کیا قانون اور انصاف ایک ہی شے ہے
عدالت کسی بھی ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ ہے لہذا اس کا امانت دار،غیر مصلحت پسند، غیر جذباتی اور بے خوف ہونا لازمی ہے۔
یہ قصہ تقریباً ہر قانون دان سناتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب لندن پر جرمن فضائیہ غول در غول بمباری کر رہی تھی اور ہر جانب آگ اور ملبہ نظر آرہا تھا، وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کو روزانہ نقصانات کی تفصیل پیش کی جاتی۔ ایک روز چرچل نے پوچھا مادی نقصانات کی تو بھر پائی ہو جائے گی، یہ بتائیے کہ عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟ بتایا گیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔چرچل نے کہا زبردست۔جب تک عدالت فعال ہے کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔
وہ چرچل تھا اور وہ برطانوی نظامِ انصاف تھا کہ جس پر چرچل سمیت ہر ہما شما کو اعتماد تھا اور بہت حد تک آج بھی ہے۔مگر یہ اعتماد اوپر سے نیچے تک کیوں تھا اور آج تک کیوں ہے ؟ شائد اس لیے کہ جس ملک میں عام آدمی کو ایسا لگے کہ عدالتیں بنیادی حقوق کی مسلسل غیر مشروط ضامن ہیں، وہاں اندھے انصاف پر اندھا اعتماد ہی ہو سکتا ہے۔اگر ایسی عدالتوں کا دائرہ کار چیلنج کرنا بھی ایک چیلنج ہے اور اکثر ملزم بھی ایسا چیلنج قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔
مستحکم معاشروں میں عدلیہ پر اندھے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ محض کاغذ پر نہیں حقیقت میں بھی خودمختار ہوتی ہے۔کسی مستحکم معاشرے میں بھی اسقاطِ انصاف ( مس کیرج آف جسٹس ) ہو سکتا ہے مگر اس کا زیادہ تر سبب تحقیق و پراسکیوشن کا معیار ہوتا ہے۔اگر دونوں شعبے رپورٹنگ، شواہد اور گواہی کے معاملے میں صادق اور امین نہ ہوں تو پھر دستیاب ریکارڈ اور شواہد کی بنا پر اسقاطِ انصاف ممکن ہے۔ یعنی فیصلہ غلط، ناقص یا نامکمل ہو سکتا ہے فیصلہ دینے والا غلط نہیں ہو سکتا یا نہیں ہونا چاہیے۔
ایسے متعدد کیسز تاریخ میں محفوظ ہیں جن کے فیصلے غلط شواہد کی بنا پر ہوئے مگر درست حقائق اگر برسوں بعد بھی سامنے آئے تو انھیں قبول کر کے ری ٹرائیل کیا گیا۔
اس بابت سب سے مشہور کیس فرنچ آرمی کیپٹن الفریڈ ڈریفس کا ہے جسے اٹھارہ سو چورانوے میں اصل ملزم فریڈرک ہیزی کو بچانے کے لیے کاؤنٹر انٹیلی جینس کے سربراہ جارج پیکارٹ کے ایما پر شواہد گھڑ کے قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ایک فوجی عدالت نے جرمنوں کو قومی راز فروخت کرنے کے الزام میں ڈریفس کو دس برس قید سنا دی۔اس معاملے پر فرانسیسی رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔کچھ کہتے تھے ڈریفس کو یہودی ہونے کی سزا ملی۔دوسرے کہتے تھے دال میں کالا ہے لہذا سزا درست ہے۔جب سول سوسائٹی کے دباؤ کے سبب دستیاب شواہد کے نقائص کو ازسرِ نو جانچا گیا تو انیس سو چھ میں ڈریفس کو بری کر کے فوج میں باعزت بحال کر دیا گیا۔
مغرب تو اپنے شہریوں کے لیے ایک بہتر انصافی مشینری صدیوں پر پھیلی ناانصافی کے ملبے پر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔مگر کیا یہی بات ترقی پذیر ممالک کے عدالتی نظام کے بارے میں بھی تیقن سے کی جا سکتی ہے کہ فیصلے ناقص ہو سکتے ہیں جج غلط نہیں ہو سکتے۔اس کا تعلق براہ راست قانون سازی کے معیار سے ہے۔اگر قانون انسان دوست ہے تو جج کا فیصلہ بھی انسان دوست ہوگا۔اگر قانون ہی انسان دشمن ہے تو پھر عدالت بھی اسی نظام کی پیداوار ہو گی اور وہی فیصلے دے گی جس سے ظلم کا نظام مضبوط ہو۔
پھر یہ بحث جنم لیتی ہے کہ عدالت کا کام صرف نافذ قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے یا فطری انصاف دینا ہے۔جج کی کسوٹی یہ ہے کہ ناقص قانون کے تحت کام کرتے ہوئے بھی اس میں سے انصاف کا پہلو نکال لے۔مگر کتنے جج ایسا کرتے ہیں یا صلاحیت رکھتے ہیں۔
عدالت کا دبدبہ اس کے فیصلوں سے جنم لینے والے وقار سے مشروط ہے۔وقار ختم دبدبہ ختم۔عدالت وہ ہے جس کی زنجیر عام آدمی بے دھڑک ہلائے اور مجرم انصاف کے خوف سے گھبرائے۔اگر معاملہ الٹا ہو جائے کہ مجرم تو دندناتا ہوا کمرہ عدالت میں داخل ہو اور عام سائل کے قدم عدالت کے سامنے سے گذرتے ہوئے گڑبڑا جائیں تو پھر یقیناً کوئی بنیادی گڑبڑ ہے۔
ہم بحثیت ریاست اور سماج شائد اسی مسئلے سے دوچار ہیں اور مسئلہ روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔جن ممالک میں کوئی ایک قانون لاگو ہے وہاں سقم دور کرنے اور نظرِ ثانی کی گنجائش زیادہ رہتی ہے۔لیکن کسی ریاست میں کئی اقسام کے نظام ہائے عدالت کام کر رہے ہوں تو وہاں اسقاطِ انصاف کی گنجائش اور بڑھ جاتی ہے۔اس سے اور تو کچھ نہیں ہوتا بس انصاف کی امید، عدالت کی توقیر اور ریاستی رٹ مسلسل گھٹتی چلی جاتی ہے۔اگر ایک میان میں دو فولادی تلوار نہیں ہو سکتیں تو ایک میان میں ایک سے زائد نظام ہائے منصفی کی تلواریں گھسانا کیسے ممکن ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ حالتِ بخار میں پہلے ایلوپیتھک ٹیبلٹ کھائی جائے اس کے بعد ہومیو پیتھی کے قطرے ٹپکا لیے جائیں اور پھر حکیم صاحب کی جوارشِ جالینوس بھی نوش کر لی جائے۔ مرض اور مریض دونوں پریشان ہو جائیں گے۔
عدالت کسی بھی ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔لہذا اس کا امانت دار، غیر مصلحت پسند ، غیر جذباتی اور بے خوف ہونا لازمی ہے۔اگر ان اجزا میں سے کوئی بھی ایک کم یا غائب ہے تو پھر جو بھی انصاف ہوگا وہ ناقص اور امتیازی ہو گا۔مجھے جوڈیشل ایکٹو ازم کی اصطلاح آج تک پلے نہیں پڑی۔اگر نظام عدل مثالی ہے تو ان ایکٹو کیسے ہو سکتا ہے۔اگر ہو سکتا ہے تو پھر انصاف کیسے ایکٹو ہو سکتا ہے ؟
کئی ممالک میں آئینی عدالت الگ سے ہوتی ہے تاکہ آئینی حقوق و فرائص اور نفاذ سے متعلق امور کو زیادہ صراحت اور تیزی سے نمٹایا جا سکے۔کئی ممالک میں کوئی بھی مقدمہ سیدھا سپریم کورٹ میں نہیں آ سکتا۔توقع کی جاتی ہے کہ فریقین ہائی کورٹ کی سطح تک مطمئن کر دیے جائیں گے اور ہر فیصلے کو مزید اوپر چیلنج کرنے کے عادی نہ ہوں گے۔اگر نظام اس قدر ناقص ہو کہ ہر مسئلے کا ازخود نوٹس لینے کی ضرورت پیش آ رہی ہو تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ زیریں عدالتوں سے کام ، فیصلہ اور نفاذ نہیں ہو پا رہا۔لہذا اعلی عدلیہ کی سب سے بڑی ترجیح یہ بنتی ہے کہ وہ اوپر سے نیچے تک عدالتی مشینری کو موثر اور فعال بنائے اور جو کام مقننہ یا انتظامیہ کر سکتی ہے وہ انھی سے کروائے۔
کوئی چوکیدار پہرے کے اوقات میں غائب ہو رہا ہے یا چاق و چوبند رہنے کے بجائے پتھر کی طرح کرسی پر دھرا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود پہرے پر کھڑا ہو جاؤں۔ بات تو تب ہے کہ میں اسی چوکیدار کو اپنے فرائص کی ادائی پر مجبور کر دوں۔خود کھڑا ہونے سے پہرہ تو ہو جائے گا مگر چوکیدار اور شیر ہو جائے گا کہ میں اپنا کام کروں نہ کروں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔صاحب خود آ کے پہرہ دے لیں گے۔دوسرے کا کام اپنے ذمے لے لینا حکمت نہیں۔ حکمت یہ ہے کہ جس کا کام ہے اسی سے خوش اسلوبی یا تادیب کے ساتھ بوجھ اٹھوایا جائے۔آگے آپ خود سیانے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
وہ چرچل تھا اور وہ برطانوی نظامِ انصاف تھا کہ جس پر چرچل سمیت ہر ہما شما کو اعتماد تھا اور بہت حد تک آج بھی ہے۔مگر یہ اعتماد اوپر سے نیچے تک کیوں تھا اور آج تک کیوں ہے ؟ شائد اس لیے کہ جس ملک میں عام آدمی کو ایسا لگے کہ عدالتیں بنیادی حقوق کی مسلسل غیر مشروط ضامن ہیں، وہاں اندھے انصاف پر اندھا اعتماد ہی ہو سکتا ہے۔اگر ایسی عدالتوں کا دائرہ کار چیلنج کرنا بھی ایک چیلنج ہے اور اکثر ملزم بھی ایسا چیلنج قبول کرنے سے کتراتے ہیں۔
مستحکم معاشروں میں عدلیہ پر اندھے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ محض کاغذ پر نہیں حقیقت میں بھی خودمختار ہوتی ہے۔کسی مستحکم معاشرے میں بھی اسقاطِ انصاف ( مس کیرج آف جسٹس ) ہو سکتا ہے مگر اس کا زیادہ تر سبب تحقیق و پراسکیوشن کا معیار ہوتا ہے۔اگر دونوں شعبے رپورٹنگ، شواہد اور گواہی کے معاملے میں صادق اور امین نہ ہوں تو پھر دستیاب ریکارڈ اور شواہد کی بنا پر اسقاطِ انصاف ممکن ہے۔ یعنی فیصلہ غلط، ناقص یا نامکمل ہو سکتا ہے فیصلہ دینے والا غلط نہیں ہو سکتا یا نہیں ہونا چاہیے۔
ایسے متعدد کیسز تاریخ میں محفوظ ہیں جن کے فیصلے غلط شواہد کی بنا پر ہوئے مگر درست حقائق اگر برسوں بعد بھی سامنے آئے تو انھیں قبول کر کے ری ٹرائیل کیا گیا۔
اس بابت سب سے مشہور کیس فرنچ آرمی کیپٹن الفریڈ ڈریفس کا ہے جسے اٹھارہ سو چورانوے میں اصل ملزم فریڈرک ہیزی کو بچانے کے لیے کاؤنٹر انٹیلی جینس کے سربراہ جارج پیکارٹ کے ایما پر شواہد گھڑ کے قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ایک فوجی عدالت نے جرمنوں کو قومی راز فروخت کرنے کے الزام میں ڈریفس کو دس برس قید سنا دی۔اس معاملے پر فرانسیسی رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔کچھ کہتے تھے ڈریفس کو یہودی ہونے کی سزا ملی۔دوسرے کہتے تھے دال میں کالا ہے لہذا سزا درست ہے۔جب سول سوسائٹی کے دباؤ کے سبب دستیاب شواہد کے نقائص کو ازسرِ نو جانچا گیا تو انیس سو چھ میں ڈریفس کو بری کر کے فوج میں باعزت بحال کر دیا گیا۔
مغرب تو اپنے شہریوں کے لیے ایک بہتر انصافی مشینری صدیوں پر پھیلی ناانصافی کے ملبے پر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔مگر کیا یہی بات ترقی پذیر ممالک کے عدالتی نظام کے بارے میں بھی تیقن سے کی جا سکتی ہے کہ فیصلے ناقص ہو سکتے ہیں جج غلط نہیں ہو سکتے۔اس کا تعلق براہ راست قانون سازی کے معیار سے ہے۔اگر قانون انسان دوست ہے تو جج کا فیصلہ بھی انسان دوست ہوگا۔اگر قانون ہی انسان دشمن ہے تو پھر عدالت بھی اسی نظام کی پیداوار ہو گی اور وہی فیصلے دے گی جس سے ظلم کا نظام مضبوط ہو۔
پھر یہ بحث جنم لیتی ہے کہ عدالت کا کام صرف نافذ قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے یا فطری انصاف دینا ہے۔جج کی کسوٹی یہ ہے کہ ناقص قانون کے تحت کام کرتے ہوئے بھی اس میں سے انصاف کا پہلو نکال لے۔مگر کتنے جج ایسا کرتے ہیں یا صلاحیت رکھتے ہیں۔
عدالت کا دبدبہ اس کے فیصلوں سے جنم لینے والے وقار سے مشروط ہے۔وقار ختم دبدبہ ختم۔عدالت وہ ہے جس کی زنجیر عام آدمی بے دھڑک ہلائے اور مجرم انصاف کے خوف سے گھبرائے۔اگر معاملہ الٹا ہو جائے کہ مجرم تو دندناتا ہوا کمرہ عدالت میں داخل ہو اور عام سائل کے قدم عدالت کے سامنے سے گذرتے ہوئے گڑبڑا جائیں تو پھر یقیناً کوئی بنیادی گڑبڑ ہے۔
ہم بحثیت ریاست اور سماج شائد اسی مسئلے سے دوچار ہیں اور مسئلہ روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔جن ممالک میں کوئی ایک قانون لاگو ہے وہاں سقم دور کرنے اور نظرِ ثانی کی گنجائش زیادہ رہتی ہے۔لیکن کسی ریاست میں کئی اقسام کے نظام ہائے عدالت کام کر رہے ہوں تو وہاں اسقاطِ انصاف کی گنجائش اور بڑھ جاتی ہے۔اس سے اور تو کچھ نہیں ہوتا بس انصاف کی امید، عدالت کی توقیر اور ریاستی رٹ مسلسل گھٹتی چلی جاتی ہے۔اگر ایک میان میں دو فولادی تلوار نہیں ہو سکتیں تو ایک میان میں ایک سے زائد نظام ہائے منصفی کی تلواریں گھسانا کیسے ممکن ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ حالتِ بخار میں پہلے ایلوپیتھک ٹیبلٹ کھائی جائے اس کے بعد ہومیو پیتھی کے قطرے ٹپکا لیے جائیں اور پھر حکیم صاحب کی جوارشِ جالینوس بھی نوش کر لی جائے۔ مرض اور مریض دونوں پریشان ہو جائیں گے۔
عدالت کسی بھی ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔لہذا اس کا امانت دار، غیر مصلحت پسند ، غیر جذباتی اور بے خوف ہونا لازمی ہے۔اگر ان اجزا میں سے کوئی بھی ایک کم یا غائب ہے تو پھر جو بھی انصاف ہوگا وہ ناقص اور امتیازی ہو گا۔مجھے جوڈیشل ایکٹو ازم کی اصطلاح آج تک پلے نہیں پڑی۔اگر نظام عدل مثالی ہے تو ان ایکٹو کیسے ہو سکتا ہے۔اگر ہو سکتا ہے تو پھر انصاف کیسے ایکٹو ہو سکتا ہے ؟
کئی ممالک میں آئینی عدالت الگ سے ہوتی ہے تاکہ آئینی حقوق و فرائص اور نفاذ سے متعلق امور کو زیادہ صراحت اور تیزی سے نمٹایا جا سکے۔کئی ممالک میں کوئی بھی مقدمہ سیدھا سپریم کورٹ میں نہیں آ سکتا۔توقع کی جاتی ہے کہ فریقین ہائی کورٹ کی سطح تک مطمئن کر دیے جائیں گے اور ہر فیصلے کو مزید اوپر چیلنج کرنے کے عادی نہ ہوں گے۔اگر نظام اس قدر ناقص ہو کہ ہر مسئلے کا ازخود نوٹس لینے کی ضرورت پیش آ رہی ہو تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ زیریں عدالتوں سے کام ، فیصلہ اور نفاذ نہیں ہو پا رہا۔لہذا اعلی عدلیہ کی سب سے بڑی ترجیح یہ بنتی ہے کہ وہ اوپر سے نیچے تک عدالتی مشینری کو موثر اور فعال بنائے اور جو کام مقننہ یا انتظامیہ کر سکتی ہے وہ انھی سے کروائے۔
کوئی چوکیدار پہرے کے اوقات میں غائب ہو رہا ہے یا چاق و چوبند رہنے کے بجائے پتھر کی طرح کرسی پر دھرا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود پہرے پر کھڑا ہو جاؤں۔ بات تو تب ہے کہ میں اسی چوکیدار کو اپنے فرائص کی ادائی پر مجبور کر دوں۔خود کھڑا ہونے سے پہرہ تو ہو جائے گا مگر چوکیدار اور شیر ہو جائے گا کہ میں اپنا کام کروں نہ کروں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔صاحب خود آ کے پہرہ دے لیں گے۔دوسرے کا کام اپنے ذمے لے لینا حکمت نہیں۔ حکمت یہ ہے کہ جس کا کام ہے اسی سے خوش اسلوبی یا تادیب کے ساتھ بوجھ اٹھوایا جائے۔آگے آپ خود سیانے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )