سول حکومت اور بین الاقوامی دباؤ
قیام پاکستان کے دن سے ہم پر جو جو مصیبتیں نازل ہوتی رہیں اگر اُن کا جائزہ لیا جائے
یہ تقریباً نوے کی دہائی کے ابتداء کا زمانہ ہے جب پاکستان کو ساری دنیا پر راج کرنے والے چند بڑے ملکوں کی جانب سے دہشتگرد ممالک میں شامل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی جاتی تھیں۔ یہی پاکستان اِن ملکوں کی نظروں میں جنرل ضیاء الحق کے پورے گیارہ سالہ دور میں کبھی نہیں کھٹکتا رہا جب وہ کھلم کھلا دہشتگردوں کی حمایت کررہا تھا،کیونکہ وہ اُس وقت اُن ہی مغربی طاقتوں کی شہ پر سویت یونین کے خلاف افغانستان میں میں صف آراء تھااور باقاعدہ طور پر کسی دوسرے ملک میںگوریلا جنگ کو سپورٹ کر رہا تھا، لیکن جیسے ہی وہ وہاں کامیاب ہوتا ہے اور سویت یونین ٹوٹ کر بکھر بھی جاتا ہے فوراً ہی پاکستان کو خطرناک دھمکیاں دی جانے لگیں۔
فرق صرف اتنا تھا کہ اب پاکستان میں کسی فرد واحد کی حکومت نہیں تھی اور ایک جمہوری حکومت برسراقتدار تھی۔ پاکستان کو دہشتگردمملک کے فہرست میں شامل کرنے کی یہ دھمکیاں بڑے عرصے تک دی جاتی رہیںلیکن کوئی حتمی فیصلہ شاید اِس لیے نہ ہوسکا کہ فیصلہ کرنے والوں کی اپنی کچھ مصلحتیں اور مجبوریاں آڑے آتی رہیں اور وہ پاکستان کو مکمل دیوار سے لگادینا بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کام پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے سے ممکن ہے وہ اُسے دیوار سے لگانے یا بالکل تنہا کردینے سے ممکن نہیں رہے گا۔
رفتہ رفتہ علاقے کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات کے پیش نظر یہ دھمکیاں اپنا اثرکھوتی گئیں اور پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایک ساتھ چھ ایٹمی دھماکے بھی کر ڈالے ہم پرکوئی سخت قدغنیں نہیں لگیں۔ وطن عزیز پر اِن دھماکوں کے نتیجے میں گرچہ کچھ بین الاقوامی پابندیاں ضرور لگائی گئیں لیکن یہ دھماکے چونکہ بھارت کی اشتعال انگیزی کے جواب میں کیے گئے تھے اِس لیے وہ اتنی پر اثر اور دیرپا نہیں تھیں۔دنیا کے ٹھیکے داروں کے پاس صرف اکیلے پاکستان پر سخت گیر پابندیاں لگانے کا کوئی اُصولی اور قانونی وجواز نہ تھا۔اِس لیے پاکستان یہ مشکل باآسانی برداشت کرگیا۔
1999ء سے چونکہ یہاں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آچکی تھی جو بلاکسی چوں و چرا اُن طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوچکی تھی اور اُنہیں اپنی بات منوانے کے لیے کسی مزاحمت کاسامنا نہیں ہوا کرتا تھا لہذا پاکستان کا نام دہشتگرد ملکوں میں شامل کرنے کا یہ شوشہ خود اپنی موت آپ مرچکا۔ جنرل پرویز مشرف کے پورے دور میں پاکستان عالمی طاقتوں کا مخلص دوست سمجھاجاتا رہا۔وہ اُن کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشتگردی کی جنگ میں بھی ہراول دستے کے طور پر کام کرتا رہا۔ وہ اِس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر افغانستان میں ہونے والے خود کش حملوں اور دھماکوں کو اپنے شہروں اور قصبوں تک لے آیا۔ پرائی آگ میں اپنا لہو دیتا رہا۔ دنیا مزے سے سوتی رہی اور ہمارے لوگ جانوں کا نذرانہ دیتے رہے۔ ملک اقتصادی طور کرکنگال ہوا اوردوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے لگا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا ہماری اِن قربانیوں کا اعتراف کرتی اور ہماری مدد کرتی اُلٹا وہ ہمارا تمسخر اُڑا نے لگی۔
قیام پاکستان کے دن سے ہم پر جو جو مصیبتیں نازل ہوتی رہیں اگر اُن کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہماری ناقص پالیسیوں ہی کے سبب نازل ہوتی رہیں جنھیں ہمارے مطلق العنان حکمراں پوری قوم پرمسلط کرتے رہے۔ یہ اُنہی کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں ایک بار پھر دہشتگردوں کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پیرس میں گزشتہ دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میںامریکا، جرمنی ، برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ کوشش تو یہی تھی کہ پاکستان کا نام بھی اُس فہرست میں شامل کردیا جائے لیکن ہمارے چند دوست ملک چین، ترکی اور سعودی عرب کی پرزور مزاحمت کی وجہ سے یہ کام تین ماہ کے لیے مؤخر ہوگیا۔بظاہر جب جب ہمارے یہاں کوئی فوجی حکمراں مسلط ہوتا ہے صیہونی طاقتوں کی جانب سے ہم پر الزام تراشی اور بہتان ترازی کچھ کم ہوجاتی ہے۔
ہم گیارہ سالہ ضیاء دور میں افغان مجاہدین کی کھلم کھلا مدد کرتے ہوئے بھی نہ دہشتگرد ممالک کی فہرست میں ڈالے گئے اور نہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کے الزام میں کبھی ڈرائے اور دھمکائے گئے۔ اِسی طرح جنرل پرویزمشرف کے نو سالہ دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔گرچہ دیکھا جائے تو اِن دونوں حکمرانوں کے ادوار میں کیے جانے والے یکطرفہ فیصلوں کاخمیازہ ہماری قوم گزشتہ تین دہائیوں سے بھگتی رہی ہے۔ جنرل ضیاء نے امریکا کی تابعداری میں سویت یونین کے خلاف بلاوجہ محاذآرائی کی اور مجاہدین کی ایسی فوج تیار کی جو بعد میں ہمارے ہی خلاف برسرپیکار ہوئی اور پھر دوسرے نے اُن ہی مجاہدین کو دہشتگرد قرار دیکراُنہیں نیست ونابود کرنے کے لیے اپنا سبھی کچھ داؤ پر لگادیا۔ ایک جنرل نے سپر طاقت کے دوستی اور حمایت میں اِس ملک کو دہشتگردوں کی آماجگاہ اور تربیت گاہ بناہ دیا اور دوسرے نے اُسی سپر طاقت کے حکم برداری میںاُن مجاہدین کو اپنا دشمن بنالیا۔
غور کیاجائے اور سوچا جائے کہ اِس ملک کی تباہی وبربادی کا اصل ذمے دار کون ہے۔ سول اور جمہوری حکمراں یا پھرغیر جمہوری اور فوجی ڈکٹیٹر۔ ملک کو انارکی اور تباہی کے حوالے کرنے والے بڑے بڑے فیصلے کس نے کیے۔ مختلف طبقہ فکر کے لوگ سمجھاتے رہے کہ یہ لڑائی مت لڑو۔ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ مگر مرد مومن مرد حق بس اپنی مرضی چلاتا رہا۔پھر جب نائن الیون کے بعد اِس پالیسی سے یکسر انحراف کیاجانے لگا تو بھی بد نصیبی سے ہمارے ملک میں ایسا ہی ایک دوسرا فوجی حکمراں مسلط تھا جسے اپنے علاوہ کوئی بھی صاحب عقل و دانش دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ مطلق العنانی میں پہلے والے سے بھی ذیادہ مستعد اورچالاک تھا۔اُ س نے عالمی طاقت کے آگے سرنگوں ہونے کو یہ کہہ کر جواز بخشاکہ ہم اگرایسا نہیں کرتے تو دنیا ہمیں پتھروں کے دور میں بھیج دیتی۔
اُس کے خیال میں اس نے جو فیصلہ کیا وہی پاکستان کے لیے سب سے بہترآپشن تھا۔ پوری قوم نوسال تک خاموشی سے اُس کے فیصلوں کے نتائج بھگتی رہی اور وہ خود کواِس ملک کا ذہین ترین حکمراں سمجھتا رہا۔آج ہم وہی فصل کاٹ رہے ہیں جو یہ دونوں حکمراں بو کرگئے۔ ہم آج بھی مشکلات کاشکار ہیں۔دہشتگردوں پرضرب کاری لگانے کے باوجود دنیا ہمیں دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ہم نے اپنے ملک سے دہشتگردی کا کسی حد تک خاتمہ ضرورکردیا ہے لیکن ہم دنیاکے ذہن سے اپنے خلاف اُس تاثرکو ختم نہیں کرسکے ہیں جو دہشتگردوں کی معاونت سے متعلق ہمارے خلاف ابھی تک قائم ہے۔
ضرب عضب اور رد الفساد آپریشن کرکے ہم نے اپنے یہاں امن تو قائم کردیا ہے لیکن در پردہ کسی مخصوص گروپ کی حمایت کرنے اور اُسے تحفظ دینے کا سلسلہ شاید ابھی تک ختم نہیں کرپائے ہیں۔دنیا اِسی وجہ سے ہم پر یہ الزام لگا رہی ہے۔ ہمارے یہاں آج ایک سول حکومت ضرورموجود ہے لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی آج بھی کون بناتا ہے ۔امریکااور دیگر ممالک سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں،افغانستان اور بھارت سے معاملات کیسے نمٹانے ہیں یہ سب کچھ سول حکمرانوں کی صوابدید کبھی نہیں رہا۔اِس ملک میں چار سال تک سول حکومت کوئی وزیرِ خارجہ مقررنہ کرسکی تو اس کی بھی درپردہ ایسی ہی کچھ وجوہات تھیں۔ پھر جب بین الاقوامی طور پر ہم پر دباؤ بڑھنے لگتا ہے تو اُن کا سامنا کرنے کے لیے سول حکومتوں کو آگے کردیا جاتا ہے۔کارگل کی لڑائی ہو یا دہشتگردوں کی حمایت اور معاونت کا معاملہ۔کیادھراکسی اور کااور بھگتنا کسی اورکو۔اِس سلسلے کو اب ختم کرنا ہوگا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ اب پاکستان میں کسی فرد واحد کی حکومت نہیں تھی اور ایک جمہوری حکومت برسراقتدار تھی۔ پاکستان کو دہشتگردمملک کے فہرست میں شامل کرنے کی یہ دھمکیاں بڑے عرصے تک دی جاتی رہیںلیکن کوئی حتمی فیصلہ شاید اِس لیے نہ ہوسکا کہ فیصلہ کرنے والوں کی اپنی کچھ مصلحتیں اور مجبوریاں آڑے آتی رہیں اور وہ پاکستان کو مکمل دیوار سے لگادینا بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کام پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے سے ممکن ہے وہ اُسے دیوار سے لگانے یا بالکل تنہا کردینے سے ممکن نہیں رہے گا۔
رفتہ رفتہ علاقے کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات کے پیش نظر یہ دھمکیاں اپنا اثرکھوتی گئیں اور پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایک ساتھ چھ ایٹمی دھماکے بھی کر ڈالے ہم پرکوئی سخت قدغنیں نہیں لگیں۔ وطن عزیز پر اِن دھماکوں کے نتیجے میں گرچہ کچھ بین الاقوامی پابندیاں ضرور لگائی گئیں لیکن یہ دھماکے چونکہ بھارت کی اشتعال انگیزی کے جواب میں کیے گئے تھے اِس لیے وہ اتنی پر اثر اور دیرپا نہیں تھیں۔دنیا کے ٹھیکے داروں کے پاس صرف اکیلے پاکستان پر سخت گیر پابندیاں لگانے کا کوئی اُصولی اور قانونی وجواز نہ تھا۔اِس لیے پاکستان یہ مشکل باآسانی برداشت کرگیا۔
1999ء سے چونکہ یہاں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آچکی تھی جو بلاکسی چوں و چرا اُن طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوچکی تھی اور اُنہیں اپنی بات منوانے کے لیے کسی مزاحمت کاسامنا نہیں ہوا کرتا تھا لہذا پاکستان کا نام دہشتگرد ملکوں میں شامل کرنے کا یہ شوشہ خود اپنی موت آپ مرچکا۔ جنرل پرویز مشرف کے پورے دور میں پاکستان عالمی طاقتوں کا مخلص دوست سمجھاجاتا رہا۔وہ اُن کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشتگردی کی جنگ میں بھی ہراول دستے کے طور پر کام کرتا رہا۔ وہ اِس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر افغانستان میں ہونے والے خود کش حملوں اور دھماکوں کو اپنے شہروں اور قصبوں تک لے آیا۔ پرائی آگ میں اپنا لہو دیتا رہا۔ دنیا مزے سے سوتی رہی اور ہمارے لوگ جانوں کا نذرانہ دیتے رہے۔ ملک اقتصادی طور کرکنگال ہوا اوردوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے لگا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا ہماری اِن قربانیوں کا اعتراف کرتی اور ہماری مدد کرتی اُلٹا وہ ہمارا تمسخر اُڑا نے لگی۔
قیام پاکستان کے دن سے ہم پر جو جو مصیبتیں نازل ہوتی رہیں اگر اُن کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہماری ناقص پالیسیوں ہی کے سبب نازل ہوتی رہیں جنھیں ہمارے مطلق العنان حکمراں پوری قوم پرمسلط کرتے رہے۔ یہ اُنہی کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں ایک بار پھر دہشتگردوں کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پیرس میں گزشتہ دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میںامریکا، جرمنی ، برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ کوشش تو یہی تھی کہ پاکستان کا نام بھی اُس فہرست میں شامل کردیا جائے لیکن ہمارے چند دوست ملک چین، ترکی اور سعودی عرب کی پرزور مزاحمت کی وجہ سے یہ کام تین ماہ کے لیے مؤخر ہوگیا۔بظاہر جب جب ہمارے یہاں کوئی فوجی حکمراں مسلط ہوتا ہے صیہونی طاقتوں کی جانب سے ہم پر الزام تراشی اور بہتان ترازی کچھ کم ہوجاتی ہے۔
ہم گیارہ سالہ ضیاء دور میں افغان مجاہدین کی کھلم کھلا مدد کرتے ہوئے بھی نہ دہشتگرد ممالک کی فہرست میں ڈالے گئے اور نہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کے الزام میں کبھی ڈرائے اور دھمکائے گئے۔ اِسی طرح جنرل پرویزمشرف کے نو سالہ دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔گرچہ دیکھا جائے تو اِن دونوں حکمرانوں کے ادوار میں کیے جانے والے یکطرفہ فیصلوں کاخمیازہ ہماری قوم گزشتہ تین دہائیوں سے بھگتی رہی ہے۔ جنرل ضیاء نے امریکا کی تابعداری میں سویت یونین کے خلاف بلاوجہ محاذآرائی کی اور مجاہدین کی ایسی فوج تیار کی جو بعد میں ہمارے ہی خلاف برسرپیکار ہوئی اور پھر دوسرے نے اُن ہی مجاہدین کو دہشتگرد قرار دیکراُنہیں نیست ونابود کرنے کے لیے اپنا سبھی کچھ داؤ پر لگادیا۔ ایک جنرل نے سپر طاقت کے دوستی اور حمایت میں اِس ملک کو دہشتگردوں کی آماجگاہ اور تربیت گاہ بناہ دیا اور دوسرے نے اُسی سپر طاقت کے حکم برداری میںاُن مجاہدین کو اپنا دشمن بنالیا۔
غور کیاجائے اور سوچا جائے کہ اِس ملک کی تباہی وبربادی کا اصل ذمے دار کون ہے۔ سول اور جمہوری حکمراں یا پھرغیر جمہوری اور فوجی ڈکٹیٹر۔ ملک کو انارکی اور تباہی کے حوالے کرنے والے بڑے بڑے فیصلے کس نے کیے۔ مختلف طبقہ فکر کے لوگ سمجھاتے رہے کہ یہ لڑائی مت لڑو۔ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ مگر مرد مومن مرد حق بس اپنی مرضی چلاتا رہا۔پھر جب نائن الیون کے بعد اِس پالیسی سے یکسر انحراف کیاجانے لگا تو بھی بد نصیبی سے ہمارے ملک میں ایسا ہی ایک دوسرا فوجی حکمراں مسلط تھا جسے اپنے علاوہ کوئی بھی صاحب عقل و دانش دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ مطلق العنانی میں پہلے والے سے بھی ذیادہ مستعد اورچالاک تھا۔اُ س نے عالمی طاقت کے آگے سرنگوں ہونے کو یہ کہہ کر جواز بخشاکہ ہم اگرایسا نہیں کرتے تو دنیا ہمیں پتھروں کے دور میں بھیج دیتی۔
اُس کے خیال میں اس نے جو فیصلہ کیا وہی پاکستان کے لیے سب سے بہترآپشن تھا۔ پوری قوم نوسال تک خاموشی سے اُس کے فیصلوں کے نتائج بھگتی رہی اور وہ خود کواِس ملک کا ذہین ترین حکمراں سمجھتا رہا۔آج ہم وہی فصل کاٹ رہے ہیں جو یہ دونوں حکمراں بو کرگئے۔ ہم آج بھی مشکلات کاشکار ہیں۔دہشتگردوں پرضرب کاری لگانے کے باوجود دنیا ہمیں دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ہم نے اپنے ملک سے دہشتگردی کا کسی حد تک خاتمہ ضرورکردیا ہے لیکن ہم دنیاکے ذہن سے اپنے خلاف اُس تاثرکو ختم نہیں کرسکے ہیں جو دہشتگردوں کی معاونت سے متعلق ہمارے خلاف ابھی تک قائم ہے۔
ضرب عضب اور رد الفساد آپریشن کرکے ہم نے اپنے یہاں امن تو قائم کردیا ہے لیکن در پردہ کسی مخصوص گروپ کی حمایت کرنے اور اُسے تحفظ دینے کا سلسلہ شاید ابھی تک ختم نہیں کرپائے ہیں۔دنیا اِسی وجہ سے ہم پر یہ الزام لگا رہی ہے۔ ہمارے یہاں آج ایک سول حکومت ضرورموجود ہے لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی آج بھی کون بناتا ہے ۔امریکااور دیگر ممالک سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں،افغانستان اور بھارت سے معاملات کیسے نمٹانے ہیں یہ سب کچھ سول حکمرانوں کی صوابدید کبھی نہیں رہا۔اِس ملک میں چار سال تک سول حکومت کوئی وزیرِ خارجہ مقررنہ کرسکی تو اس کی بھی درپردہ ایسی ہی کچھ وجوہات تھیں۔ پھر جب بین الاقوامی طور پر ہم پر دباؤ بڑھنے لگتا ہے تو اُن کا سامنا کرنے کے لیے سول حکومتوں کو آگے کردیا جاتا ہے۔کارگل کی لڑائی ہو یا دہشتگردوں کی حمایت اور معاونت کا معاملہ۔کیادھراکسی اور کااور بھگتنا کسی اورکو۔اِس سلسلے کو اب ختم کرنا ہوگا۔