ایک سانحہ اور ایک اچھی خبر
دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک کے دارلحکومت کے ائرپورٹ پر کتابوںکی دکان ضرور ہوتی ہے
KATHMANDU:
اتنا بڑا سانحہ ہو گیاجو تشویشناک بھی ہے اور خطرناک بھی مگر نہ کسی چینل پر بریکنگ نیوز چلی ہے،نہ حکومت کے کان پر جوں تک رینگی، نہ عدالتِ عظمٰی نے از خود نوٹس لیا ہے۔ حادثے سے بڑاسانحہ یہ ہوا ہے کہ کسی نے اس خوفناک سانحے کا احساس ہی نہیں کیا شاید کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد (جسے ہم دنیا کے دوسر ے خوبصورت ترین دارلحکومت کے طور پر متعارف کرا تے ہیں)کے اکلوتے ائیرپورٹ پر واقع کتابوںکی واحد چھوٹی سی دکان بند کر دی گئی ہے، جوکسی سانحے سے کم نہیں۔یہ ٹریجیڈی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاشرہ زوال پذیر ہے،نئی نسل علم کی شاہراہ چھوڑکر جہالت کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہے۔قوم ذہنی،علمی اور سماجی طور پر پستی کی طرف رواں دواں ہے۔
دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک کے دارلحکومت کے ائرپورٹ پر کتابوںکی دکان ضرور ہوتی ہے اور لوگوں کا سب سے زیادہ جھمگٹا وہیں ہوتا ہے۔مگرہمارا کتاب سے ناتا ٹوٹ رہاہے،یہ رشتہ کیوں ختم ہو رہا ہے؟کیا ہمارے رائٹر،دانشور میڈیا کے کارپردازاور اربابِ بست و کشاد اس کے مضمرات سے آگاہ ہیں؟اگر آگاہ ہیں تو اس کے ازالے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟کیا ہماری نئی نسل اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علم ہی وہ روشنی ہے جو انسانوں کو راستہ دکھاتی اور منزل کی نشاندہی کرتی ہے۔علم ہی و ہ طاقت ہے جس سے انسان کائنات کے رازمعلوم کرتا ہے اور مہرومہ وانجم کو مسخرّکرتاہے۔
نئی نسل کے ذہن علم کے نور سے خا لی ہو گئے تو وہاں جہالت اور تعصبات کے اندھیر ے جاگزیں ہوں گے۔ ایسی نسل کیا کسی بڑے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گی؟کیا موثرّاندازمیں دنیاکے سامنے پاکستان کا مقدّمہ پیش کر سکے گی؟کیا سازشوںمیںگھرے ہوئے وطنِ عزیز کے تحفظّ کی ذمیّ داری سے عہدہ برا ہو سکے گی؟
یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون نے کتب بینی کو بہت متاثرّکیا ہے اور کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے جس خطے اور جن ملکوںسے ہمیںیہ تحائف موصول ہوئے ہیں وہاںانٹرنیٹ اور موبائل، کتب بینی کا ذوق و شوق کم نہیں کرسکے۔
آج بھی امریکا یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میںہر سال ہزاروں نئی کتابیںچھپ کر مارکیٹ میں آتی ہیںاور کروڑوںلوگ انھیں خریدتے ہیں اور مختلف موضوعات پر اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ چین میں ہر سال مختلف موضوعات پرساڑھے چار لاکھ،امریکا میںتین لاکھ، روس میںڈیڑھ لاکھ اور بھارت میں ایک لاکھ نئی کتابیں چھپتی ہیں، ہم سے چھوٹے ممالک ارجنٹینا میں ادب شاعری، فلسفہ، سائنس، تاریخ،سیاسیات، سماجیات، گورننس اور قانون وغیرہ پر ہر سال تیس ہزاراور برازیل میں پچیس ہزار نئی کتابیں چھپتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں۔
یورپی ممالک پر نظر ڈالیںتوکوئی نیٹ یا موبائل انگریزوںکو کتب بینی کے ذوق سے محرو م نہیںکر سکا، برطانیہ میں ہر سال دولاکھ نئی کتابیں چھپتی ہیں،جرمنی میںپچاسی ہزار اور اٹلی میں ہر سال پینسٹھ ہزار کتابیں چھپتی ہیں۔ترکی میں 2014ء میں باون ہزار سے زیادہ کتابیں چھپیں،ملائشیامیں ہر سال سولہ ہزار نئی کتابیں چھپتی ہیں، انڈونیشامیں پچیس ہزار کتابیں چھپتی ہیں جب کہ پاکستان میں نئی چھپنے والی کتابوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے جو انتہائی'دکھ، شرم اور تشویش کی بات ہے۔یہ اس قدر تشویشناک بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کی وجوہات پر بحث ہونی چاہیے، کابینہ کا ایک اجلاس اسی پر ہوناچاہیے۔ ہر ادبی محفل میں اسپرتبادلہء خیال ہوناچائیے۔تعلیمی درسگاہوں کے سربراہ سرجوڑکر بیٹھیں اور نئی نسل کوذہنی طور پر بانجھ کر دینے والے اس مُوذ ی مرض کاعلاج ڈھونڈیں۔ اس سلسلے میںہر قسم کی رکاو ٹیں دور کی جانی چاہئیںاور نئے لکھنے والوںکی حکومت کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی ہو نی چائیے۔
وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ بک شاپس کے مالکان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں خصوصی رعایت بھی دینی پڑے تو ضرور دیں۔کتب بینی کے فروغ کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی خدمات قابل ستائش ہیں مجھے پوری توقع ہے کہ این بی ایف کے متحرک ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید اسلام آباد ائرپورٹ کا بک اسٹال بند نہیں ہونے دیںگے اور اس کی جگہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا اسٹال قائم کر دیں گے۔
وزیرِاعظم کے مشیرعرفان صدیقی صاحب خود صاحبِ قلم بھی ہیںاور صاحبِ دانش بھی، امیدہے کہ وہ بھی اس سانحے کانوٹس لیںگے اور قلم و کتاب سے نئی نسل کا رشتہ استوار کرنے کے لیے کوئی جامع اور مربوط پا لیسی بنائیںگے اورکابینہ سے منظوری لے کر اسے نافذ کرائیں گے۔ہائرایجوکیشن کمیشن لازم قراردے کہ ملک کی ہر یونیورسٹی سال میں دو بار تین روزہ بک فیئر منعقد کرائے، جہاں طلباو طالبات کو ارزاں نر خوںپر کتابیںفراہم کی جائیں اور جہاں ناشرین کو بلامعاوضہ اسٹال لگانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن اور آکسفورڈیونیورسٹی پریس جیسے ادارے ہر ضلع ہیڈکوارٹر میں بھی کتاب میلہ لگایا کریںتاکہ نوجوان نسل کا کتابوں سے تعلق استوار ہو۔ کالجوں اور یونیورسٹیوںمیںطلبا،طالبات پرلازم قرار دیا جائے کہ وہ لائبر یری سے ہرماہ ایک کتاب جاری کروایا کریں اور اسے پڑھ کر اسپر تبصرہ (ریویو)بھی لکھا کریں۔
یورپ کے ہرشہرمیںدرجنوںلائبریریاںہیں۔ لندن کے ہر محلّے کی اپنی لائبریری ہے،جہاںہر وقت علم کی پیاس بجھانے والوںکی کثیر تعدادموجود ہوتی ہے مجھے ملک کے مختلف تعلیمی اداروںمیںجانے کا اتفاّق ہوتا ہے۔ہر درسگاہ،کی لائبریری میں الماریاںکتابوںسے بھری ہوئی مگر کرسیاں خالی ہوتی ہیں۔وسیع وعریض مگر استفادہ کرنے والوںسے خالی لائبریریاں دیکھ کر بہت دل دکھتاہے،کاش ہمارے اربابِ اختیار، ہمارے اساتذہ، اور خود نوجوان یہ جا ن لیں کہ کتاب سے ناتا توڑنے کا مطلب خود کشی ہے۔یہ ذہنی پستی کاراستہ ہے۔اس کی منزل فکری انحطاط ہے،اس سے ہر صورت نکلناہوگا۔ اس کے لیے قو م میںکتاب بینی کاشوق پیداکرنا ہو گا،اس سلسلے میںعلم دوستوںکو ایک بھر پور مہم چلانا ہوگی۔کاش ملک کے فیصلہ ساز اس کی اہمیت کا احساس کریںاور اسے اپنی اوّلین ترجیحات میںشامل کریں۔
ہماری ذہنی سطح اتنی پست ہوچکی ہے کہ ہمارے پرائیویٹ چینل انتہائی پست سطح کے سیاسی پروگرام اور گھٹیاقسم کی جگت بازی پر مبنی پروگرام تو کئی کئی گھنٹے چلا تے ہیں،دوسرے ملکوںکی ایکٹرسیں کثرت ِشراب نوشی سے انتقال کر جائیںتو احساس کمتر ی کے مارے ہوئے میڈیا منیجر ان کے انتقال کی خبریںچالیس چالیس منٹ تک چلاتے رہتے ہیں مگر کبھی کسی اچھے استاد کا انٹر ویو کرنے کے لیے تیار نہیںہیں کبھی رول ماڈل کے طور پر کسی ادیب، شاعر یا دانشور کو پیش نہیں کریں گے کبھی کسی کتاب کا تعارفی پروگرام پیش نہیں کریں گے قوم بھی ذہنی انحطاط کا شکار ہے ۔اور ہمارامیڈیا بھی ایک ایسا بیمار میڈیا ہے جو ذہنی افلاس اور احساسِ کمتری کے مو ذی امراض میں بری طرح مبتلا ہو چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میںکوئی ایسی چیز شامل نہیں جس سے نئی نسل کی سمت درست ہوسکے۔
ہر کمرشل ادارہ کارپوریٹ سو شل ریسپانسیبیلٹی (CSR)کے تحت کچھ وقت عوامی مفاد اور فلاح کے لیے مختص کر نے کا پابند ہے۔مگر پرائیویٹ چینل اپنی اس ذ مّے داری سے بھی انحراف کر تے ہیں۔ ہر چینل کو پابند کیا جائے کہ ہر ہفتے ایک نئی کتاب کا تعارف ضرور پیش کیا کر یں۔
اچھی خبر
ایوان ِبا لاکا انتخاب خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا ہے جو ملک کے غیر یقینی حا لات میںکسی خوشخبری سے کم نہیں۔ چاروں صوبوںمیں کچھ ممبروں نے اپنے ووٹ بیچے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے ۔الیکشن کمیشن کو انکوائری کرانے کے بعد اس پر کاروائی کر نی چاہیے اب جب کہ یہ نظر آرہا ہے کہ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیّت سے مسلم لیگ (ن)اپنا چیئر مین منتخب کروالے گی اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن)کا انتخاب راجہ ظفرالحق صاحب ہی ہونگے ۔
راجہ صاحب سب سے سینئر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زیرک اور باکردار سیاستدان ہیں جنکا پاکستان اور پاکستان کی اساس اورنظرّئیے سے محبّت اوروفاکا رشتہ ہے۔ہر پارٹی اور گروپ کے لوگ انھیں عزت ّاور احترام سے دیکھتے ہیںاسلیے ایوانِ بالا کی سر براہی کے لیے راجہ صاحب ہی سب سے موزوں شخصیّت ہیں۔
اتنا بڑا سانحہ ہو گیاجو تشویشناک بھی ہے اور خطرناک بھی مگر نہ کسی چینل پر بریکنگ نیوز چلی ہے،نہ حکومت کے کان پر جوں تک رینگی، نہ عدالتِ عظمٰی نے از خود نوٹس لیا ہے۔ حادثے سے بڑاسانحہ یہ ہوا ہے کہ کسی نے اس خوفناک سانحے کا احساس ہی نہیں کیا شاید کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد (جسے ہم دنیا کے دوسر ے خوبصورت ترین دارلحکومت کے طور پر متعارف کرا تے ہیں)کے اکلوتے ائیرپورٹ پر واقع کتابوںکی واحد چھوٹی سی دکان بند کر دی گئی ہے، جوکسی سانحے سے کم نہیں۔یہ ٹریجیڈی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاشرہ زوال پذیر ہے،نئی نسل علم کی شاہراہ چھوڑکر جہالت کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہے۔قوم ذہنی،علمی اور سماجی طور پر پستی کی طرف رواں دواں ہے۔
دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک کے دارلحکومت کے ائرپورٹ پر کتابوںکی دکان ضرور ہوتی ہے اور لوگوں کا سب سے زیادہ جھمگٹا وہیں ہوتا ہے۔مگرہمارا کتاب سے ناتا ٹوٹ رہاہے،یہ رشتہ کیوں ختم ہو رہا ہے؟کیا ہمارے رائٹر،دانشور میڈیا کے کارپردازاور اربابِ بست و کشاد اس کے مضمرات سے آگاہ ہیں؟اگر آگاہ ہیں تو اس کے ازالے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟کیا ہماری نئی نسل اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علم ہی وہ روشنی ہے جو انسانوں کو راستہ دکھاتی اور منزل کی نشاندہی کرتی ہے۔علم ہی و ہ طاقت ہے جس سے انسان کائنات کے رازمعلوم کرتا ہے اور مہرومہ وانجم کو مسخرّکرتاہے۔
نئی نسل کے ذہن علم کے نور سے خا لی ہو گئے تو وہاں جہالت اور تعصبات کے اندھیر ے جاگزیں ہوں گے۔ ایسی نسل کیا کسی بڑے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گی؟کیا موثرّاندازمیں دنیاکے سامنے پاکستان کا مقدّمہ پیش کر سکے گی؟کیا سازشوںمیںگھرے ہوئے وطنِ عزیز کے تحفظّ کی ذمیّ داری سے عہدہ برا ہو سکے گی؟
یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون نے کتب بینی کو بہت متاثرّکیا ہے اور کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے جس خطے اور جن ملکوںسے ہمیںیہ تحائف موصول ہوئے ہیں وہاںانٹرنیٹ اور موبائل، کتب بینی کا ذوق و شوق کم نہیں کرسکے۔
آج بھی امریکا یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میںہر سال ہزاروں نئی کتابیںچھپ کر مارکیٹ میں آتی ہیںاور کروڑوںلوگ انھیں خریدتے ہیں اور مختلف موضوعات پر اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ چین میں ہر سال مختلف موضوعات پرساڑھے چار لاکھ،امریکا میںتین لاکھ، روس میںڈیڑھ لاکھ اور بھارت میں ایک لاکھ نئی کتابیں چھپتی ہیں، ہم سے چھوٹے ممالک ارجنٹینا میں ادب شاعری، فلسفہ، سائنس، تاریخ،سیاسیات، سماجیات، گورننس اور قانون وغیرہ پر ہر سال تیس ہزاراور برازیل میں پچیس ہزار نئی کتابیں چھپتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں۔
یورپی ممالک پر نظر ڈالیںتوکوئی نیٹ یا موبائل انگریزوںکو کتب بینی کے ذوق سے محرو م نہیںکر سکا، برطانیہ میں ہر سال دولاکھ نئی کتابیں چھپتی ہیں،جرمنی میںپچاسی ہزار اور اٹلی میں ہر سال پینسٹھ ہزار کتابیں چھپتی ہیں۔ترکی میں 2014ء میں باون ہزار سے زیادہ کتابیں چھپیں،ملائشیامیں ہر سال سولہ ہزار نئی کتابیں چھپتی ہیں، انڈونیشامیں پچیس ہزار کتابیں چھپتی ہیں جب کہ پاکستان میں نئی چھپنے والی کتابوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے جو انتہائی'دکھ، شرم اور تشویش کی بات ہے۔یہ اس قدر تشویشناک بات ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کی وجوہات پر بحث ہونی چاہیے، کابینہ کا ایک اجلاس اسی پر ہوناچاہیے۔ ہر ادبی محفل میں اسپرتبادلہء خیال ہوناچائیے۔تعلیمی درسگاہوں کے سربراہ سرجوڑکر بیٹھیں اور نئی نسل کوذہنی طور پر بانجھ کر دینے والے اس مُوذ ی مرض کاعلاج ڈھونڈیں۔ اس سلسلے میںہر قسم کی رکاو ٹیں دور کی جانی چاہئیںاور نئے لکھنے والوںکی حکومت کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی ہو نی چائیے۔
وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ بک شاپس کے مالکان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں خصوصی رعایت بھی دینی پڑے تو ضرور دیں۔کتب بینی کے فروغ کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی خدمات قابل ستائش ہیں مجھے پوری توقع ہے کہ این بی ایف کے متحرک ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید اسلام آباد ائرپورٹ کا بک اسٹال بند نہیں ہونے دیںگے اور اس کی جگہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا اسٹال قائم کر دیں گے۔
وزیرِاعظم کے مشیرعرفان صدیقی صاحب خود صاحبِ قلم بھی ہیںاور صاحبِ دانش بھی، امیدہے کہ وہ بھی اس سانحے کانوٹس لیںگے اور قلم و کتاب سے نئی نسل کا رشتہ استوار کرنے کے لیے کوئی جامع اور مربوط پا لیسی بنائیںگے اورکابینہ سے منظوری لے کر اسے نافذ کرائیں گے۔ہائرایجوکیشن کمیشن لازم قراردے کہ ملک کی ہر یونیورسٹی سال میں دو بار تین روزہ بک فیئر منعقد کرائے، جہاں طلباو طالبات کو ارزاں نر خوںپر کتابیںفراہم کی جائیں اور جہاں ناشرین کو بلامعاوضہ اسٹال لگانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن اور آکسفورڈیونیورسٹی پریس جیسے ادارے ہر ضلع ہیڈکوارٹر میں بھی کتاب میلہ لگایا کریںتاکہ نوجوان نسل کا کتابوں سے تعلق استوار ہو۔ کالجوں اور یونیورسٹیوںمیںطلبا،طالبات پرلازم قرار دیا جائے کہ وہ لائبر یری سے ہرماہ ایک کتاب جاری کروایا کریں اور اسے پڑھ کر اسپر تبصرہ (ریویو)بھی لکھا کریں۔
یورپ کے ہرشہرمیںدرجنوںلائبریریاںہیں۔ لندن کے ہر محلّے کی اپنی لائبریری ہے،جہاںہر وقت علم کی پیاس بجھانے والوںکی کثیر تعدادموجود ہوتی ہے مجھے ملک کے مختلف تعلیمی اداروںمیںجانے کا اتفاّق ہوتا ہے۔ہر درسگاہ،کی لائبریری میں الماریاںکتابوںسے بھری ہوئی مگر کرسیاں خالی ہوتی ہیں۔وسیع وعریض مگر استفادہ کرنے والوںسے خالی لائبریریاں دیکھ کر بہت دل دکھتاہے،کاش ہمارے اربابِ اختیار، ہمارے اساتذہ، اور خود نوجوان یہ جا ن لیں کہ کتاب سے ناتا توڑنے کا مطلب خود کشی ہے۔یہ ذہنی پستی کاراستہ ہے۔اس کی منزل فکری انحطاط ہے،اس سے ہر صورت نکلناہوگا۔ اس کے لیے قو م میںکتاب بینی کاشوق پیداکرنا ہو گا،اس سلسلے میںعلم دوستوںکو ایک بھر پور مہم چلانا ہوگی۔کاش ملک کے فیصلہ ساز اس کی اہمیت کا احساس کریںاور اسے اپنی اوّلین ترجیحات میںشامل کریں۔
ہماری ذہنی سطح اتنی پست ہوچکی ہے کہ ہمارے پرائیویٹ چینل انتہائی پست سطح کے سیاسی پروگرام اور گھٹیاقسم کی جگت بازی پر مبنی پروگرام تو کئی کئی گھنٹے چلا تے ہیں،دوسرے ملکوںکی ایکٹرسیں کثرت ِشراب نوشی سے انتقال کر جائیںتو احساس کمتر ی کے مارے ہوئے میڈیا منیجر ان کے انتقال کی خبریںچالیس چالیس منٹ تک چلاتے رہتے ہیں مگر کبھی کسی اچھے استاد کا انٹر ویو کرنے کے لیے تیار نہیںہیں کبھی رول ماڈل کے طور پر کسی ادیب، شاعر یا دانشور کو پیش نہیں کریں گے کبھی کسی کتاب کا تعارفی پروگرام پیش نہیں کریں گے قوم بھی ذہنی انحطاط کا شکار ہے ۔اور ہمارامیڈیا بھی ایک ایسا بیمار میڈیا ہے جو ذہنی افلاس اور احساسِ کمتری کے مو ذی امراض میں بری طرح مبتلا ہو چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میںکوئی ایسی چیز شامل نہیں جس سے نئی نسل کی سمت درست ہوسکے۔
ہر کمرشل ادارہ کارپوریٹ سو شل ریسپانسیبیلٹی (CSR)کے تحت کچھ وقت عوامی مفاد اور فلاح کے لیے مختص کر نے کا پابند ہے۔مگر پرائیویٹ چینل اپنی اس ذ مّے داری سے بھی انحراف کر تے ہیں۔ ہر چینل کو پابند کیا جائے کہ ہر ہفتے ایک نئی کتاب کا تعارف ضرور پیش کیا کر یں۔
اچھی خبر
ایوان ِبا لاکا انتخاب خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا ہے جو ملک کے غیر یقینی حا لات میںکسی خوشخبری سے کم نہیں۔ چاروں صوبوںمیں کچھ ممبروں نے اپنے ووٹ بیچے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے ۔الیکشن کمیشن کو انکوائری کرانے کے بعد اس پر کاروائی کر نی چاہیے اب جب کہ یہ نظر آرہا ہے کہ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیّت سے مسلم لیگ (ن)اپنا چیئر مین منتخب کروالے گی اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن)کا انتخاب راجہ ظفرالحق صاحب ہی ہونگے ۔
راجہ صاحب سب سے سینئر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زیرک اور باکردار سیاستدان ہیں جنکا پاکستان اور پاکستان کی اساس اورنظرّئیے سے محبّت اوروفاکا رشتہ ہے۔ہر پارٹی اور گروپ کے لوگ انھیں عزت ّاور احترام سے دیکھتے ہیںاسلیے ایوانِ بالا کی سر براہی کے لیے راجہ صاحب ہی سب سے موزوں شخصیّت ہیں۔