عزت اپنے ہاتھ میں
اس پردے کے پیچھے کوئی معشوق نہیں سارے رقیب ہی چھپے ہوئے ہیں
میں وطن عزیز کے حالات دیکھ کر ماضی کی یادوں میں کھو گیا اور یادیں بھی ایسی جو کہ آج کے حکمرانوں کے لیے بھی سبق آموز ہو سکتی ہیں ۔پاکستان بلکہ تیسری دنیا میں شروع دن سے یہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاسی حکمران حکومت میں تو عوام کی پر جوش حمایت میں آتا ہے مگر وہ عوام کو شاید بے وقوف سمجھتے ہوئے بہت جلد انھیں بھلا دیتا ہے اور اپنے اشرافیہ طبقے کی دیکھ بھال اور پرورش میں مصروف ہوجاتا ہے جو کہ دراصل اس کے حریف ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب اقتدار پر آفت آتی ہے تو اس کے اپنے طبقے کے ساتھی اسے مخالفوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور عوام اس کی لاتعلقی کے باعث اس سے متنفر ہو چکے ہوتے ہیں ۔
تنہائی اور بے بسی کے اس عالم میں وہ گلوؤں شکوؤں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اور صرف پچھتانا اس کے مقدر میں ہوتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ عوام جن کی حمایت سے وہ اقتدار میں آیا تھا اگروہ ان کے لیے ہی کچھ کر لیتا تو عوام اتنے بے وفا نہیں کہ اس کو بھلا دیتے مگر اس نے عوام پر اشرافیہ کو ترجیح دی اور آج اس اشرافیہ کے کچھ لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں اور باقی ماندہ بھی دیواریں پھلانگنے کو تیار ہیں۔ اس بے رحم حقیقت کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کہ اس ملک کے سیاست دانوں پر بیت گئیں مگر وہ ان سے کچھ سیکھ نہ سکے ۔ اس قسم کے سیاسی المیے کی سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں ۔ ایک ذہین و فطین لیڈر جس نے بہت کچھ توڑ دیا مگر سیاست کی اس آسیب زدہ روایت کو نہ توڑ سکا اور اس کا ایک بد قسمت شکار بن گیا اور ایک بار پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد کھل کر سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیا ہر وڈیرے اور رئیس اور چوہدری کے دروازے پر دستک دی لیکن ایوب خان کے ڈر کے مارے کسی میں اس کا ساتھ دینے کا حوصلہ نہ تھا جب اس کے تمام حیلے اور حربے ناکام ہو گئے تو مایوسی اور برہمی کی کیفیت میں وہ گم ہو گیا اور جب اس کیفیت سے باہر نکلا تو اس کی زبان پر غریب عوام کے لیے ایک نعرہ تھا ''روٹی کپڑا اور مکان'' جس کی یاد مرحوم بھٹو کے نواسے نے ایک بار پھر دلائی ہے کہ وہ اگلا الیکشن روٹی کپڑا مکان کے نعرے پر لڑیں گے اور اپنی پیدائش سے پہلے کی یادیں تازہ کریں گے۔ بہرحال بھٹو کے دور میں سیاست میں مڈل کلاس موجود تھی سوشلزم بھی اپنے جوبن پر تھا، بھارت کے خلاف جنگ کی نفرت انگیز یادیں تازہ تھیں، بھٹو کا نعرہ تھا عوام پاکستان کے مالک ہیں اور اس ملک کا سب کچھ ان کا ہے اور میں یہ سب کچھ چھین کر ان کو دے دوں گا۔
بھٹوکی سیاست کا مرکز لاہور تھا اور فلیٹیز ہوٹل میں ان کا ڈیرہ تھا، ایک بار پریس بریفنگ کے بعد میں وہاں رک گیا اور بھٹو صاحب سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ عوام کو آپ اتنا کچھ کہاں سے دیں گے اتنی تو ملک بھر کی زمین بھی نہیں، یہ شام کا وقت تھا، انھوں نے ایک خاص انداز میں کہا کہ جنت کسی مسلمان نے دیکھی ہے خدا کسی نے دیکھا ہے مگر مسلمان جنت کے وعدے اور خدا کی رحمت کے لیے جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، وعدوں پر اعتبار اس قوم کے رگ و روپ میں ہے پھر انھوں نے ذرا تن کر کہا لیکن میں بہت سے وعدے پورے کروں گا ۔
وہ اپنے ملک کے صنعتکاروں اور اپنے طبقے کے بڑے زمینداروں سے بہت ناراض تھے جنہوں نے انھیں حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا ۔ مختصراً یہ کہ کسے یاد نہیں کہ بھٹو نے اپنے مخالف سیاستدانوں کو کس طرح تہس نہس کیا تھا، بہت کچھ اکھاڑ پچھاڑ دیا، لاتعداد سیاست دان ان کا نشانہ بن گئے اس سب کے پیچھے عوام کی طاقت تھی کوئی وڈیرہ یا چوہدری ان کا مدد گار نہیں تھا لیکن بھٹو بالآخر اپنی اس کامیاب سیاست پر قائم نہ رہ سکا اور اس کے اندر کا وڈیرہ جاگ اٹھا، اس نے عوام کو چھوڑ کر پھر سے اپنی دشمنوں کو جمع کر لیا جن کا تعلق کمزور ترین مخلوق سے تھا، اصل طاقت عوام کے پاس تھی جو اس نے گم کر دی اور خود بھی اس میں گم ہو گیا، بس یادیں باقی رہ گئیں ہیں جن کو ہم آج بھی یاد کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ باتیں مجھے آج کے حکمرانوں کی حالت دیکھ کر یاد آئی ہیں جو بھٹوکی طرح عوام کی بھاری تائید اور مینڈیٹ کے دعویدار ہیں بلکہ اب تو ہمارے حکمران بھٹو کی مثالیں بھی دیتے ہیں اور وجہ کچھ بھی ہو عوام نے انھیں بڑے شوق اور امید کے ساتھ اقتدار پر سرفراز کیا مگر وہ خود اسلام آباد سے رائے ونڈ کے درمیان ہی گھومتے رہے، بھٹو صاحب کا تجربہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں مگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن ماضی قریب کی تاریخ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے ۔
نواز شریف اس غلط فہمی میں ہی مبتلاء رہے کہ ان پر جب کوئی مشکل پڑی تو کوئی چوہدری یا وڈیرہ ان کے اقتدار کو بچا لے گا یہ ان کی سب سے بڑی بھول رہی کیونکہ اقتدار کے سب بھوکے ہوتے ہیں اور اس انتظار میں ہی رہتے ہیں کہ یہ اقتدار ان کے دروازے پر کب دستک دیتا ہے اس لیے ان کی وفاداری پر اعتبار کا کیا اعتبار۔ صرف ایک پردہ ہے جو سب کی عقل پر پڑا ہوا ہے اور اس پردے کے پیچھے کوئی معشوق نہیں سارے رقیب ہی چھپے ہوئے ہیں ۔
میاں صاحب نے خاص کو چھوڑ کر عوام سے رجوع کیا ہے اور عوام نے ان کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود انھیں خوش آمدید کہا ہے، یہ افتادہ خاک لوگ میاں صاحب کی اصل سیاسی طاقت ہیں جو کسی کرم فرما کی راہ تکتے رہتے ہیں، میاں صاحب نے ان افتادہ خاک لوگوں کو اقتدار سے دوری کے بعد یاد کیا ہے اور اب ان کو معلوم ہوا ہے کہ زمین کے یہ کمزور لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ۔ وہ ان کو طاقت دیں اور ان سے اقتدار کے لیے طاقت لیں یہ وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی البتہ آپ کی غلطیوں سے وقتی طور پر دب جاتی ہے لیکن جونہی اس کو کوئی مخلصانہ آواز دے یہ طاقت دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے بس کوئی ان سے پیار کرنے والا ہونا چاہیے، یہ کچھ نہیں مانگتے سوائے چند سہولتوں کے جو ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرسکیںوہ عزت کے بھوکے ہیں ان کو عزت دیں اپنی طاقت اور عزت بڑھائیں اور ماضی سے سبق سیکھیں ۔
تنہائی اور بے بسی کے اس عالم میں وہ گلوؤں شکوؤں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اور صرف پچھتانا اس کے مقدر میں ہوتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ عوام جن کی حمایت سے وہ اقتدار میں آیا تھا اگروہ ان کے لیے ہی کچھ کر لیتا تو عوام اتنے بے وفا نہیں کہ اس کو بھلا دیتے مگر اس نے عوام پر اشرافیہ کو ترجیح دی اور آج اس اشرافیہ کے کچھ لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں اور باقی ماندہ بھی دیواریں پھلانگنے کو تیار ہیں۔ اس بے رحم حقیقت کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کہ اس ملک کے سیاست دانوں پر بیت گئیں مگر وہ ان سے کچھ سیکھ نہ سکے ۔ اس قسم کے سیاسی المیے کی سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں ۔ ایک ذہین و فطین لیڈر جس نے بہت کچھ توڑ دیا مگر سیاست کی اس آسیب زدہ روایت کو نہ توڑ سکا اور اس کا ایک بد قسمت شکار بن گیا اور ایک بار پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد کھل کر سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیا ہر وڈیرے اور رئیس اور چوہدری کے دروازے پر دستک دی لیکن ایوب خان کے ڈر کے مارے کسی میں اس کا ساتھ دینے کا حوصلہ نہ تھا جب اس کے تمام حیلے اور حربے ناکام ہو گئے تو مایوسی اور برہمی کی کیفیت میں وہ گم ہو گیا اور جب اس کیفیت سے باہر نکلا تو اس کی زبان پر غریب عوام کے لیے ایک نعرہ تھا ''روٹی کپڑا اور مکان'' جس کی یاد مرحوم بھٹو کے نواسے نے ایک بار پھر دلائی ہے کہ وہ اگلا الیکشن روٹی کپڑا مکان کے نعرے پر لڑیں گے اور اپنی پیدائش سے پہلے کی یادیں تازہ کریں گے۔ بہرحال بھٹو کے دور میں سیاست میں مڈل کلاس موجود تھی سوشلزم بھی اپنے جوبن پر تھا، بھارت کے خلاف جنگ کی نفرت انگیز یادیں تازہ تھیں، بھٹو کا نعرہ تھا عوام پاکستان کے مالک ہیں اور اس ملک کا سب کچھ ان کا ہے اور میں یہ سب کچھ چھین کر ان کو دے دوں گا۔
بھٹوکی سیاست کا مرکز لاہور تھا اور فلیٹیز ہوٹل میں ان کا ڈیرہ تھا، ایک بار پریس بریفنگ کے بعد میں وہاں رک گیا اور بھٹو صاحب سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ عوام کو آپ اتنا کچھ کہاں سے دیں گے اتنی تو ملک بھر کی زمین بھی نہیں، یہ شام کا وقت تھا، انھوں نے ایک خاص انداز میں کہا کہ جنت کسی مسلمان نے دیکھی ہے خدا کسی نے دیکھا ہے مگر مسلمان جنت کے وعدے اور خدا کی رحمت کے لیے جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، وعدوں پر اعتبار اس قوم کے رگ و روپ میں ہے پھر انھوں نے ذرا تن کر کہا لیکن میں بہت سے وعدے پورے کروں گا ۔
وہ اپنے ملک کے صنعتکاروں اور اپنے طبقے کے بڑے زمینداروں سے بہت ناراض تھے جنہوں نے انھیں حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا ۔ مختصراً یہ کہ کسے یاد نہیں کہ بھٹو نے اپنے مخالف سیاستدانوں کو کس طرح تہس نہس کیا تھا، بہت کچھ اکھاڑ پچھاڑ دیا، لاتعداد سیاست دان ان کا نشانہ بن گئے اس سب کے پیچھے عوام کی طاقت تھی کوئی وڈیرہ یا چوہدری ان کا مدد گار نہیں تھا لیکن بھٹو بالآخر اپنی اس کامیاب سیاست پر قائم نہ رہ سکا اور اس کے اندر کا وڈیرہ جاگ اٹھا، اس نے عوام کو چھوڑ کر پھر سے اپنی دشمنوں کو جمع کر لیا جن کا تعلق کمزور ترین مخلوق سے تھا، اصل طاقت عوام کے پاس تھی جو اس نے گم کر دی اور خود بھی اس میں گم ہو گیا، بس یادیں باقی رہ گئیں ہیں جن کو ہم آج بھی یاد کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ باتیں مجھے آج کے حکمرانوں کی حالت دیکھ کر یاد آئی ہیں جو بھٹوکی طرح عوام کی بھاری تائید اور مینڈیٹ کے دعویدار ہیں بلکہ اب تو ہمارے حکمران بھٹو کی مثالیں بھی دیتے ہیں اور وجہ کچھ بھی ہو عوام نے انھیں بڑے شوق اور امید کے ساتھ اقتدار پر سرفراز کیا مگر وہ خود اسلام آباد سے رائے ونڈ کے درمیان ہی گھومتے رہے، بھٹو صاحب کا تجربہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں مگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن ماضی قریب کی تاریخ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے ۔
نواز شریف اس غلط فہمی میں ہی مبتلاء رہے کہ ان پر جب کوئی مشکل پڑی تو کوئی چوہدری یا وڈیرہ ان کے اقتدار کو بچا لے گا یہ ان کی سب سے بڑی بھول رہی کیونکہ اقتدار کے سب بھوکے ہوتے ہیں اور اس انتظار میں ہی رہتے ہیں کہ یہ اقتدار ان کے دروازے پر کب دستک دیتا ہے اس لیے ان کی وفاداری پر اعتبار کا کیا اعتبار۔ صرف ایک پردہ ہے جو سب کی عقل پر پڑا ہوا ہے اور اس پردے کے پیچھے کوئی معشوق نہیں سارے رقیب ہی چھپے ہوئے ہیں ۔
میاں صاحب نے خاص کو چھوڑ کر عوام سے رجوع کیا ہے اور عوام نے ان کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود انھیں خوش آمدید کہا ہے، یہ افتادہ خاک لوگ میاں صاحب کی اصل سیاسی طاقت ہیں جو کسی کرم فرما کی راہ تکتے رہتے ہیں، میاں صاحب نے ان افتادہ خاک لوگوں کو اقتدار سے دوری کے بعد یاد کیا ہے اور اب ان کو معلوم ہوا ہے کہ زمین کے یہ کمزور لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ۔ وہ ان کو طاقت دیں اور ان سے اقتدار کے لیے طاقت لیں یہ وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی البتہ آپ کی غلطیوں سے وقتی طور پر دب جاتی ہے لیکن جونہی اس کو کوئی مخلصانہ آواز دے یہ طاقت دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے بس کوئی ان سے پیار کرنے والا ہونا چاہیے، یہ کچھ نہیں مانگتے سوائے چند سہولتوں کے جو ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرسکیںوہ عزت کے بھوکے ہیں ان کو عزت دیں اپنی طاقت اور عزت بڑھائیں اور ماضی سے سبق سیکھیں ۔