکا اور نواز شریف کی ہمنوا ہیں۔ یہ ان کے لیے سنہری موقعہ ہے کہ 70 سالہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں طاقت کو توڑ کر رکھ دیا جائے۔ یہ اب نہیں تو کبھی نہیں کا معاملہ ہے۔
امریکی ایجنڈے کے مطابق اب برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا کلچر پروان چڑھے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی لیکن جنگ اور دشمنی کی فضا ختم ہوجائے گی۔ پاکستانی اور بھارتی پنجاب ، سندھ کراچی اور بمبئی کے درمیان معاشی تجارتی ثقافتی تعلقات پاکستانی اور بھارتی انتہا پسندوں کو بے معنی بنادیں گے۔ لیکن اس راستے پر چلتے چلتے بیچ میں گہری کھائی بھی آسکتی ہے۔ اکانو مسٹ ہو یا نیویارک ٹائمز وہ امریکی برطانوی مفادات کو خوب سمجھتے ہیں۔ بلاوجہ ان کا قلم نواز شریف کے حق میں نہیں چلتا۔
سیل فون: 0346-4527997