روشن خیالی سے ملائیت تک

صدرکو ایمرجنسی نافذ کرنے اور فوج کو ریاستی کنٹرول سنبھالنے کے لیے بلانے کی اجازت دی گئی تھی۔

tauceeph@gmail.com

ضمیرشیخ ایک محقق اور تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی تیس بہاریں صحافت کی نذر کی ہیں مگر اتنی مشقت کے باوجود ان میں تحقیق اور تخلیق کا جذبہ توانا ہے۔ مصنف ایک سیاسی سوچ کے مالک ہیں اور مارکسی نظریات کے اسیر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نئی تخلیق ''روشن خیالی سے ملائیت تک ''اس ملک کی تشکیل سے لے کر آج تک بحران کی وجوہات کو آشکار کرتی ہے۔ 8 ابواب اور 219 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پہلا باب جدوجہد آزادی کا پس منظر ہے۔

وہ 20 ویں صدی کے ابتدائی ادوارکا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 18 مارچ 1919ء میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس کی رو سے حکومت کو تخریبی کارروائیوں کے انسداد کے لیے وسیع اختیارات حاصل ہوگئے۔ اخبارات کی آزادی سلب کردی گئی۔ محمد علی جناح نے انڈین لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے احتجاجی طور پر استعفیٰ دیدیا ۔گاندھی جی نے قیصر ہند کا اعزاز واپس کیا۔ گاندھی جی نے 16 اپریل کو سارے ہندوستان میں مکمل ہڑتال کی اپیل کی۔ چنانچہ اس دن مکمل ہڑتال رہی۔ پھر 13 اپریل 1919ء کو جلیانوانہ باغ امرتسر کا المناک واقعہ پیش آیا۔ جنرل ڈائر کی فائرنگ کے نتیجے میں 379 افراد موقعے پر دم توڑ گئے اور 1200 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ پنجاب بھر میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔

1920ء میں برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے ترکی کے حصے بخرے کردیے، مسلمانوں نے مجبوراً تحریک خلافت کا آغاز کیا۔ وہ دو قومی نظریہ اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مؤقف کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کانگریس نیشنلزم کے فلسفے کو دوسرے انداز میں پیش کرتی تھی ۔

مصنف قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائد نے کہا تم آزاد ہو، اس مملکت پاکستان میں تم اپنے مندروں میں آزادانہ جاسکتے ہو اور مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہو۔ تمہارا مذہب ، تمہاری ذات اور تمہارا عقیدہ کچھ بھی ہوگا کاروبار مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ضمیر لکھتے ہیں کہ اس تقریر میں لفظ قوم بار بار دہرایا گیا اور بیان کیا گیا کہ مذہب کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہیں اور مذہب صرف فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے۔

ضمیر شیخ نے ہندوستان کے بٹوارے کے وقت فسادات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مؤرخین کے مطابق فسادات کی ابتداء مارچ 1947ء میں راولپنڈی سے ہوئی جس کے بعد سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام کے لیے منصوبے کی تیاری کیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے اسلامی نظام کے لیے پہلی کوشش 1948ء میں کی جب کشمیر میں اندونی خلفشار شروع ہوا اور پاکستانی قبائل جموں میں داخل ہوئے تو مولانا مودودی نے فرمایا کہ صرف اسلامی ریاست ہی جہاد کا اعلان کرسکتی ہے،کسی فرد واحد یا گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے تئیں جہاد کرسکے۔

مولانا مودودی کے ان خیالات کا پرچار ریڈیوکابل اور ریڈیو سری نگر نے بار بار کیا تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مولانا مودودی کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔ 1948ء میں مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر کے ملتان جیل میں بھیج دیا گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے قرارداد مقاصد کا مسودہ مولانا مودودی کو ملتان جیل میں پہنچایا۔ مولانا مودودی نے قرارداد مقاصد کے مسودے میں ترامیم کیں جو بعد ازاں آئین ساز اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔


وہ لکھتے ہیں کہ 25فروری 1949ء کو مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے اپنے ایک خفیہ اجلاس میں قرارداد مقاصد پر غور کیا لیکن پہلے دن فیصلہ نہیں ہوسکا۔ وزیر خزانہ غلام محمد، بیگم شاہنواز، فیروزخان نون ، ممتاز دولتانہ سمیت مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے متعدد دیگر ارکان اس قرارداد کے مخالف تھے مگر لیاقت علی خان کے دباؤ کے تحت وہ مخالفت نہ کر پائے۔ صرف بیگم شاہنواز نے اس کی مخالفت کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھوپندرکمار دتہ نے 8 مارچ کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد کے خلاف طویل تقریر کی۔ اس کے علاوہ پروفیسر راج کمار چکروں نے تجویز پیش کی کہ اس قرارداد کے افتتاحیہ میں جہاں یہ لکھا گیا ہے کہ مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی دیا گیا ہے وہاں لفظ جمہوری کا اضافہ کیا جائے۔

ایسا کرنے سے فقرہ یوں بن جائے گا ''اﷲ نے جمہور کی وساطت سے جمہوری مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی عوام کو عطا کیا گیا ہے۔ انھوں نے ترمیم کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ اختیار حکمرانی عوام الناس کو عطا کیا گیا ہے مملکت کو نہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ شبیر عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان دنیا کو روشنی دے گا مگر مولانا شبیر عثمانی کی تشریح لیاقت علی تشریح سے بالکل مختلف تھی جس میں اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی گئی تھی۔ مولانا شبیر عثمانی کے نزدیک اقلیتی آبادی مملکت کے کسی کلیدی عہدے کو حاصل کرنے کی مجاز نہ تھی۔ قرارداد پر اسکندر مرزا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد حکومت کی طرف سے ملاؤں کے لیے تحفہ ہے۔ اس کمیٹی میں تین اقلیتی نمایندے جوگندر ناتھ منڈل، ایس ایس جٹوا پادھیا اور سی سی منڈل شامل تھے۔ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی صدارت کے لیے ہندوستان کے ایک عالم دین سید سلمان ندوی کو لکھنؤ سے بلوایا گیا۔

کتاب میں پنجاب میں 1953ء میں فسادات کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے منیر انکوائری رپورٹ کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق علمائے کرام نے کمیشن کو بتایا کہ ہم اسلامی دستور نافذ کریں گے تو غیر مسلموں کی حیثیت ڈمی کی سی ہوگی اور وہ پاکستان کے پوری شہری نہیں ہونگے۔ انھیں سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ مصنف 1956ء کے دستور کے نفاذ اور ون یونٹ کے قیام کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ جب 1956ء کا آئین منظور ہوا تو عوامی لیگ، آزاد پاکستان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، متحدہ پروگریسو پارٹی اور مذہبی اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ایک ریلی نکالی۔ وجہ یہ تھی کہ بنگالیوں کی اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود ان کے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ ون یونٹ اسکیم میں صوبائی خودمختاری کم تھی۔

صدرکو ایمرجنسی نافذ کرنے اور فوج کو ریاستی کنٹرول سنبھالنے کے لیے بلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس طرح فوج کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا تھا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ عبدالستار پیر زادہ نے ون یونٹ کی مخالفت کی تو انھیں برطرف کردیا گیا اور ایوب کھوڑو کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ جگتو فرنٹ یا متحدہ محاذ دراصل عوامی لیگ کرشک سرامک پارٹی نظام اسلام پارٹی کا انتخابی اتحاد تھا جس کی قیادت اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور مولانا بھاشانی جیسی قدآور شخصیات کررہی تھیں، جو 310 کے ایوان میں 223 نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوا ۔ مسلم لیگ کو دس نشستیں مل سکیں۔ وزیر اعلیٰ سمیت تمام وزراء بری طرح شکست کھا گئے۔

اکتوبر 1956ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی نے مخلوط انتخابات کے حق میں قرارداد منظورکی۔ اس کی مخالفت میں صرف ایک ووٹ آیا۔ اس ماہ ڈھاکا میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں قرار پایا کہ مغربی پاکستان جداگانہ اور مشرقی پاکستان میں مخلوط طریق انتخاب رائج کیا جائے گا۔ متحدہ حزب اختلاف نے فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ ایوب خان نے انتخابات جیتنے کے لیے فاطمہ جناح کی کردار کشی کی۔ آل پاکستان سنی کونسل نے 5دسمبر 1964ء کو اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے عورت کا سربراہ مملکت بننا غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیا گیا۔

جنرل یحییٰ خان دور کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نے نئی اصطلاح ''نظریہ پاکستان'' متعارف کرائی۔ 113 علماء نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ بلوچستان اور سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کامیاب ہوئیں۔ ان انتخابات کے نتائج اس وقت حکمرانوں کے لیے ناقابل قبول تھے کیونکہ عوامی لیگ نے 300 جنرل نشستوں میں سے 160 حاصل کرلی تھیں۔ عام انتخابات کے نتائج سے پورے ملک کا سیکیولر مزاج اور زیادہ واضح ہو کر سامنے آیا۔ مذہبی جماعتیں مکمل طور پر ناکام رہیں مگر انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا اور پھر بنگلہ دیش بن گیا۔حقائق سے بھرپور اس کتاب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کتاب مطالعہ پاکستان کے نصاب میں ایک روشن خیال اضافہ ہوسکتی ہے۔

(یہ مضمون یکم مارچ کو کتاب ''روشن خیالی سے ملائیت تک '' کی کراچی پریس کلب میں منعقد ہونے والی تقریب اجراء میں پڑھا گیا۔)
Load Next Story