خارش انفرادی بھی اجتماعی بھی

خارش زدہ معاشروں میں لوگ اجتماعی خارش کرتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر ہر طرح کی بدی سے لذت اٹھاتے ہیں

خارش ہونے کے اسباب پر جان بوجھ کر غور نہیں کیا جاتا کیونکہ اگر ان کا تعین کرکے خارش پر قابو پالیا جائے تو خارش کرنے کی لذت سے محروم ہونا پڑے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD:
اردو میں ''خارش،'' عربی میں ''الحكة،'' پشتو میں ''خارخ،'' سرائیکی میں ''خرسی'' اور پنجابی میں اسے پیار سے ''کھرک'' کہتے ہیں۔ یہ عادت بھی ہوسکتی ہے اور بیماری بھی۔ بیماری ہو تو علاج ممکن ہے مگر عادت ہو تو ترک کرنے کےلیے مشق، صبر اور ضبط تینوں برابر مقدار میں چاہئیں۔

''خارش ہونا'' اور ''خارش کرنا'' دو الگ الگ چیزیں ہیں جیسے پیاس لگنا اور پانی پینا، بھوک لگنا اور روٹی کھانا، نیند آنا اور سوجانا وغیرہ۔

''خارش ہونا'' ایک شدید طلب کی کیفیت کا نام ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر بدن کے اوپری حصے یعنی جلد پر پھیل جاتی ہے جبکہ ''خارش کرنا'' اس لذت آمیز عمل کو کہتے ہیں جس میں مخصوص آلات یا جسمانی اعضاء کے ذریعے اس طلب کو تسکین فراہم کی جاتی ہے۔ خارش ہلکے درجے کی ہو تو بلا خوف و خطر ''کھجلی'' بھی کہلائی جاسکتی ہے۔

خارش کرنے کی لذت تبھی نصیب ہوتی ہے اگر خارش ہو رہی ہو، ورنہ بغیر خارش کے خارش کرنا سعئ لاحاصل ہوگا۔ خارش کرنے کا مزہ کیا ہوتا ہے، یہ صرف خارش کرنے والا ہی جانتا ہے جبکہ دیکھنے والا تو محض حسرت ہی کرسکتا ہے کہ اے کاش مجھے بھی خارش ہو، میں بھی خارش کروں اور مجھے بھی مزہ آئے۔

البتہ مل جل کر اجتماعی خارش کرنے والے ان حسرتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

خارش سر سے لے کر پاؤں تک، جسم کے ہر حصے پر ہوسکتی ہے اور زمان و مکاں سے بے نیاز ہوکر کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ ہوسکتی ہے۔ چونکہ بدن کے کچھ حصوں پر سرعام خارش کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے لہذا ایسی نازک صورتحال اچانک پیش آجائے تو عقل مند اور مہذب لوگ ہمیشہ دائیں بائیں دیکھ کر خارش کرتے ہیں۔ البتہ اس لازمی احتیاط سے بے نیازی برتنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

خارش گندگی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، اسی لیے کہا گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

فتنہ پرور شخص کو نجانے کیوں سب لوگ کہتے ہیں کہ اسے ''ہر وقت کوئی نہ کوئی خارش رہتی ہے'' حالانکہ دیکھنے میں اس کی جلد تو ٹھیک ٹھاک نظر آتی ہیں۔ شاید ایسی ''خارش'' کا تعلق دماغ کے خلل، حسد کی آگ، منتقم مزاجی اور فرد کی غیر ضروری فراغت سے بھی ہے۔

خارش ہو تو خارش کرنے سے باز رہنا کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ سانس روک کر کیجیے۔ جتنی دیر سانس روکی جاسکتی ہے، تقریباً اتنی ہی دیر خارش پر ضبط کیا جا سکتا ہے۔ پھر جلد ہی سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور خودبخود خارش کرنے کا فطری عمل یوں جاری ہوجاتا ہے جیسے رکے ہوئے سانس کا ریلا بے ساختہ باہر نکلتا ہے۔

ظہیرالدین بابر کو شدید خارش کا مرض لاحق ہوا تو لباس تک پہننے سے عاجز تھا۔ شبانی خان اسے ملنے آیا تو بادشاہ کو مہمان کے سامنے خارش کرنا گوارا نہ تھا۔ اس نے شاہی پوشاک پہنی اور شبانی خان کے سامنے آدھا دن بغیر خارش کیے بیٹھا رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری زندگی ڈھائی فتح سے عبارت ہے:

ایک پوری فتح جنگل میں اژدہے سے تنہا جنگ جیتنا،
دوسری پوری فتح شبانی خان کے سامنے آدھا دن بغیر خارش کیے بیٹھنا؛
اور آدھی فتح آدھی دنیا کو فتح کرنا۔


گویا اس کے نزدیک آدھا دن خارش پر ضبط کرنا آدھی دنیا فتح کرنے سے دو گنا مشکل کام تھا۔

آپ میں ہمت ہے تو خارش روک کر دکھائیے۔

خارش کی بھی جاتی ہے اور کروائی بھی جاتی ہے۔ کروانے کی نوبت اس وقت آتی ہے جب خارش کے مقام تک ہاتھ پہنچنے میں دقت ہو۔ دیہات میں بزرگ حضرات سردیوں کی چمک دار دھوپ میں کمر ننگی کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور بچے ان کی کمر پر ننھے ہاتھوں سے باری باری خارش کرتے رہتے ہیں جسے بزرگوں کی خدمت شمار کیا جاتا ہے۔

شہروں کے جدت پسند بزرگ اس قدامت پسندانہ سہولت سے محروم ہیں لہذا انہیں بازار سے خارش کرنے والا پنجہ سستے داموں مل جاتا ہے جسے کمر پر دھیرے دھیرے رگڑ کر سکون حاصل کیا جاتا ہے۔

جانوروں اور پرندوں کو پنجے والی سہولت میسر نہیں ہوتی لہذا وہ کسی درخت سے جسم کو رگڑ کر گزارا کرتے ہیں یا بڑے سلوک سے ایک دوسرے کی خارش کرتے ہیں۔ کمر کے عین اوپر والے حصے پر درخت کا تنا استعمال نہیں ہوسکتا، اس کےلیے گدھے، کتے، گھوڑے وغیرہ زمین پر لوٹ پوٹ ہوتے ہیں جس سے انگ انگ پر خارش کی جاتی ہیں اور دھول الگ سے اڑائی جاتی ہے۔

بندر البتہ خارش کے معاملے میں خود کفیل ہے کیونکہ اس کے جسم کا کونا کونا اس کی دسترس میں ہوتا ہے۔

ایسا شخص جسے خارش ہو اور وہ مسلسل خارش کرے مگر خارش ختم نہ ہو یعنی تسکینِ طلب کی تکمیل نہ ہو حتی کہ خارش کی زیادتی سے جسم پر آبلے پڑجائیں، اسے خارش زدہ کہیں گے۔ خارش زدہ شخص خارش کرتا رہتا ہے، لذت اٹھاتا رہتا ہے اور جلد کے زخم بگاڑتا رہتا ہے۔

ویسے ہم نے سن رکھا ہے کہ جہنم میں غیبت کرنے والوں کو خارش کا عذاب دیا جائے گا جس میں وہ تانبے کے ناخنوں سے اپنا گوشت نوچیں گے۔ اللہ محفوظ رکھے۔ خارش زدہ کتے کی خدمت سے جنت بھی مل جاتی ہے۔

معاشرے بھی خارش زدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر لوگ اجتماعی طور پر خارش کرتے ہیں اور ہر طرح کی بدی سے لذت اٹھانے میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کتنی قیمتی اقدار لہولہان ہورہی ہیں۔

سیاست خارش زدہ ہوجائے تو سیاستدان نہ صرف اپنی اپنی خارش کرتے ہیں بلکہ حسب ضرورت ایک دوسرے کی خارش کرنے کے خاموش معاہدے کی بھی کھلے عام پاسداری کرتے ہیں، خواہ اس سے ملک و قوم تباہی کے دہانے پر ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

اہل مذہب کو بھی خارش ہوتی ہے مگر علماء اس کا اہتمام ہمیشہ انفرادی سطح پر کرتے ہیں اور کسی صورت اتحاد و اتفاق سے خارش نہیں کرتے بلکہ ان کے ہاں تو ہر کسی کی اپنی اپنی خارش ہے۔ اس معاملے میں اہل سیاست کا ''اندازِ خارش'' اہل مذہب سے کہیں بہتر ہے کیونکہ وہ دنیاوی مفادات کی خاطر اختلافات سے بالاتر ہو کر یکجا ہوجاتے ہیں اور یہ اللہ کےلیے بھی دین کے ایک ورژن پر اکٹھے نہیں ہوتے۔

خارش ہونے کے اسباب پر جان بوجھ کر غور نہیں کیا جاتا کیونکہ اگر ان کا تعین کرکے خارش پر قابو پالیا جائے تو خارش کرنے کی لذت سے محروم ہونا پڑے گا جو لذت کے رسیا اس معاشرے، سیاست اور اہل مذہب کے بس کی بات نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story