اجتماعی شعور سے جڑی شاعری

آ، آ تو کسی صورت میں بھی آ، میں تجھے اچھی طرح پہچانتا ہوں

shabnumg@yahoo.com

GILGIT:
مسندھ جغرافیائی طور پر زرخیز خطہ ہے، دریا، سبزے، پہاڑوں سے مزین، یہاں پر تمام موسم اعتدال سے ملتے ہیں۔ وہ علاقے جو زیادہ طوفان و بارشوں کی زد پر نہ ہوں اور موسموں کا مزاج بھی معتدل ہو، وہ فطری توانائی کا مرکز کہلاتے ہیں۔ یہ جگہیں زرخیز ذہنوں کی آبیاری کرتی ہیں۔ فطرت سے انسان کا انمٹ رشتہ ہے، جس کا مرکز زمین ہے۔ دھرتی کی محبت زبان، ثقافت اور تہذیب کی عکاسی کیے بنا ادھوری ہے۔ زمین سے جڑے موضوع لازوال ہیں۔

سندھ کے ہر دور میں فن و فکر کے انمول خزانے ملتے ہیں۔ سندھی زبان میں لوک ادب اور ورثے کی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ جدت کی اہمیت اپنی جگہ، مگر اسے قدیم ورثے سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ ماضی، فن و فکر کی خالص بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا سندھ کے جدید تخلیق کار قدیم فن و فکر سے رابطہ رکھتے آئے ہیں۔

شیخ ایاز کا نام بھی ان میں سے ایک ہے۔ ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنی منفرد صلاحیتوں کو منوایا۔ شیخ ایاز کا جنم دو مارچ 1923ء کو سندھ کے شہر شکار پور میں ہوا۔ شکار پور سماجی، ثقافتی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کی منفرد عمارتیں، رہن سہن اور اخلاقی قدریں وقت کی تاریخ میں آج بھی خوشبوکی طرح مہکتی ہیں۔ یہ شہر خوشبوؤں و منفرد کھانوں کی وجہ سے بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ مکینوں کے لیے یہ علاقہ ذہنی و روحانی تربیت کا سرچشمہ تھا۔ ماں کی گود اور اسکول کے بعد خطے بھی، فرد کی بہترین فکری تربیت کرتے ہیں۔ بشرطیکہ انھیں اپنے شہر کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا فن آتا ہو۔

شیخ ایاز کی خاص بات بیرون دنیائے ادب سے واقفیت تھی۔ وسیع مطالعے نے ان کے فن وفکر کو جلا بخشی تھی۔ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جس میں شاعری، افسانے، ڈرامے، مضامین، سفرنامے، ڈائریاں، سرگزشت و تراجم شامل ہیں۔

انھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کے موضوعات منفرد اور وسیع تھے۔ جن میں محبت، موت، فطرت، روحانیت اور انقلابی رویے واضح طور پر ملتے ہیں۔ فطرت اور روحانیت کا قریب کا تعلق ہے۔ فطرت الہامی رویوں کا مرکز ہے، جو زندگی کے مخفی رازوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ فطرت کے قریب رہنے والے احساساتی طور پر گہرے اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا ذریعہ ہے کائناتی سچ کو دریافت کرنے کا۔ شیخ ایاز نے ادراک و وجدانی کیفیات، فطرت سے مستعار لی تھیں۔ حالانکہ اپنی زندگی کا ایک بڑا دور انھوں نے بے یقینی میں گزارا اور خود کو ناستک کہتے تھے۔ لیکن اس سنسار کی گہری حیرتوں میں غوطہ زن ہوکر، ایک خاموش گواہی ان کے اشعار دیتے کہ اس وسیع و عریض عجائب خانے کا تخلیق کار بہت بڑا مصور ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

''دھندلکے کی دھند چھائی

ہوئی تھی اور

شبنم گر رہی تھی

گویا خدا

آنکھوں پر چھینٹے مار رہا تھا''

شاعر نہ فقط اپنے خطے کی گہرائی کو پہچانتا ہے بلکہ اس کی سوچ بین الاقوامی شعور سے رابطے میں رہتی ہے۔ کیونکہ شاعری لامحدود راستوں کے سفر کا عرفان ہے۔ بقول شاعر:


''یہ سرد خاموش شام

گویا کائنات کی اداس روح

میرے پہلو میں ہے''

شیخ ایاز نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں مگر سچائی سے رابطہ نہ توڑا۔ لکھتے ہیں ''مغربی پاکستان کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے میرے خلاف پاکستان دشمنی کے سبب زیر دفعہ 23/الف اور 285/الف تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔ (ان دفعات کے تحت پہلے جرم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا سخت مشقت کے ساتھ دس سال اور دوسرے جرم کے لیے دو سال ہے) اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ منظوری ایس پی سکھر کے پاس پہنچ چکی ہے اور سننے میں آیا ہے کہ تمہیں سنیچر کی شام گرفتار کرکے حوالات میں لے جائیں گے۔

میں نے سرمد کا یہ قول دہرایا۔

بیا بیا کہ تو بہر صورت آئی' من ترا خوب می شناسم

(آ، آ تو کسی صورت میں بھی آ، میں تجھے اچھی طرح پہچانتا ہوں)

انقلابی سوچ شاعری کے راستے کٹھن ہیں۔ کئی سکھ تیاگنے پڑتے ہیں اور اچھے دنوں کو الوداع کہنا پڑتا ہے، مگر اجتماعی شعور سے جڑی شاعر کی سوچ، آگہی کا عذاب جھیل کر، پسماندگی و غفلت کو جھنجھوڑ کے بیدار کرنے سے باز نہیں آتی۔

شیخ ایاز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی، سندھ یونیورسٹی جامشورو نے، شاعر کے جنم دن کو منانے کا اہتمام کیا۔ اس موقعے پر سندھیالوجی میں شیخ ایاز کارنرکا افتتاح بھی کیا گیا۔ جس میں شاعر کے فن و شخصیت پر سیمینار اور محفل موسیقی بھی شامل تھی۔ جس کا افتتاح ان کی صاحبزادی روحی ایاز نے کیا۔ سینیٹر سسی پلیجو خاص مہمان تھیں اور صدارت سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد برفت نے کی۔ سندھیالوجی کے ڈائریکٹر اسحاق سمیجو نے افتتاحی کلمات میں شاعر کو خراج تحسین پیش کیا اور پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ کارنر و نمائش کے افتتاح کے بعد سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔

اس موقعے پر ڈاکٹر انور فگار ہکڑو، نصیر مرزا، ڈاکٹر اول سومرو، مدد علی سندھی، جامی چانڈیو اور شوکت حسین شورو نے ان کے فن و شخصیت کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی۔ ان کی منتخب تحریروں سے افسانہ اور خطوط سے اقتباس منظور میرانی نے پیش کیے۔ آخر میں بیدل مسرور نے شیخ ایاز کا کلام پیش کرکے خوب داد حاصل کی۔

اس موقعے پر ثقافت، سیاحت و نوادرات کے شعبے نے سندھ میوزیم حیدر آباد کے ممتاز مرزا آڈیٹوریم میں شیخ ایاز تھیٹر فیسٹیول 2018ء کا انعقاد بھی کیا۔ اس فیسٹیول میں ان کے اسٹیج ڈرامے دودو سومری کی موت، بھگت سنگھ کی چھاتی اور رنی کوٹ کے دھاڑیل پیش کیے گئے۔

یہ اوپیرا علامتی طور پر سندھ کے حالات کی عکاس ہے۔ ون یونٹ کے بعد سندھ میں جس طرح اس کے حالات پیدا ہوگئے تھے۔ تکلیف اور عذاب کو شیخ ایاز نے مہارت کے ساتھ ڈائیلاگ میں سمویا ہے۔ اس اوپیرا کے ہدایتکار محترم ناز سہتو تھے۔ فنکاروں کی بہترین پرفارمنس نے اس ڈرامے کے پیغام کو موثر انداز سے بیان کیا۔ آخر میں نصیر مرزا، ڈاکٹر قمر واحد اور اشتیاق انصاری نے ڈرامے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے معیاری پیشکش قرار دیا۔
Load Next Story