پولیس میں مزید 8 ہزار بھرتیوں سے بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا

پولیس ایک سیاسی قوت بن چکی ہے اور مختلف جماعتوں میں تقسیم ہے

گذشتہ 5 سال میں 15 سے 18 ہزار پولیس کانسٹیبل بھرتی کیے گئے تو ان میں کم از کم 6 ہزار سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بھرتی کیے فوٹو: فائل

نگراں سندھ حکومت کی جانب سے سیاست زدہ محکمہ پولیس میں مزید 8ہزار پولیس اہلکاروں کی بھرتی کے فیصلے کے باوجود شہر کراچی میں امن و امان کی صورت حال میں خاطرخواہ بہتری آنے کا امکان نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ نگراں صوبائی کابینہ نے، جو کہ خود اپنی مدت کے حساب سے بڑے حجم کی ہے، یہ فیصلہ کافی عجلت میں کیا ہے ۔ نگراں وزیراعلیٰ چار یا پانچ وزیروں کے ساتھ 2 ماہ کا عرصہ کام کرسکتے تھے لیکن انھوں نے مالی مشکلات کا ادراک نہیں کیا بلکہ انھیں نظر انداز کردیا۔ عبوری حکومت کا کام معمول کے فرائض کی انجام دہی ہی ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کے دماغ میں سیاسی معاملات بھی ہیں۔ اب اگر اسی رویے کے ساتھ مزید پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا تو صورت حال کے بہت زیادہ منفی اور تباہ کن نتائج نکلیں گے کیونکہ سندھ پولیس ایک سیاسی فورس کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔

اگر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوئے تو یہ بھرتیاں فوری ہوجائیں گی، گذشتہ سال ''کوٹے'' کی تقسیم کے معاملے پر جو سیاسی حکومتوں میں معمول بنتا جارہا ہے، 70 فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئیں یا کم از کم ان اہلکاروں کے دل میں اپنی نوکریوں کے حوالے سے مختلف جماعتوں کے لیے نرم گوشہ تھا۔ اسی طرح اگر گذشتہ 5 سال میں 15 سے 18 ہزار پولیس کانسٹیبل بھرتی کیے گئے تو ان میں کم از کم 6 ہزار سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بھرتی کیے۔ گذشتہ 5 حکومتوں میں محکمہ پولیس میں کی گئی 50ہزار بھرتیوں میں سے اکثریت سیاسی رجحان اور پارٹیوں کے کوٹے کی بنیاد پر کی گئی۔


 



یہی وجہ ہے کہ سندھ پولیس نہ صرف ایک سیاسی فورس بن چکی ہے بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم بھی ہے۔ اس صورتحال میں کسی کو حیرنی نہیں ہونی چاہیے کہ سندھ خاص طور پر کراچی میں امن و امان کی صورت حال کیوں بد سے بد تر ہورہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹرز (اے ایس آئیز) کی تقریباً ؓ 700اسامیاں طویل عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی ہیں۔انھیں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے آنا تھا جہاں انکا انٹرویو ہوا تھا اور وہیں سے ان کی تعیناتی ہونی تھی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس واپس لیے جانے کے بعد پولیس نے، پولیس ایکٹ1861اور پولیس رول1931 کے تحت براہ راست اپوائنٹمنٹ اور ترقی کی کوشش کی لیکن جب پولیس پہرست کا اجرا کرنے والی تھی، الیکشن کمیشن نے پابندی عائد کردی۔ اب سندھ پبلک سروس کمیشن فیصلہ کرے گا۔

حیران کن امر یہ بھی ہے کہ نگراں حکومت کا پہلا بڑا فیصلہ پولیس میں بھرتی سے متعلق ہی کیوں تھا۔90کی دہائی کے وسط میں 5000پولیس والوں کو اس بات پر نکال دیا گیا تھا کہ انکی بھرتی کسی ریکارڈ کی چھان بین کے بغیر، سیاسی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک اعلیٰ افسر نے رازداری کی شرط پر بتایا کہ رپورٹ ملی تھی کہ یہ پولیس والے ادارے سے زیادہ اپنی پارٹیوں کے وفادار تھے۔بعض حضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس افسران نے انکشاف لیا کہ کئی پولیس والے مجرموں کی پشت پناہی میں ملوث پائے گئے تھے۔

Recommended Stories

Load Next Story