ہوائیں چل پڑی ہیں

لوٹ مار کا بازار بند اور ڈاکوؤں کا حساب ہونے جارہاہے جب قدرت فیصلے کرتی ہے تو قدرت دشمنوں کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔

طوفان تو بعد میں آتا ہے مگر اس سے پہلے فضا میں تبدیلی کی لہریں پھیل جاتی ہیں ۔ ہوائیں نا مانوس اور مختلف نظر آتی ہیں یا پھر حبس ہوتا ہے، لہروں کے طلاطم میں مزید بے چینی کا احساس ہوتا ہے اورآسمان جوکل تک اپنا تھا کچھ غیر سا لگنے لگتا ہے ۔ پرندے غیر معمولی طور پر بے چین پروازکرتے دکھائی دیتے ہیں، تھوڑا گرد و غبار بھی اڑتا نظر آتا ہے یہ طوفان کے ابتدائی آثار ہیں۔

ہر طرف بے ایمانی کا راج ہے، ہر ادارے کو کوشش کرکے مفلوج کیا گیا ہے اور اب جب عوامی بیداری کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اداروں کو بھی جاگنا پڑا ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔

کسی ایک کو ہی ساری ترقی کا حق کیوں ہے، یہ حق پورے پاکستان کا ہے، جس جگہ سے ٹیکس سب سے زیادہ مل رہا ہے اس صوبے کوکیا مل رہا ہے، یہ پہلا سوال ہے اور دوسرا یہ کہ کیا وفاق نے نظر رکھی کہ جو صوبے کو ملا وہ درست استعمال ہوا یا نہیں۔

کمیشن و ناجائز کمائی پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور اب عام لوگوں تک کا طریقہ کار ہے۔ رشوت جائز ہے اور اس حد تک کہ اگر چور پکڑکر پولیس کے حوالے کرو تو ایف آئی آر لکھوانے کے دس ہزار دو ایسے طریقے۔ ایک واقعہ ہم نے سنا دروغ برگردن راوی مگر حالات ملک کے بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کیونکہ تھانے انصاف کرتے ہیں، عملے اور افسران کا پیٹ بھرکر اور انھیں بھرنے کی ذمے داری عوام کی ہے۔

اب سابق سب کچھ بنا گھوم رہا ہے تو پھر قوانین بھی تبدیل کردینے چاہیے اس سے پوچھ کر،کیونکہ سب کام پھر قانون کے مطابق ہورہے ہوںگے لہٰذا وہ فخریہ اعلان کرسکیںگے کہ ملک سے جرائم کا خاتمہ کردیا ہے، جیسے لوڈ شیڈنگ کا زبانی خاتمہ کردیا ہے، ملک کے کچھ علاقوں میں تو بارہ بارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جب طوفان آئے گا ہوائیں بدلیںگی تو سب سے پہلے امراء کے محل اورکراچی کا ایک خاص علاقہ سنسان ہوگا۔

طوفان آنے سے پہلے مہذب لوگ، حکومت اس کا سدباب کرنے کو سخت جد وجہد کرتے ہیں جو ایک قدرتی بات ہے مگر یہاں صبح اٹھتے ہی حکومت سوٹ یا ویسٹ کوٹ پہن کر سیاسی مخالفین کو کوسنا اور دشنام طرازی کرتی ہے اور یہ رات کے ٹی وی شوز تک جاری رہتا ہے۔

معاشرے میں مثبت اور منفی دونوں لہریں چلتی ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ طاقتور کون ہے۔ آج کل منفی قوتیں جن کو للکار رہی ہیں وہ اہم ریاستی ادارے ہیں۔ دونوں ادارے منظم ہیں، فعال ہیں، لہٰذا زیادہ چیخ وپکار ہے، چنے خود کہنے والوں کے لیے لوہے کے ہوچکے یا ہونے والے ہیں۔ ہواؤں کا رخ بتارہا ہے کہ ''آشیانہ'' گرنے والا ہے ۔ قائد اعظم ثانی بننے کی کوشش ہورہی ہے جھوٹوں کا جم غفیر ہے۔


تالیاں ضرور عوام بجائے گی۔ تماشا بھی ختم ہوگا مگر کسی کا تماشا اس کے لیے کچھ وقت کا انتظار ہے۔ اب تک کی تمام فلمیں جو انھوں نے اہم ریاستی اداروں کے خلاف چلائیں فلاپ ہوچکی ہیں اور جلد بقیہ سینماؤں سے بھی اترنے والی ہیں۔ لوگ حقیقت جان چکے ہیں اور شفاف الیکشن کی صورت میں ان کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ مد و جزر کا آغاز ہوچکا ہے پنجاب سمجھ چکا ہے کہ ان پر ظلم کرنے والے کون ہیں۔ سندھ کو بھی اچھی طرح پانچ سال کیچڑ میں رہ کر بدبودار پانی پی کر، پانی کے کاروبار کو دیکھ کر بیماریوں سے خود لڑ کر حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے۔

زمینوں پر قبضے، رئیل اسٹیٹ کا دھوکا بازی کا کاروبار ، پولیس کا ظلم، ٹرانسپورٹ پر خاص لوگوں کا قبضہ اور مسلسل دوسرے لوگوں کی یہاں کے آمد اور زمینوں پر قبضے نے سندھ کے لوگوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہاں ہی کیوں آبادی کا اتنا دباؤ، پاکستان کے چار بنیادی صوبے ہیں یہ آبادی کا دباؤ سندھ پر ہی کیوں اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا اور مال جمع کرکے وہاں پہنچانا جہاں کا اشارہ پرویز مشرف نے کیا تھا یہ بھی لوگ دیکھ رہے ہیں سندھ کی ترقی نہیں سندھ کے وڈیروں، سرمایہ داروں کی ترقی، یہ مشن لگتا ہے سندھ حکومت کا سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وزارت اسمبلی اور فنڈز۔

ہوائیں تیز ہورہی ہیں، سینیٹ، قومی اسمبلی، ان سب کے بارے میں گمان ہیں جو تنکوں کا محل ہیں آپ قدرت سے نہیں لڑسکتے مفاد پرستوں اور اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کچے اور اب ''کیا ایسا پاکستان چاہیے'' اور جواب نہیں سن کر خوش ہونے والوں کا وقت آخر آپہنچا ہے، سرکشی کے بعد یہ سر آنکھ باندھنے کے کام آئے گا۔

صحافت ایک طرح کا جہاد ہے غلط کے خلاف مگر کیا ہورہاہے آپ دیکھ رہے ہیں، کوئی اور بھی دیکھ رہا ہے۔ بڑے بڑے عدالت کے سامنے حاضر ہیں اور ہونگے، ایماندارانہ صحافت نے بعض ملکوں میں انقلاب برپا کردیا اور وہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور پاکستان میں مفاد پرستانہ صحافت نے ملک کو سماجی جھگڑوں میں دھکیل دیا۔ روزانہ رات سات آٹھ بجے سے قومی جھگڑے اور گالم گلوچ کے پروگرام قوم کا مزاج بنادیے گئے ہیں۔

ایک بھی Pure Entertainment کا پروگرام نہیں ہوتا سب میں سیاست دان یا سیاست کے طنز و نشتر، ان سے بھلا عوام کو کیا ملتا ہے؟ ڈراموں میں بھی سیاست دان کردار، مارننگ شوز میں اور دوسری جگہوں پر عورتوں، بچیوں کے رقص یہ فحاشی نہیں ہے۔ بس پیسہ کمانا مقصود ہے عوام کیا دیکھ رہے ہیں۔ ان کو کیا بنایا جارہاہے تعلیم کا معیار دن بدن گر رہا ہے استاد کا احترام ختم شاگرد کی تربیت نہیں مال کمانا ہے۔

جب ایسا معاشرہ ہوجائے اور اسلام کو برائے نام کردیا جائے، ماڈل ٹاؤن میں حکومت عوام کو گولیاں مارے، شہیدوں کو انصاف نہ ملے، نا اہل کا قافلہ بچے بوڑھے کو روند کر گزر جائے انصاف نہ ملے تو پھر ظاہر ہے کہ مواخذے کی ہوائیں چلتی ہیں اور ہر پسماندہ ترین معاشرے میں سے لوگ اٹھتے ہیں اور انصاف کے لیے لڑتے ہیں اور اسے حاصل کرتے ہیں۔

ہوائیں چل پڑی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن، زینب کیس،عاصمہ کیس یہ سب علامتیں ہیں کہ سرحد اور بلوچستان کو چھوڑ کر جہاں ہمیشہ سیاست تجارت ہے چاہے مولوی ہو یا سردار، سندھ اور پنجاب میں ہوائیں تیز ہیں، تیکھی اور طاقتور ہونے والی ہیں۔ ملک کے دشمنوں کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں لوٹ مار کا بازار بند اور ڈاکوؤں کا حساب ہونے جارہاہے جب قدرت فیصلے کرتی ہے تو قدرت دشمنوں کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔

جواز پورے ہوچکے انسانوں کو دھوکا، اﷲ رسولؐ سے دشمنی سب کھل کر سامنے آگئے عوام کی فریادوں نے قدرت کو آمادہ کردیا کہ وہ انصاف کرے اور ایسا انصاف ہونے جارہاہے۔ جلد اور جو ہوگیا ہے وہ اس طرف اشارہ ہے کہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ضرور ہے مگر وقت مقررہ پر پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔ انسان کیا چیز ہے۔
Load Next Story