کرشنا کماری۔۔۔۔ہمیں تم پر ناز ہے

’’اپنا بچپن یاد کرکے بہت تکلیف ہوتی ہے‘‘ نومنتخب سینیٹر

کم عمری میں جبری مشقت جھیل کر جبر کے خلاف کھڑی ہوجانے والی تھر کی بہادر بیٹی کی جیون کتھا

دنیا کا نواں گرم ترین صحرا تھرپارکر مختلف حوالوں سے اپنی پہچان رکھتا ہے محبت کرنے والے اس دیس کو حب الوطنی اور محبت کے معروف کردار ماروی سے شناخت کرتے ہیں تو جذبہ حُریت سے لبریز افراد اسے انگریز سرکار سے برسرپیکار رہنے والے عظیم کردار روپلوکوہلی کے نام سے پہچانتے ہیں۔

روپلو کوہلی نے1857 میں انگریزوں کے خلاف ہونے والی آزادی کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جنگ آزادی کے خاتمے کے چند ماہ بعد ان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ آج کی سینیٹر کرشنا کوہلی جن کا اصلی نام کیشو بائی ہے، اسی روپلو کوہلی کی پَڑ پوتی ہیں۔ اب سے کچھ برس پہلے تک تھر کی شناخت بھوک اور افلاس رہی۔ خوف ناک غربت اور خوراک کی کم نے ہزاروں بچوں کو زندگی سے محروم کردیا، لیکن کالے سونے کے ذخائر سامنے آنے پر اسے کالے سونے کی جنت کہا جانے لگا، لیکن تھر کی اب نئی شناخت کیشو بائی یعنی کرشنا کماری کوہلی ہے۔

رن کچھ اور تھر کے سنگم پر بھارتی سرحد کے قریب واقع ننگرپارکر کے علاقے میں کارونجھر کی پہاڑی کے درمیان واقع گوٹھ دھنا گام میں یکم فروری 1979 کو جنم لینے والی کیشو بائی یعنی کرشنا کماری کوہلی انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد جگنوکوہلی بنیادی طور پر ہاری ہیں اور قحط کے ایام کے دوران دیگر ہزاروں تھریوں کے ساتھ ان کا پورا خاندان بھی بیراجی علاقوں کا رخ کرتا تھا، جہاں ان کے والد اور ان کے خاندان کا ہر شخص عمر کی تفریق کیے بغیر کسی بھی زمیندار کے کھیتوں پر کام کرکے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے۔

سندھ میں ہاری خاندانوں سے جبری مشقت لیے جانے کا عمل آج بھی جاری و ساری ہے اور کرشنا کوہلی جب اپنا بچپن یاد کرتی ہیں تو پھر ان کی وہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جب انھوں نے اپنے والدین اور خاندان کے ساتھ چھوٹی سی عمر میں جبری مشقت کا ظلم بھی سہا۔ کرشنا کوہلی جب ماضی کے جھروکوں میں جھانکتی ہیں تو وہ اس تلخ حقیقت کو فراموش نہیں کرپاتیں کہ جب وہ تیسری جماعت میں تھیں تو اس وقت ان کا خاندان، ضلع عمرکوٹ کے علاقے کنری کے زمیندار کے پاس جبری مشقت کا شکار تھا۔

وہ صبح اٹھ کر ٹالی اسٹیشن کے قریب واقع سرکاری پرائمری اسکول جاتی تھیں اور پڑھائی ختم ہو جانے کے بعد اپنے والد کے پاس پہنچ کر فصلیں لگانے میں ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔ فصل کی کٹائی تک ان کے پورے خاندان کو نہ کسی سے ملنے کی اور نہ کہیں جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ دو سال تک چلا تاہم ان کے چچا نے زمیندار کی جانب سے بنائے گئے حساب کتاب کے مطابق زمیندار کو اس نام نہاد قرضے کی ادائی کرکے انہیں اور ان کے خاندان کو اس جبری مشقت سے جان چھڑائی۔

کرشنا کوہلی کہتی ہیں کہ انہیں اپنا بچپن یاد کرکے بہت تکلیف ہوتی ہے، کیوںکہ وہ بہت دردناک زندگی تھی۔ اس وقت انہیں یا ان کے خاندان کو مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے وہ اس عرصے کو جبری مشقت شمار کرتی ہیں۔ کرشنا کے بقول اسی جذبے نے انہیں دوسروں کی مدد کرنے کے لیے آگے آنے پر مجبور کیا تاکہ جو کچھ ان کے ساتھ بیت چکا وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔ عمرکوٹ کے ٹالی اسٹیشن کے پرائمری اسکول سے پانچویں جماعت پاس کی۔ انیس سوچورانوے / پچانوے میں ٹنڈوالہیار کے علاقے چمبڑ میں واقع گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک اور اس کے بعد حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں واقع گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ کرشنا نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سال دو ہزار بارہ میں سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔

پس ماندہ اور غیرتعلیم یافتہ معاشرے میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا اس امر کے باوجود کے چھوٹی عمر میں شادیاں معاشرتی ہی نہیں جسمانی مسائل بھی پیدا کرتی ہیں یہ رواج جاری ہے۔ چھوٹی عمر میں شادیوں پر پابندی کے قانون کے باوجود سندھ باالخصوص تھرپارکر میں آج بھی چھوٹی عمر میں شادیوں کا رواج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کرشنا کوہلی خود بھی میں اس وقت شادی کے بندھن میں بندھیں جب ان کی عمر صرف پندرہ سال تھی اور انھوں نے آٹھویں جماعت پاس کی تھی۔ شوہر کا تعلق حیدرآباد سے ہونے کی بناء وہ حیدرآباد منتقل ہوگئیں۔

خوش قسمتی سے ان کے شوہر لال چند اور ان کا پورا خاندان تعلیم دوست تھا، جس نے کرشنا کوہلی کا تعلیم سے رشتہ ٹوٹنے نہیں دیا اور نویں جماعت سے لے کر ماسٹرز کرنے تک ان کے شوہر اور ان کے سسرال والوں نے ان کی ہر طرح سے اور بڑھ چڑھ کر معاونت کی۔ لال چند، محکمۂ ایگری کلچر میں آفیسر ہیں اور خود بھی تعلیم کے اتنے شوقین ہیں جتنا ان کی اہلیہ ہیں۔ وہ سندھ زرعی یونیورسٹی سے زراعت سے متعلق ایک شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ کرشنا کوہلی کی تین بہنیں غیرتعلیم یافتہ جب کہ دو بھائیوں میں ایک نے ایل ایل بی اور دوسرے نے ان ہی کی طرح سوشیالوجی میں ماسٹر کیا ہے۔ کرشنا کوہلی دو ہزار دس سے سماجی شعبے میں کام کر رہی ہیں جب کہ ان کے بھائی ویرجی کوہلی بھی سماجی شعبے، ہاری خاندانوں کی مدد، اقلیتوں کے حقوق اور جبری مشقت کا شکار خاندانوں کی رہائی جیسے کاموں میں انتہائی سرگرمی سے حصہ لیتے رہے ہیں۔



دو ہزار پندرہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کرشنا کے بھائی ویر جی کوہلی نے آزاد حیثیت میں ننگرپارکر کے علاقے سے یونین کونسل بیرانو کا الیکشن لڑا اور چیئرمین منتخب ہوئے۔ بعدازاں وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تو کرشنا بھی اپنے بھائی کے ساتھ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئیں۔ ویرجی کوہلی کے خلاف سال دو ہزار گیارہ میں صالح شورو نامی شخص کے قتل کا مقدمہ درج ہوا، جس میں انہیں یکم اپریل سال دو ہزار سترہ کو عمرقید کی سزا سنائی گئی، لیکن کرشنا کوہلی نے ہمت نہیں ہاری اور سیاسی وسماجی خدمات جاری رکھیں۔ ان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں نومبر دو ہزار سترہ میں فریقین کے درمیان تصفیہ ہوا اور لواحقین کیس سے دستبردار ہوگئے۔

کرشنا کی خوشی اس وقت دوبالا ہو گئی جب سینیٹ کے الیکشن سے ایک روز قبل ہی عدالت کی جانب سے تصفیے کی درخواست منظور کرنے کے نتیجے میں ان کے بھائی ویر جی کوہلی کو رہائی ملی۔ کرشنا نے سماجی شعبے میں تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم، خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف، خواتین اور بچوں کی صحت، کم عمری میں شادی کی روک تھام جیسے مسائل پر توجہ دی اور اس حوالے سے تھرپارکر پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ کرشنا نے خواتین کو کام والے مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے سے روکنے، جبری مشقت کے خاتمے اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے متعلق قانون سازی کے متعلق سفارشات تیار کرکے ان پر عمل درآمد کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں کیں اور اس حوالے سے سماجی تنظیم آشا سے بھی منسلک رہیں اور حیدرآباد میں آشا کی لیگل سینٹر کی انچارج بھی مقرر ہوئیں۔

دو ہزار تیرہ میں کرشنا کوہلی نے اپنی سماجی تنظیم دامن قائم کی جس کے تحت وہ اب بھی خواتین اور بچوں کی صحت وتعلیم کے حوالے سے بہت سرگرم ہیں۔ کرشنا بتاتی ہیں کہ خواتین کی تعلیم وصحت اور ان کے حقوق کے لیے سرگرم ہونے کی وجہ سے ان کے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی، صوبائی وزیر سردار احمد شاہ اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات سے رابطے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کے الیکشن کا انتخابی شیڈول جاری ہونے سے قبل پیپلزپارٹی کے کچھ لوگوں نے انہیں بتایا کہ انہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹ کی جنرل نشست کا ٹکٹ دیا جارہا ہے، ''جس کے بعد ان کی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ایم این اے فریال تالپور سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ پیپلزپارٹی آپ کو سندھ سے سینیٹ کا ٹکٹ دے رہی ہے، جس پر میری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔''

کرشناکوہلی کہتی ہیں کہ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد بھی ان کی پوری توجہ خواتین کی تعلیم و صحت، کم عمر میں شادی کے رواج کے خاتمے پر مرکوز ہو گی اور کوشش ہوگی کہ ان مسائل سے متعلق جتنے قانون موجود ہیں ان پر عمل ہوا۔ وہ کہتی ہیں،''جہاں قانون میں بہتری کی گنجائش ہے وہاں پارٹی قیادت کے مشورے سے ترامیم تجاویز کروں گی۔''

کرشنا کہتی ہیں کہ تعلیم ہی تمام سماجی و معاشرتی مسائل کا حل ہے اور اسی پر سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے انتخاب سے ان کے والد اور والدہ بہت خوش ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو بہت ہی بڑی نوکری مل گئی ہے اور جب کرشنا کو سینیٹ کا ٹکٹ ملنے کی خبر میڈیا پر چلی تو لوگوں نے جا جا کر انہیں مبارکباد دی، جس پر انہیں لگا کہ کرشنا کو کوئی بڑی جاب ملی ہے، اس لیے وہ اسلام آباد جائیں گی۔


پاکستان کی تاریخ میں کرشنا کوہلی وہ پہلی تھری خاتون ہیں جن کو ایوان بالا تک پہنچنے کا موقع ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت رواداری کی ہے۔ ویسے تو ہر کمیونٹی میں خواتین کو نظرانداز کیا جاتا ہے لیکن کوہلی کمیونٹی ہر حوالے سے بہت پیچھے ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ خواتین باالخصوص اقلیتی خواتین میں تعلیم عام کی جائے کیوںکہ اس کے نتیجے میں برابری کا تصور پیدا ہوگا۔

''بیٹیوں کو تعلیم دلانے پر لوگوں نے بہت بُرا بھلا کہا''
''ہم چند ٹکوں پر زمینداروں کے پاس گِروی تھے''
''پی پی پی نے میری بیٹی کو بڑی نوکری دی ہے''
''اب ہماری آواز اسلام آباد تک پہنچے گی''
قابل فخر والدین اور گاؤں کے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں


کرشنا کماری کا اصل گاؤں دھناگام تعلقہ ننگرپارکر میں واقع ہے، جو ویرواہ رینجرز چیک پوسٹ سے 32 کلومیٹر دور ہے۔ اس گاؤں کا راستہ پہاڑوں پر مشتمل ناہموار اور مشکل راستہ ہے، جہاں رات کے اندھیرے میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ دھناگام گاؤں بھارتی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جس کے نزدیک رن کچھ کا علاقہ بھی ہے۔ گاؤں دھنگام میں نہ کوئی سرکاری اسکول ہے نہ ہی پینے کا پانی اور صحت کی سہولیات موجود ہیں۔ گاؤں میں اسکول بھی 8 سال قبل احمدیہ جماعت کی جانب سے بنایا گیا ہے، جس میں اس وقت 30 بچے زیرتعلیم ہیں، جن میں گاؤں کی 6 بچیاں بھی شامل ہیں۔

کرشنا کماری کے والد کا نام جگنو مل اور والدہ کا نام نینو کماری ہے۔ کرشنا بچپن میں ہی اپنے کسان والد کے ساتھ بیراج کے علاقوں میں مزدوری کے لیے چلی گئی تھیں، کیوںکہ تھر میں ہر تیسرے سال قحط کی صورت حال ہوتی ہے۔ تھر مین بارش نہ ہونے کے باعث مقامی 60 فی صد آبادی نقل مکانی کرکے بیراج کے طرف چلی جاتی ہے، جہاں پر یہ لوگ زمینداروں کے پاس جبری مشقت کرتے ہیں۔ کرشنا کا تعلق بھی جبری مشقت کرنے والی برادری سے ہے۔ کرشنا نے ابتدائی تعلیم بھی بیراج کے علاقے میں حاصل کی، جہاں ان کے والدین زمیندار کے پاس ہاری تھے۔ اُس وقت کرشنا کوہلی کے گاؤں میں اسکول ہی نہیں تھا۔ کرشنا نے گریجویٹ بھی ادھر ہی رہ کر کیا۔ سماجی کاموں کے حوالے سے ان کا اپنے گاؤں اور ننگرپارکر آنا جانا رہتا ہے۔ ان کچا گھر ابھی تک گاؤں میں موجود ہے، جہاں ان کے والدین اور دیگر قریبی رشتے دار رہتے ہیں۔ کرشنا کا گھر تین جھونپڑوں پر مشتمل ہے، جس کے گرد جھاڑیوں کی باڑھ لگی ہے۔ گھر کا دروازہ لکڑی کا ہے۔ کرشنا نے اپنے گاؤں میں اوطاق بھی بنا رکھی ہے جہاں پر دو صوفے اور چارپائیاں موجود ہیں۔ وہ خود حیدرآباد رہتی ہیں۔

ہم نے کرشنا کوہلی کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد ان کے گاؤں کے دورہ کیا اور گاؤں کی اس بیٹی کی کام یابی پر وہاں کے باسیوں کے تاثرات معلوم کیے۔

گاؤں دھناگام کے رہائشی اور اسکول ٹیچر کھیتو کوہلی نے کرشنا کوہلی کو سینیٹ میں پہنچانے پر پاکستان پیپلزپارٹی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا گاؤں میں خوشی کا سماں ہے۔ جب نام زدگی کے بعد کرشنا گاؤن آئیں تو پورے گاؤں کے مردوخواتین ہار لے کر استقبال کرنے پہنچ گئے۔ خواتین نے گیت گائے اور مبارک باد دی۔ ہم کو امید ہے کہ اب ہمیں سرکارکی طرف سے اسکول کی سہولت ملے گی، سڑک بنے گی۔ انھوں نے توقع ظاہر کرشنا حکومت کی توجہ اس پس ماندہ علاقے کی طرف مبذول کرائیں گی اور یہاں ترقی ہوگی۔

گھر پر موجود کرشنا کے کزن گنگ داس کوہلی نے کہا کہ ہمیں کرشنا کے سینیٹر بننے کا سن کر بہت خوشی ہوئی۔ ہمارے علاقے کے تمام لوگ مبارک باد دینے ہمارے پاس پہنچ گئے۔ لیکن ہم زیادہ نہیں جانتے کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے مگر یہ ضرور سنا ہے کہ اب ہماری آواز اسلام آباد تک پہنچے گی اور ہمارے پاس جو سہولیات نہیں وہ حکومت ہم کو دے گی۔ ہمیں اس وقت کوئی سہولت میسر نہیں۔ ہمارے گاؤں میں تعلیم بھی نہیں ہے۔ کرشنا اور اس کا بھائی ویرجی مل گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے۔ وہاں کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہمارے پاس تعلیم نہیں تو ہم کو زیادہ باتوں کا علم نہیں ہے، مگر پیپلزپارٹی کرشنا کو جو اتنا بڑا موقع دیا ہے اس سے ہم کو بڑا فائدہ ہوگا۔ کرشنا کوہلی کی سیدھی سادی بھابی نے کہا،''ہم کو بہت خوشی ہوئی ہے کہ کرشنا کو بڑی نوکری ملی ہے۔ وہ اسلام آباد میں رہے گی۔''



کرشنا کماری اپنے بھائی ویرجی کوہلی کے ساتھ بڑے عرصے سے حیدرآباد میں رہائش پذیر ہیں جہاں پر وہ اپنا سماجی ادارہ چلاتی ہیں۔ دونوں بہن بھائی سماجی کام کے سلسلے میں ننگرپارکر آتے رہتے ہیں، جب کہ ایک دو مہینے میں اپنے والدین اور رشتے داروں سے بھی ملنے جاتے ہیں۔ ننگرپارکر کے اس علاقے میں رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ گاؤں دھناگام میں فون کا کوئی سسٹم نہیں کام نہیں کرتا۔

ننگرپارکر سے نقل مکانی کرکے بیراج کے علاقوں میں جبری مشقت کے شکار کوہلی اور بھیل برادری میں بھی کرشنا کے سینیٹر بننے نے خوشی کی لہر دوڑا دی ہے، اس فیصلے کو وہ اپنے لیے خوش آئند سمجھتے ہیں۔

کرشنا کوہلی کے بھائی اور یونین کونسل چیئرمین ویرجی کوہلی نے کہا کہ ہم غریب کسان کے بیٹے ہیں۔ والد نے غربت کے باعث بھی اپنے بچوں کو تعلیم دی۔ اس وقت ہم اپنے علاقے کی پہچان ہیں۔ کرشنا اور مجھے مہرگڑھ کی فوزیہ سعید نے سماجی کاموں کے حوالے سے تربیت دی اور اپنے ادارے میں ملازمت بھی دی۔ کرشنا نے خواتین، بچوں اور جبری مشقت کے حوالے سے آواز اٹھائی اور قانون کی آگاہی دینے کا بھی کام کیا۔ اس وجہ سے ہی پیپلزپارٹی نے اسے سینیٹر شپ کا موقع دیا ہے۔ کرشنا باہمت ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے علاقے کے بنیادی مسائل حل ہوں اس لیے ہم نے جدوجہد بھی کی اور اب پی پی پی کی قیادت نے ہم کو مزید موقع فراہم کیا ہے کہ ہم قانون سازی کے ساتھ اپنے علاقے کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ ہم پیپلزپارٹی قیادت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے غریب کسان کی بیٹی اور اقلیت کے پسے ہوئے طبقے کی بیٹی کو اتنا بڑا موقع فراہم کیا ہے۔

کرشنا کوہلی کے والد جگنو کوہلی نے کہا کہ ہم محنت کش اور کسان لوگ ہیں، جو چند ٹکوں پر زمیندار کے پاس گروی تھے، مگر میں نے غربت اور زمینداروں کے ظلم برداشت کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم دی۔ مجھے بچیوں کی تعلیم پر لوگوں نے برا بھلا کہا تنقید کی مگر میں نے کسی بھی نہیں سنی۔ میں پُرامید تھا کہ میرے بچے پڑھ کر ضرور کچھ بنیں گے۔ اس امید کا صلہ ملا ہے کہ میری بیٹی سینیٹر بن گئی ہے۔ پورا علاقہ، میرا خاندان اور برادری خوش ہے۔ ھم غریبوں کی خُدا نے سن لی ہے اب میری بیٹی بھی عوام کی سنے گی اور ان کے دکھ سکھ میں کام آئے گی۔

کرشنا کوہلی کی والدہ نینو کوہلی نے کہا کہ مجھے اتنی خوشی ہوئی جس کی انتہا نہیں ہے۔ ہم نے زندگی لوگوں کی غلامی مین گزار دی اب پی پی پی نے میری بیٹی کو بڑی نوکری دی ہے اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ زیادہ میں نہیں جانتی، مگر سب کا بھلا ہوگا۔
Load Next Story