قرآن حقوقِ نسواں کا مکمل احاطہ کرتا ہے
قرآن سمجھ کر پڑھنے سے یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ اگر فیمینزم کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہے تو قرآن خود فیمنسٹ کتاب ہے
فیمینزم یعنی حقوق نسواں کا تعلق اگر واقعی عورتوں کے حقوق سے اور عورت اور مرد کی برابری سے ہے تو قرآن بذات خود ایک فیمنسٹ کتاب ہے۔ مگر چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کے احکامات مسلم معاشروں میں نظرانداز ہی ہو رہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور کو مغربی دنیا کی اہم ترین دستاویز اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل تصور کیا جاتا ہے، جس میں عوامی حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں مرتب کی جانے والی اس دستاویز کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس میں غلاموں کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا۔ امریکا کی جنوبی ریاستیں (جہاں بڑی تعداد میں غلام زرعی معیشت کا حصہ تھے) اس دستور کو جبھی تسلیم کرنے پر راضی ہوئیں جب انہیں یقین دلایا گیا کہ فوری طور پر غلامی کے ادارے پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی غلاموں کی تجارت پر پابندی۔ اس کے باوجود غلاموں کے حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا۔ ایک سیاہ فام غلام انسان کا حق رائے دہی، سفید فام آزاد انسان کے تین بٹا پانچ کے برابر رکھا گیا۔ یعنی ہر پانچ غلاموں کا ووٹ، تین آزاد افراد کے برابر گردانا گیا۔
مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں مرتب کردہ مغربی دنیا کی اس اہم ترین دستاویز میں غلاموں کے حقوق کی بات تو کی گئی تھی مگر امریکی خواتین کے، چاہے وہ سفید فام آزاد خواتین ہی کیوں نہ ہوں، حقوق کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ انہیں ایک غلام کے برابر بھی حق رائے دہی نہیں دیا گیا تھا۔ یعنی خواتین کو ووٹ دینے کا حق امریکی دستور میں سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
جس سال امریکی دستور کا نفاذ ہوا، اسی سال فرانس میں ''ڈیکلریشن آف دی رائٹس آف مین اینڈ سٹیزنز'' نامی دستاویز سامنے آئی۔ ذرا غور کیجئیے، رائٹس صرف مین یعنی مرد کے تھے۔ اس دستاویز میں بھی، جسے اقوام متحدہ کے موجودہ ''یونیورسل چارٹر آف ہیومن رائٹس'' کی اساس سمجھا جاتا ہے، خواتین کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔
مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحث ''فیمینزم'' نامی تحریک نے انیسویں صدی میں شروع کی۔ ووٹ کا حق اسے بیسویں صدی میں دیا گیا جبکہ سورۂ بقرہ ساتویں صدی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے: (ترجمہ:) ''عورتوں کےلیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں، البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔''
ہم دیکھتے ہیں کہ ساتویں صدی میں نازل شدہ کتاب ''قرآن'' کا بڑا حصہ خواتین کے حقوق کو جگہ جگہ اپنی بحث کا حصہ بناتا ہے۔ سورۂ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نور، اور سورہ احزاب کا بیشتر حصہ اس بات کا گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے قانون کے مقابلے میں اسلام، عورت کو مرد کے برابر حقوق دیتا ہے۔
قرآن سمجھ کر پڑھا جائے تو یہ حقیقت چھپی نہیں رہ سکتی کہ اگر فیمینزم کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہے تو قرآن بذات خود ایک فیمنسٹ کتاب ہے۔ سورۂ نساء آیات نمبر1 میں الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت کو ایک جان سے پیدا کیا گیا۔ برابری کی اس سے بڑی توجیح اور مثال کیا دی جا سکتی ہے: ''لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۔''
جبکہ سورۂ بقرہ میں ایک اور جگہ دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر انہیں برابر قرار دیا گیا: ''وہ عورتیں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کےلیے لباس ہو۔'' مساوات کےلیے اتنے خوبصورت اور جامع الفاظ کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے اور اسی لیے طاقتور فریق کو اس پر غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہمیشہ زیادہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ جذباتی لحاظ سے بھی وہ مرد سے مختلف ہے اور اکثر جگہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ مثلاً بچوں سے محبت بھی اس کے پاؤں کی بیڑی ہے۔ قرآن اس حقیقت کو سامنے رکھ کر مرد اور عورت، دونوں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے؛ اور مرد کو منتظم یعنی ''قوام'' قرار دے کر اسے کفالت کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ سورہ نساء آیت نمبر 34 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اوراس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔''
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ عورت کو اس کے شرعی حقوق دینے کو قانوناً اور اخلاقاً لازمی قرار دیتا ہے۔
اس کے ساتھ اس حقیقت پر بھی نظر رہے کہ نکاح نامی اس شرعی پیکیج میں عورت پر بھی ذمہ داریاں عائد ہیں کہ وہ اپنے شوہر سے وفا دار رہے گی۔ اس کی اولاد، گھر اور اس کے مال کی حفاظت کرے گی، اپنے شوہر کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے گی، معروف میں ا سکی اطاعت کرے گی لیکن اس پیکیج میں اسے گھر سے نکل کر اپنی اور اپنی اولاد کےلیے کمانے کی ذمہ داری سے بری کیا گیا ہے۔
قرآن عورت کے حقوق کو محض معاشرے، اخلاق یا مرد کی مرضی پر نہیں چھوڑتا بلکہ ہر حق کو واضح احکامات کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ کفالت پوری طرح مرد کی ذمہ داری ہونے کے باوجود عورت کا وراثت میں مخصوص حصہ، جائیداد اور مال رکھنے کا حق، شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق، شادی میں لڑکی کی رضامندی، مہر کی صورت مالی معاوضہ، اپنے مال سے کاروبار کرنے کا حق، علیحدگی کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ حاصل کرنے کا حق، اور اس دوران نان نفقے کا حق جیسے امور اتنے واضح ہیں کہ انہیں صرف جان بوجھ کر ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
ماں اور بیوی کا ساتھ گزارا نہ ہو تو ناگزیر حالات میں قرآن طلاق یا خلع کی اجازت دیتا ہے لیکن طلاق کی صورت میں عورتوں کے حقوق کی طویل بحث موجود ہے۔ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کو قرآن اس کا حق قرار دیتا ہے، گو آج بھی مسلم معاشرے اسے یہ حق دینے پر عملاً راضی نہیں اور عورت اگر اپنا یہ حق عدت کے بعد استعمال کرنا چاہے تو اسے اسکینڈلز کا نشانہ بنا کر بدنام کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی تیسری منکوحہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک مسلم معاشرے میں افسوسناک ہے۔
عورتوں پر بغیر چار گواہ الزام لگانے والوں کو اسّی کوڑوں کی سزا بھی ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کا مصنف (الله تعالیٰ) عورتوں کی عزت کےلیے کتنا سنجیدہ ہے۔ مرد کا اپنی بیوی کے کردار پر الزام لگانے کی صورت لعان کا قانون بھی، جس کے تحت مرد اورعورت میں خوش اسلوبی سے علیحدگی ہوجاتی ہے، اسی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے۔ ایسے میں قتل غیرت کو قرآن قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں امریکی آئین تصنیف کرنے والوں کے مقابلے میں قرآن کے مصنف کی نظر میں اس صنف کی کتنی اہمیت ہے۔
مگر ہم اس تکلیف دہ حقیقت سے بھی نظر نہیں چرا سکتے کہ قرآن کے واضح احکامات کے باوجود مسلم معاشروں میں بھی عورت کی حالت دگرگوں ہی ہے اور چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کے احکامات نظرانداز ہی ہورہے ہیں۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء پڑھتے ہوئے بارہا محسوس ہوتا ہے کہ جگہ جگہ اوراق پر قرآن کے مصنف، خالق حقیقی کی محبت اپنی اس کمزور مخلوق کےلیے گویا برس رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پلٹ کر مسلم معاشروں کی طرف دیکھا جائے تو خالق کی اس محبت کا عکس اور پرتو وہاں نظر نہیں آتا۔ عورتوں سے نفرت اور بیزاری کا رویہ مسلم معاشروں، یہاں تک کہ دینی طبقات میں بھی کم نہیں۔ ''عورتیں ڈرامہ کرتی ہیں، آج کل کی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں، اس عورت نے تو اپنے شوہر کو اپنا غلام ہی بنالیا ہے، عورتیں سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہیں؟'' یہ جملے ہمارا معاشرہ اپنے بچوں کی ماؤں کےلیے استعمال کرتا ہے اور ہم مغرب پر اخلاقی برتری کے دعوے کرتے ہیں۔
دوسری طرف مغربی حقوق نسواں کی تحریک خواتین کو برابر معاوضہ تو اکیسویں صدی تک نہ دلواسکی مگر انہیں گھروں سے باہر نکال کر ملکی معیشت کا پرزہ بناکر اسے یہ زعم ضرور دے دیا کہ وہ اپنے جسم کی مالک ہے اور جس سے چاہے صنفی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ''فیمینزم'' کے نام پر عورت کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے یعنی نسوانیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ آج وہ آزادی کے نعروں کا شکار ہو کر خود جسمانی آسودگی کی تلاش میں مرد کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اس کے مطالبات ماننے پر مجبور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں مرد پر سے ہر ذمہ داری ساقط ہوچکی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں فیمینزم کے نام پر عورت کو جو حقوق حاصل تھے، وہ بھی اس سے چھین لیے گئے ہیں۔ برابری کا نعرہ دے کر مرد پر اس کی کفالت کے حق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ گھر سے باہر نکل کر معاش کی چکی کا ایندھن بننے کو عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا۔ دوسری طرف بغیر کسی دیرپا معاہدے کے اپنے جسم کو مرد کے حوالے کرنے کو بھی عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا ہے۔
الغرض قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں عورتوں کے حقوق کو ایک اہم موضوع کے طور پر متعا رف کروایا اور اسے وہ حقوق دیئے جو بدقسمتی سے آج بھی مشرق اور مغرب میں کہیں نظر نہیں آتے۔ صنف نازک کہلانے والے اس کمزور طبقے کی ضروریات، معاشرے کے طاقتور طبقات کے اس کے ساتھ ناروا سلوک کا الله کو کتنا احساس ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کی ان آیات کا سرسری جائزہ لینا ہی کافی ہے جو عائلی زندگی کے مختلف معاملات پر بحث کرتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق اور عائلی زندگی کو قرآن کے مصنف (الله تعالیٰ) نے کتنی اہمیت دی ہے اور اس دنیا کے بنانے والے کی نظر میں اس دنیا کی پر امن اور پر سکون بقا کےلیے گھر کے ادارے اور اس میں خواتین کے کردار اور بنیادی حقوق کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ قرآن کا قاری معمولی غور و فکر سے اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مغرب اگر اس کتاب میں دیئے گئے قوانین سے بے خبر ہے یا کسی تعصب کی وجہ سے اسے نظرانداز کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمان معاشرے بھی اس بے نظیر کتاب کے بے نظیر اصولوں کی تفہیم اور عملی نفاذ سے کوسوں دور ہیں۔ مسلم معاشروں میں بھی یہ قرآنی احکامات بڑی حد تک نظر انداز ہی ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ مضمون نگار کا مقصد دوسرے معاشروں سے تقابل کرکے اپنی قوم کو اعلیٰ اخلاقی منصب پر فائز کرنا نہیں بلکہ قرآن، عورتوں کے حقوق کی جو بحث ساتویں صدی میں چھیڑتا ہے، اس کی طرف توجہ دلانا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور کو مغربی دنیا کی اہم ترین دستاویز اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل تصور کیا جاتا ہے، جس میں عوامی حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں مرتب کی جانے والی اس دستاویز کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس میں غلاموں کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا۔ امریکا کی جنوبی ریاستیں (جہاں بڑی تعداد میں غلام زرعی معیشت کا حصہ تھے) اس دستور کو جبھی تسلیم کرنے پر راضی ہوئیں جب انہیں یقین دلایا گیا کہ فوری طور پر غلامی کے ادارے پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی غلاموں کی تجارت پر پابندی۔ اس کے باوجود غلاموں کے حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا۔ ایک سیاہ فام غلام انسان کا حق رائے دہی، سفید فام آزاد انسان کے تین بٹا پانچ کے برابر رکھا گیا۔ یعنی ہر پانچ غلاموں کا ووٹ، تین آزاد افراد کے برابر گردانا گیا۔
مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں مرتب کردہ مغربی دنیا کی اس اہم ترین دستاویز میں غلاموں کے حقوق کی بات تو کی گئی تھی مگر امریکی خواتین کے، چاہے وہ سفید فام آزاد خواتین ہی کیوں نہ ہوں، حقوق کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ انہیں ایک غلام کے برابر بھی حق رائے دہی نہیں دیا گیا تھا۔ یعنی خواتین کو ووٹ دینے کا حق امریکی دستور میں سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
جس سال امریکی دستور کا نفاذ ہوا، اسی سال فرانس میں ''ڈیکلریشن آف دی رائٹس آف مین اینڈ سٹیزنز'' نامی دستاویز سامنے آئی۔ ذرا غور کیجئیے، رائٹس صرف مین یعنی مرد کے تھے۔ اس دستاویز میں بھی، جسے اقوام متحدہ کے موجودہ ''یونیورسل چارٹر آف ہیومن رائٹس'' کی اساس سمجھا جاتا ہے، خواتین کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔
مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحث ''فیمینزم'' نامی تحریک نے انیسویں صدی میں شروع کی۔ ووٹ کا حق اسے بیسویں صدی میں دیا گیا جبکہ سورۂ بقرہ ساتویں صدی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے: (ترجمہ:) ''عورتوں کےلیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں، البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔''
ہم دیکھتے ہیں کہ ساتویں صدی میں نازل شدہ کتاب ''قرآن'' کا بڑا حصہ خواتین کے حقوق کو جگہ جگہ اپنی بحث کا حصہ بناتا ہے۔ سورۂ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نور، اور سورہ احزاب کا بیشتر حصہ اس بات کا گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے قانون کے مقابلے میں اسلام، عورت کو مرد کے برابر حقوق دیتا ہے۔
قرآن سمجھ کر پڑھا جائے تو یہ حقیقت چھپی نہیں رہ سکتی کہ اگر فیمینزم کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہے تو قرآن بذات خود ایک فیمنسٹ کتاب ہے۔ سورۂ نساء آیات نمبر1 میں الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت کو ایک جان سے پیدا کیا گیا۔ برابری کی اس سے بڑی توجیح اور مثال کیا دی جا سکتی ہے: ''لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۔''
جبکہ سورۂ بقرہ میں ایک اور جگہ دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر انہیں برابر قرار دیا گیا: ''وہ عورتیں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کےلیے لباس ہو۔'' مساوات کےلیے اتنے خوبصورت اور جامع الفاظ کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے اور اسی لیے طاقتور فریق کو اس پر غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہمیشہ زیادہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ جذباتی لحاظ سے بھی وہ مرد سے مختلف ہے اور اکثر جگہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ مثلاً بچوں سے محبت بھی اس کے پاؤں کی بیڑی ہے۔ قرآن اس حقیقت کو سامنے رکھ کر مرد اور عورت، دونوں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے؛ اور مرد کو منتظم یعنی ''قوام'' قرار دے کر اسے کفالت کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ سورہ نساء آیت نمبر 34 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اوراس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔''
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ عورت کو اس کے شرعی حقوق دینے کو قانوناً اور اخلاقاً لازمی قرار دیتا ہے۔
شادی کے پیکیج میں عورت کی ذمہ داریاں
اس کے ساتھ اس حقیقت پر بھی نظر رہے کہ نکاح نامی اس شرعی پیکیج میں عورت پر بھی ذمہ داریاں عائد ہیں کہ وہ اپنے شوہر سے وفا دار رہے گی۔ اس کی اولاد، گھر اور اس کے مال کی حفاظت کرے گی، اپنے شوہر کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے گی، معروف میں ا سکی اطاعت کرے گی لیکن اس پیکیج میں اسے گھر سے نکل کر اپنی اور اپنی اولاد کےلیے کمانے کی ذمہ داری سے بری کیا گیا ہے۔
قرآن عورت کے حقوق کو محض معاشرے، اخلاق یا مرد کی مرضی پر نہیں چھوڑتا بلکہ ہر حق کو واضح احکامات کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ کفالت پوری طرح مرد کی ذمہ داری ہونے کے باوجود عورت کا وراثت میں مخصوص حصہ، جائیداد اور مال رکھنے کا حق، شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق، شادی میں لڑکی کی رضامندی، مہر کی صورت مالی معاوضہ، اپنے مال سے کاروبار کرنے کا حق، علیحدگی کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ حاصل کرنے کا حق، اور اس دوران نان نفقے کا حق جیسے امور اتنے واضح ہیں کہ انہیں صرف جان بوجھ کر ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
ماں اور بیوی کا ساتھ گزارا نہ ہو تو ناگزیر حالات میں قرآن طلاق یا خلع کی اجازت دیتا ہے لیکن طلاق کی صورت میں عورتوں کے حقوق کی طویل بحث موجود ہے۔ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کو قرآن اس کا حق قرار دیتا ہے، گو آج بھی مسلم معاشرے اسے یہ حق دینے پر عملاً راضی نہیں اور عورت اگر اپنا یہ حق عدت کے بعد استعمال کرنا چاہے تو اسے اسکینڈلز کا نشانہ بنا کر بدنام کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی تیسری منکوحہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک مسلم معاشرے میں افسوسناک ہے۔
عورتوں پر بغیر چار گواہ الزام لگانے والوں کو اسّی کوڑوں کی سزا بھی ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کا مصنف (الله تعالیٰ) عورتوں کی عزت کےلیے کتنا سنجیدہ ہے۔ مرد کا اپنی بیوی کے کردار پر الزام لگانے کی صورت لعان کا قانون بھی، جس کے تحت مرد اورعورت میں خوش اسلوبی سے علیحدگی ہوجاتی ہے، اسی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے۔ ایسے میں قتل غیرت کو قرآن قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں امریکی آئین تصنیف کرنے والوں کے مقابلے میں قرآن کے مصنف کی نظر میں اس صنف کی کتنی اہمیت ہے۔
مگر ہم اس تکلیف دہ حقیقت سے بھی نظر نہیں چرا سکتے کہ قرآن کے واضح احکامات کے باوجود مسلم معاشروں میں بھی عورت کی حالت دگرگوں ہی ہے اور چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کے احکامات نظرانداز ہی ہورہے ہیں۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء پڑھتے ہوئے بارہا محسوس ہوتا ہے کہ جگہ جگہ اوراق پر قرآن کے مصنف، خالق حقیقی کی محبت اپنی اس کمزور مخلوق کےلیے گویا برس رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پلٹ کر مسلم معاشروں کی طرف دیکھا جائے تو خالق کی اس محبت کا عکس اور پرتو وہاں نظر نہیں آتا۔ عورتوں سے نفرت اور بیزاری کا رویہ مسلم معاشروں، یہاں تک کہ دینی طبقات میں بھی کم نہیں۔ ''عورتیں ڈرامہ کرتی ہیں، آج کل کی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں، اس عورت نے تو اپنے شوہر کو اپنا غلام ہی بنالیا ہے، عورتیں سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہیں؟'' یہ جملے ہمارا معاشرہ اپنے بچوں کی ماؤں کےلیے استعمال کرتا ہے اور ہم مغرب پر اخلاقی برتری کے دعوے کرتے ہیں۔
دوسری طرف مغربی حقوق نسواں کی تحریک خواتین کو برابر معاوضہ تو اکیسویں صدی تک نہ دلواسکی مگر انہیں گھروں سے باہر نکال کر ملکی معیشت کا پرزہ بناکر اسے یہ زعم ضرور دے دیا کہ وہ اپنے جسم کی مالک ہے اور جس سے چاہے صنفی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ''فیمینزم'' کے نام پر عورت کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے یعنی نسوانیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ آج وہ آزادی کے نعروں کا شکار ہو کر خود جسمانی آسودگی کی تلاش میں مرد کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اس کے مطالبات ماننے پر مجبور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں مرد پر سے ہر ذمہ داری ساقط ہوچکی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں فیمینزم کے نام پر عورت کو جو حقوق حاصل تھے، وہ بھی اس سے چھین لیے گئے ہیں۔ برابری کا نعرہ دے کر مرد پر اس کی کفالت کے حق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ گھر سے باہر نکل کر معاش کی چکی کا ایندھن بننے کو عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا۔ دوسری طرف بغیر کسی دیرپا معاہدے کے اپنے جسم کو مرد کے حوالے کرنے کو بھی عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا ہے۔
الغرض قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں عورتوں کے حقوق کو ایک اہم موضوع کے طور پر متعا رف کروایا اور اسے وہ حقوق دیئے جو بدقسمتی سے آج بھی مشرق اور مغرب میں کہیں نظر نہیں آتے۔ صنف نازک کہلانے والے اس کمزور طبقے کی ضروریات، معاشرے کے طاقتور طبقات کے اس کے ساتھ ناروا سلوک کا الله کو کتنا احساس ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کی ان آیات کا سرسری جائزہ لینا ہی کافی ہے جو عائلی زندگی کے مختلف معاملات پر بحث کرتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق اور عائلی زندگی کو قرآن کے مصنف (الله تعالیٰ) نے کتنی اہمیت دی ہے اور اس دنیا کے بنانے والے کی نظر میں اس دنیا کی پر امن اور پر سکون بقا کےلیے گھر کے ادارے اور اس میں خواتین کے کردار اور بنیادی حقوق کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ قرآن کا قاری معمولی غور و فکر سے اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مغرب اگر اس کتاب میں دیئے گئے قوانین سے بے خبر ہے یا کسی تعصب کی وجہ سے اسے نظرانداز کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمان معاشرے بھی اس بے نظیر کتاب کے بے نظیر اصولوں کی تفہیم اور عملی نفاذ سے کوسوں دور ہیں۔ مسلم معاشروں میں بھی یہ قرآنی احکامات بڑی حد تک نظر انداز ہی ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ مضمون نگار کا مقصد دوسرے معاشروں سے تقابل کرکے اپنی قوم کو اعلیٰ اخلاقی منصب پر فائز کرنا نہیں بلکہ قرآن، عورتوں کے حقوق کی جو بحث ساتویں صدی میں چھیڑتا ہے، اس کی طرف توجہ دلانا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔