ننگر پارکر ضرور دیکھنے جائیںدوسرا اور آخری حصہ

دوسرے روز بھوڈیسر گاؤں کی طرف نکل پڑے جو دو سے تین کلومیٹر ریسٹ ہاؤس سے دور ہے

کاسبو میں ایک رام پیرکا مندر بھی ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ 400 سال پرانا ہے مگر اب اس کی مرمت Antiquity کلچر ڈپارٹمنٹ نے کروائی ہے جس سے اب وہ بالکل نیا لگ رہا ہے۔ یہاں پر ہر سال تین دن ہندوؤں کا میلہ لگتا ہے اور پوری دنیا سے ہندو آتے ہیں۔یہاں پر میں نے موروں کی بڑی تعداد دیکھی کیونکہ یہاں کے لوگ مور کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اور خوشحالی کی وجہ سے انھیں دانہ پانی آسانی سے مل جاتا ہے۔ جب مور اپنے پر جھاڑتا ہے تو بچے اسے جمع کرتے ہیں اور ایک سو روپے میں بیچتے ہیں، یہ بچے ہمیں مندرکے باہر پَر بیچتے ہوئے نظر آئے۔ یہاں پر رہنے والوں کے گھر بھی تھرکی روایت کی طرح بنے ہوئے تھے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ گھر سردیوں میں گرم اورگرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے ہیں۔

اب کاسبو کو الوداع کہہ کر ہم نے ننگرپارکر شہر سے پہلے کلچر سینٹر دیکھا اور اس کے قریب تراوت کا تلہا (Talha) بھی گھوم کے دیکھا جو وہاں کے مشہور اور حسین پہاڑ کارونجھر کے دامن میں ہے۔ وہاں پر کچھ عورتیں کارونجھر میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں سے بنائی ہوئی دوائی بیچ رہی تھیں جو کئی امراض میں کام آتی ہیں۔ جب ہم ننگرپارکر سے گزرکر کارونجھر کے اندر کی طرف چل پڑے تو وہاں پر ایک اور خستہ حال جین مندر دیکھا اس کے باہر والے گیٹ کو تالا لگا ہوا تھا کیونکہ اس مندر سے قیمتی مورتیاں چوری ہوگئی تھیں۔ اس سلسلے میں اینٹی کوئٹی کے ڈی جی منظور قناصرو سردار شاہ کے حکم پر مرمت کا کام بھی جلد شروع ہوگا۔

جب ہماری گاڑی کارونجھر پہاڑ سے گزر رہی تھی تو دونوں طرف یہ پہاڑ بڑا خوبصورت لگ رہا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب ہم سادھرو مندر کی طرف جا رہے ہیں جو ننگرپارکر سے دس سے بارہ کلومیٹر دور تھا اور جس روڈ سے ہماری گاڑی گزر رہی تھی وہ ایک نہر ہے جس پر سیمنٹ کا روڈ بنایا گیا ہے۔ یہ ندی کبھی نیچے اور کبھی اونچے اور کبھی سانپ کی طرح بل کھاتی چل رہی تھی۔ یہ نظارہ بڑا اچھا تھا اور کچھ پرخطر بھی۔ ہم سادھرا مندر پہنچے تو وہاں ایک حوض تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا جو کافی خراب لگ رہا تھا جس کو ہندو مرگین کا نام دیتے ہیں اور ہندو وہاں آکر نہاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پانی میں نہانے سے ان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ وہاں پر شیو شنکر اور ہسوری باؤ کی سمادی (قبریں) ہیں جہاں پر ہندو آکر دعا مانگتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دعا سے ان کی منت پوری ہوجاتی ہے۔

سادھرو کو ہندو وہ جگہ تصور کرتے ہیں جیسے ہمارے مسلمان حج کی جگہ اور وہ وہاں پر آنے والوں کو حاجی یعنی زیارت کرنے والے سمجھتے ہیں۔ سادھرو میں ہر سال تین دن کا میلہ لگتا ہے جہاں پر ہندو پوری دنیا سے آتے ہیں اور ننگرپارکر سے پورے 12 کلومیٹر پیدل چل کے آتے ہیں۔ حکومت سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ نے وہاں پر آنے والوں کی سہولت کے لیے دو باتھ روم بنوائے ہیں، اس کے علاوہ اپنے عملے کے لیے ایک کمرہ جو چوئنرہ نما ہے اور ایک اسٹور روم ہے۔

ہمارے ساتھ ہمارے دو ساتھی جس میں عبدالعزیز اور مولا بخش ہماری رہنمائی کرتے رہے جب کہ روپلو کولھی ریسٹ ہاؤس کے انچارج راشد صدیقی اور اس کے معاون پرکاش ہمارے لیے گائیڈ کا کام کرتے رہے۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو اس وقت 7:30 رات کے بج چکے تھے مگر پہاڑ چڑھنا، پیدل اونچے اور نیچے جانا آنا اور پھر 150 سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا بہت کٹھن کام تھا مگر اس کے باوجود ہم میں تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے۔

دوسرے روز بھوڈیسر گاؤں کی طرف نکل پڑے جو دو سے تین کلومیٹر ریسٹ ہاؤس سے دور ہے۔ وہاں ہم جیسے ہی پہنچے تو ہمیں کچھ غریب دبلے پتلے کالے رنگ کے بچوں نے گھیر لیا اور ہم سے خیرات مانگنے لگے۔ ہم سب نے کچھ نہ کچھ انھیں دیا جو ان کے لیے شاید ناکافی تھا۔ سب سے پہلے ہمارے سامنے بھوڈیسر مسجد تھی جس کے لیے کہتے ہیں کہ وہ 400 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ مسجد کے احاطے میں کچھ قبریں نظر آئیں جو گاؤں کے لوگوں کی ہیں مگر اب حکومت نے لوگوں کو وہاں پر مردے دفنانے سے منع کیا ہے کیونکہ اب مسجد قومی ورثے میں شامل کی گئی ہے۔


ویسے تو مسجد اوقات محکمہ کے پاس ہے مگر اس کی مرمت کا کام Endowment Fund Trust والوں کی طرف سے کیا جائے گا۔ مسجد کے پیچھے جوہڑ ہے جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے جسے گاؤں کے لوگ خود اور اپنے مویشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آگے کچھ قدم چلے تو پونی مندر نظر آیا جو اونچائی پر بنا ہوا تھا جو پتھر کے پلرز سے بنایا ہوا تھا جہاں پر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس مندر کی حالت خستہ تھی جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ 800 سال پرانا ہے جس کو ایک پونی نام کی عورت نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں پر اینٹی کوئٹی محکمے والوں کی طرف سے مرمت کا کام جاری تھا۔ اور کچھ قدم چلے تو ایک اور کالی ماتا کا مندر تھا وہ بھی تقریباً 700 سال قدیم بتایا جاتا ہے۔ اس مندر کی مرمت کا کام مکمل کردیا گیا ہے جو ابھی پورا نہیں ہے کیونکہ اندر دیواروں میں کچھ سوراخ نظر آئے۔ اس مندر کے اندر پلرز پر کچھ مورتیاں بنی ہوئی ہیں۔ باہر سے خاردار تار لگا کر مویشیوں اور لوگوں سے محفوظ بنایا گیا ہے۔

ان دونوں مندروں کو سنبھالنے کے لیے وہاں ایک تھری کو ملازم رکھا گیا ہے جس کے لیے ایک آفس بھی بنایا گیا ہے۔

ہم جہاں بھی گئے مجھے چاروں طرف کارونجھر پہاڑ نظر آیا کہیں وہ اونچائی میں کم تھا اور کہیں وہ 1500 میٹر سمندر کی سطح سے اوپر ہے۔ اس پہاڑ میں 12 اقسام کے ماربل مختلف خوبصورت رنگوں میں موجود ہے جس کے لیے کہتے ہیں کہ ایک اندازہ کے مطابق 36 Trillion ٹن موجود ہے۔ اس پہاڑ پر کئی اقسام کی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینے میں اگر بارش ہوجائے تو اس کے بیچ گزرنے والی نہر بڑے زور سے بہتی ہے جس کی وجہ سے پہاڑ کے چاروں طرف مختلف اقسام کے پھول اور پودے منظر کو بڑا حسین بنا دیتے ہیں۔

دوپہر کا کھانا کھا کر ہم ایک بجے مٹھی کے لیے روانہ ہوگئے۔ اب اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے درمیان مین روڈ سے سیدھے ہاتھ پر بھالوا گاؤں ہے جہاں سے عمر سومرو ماروی کو اٹھا کے لے گئے تھے۔ وہاں پر کنواں آج بھی موجود ہے جس میں پانی بھرا ہوا تھا جو بالٹی سے نکالا جاتا ہے اور وہاں پر کلچر کمپلیکس کو بھی Supply ہوتا ہے جس کے لیے پائپ لگے ہوئے ہیں۔ اس کمپلیکس میں تین چھوٹے کمروں میں میوزیم بنایا گیا ہے جس میں عمر اور ماروی کے مجسمے، ماروی کے کپڑوں کا اسٹائل اور برتن رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں پر ڈرائنگ روم اور ملازم کے لیے کمرہ بنا ہوا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہماری آمد پر ایک مقامی گانے والا شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سر ماروی سے گا رہا تھا جسے سن کر ہم بڑے محظوظ ہوئے۔ کمپلیکس کے باہر ایک سجا سجایا اونٹ بھی کھڑا تھا جس پر ہم نے سواری کرنی تھی مگر وقت کی کمی کی وجہ سے ہم اس پر سواری نہیں کرسکے۔

وہاں سے روانہ ہوکر ہم مٹھی شہر پہنچے جو تھرپارکر ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہے۔موجودہ ریسٹ ہاؤس میں دو اے سی کمرے ہیں مگر ان کی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر ایک نیا ماروی ریسٹ ہاؤس کے نام سے بن رہا ہے جو 16 اے سی کمروں پر مشتمل ہے، جس میں ڈائننگ ہال، ڈرائنگ ہال، دفتر کا کمرہ اور سرونٹ کا کمرہ بھی ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس میں بھی آنے والوں کے لیے بجلی کی سہولت کے علاوہ سولر سسٹم، جنریٹر بھی ہے۔

ننگر پارکر جو بارڈر کے قریب ہے وہاں پر جانا اب آسان ہے کیونکہ سب سے زیادہ راستے، رہنے کا بندوبست اور کھانا اہم ہے جو آپ کو روپلو کولھی ریسٹ ہاؤس میں بجلی اور پانی سمیت مل جائے گا جہاں خاص طور پر آپ اپنی فیملی کو ضرور لے جائیں۔
Load Next Story