بھارتی فوج کی جارحیت کے سائے میں سسکتی زندگی

لائن آف کنٹرول پر آباد کشمیری جدوجہد آزادی کی قیمت جانوں کا نذرانہ دے کر چکا رہے ہیں۔

اگر پاکستان وہاں ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا تو عالمی عدالت انصاف بھارت کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

یہ 23 نومبر 2016ء کی ایک سرد اور خاموش صبح تھی۔

آزاد جموں و کشمیر میں درجنوں دیہاتیوں کی مسافر وین لائن آف کنٹرول کے قریب واقعہ ایک گاؤں ناگدار کیناری سے نیلم جہلم ویلی کے ساتھ بل کھاتی سڑک پر دوڑ رہی تھی، ان مسافروں کی منزل ریاست کا دارالحکومت مظفر آباد تھی، وین اپنے راستے پر رواں تھی کہ اچانک ایک راکٹ سرد ہواؤں کو چیرتا ہوا گاڑی سے آ ٹکرایا، زور دار دھماکہ ہوا اور پھر سارا ماحول گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے تھرا اٹھا اور فضا بارود کی بو سے بوجھل ہو گئی۔

راکٹ شیل یوں گاڑی پر گر رہے تھے، جیسے ژالہ باری ہو رہی ہو، مشین گنوں سے نکلنے والی گولیوں کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف شور مچ گیا، لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہے، صدائیں دیتے رہے کہ ''ہم تو صرف مسافر ہیں، عام شہری ہیں'' لیکن ایل او سی کی بارڈ کے پار مورچہ زن بزدل بھارتی فوجی مسلسل وین کو نشانے بنائے ہوئے تھے۔

بھارتی سورما عام شہریوں کو یوں ٹارگٹ کئے ہوئے تھے، جیسے پوری دنیا کے دہشت گرد اکٹھے ہو کر ایک گاڑی میں پکنک منانے نکلے ہوں، حالاں کہ فوجیوں کی گلے میں لٹکتی دوربینوں کے ذریعے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مسافر وین میں عام شہری سفری کر رہے ہیں۔

اس دوران ایک ایمبولینس نے شہداء اور زخمیوں کو جائے وقوعہ سے نکالنے کی کوشش کی لیکن بھارتی فوجیوں نے اسے بھی نشانہ پر رکھ لیا، شائد وہ اس بات کو یقیننی بنانا چاہتے تھے کہ کوئی ایک شہری بھی زندہ نہ بچے۔ اس سانحے میں 9 دیہاتی موقع پر ہی شہید ہوئے جبکہ موت و حیات کی کشمکش میں سسکتے ہوئے 7 زخمیوںکو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔

اس حادثہ میں نشانہ بننے والی گاڑی کا 29 سالہ ڈرائیور گلفام معجزانہ طور پر محفوظ رہا، لیکن ایک گولی اس کے گلے کو چھوتی ہوئی گزر گئی، جس کی تکلیف کو وہ آج تک نہیں بھلا پایا، وہ بتاتا ہے '' لوگ چیخ رہے تھے کہ ہم عام شہری ہیں، لیکن راکٹ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، وہ کوئی غلط فہمی نہیں تھی بلکہ بھارتی فوج نے جان بوجھ کر ہماری گاڑی کو نشانہ بنایا'' حادثہ میں بچ جانے والے ایک اور مسافر عارف مصطفائی کا کہنا ہے '' مجھے آج بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں زندہ ہوں، میرے ساتھ بیٹھے مسافر کے سر میں گولی لگی اور وہ میرے سامنے دم توڑ گیا۔ انہوں نے ہم پر ہزاروں گولیاں برسائیں۔''

بھارت کیوں کہ کبھی بھی ایسی بلااشتعال جارحیت بلکہ سرحدی دہشت گردی کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکا، لہذا اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سرے سے اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے سے انکار کر دیا، دوسری طرف قانونی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں واقعہ پر خصوصی توجہ دی گئی اور سفارتی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا، لیکن پھر یہ سانحہ وقت کی گرد تلے اوجھل ہو گیا، جس میں 9 قیمتی جانیں گئیں، 9 خاندان تباہ ہو گئے۔

بھارتی فوج کی جارحیت کے باعث عام شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے، لیکن افسوس! عالمی سطح پر ایک بے رحم اور احساس سے عاری مکمل خاموشی چھائی رہی، کسی کو سرحدی خلاف ورزی دکھائی دی نہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ ہوا۔

آسان ہدف


لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف تعینات فوجی جوان تو کنکریٹ کے بنکرز کی وجہ سے نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں، لیکن عام شہری تو کسی کے لئے بھی ایک آسان ہدف ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس ہنگامی صورت حال میں کوئی پناہ گاہ ہوتی ہے نہ اپنی حفاظت کے لئے کوئی ہتھیار۔ بھارتی فوجیوں کو یہ بات معلوم ہے کہ وہ دشمن کو تو نشانہ نہیں بنا سکتے تو کیوں نہ عام شہریوں کی زندگیوں سے کھیل کر ہی اپنے جذبات کی تسکین اور بہادری کے میڈل حاصل کئے جائیں۔

اس دردناک واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد 15 فروری کو بزدل بھارتی فوج نے ایک بار پھر وہی کچھ کیا جو وہ پہلے بھی کرتے آئے ہیں اور بچوں کو سکول لے جانے والی وین کو نشانہ بنا ڈالا۔ یہ وین طالبات کو چھوڑنے جا رہی تھی کہ بٹل سیکٹر میں بھارتی اسنائپرز نے وین کے ڈرائیور عمر کو نشانہ بنایا، خوش قسمتی سے ہچکولے کھاتی ہوئی گاڑی سڑک کنارے لگے بیرئیر سے ٹکرا کر رک گئی، یوں تمام طالبات تو محفوظ رہیں، لیکن ڈرائیور موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا۔

اس واقعہ کے ٹھیک تین روز بعد بھارتی اسنائپر نے کوٹیل سیکٹر میں گھر کے باہر کھیلتے ہوئے 8 سالہ بچے ایان زاہد کو فائرنگ کرکے بے رحمی سے شہید کر دیا۔ 22 فروی کو بھارتی فوج نے تیتری نوٹ گاؤں کے ایک 19 سالہ لڑکے انضمام امین کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بٹل سیکٹر میں پہاڑوں پر کام کر رہا تھا۔

دریائے پونچھ کے کنارے آباد گاؤں بٹل اور مندھول کے باسیوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی طرف سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا اب کوئی انوکھی بات نہیں رہی، انہوں نے تو یہ وطیرہ ہی بنا لیا ہے۔ بھارتی شیلنگ کا شکار بننے والے بٹل گاؤں کے ایک رہائشی محمد عمر کا کہنا ہے کہ ''وہ باقاعدگی سے ہمارے گاؤں پر شیلنگ کرتے ہیں''۔

ان دونوں دیہات کے باسیوں کی مجموعی آبادی تقریباً 5 ہزار ہے، جنہیں بھارتی فوجیوں کی طرف سے متعدد بار نشانہ بنایا جا چکا ہے، جس کی گواہی اس گاؤں کے گھروں کی دیواریں دیتی ہیں، جو بھارتی گولیوں اور شیلنگ سے چھلنی ہو چکی ہیں۔ یہاں ہر خاندان کی ایک کہانی ہے، جسے سننے کے بعد پتھر دل بھی موم ہو جائیں، لیکن دنیا اپنی خاموشی اور بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔

بلیم گیم


پاکستان اور بھارت کے درمیان 3252 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جس میں سے 2175 کلومیٹر کو باقاعدہ عالمی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے جبکہ باقی سرحد کو تین حصوں میں تقیسم کیا گیا ہے، جس میں سے 108 کلومیٹر لائن آف ایکچیوئل کنٹرول (LoAC)، 767 کلومیٹر لائن آف کنٹرول اور 202 کلومیٹر ورکنگ باؤنڈری شامل ہے۔

1948ء سے دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ تاہم 2003ء میں ایک زبانی معاہدہ کے تحت دونوں طرف سے سیز فائر ہو گیا، یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام تر ناانصافیوں اور عام شہریوں کا خون بہائے جانے کے باوجود سیز فائر کی پیشکش اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے کی تھی۔ اس دوران مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے، لیکن پاکستان کی طرف سے قیام امن کی تمام کوششیں اس وقت لاحاصل ثابت ہوئیں جب نئی دہلی نے بھارت پر حملہ آور ہونے والے عسکریت پسندوں کو پاکستان کی طرف سے پناہ دینے کے الزامات لگاتے ہوئے مذاکرات کو ختم کر دیا۔


لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر 2003ء سے اب تک کی بدترین کشیدگی جاری ہے، جس کا آغاز 2016ء کے اواخر میں اس وقت ہوا، جب ماہ ستمبر میں مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر بھارتی فوجی اڈے پر حریت پسندوں نے حملہ کر دیا، اس حملہ میں 17 بھارتی فوجی مارے گئے۔

بھارت نے الزام لگایا کہ اس حملہ کا ذمہ دار پاکستان میں کام کرنے والی جہادی تنظیم جیش محمدؐ ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اڑی حملہ اس وقت ہوا، جب پورے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند برہان وانی شہادت پر غم و غصے کا اظہار اور مظاہرے کئے جا رہے تھے۔ پوری دنیا برہان وانی کے واقعہ پر بھارت پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی جبکہ بھارت ہر قیمت پر دنیا کی توجہ اس سانحہ سے ہٹانا چاہتا تھا۔

عسکری ماہرین کے مطابق 2016ء سے اب تک بھارت نے 2 ہزار سے زائد بار سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت 44 عام شہریوں کو شہید کر دیا جبکہ ان خلاف ورزیوں کے نتیجے میں 154 شہری شدید زخمی بھی ہو چکے ہیں، جن میں کوئی اپنا ہاتھ، ٹانگ گنوا بیٹھا تو کوئی آنکھیں۔ بین الاقوامی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے بانی صدر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ '' عالمی قانون کے تحت لائن آف کنٹرول پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع مقام ہے، لہذا اس صورت میں یہاں جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔ سکیورٹی فورسز کسی ایک فریق کی طرف سے اشتعال دلانے یا اپنی سرحدی حفاظت کے لئے قانونی طریقے سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو سکتی ہیں، لیکن نہتے عام شہریوں کی حفاظت دونوں طرف سے یقینی بنائی جانی ضروری ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کی طرف سے عام شہریوں کو نشانہ بنانا نہ صرف جنیوا کنونشن بلکہ عالمی قانون برائے انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔''

لائن آف کنٹرول پر تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے '' پاکستان کی طرف سے کبھی بھی فائرنگ کی ابتدا نہیں کی جاتی اور یہ بات بھارتی فوجی خود بھی مانتے ہیں، لیکن وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرتے''۔

دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس ایسی کئی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے وہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پیدا کرنے میں پہل نہیں کرتا اور انہی وجوہات کی بنا پر اس کی طرف سے پہل نہ کرنے کے دعوے کو تقویت بھی ملتی ہے۔ پہلے تو پاکستانی فوج کی ایک کثیر تعداد افغانستان آنے اور جانے والے طالبان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے مغربی سرحد پر تعینات ہے، جن کی کمانڈ فوج کے بہترین آفیسرز کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت نے پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوج لائن آف کنٹرول پر تعینات کر رکھی ہے۔

دوسرا پاکستان کبھی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف جاری مقبول ترین جدوجہد آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں بڑھائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوجی دستے جوابی حملہ کے امکانات کو جانتے ہوئے کبھی بھی لائن آف کنٹرول سے ملحقہ آباد عام شہریوں کی زندگی کو خطرے سے دوچار کرنے کے لئے فائرنگ میں پہل نہیں کریں گے۔

بھارتی فوج کا دعوی ہے کہ وہ صرف دراندازی کو روکنے کے لئے فائرنگ کرتے ہیں، جو زمینی حقائق کے بالکل منافی ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی سینئر سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے '' بھارت کی جانب سے سیز فائر معاہدہ کو 2016ء کے اواخر میں منسوخ کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ دراندازی اس سے پہلے ہو رہی تھی، لیکن یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکوہ سال کے اوائل میں ہی بھارتی فوج نے یہ دعوی کیا کہ نام نہاد دراندازی کو کافی حد تک کچل دیا گیا ہے'' جنوری 2016ء میں مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل ستیش دوا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھارتی فوج کے سخت اقدامات کے باعث لائن آف کنٹرول پر سرحد پار سے ہونے والی دراندازی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے''۔

اس کے علاوہ بھارتی فوج نے نہ صرف ایک باڑ تعمیر کی ہے، جس کا زیادہ تر حصہ ایل او سی کے ساتھ ہے، بلکہ ممکنہ طور پر دراندازی کے مقامات کا نقشہ تیار کرکے چوبیس گھنٹے ان مقامات کی نگرانی وہ اہلکار کر رہے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ اسی لئے 2014ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں ایل او سی پر تعینات رہنے والے بریگیڈیئر اے سن گپتا کا کہنا تھا کہ '' ایل او سی کے ساتھ تہری باڑ کو عبور کرنا کسی بھی درانداز کے لئے ناممکن ہے''۔

پاکستان کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے بھارتی دعوی کی نفی اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود آزاد کشمیر کے امن کو آنچ نہیں آئی۔

اس ضمن میں آزاد کشمیر کے وزیر برائے تعلیم افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ '' آزاد کشمیر میں امن یہ ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر امن سے محبت کرنے والی قوم ہے، تحریک طالبان پاکستان نے آزاد کشمیر میں اپنی فرنچائز کھولنے کی کوشش کی لیکن اس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی، پھر داعش کی طرف سے یہاں قدم جمانے کی کوشش کی گئی تو وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئی، لہذا امن سے محبت کرنے والے کشمیری کیسے کسی کو بھی اپنی سرزمین دہشت گردی یا تشدد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟''

بھارتی عزائم


لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھانے اور عام شہریوں کو نشانے بنانے کے پیچھے بھارت کے آخر کیا مقاصد ہیں؟ اس سوال پر پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ '' نیو دہلی ایک تو بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد کو دبایا جا سکے اور دوسرا عام شہریوں میں خوف پیدا کرکے انہیں لائن آف کنٹرول سے دور کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہاں مستقل بارڈر بنانے کی اپنی سوچ پر عملدرآمد کر سکے۔''

لیکن کشمیریوں کو کہنا ہے کہ بھارت انہیں کبھی بھی خوفزدہ کرکے اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکتا۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری محمد یاسین کا کہتے ہیں کہ '' بھارت جتنا مرضی کشمیریوں کے حوصلے اور ہمت کو آزما لے، وہ کبھی متزلزل نہیں ہوں گے، وہ کبھی بھی اپنے گاؤں چھوڑیں گے نہ کسی اور جگہ جا کر آباد ہوں گے۔''

اگردونوں طرف سے کوئی بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اس جارحیت کا ذمہ دار ہے تو کون اس کا فیصلہ کرے گا؟ اس کا جواب 1949ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی اس قرارداد میں مضمر ہے، جس میں پاکستان اور بھارت کے لئے اقوام متحدہ کی طرف سے ایک عسکری مبصر گروپ تشکیل دیا گیا، لیکن بھارت نے ہمیشہ اس سے نظر چراتے ہوئے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ شملہ معاہدہ 1972ء کے بعد وہ اس معاملے میں کم سے کم کردار ادا کرے اور اسی وجہ سے بھارت اقوام متحدہ کے عسکری مبصر گروپ کو مذکورہ خطے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ 2014ء میں عالمی عسکری مبصرین کو نئی دہلی میں فراہم کیا گیا سرکاری بنگلہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا جبکہ دوسری طرف پاکستان میں مبصرین کو ہر سطح پر سہولیات فراہم کی گئیں۔

ان حالات میں پھر پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں، جن کے ذریعے وہ بھارت کو نہتے کشمیریوں پر حملوں سے روک سکتا ہے؟ کے جواب میں معروف قانون دان فروغ نسیم کہتے ہیں کہ '' اسلام آباد اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان وہاں ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا تو عالمی عدالت انصاف بھارت کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے۔ اور اگر پاکستان دوسری آپشن استعمال کرتا ہے تو سکیورٹی کونسل حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک ثالث مقرر کر سکتی ہے، جس کی معلومات کو متعلقہ کمیٹی کے سامنے رکھا جا سکتا ہے''۔
Load Next Story