300ارب ڈالر کی قومی پیداوار کو ٹیکس سے استثنیٰ کا انکشاف

آف شوراثاثے بھی بنائے جاتے ہیں،ایف سی کھاتوں کی چھان بین ممکن نہیں

آف شوراثاثے بھی بنائے جاتے ہیں،ایف سی کھاتوں کی چھان بین ممکن نہیں، فوٹو : فائل

ٹیکس ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس قوانین اور نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو دی جانے والی کھلی چھٹی غیرقانونی اثاثہ جات بنانے، ٹیکس چوری اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کا قانونی راستہ فراہم کررہی ہیں۔

پاکستان میں 150 ارب ڈالر کی غیردستاویزی معیشت کیساتھ دستاویزی معیشت میں سے بھی 150ارب ڈالر کی جی ڈی پی ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) اور نجی غیرملکی اکاؤنٹس کی سہولت منظم ٹیکس چوری غیرقانونی اثاثہ بنانے اور سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی کیلیے استعمال کی جارہی ہے۔

پاکستان بزنس کونسل اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کے اشتراک سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) اور نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے بارے میں ایک روزہ مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ مذاکرے میں بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو احسان اے ملک، اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے سینئر پارٹنر شبر زیدی، عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب، آئی کیپ کے کونسل ممبر اشفاق یوسف تولا نے شرکت کی۔ اس موقع پر اپنی پریزنٹیشن میں شبر زیدی نے پاکستان کے ٹیکس قوانین میں پائی جانے والی خامیوں اور نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو دی جانے والی کھلی چھوٹ سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی کوششوں کو پہنچنے والے نقصان پر روشنی ڈالی۔


انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم تقریباً 450 ارب ڈالر ہے جس میں سے 300ارب ڈالر کی جی ڈی پی ریکارڈ پر ہے تاہم ریکارڈ شدہ جی ڈی پی میں سے بھی 150ارب ڈالر کو یا تو ٹیکسوں کی چھوٹ حاصل ہے یا پھر وہ ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے، اس طرح مجموعی طور پر 300ارب ڈالر کی جی ڈی پی ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے، ایف بی آر کی نظروں سے اوجھل یہ 300ارب ڈالر کی خطیر رقم ہر سال پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں لگائی جاتی ہے یا پھر پوشیدہ نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس میں جمع کرائی جاتی ہے، پاکستان میں 4سے 5ملین مقامی کرنسی کے اکاؤنٹس بھی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے گئے۔

یہ رقم ان مقامی اکاؤنٹس میں بھی رکھی جاتی ہے یا پھر بیریئر سرٹیفکیٹس کی شکل میں خفیہ رکھی جاتی ہے، 300 ارب ڈالر کی اس خطیر رقم سے آف شور اثاثہ بھی بنائے جاتے ہیں جو زیادہ تر ریئل اسٹیٹ، غیرملکی کمپنیوں کے حصص اور تمسکات کی خریداری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں یا پھر یہ رقم آف شور بینک اکاؤنٹس یا منقولہ جائیدادوں میں لگائی جاتی ہے جبکہ پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز اور تمسکات کی خریداری میں بھی لگائی جاتی ہے، پاکستان میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے تحت نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو کسی بھی ٹیکس چھان بین سے چھوٹ حاصل ہے۔

ان اکاؤنٹس میں ڈالرز اوپن مارکیٹ سے خرید کر جمع کرائے جاتے ہیں جبکہ ان اکاؤنٹس میں جمع شدہ رقوم بیرون ملک منتقل کرنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور دیگر عالمی قوانین کی روشنی میں سرمائے کی منتقلی کے اس قانونی راستے کو بند کرنا ضروری ہے۔ٹیکس ماہرین کے مطابق پاناما لیکس کے بعد پاکستان تبدیل ہوچکا ہے، ٹیکس قوانین اور فارن ایکس چینج قوانین کو سخت بنانا ہوگااور خامیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
Load Next Story