آخری شام کے ہم سفر
اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔آسمان اس کی چھت ٹہھری اور چاند بلب، سورج اس کی کھڑکی تھی
BANNU:
وہ نہ شیشہ تھا نہ مے تھا نہ جام تھا اور نہ ساقی تھا۔ وہ جو بھی تھا مگر سرور اتنے تھے کہ پوری صراحی پی کے بھی تشنگی سی رہ جاتی تھی۔ پابند سلاسل رہا تو دہائیاں کم پڑگئیں، جو چل نکلا تو فاصلے سمٹ گئے، وہ خواب گر تھا، خریدار خواب تھا اور خواب بیچتا تھا۔ خواب اس کے کوزے تھے اور وہ خوابوں کا حسن کوزہ گر تھا۔ بہت ہی سلیس، بہت ہی سادہ اور بہت ہی پختہ۔کسی آہن گرکی دکان سے پک کے راس ہوا آہن۔ تند شعلوں کی سیج پر سج کر نکھر کر بنا ہوا آہن۔اس کے پاس تھا بھی کیا؟کچھ بھی تو نہیں، وہ ہارتا توکیا ہارتا؟کچھ بھی تو نہیں، وہ بازیگر تھا۔
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈرکیسا
گر جیت گئے توکیا کہنا ہار ے بھی تو بازی مات نہیں
(فیض )
اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔آسمان اس کی چھت ٹہھری اور چاند بلب، سورج اس کی کھڑکی تھی اور زمین اس کا آنگن۔ وہ تھا تو سندھی مگر سندھ سے بھی بڑا تھا، برصغیرکی سرحدیںاس کے خوابوں کے سامنے تحلیل ہوجاتی تھیں۔ اس کا کوئی دیس نہ تھا مگر اس کا دیس سارا جہاں تھا۔ دھرتی اس کی ماں تھی اور بس وہ اک انسان تھا فقط ایک انسان۔ یہی کہا تھا اس نے اس کرنل کو جب اس پرکال کوٹھری کے اندر فوجی ٹرائل چلا تھا۔ غداری کا الزام تھا اس پر اس کیس کی گواہ بینظیر بھٹو تھیں۔
جام ساقی 5 مارچ 2018ء کو اپنا مقام تبدیل کرگئے اب کی بار لامکاں میں گھر بنایا یار نے۔ وہ یہاں تھے تو بھی تو بے مکاں تھے۔ بے گھر، بے چھت، نہ آنگن نہ کھڑکی اور جو اب نہیں ہے تو ان کے پاس کھونے کوکیا تھا۔
مگر ان کے سارے خواب ادھورے ہی رہے۔ جس دن سویت یونین ٹوٹا تھا، وہ بہت روئے تھے۔ شاید اس دن بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رات کے اندھیارے میں نہ روئے ہوں گے جب ان کی پویتر پتنی ''سکھاں'' نے گاؤں میں آپ گھات کی تھی۔ ایک رواجی انداز جو تھرکی وہ عورت کرتی ہے جب درد حد سے بڑھ کر فغاں ہوجاتے ہیں۔ جام نے اس درد کو بھی سمویا تھا، سنبھالا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ کوئی ''سکھاں' آپ گھات نہیں کرے گی۔
میری عمر صرف اٹھارہ برس تھی جب یہ خبر میرے کانوں میں پڑی تھی۔ آنسو ٹہرتے نہیں تھے۔ جام ہمارا رہبر تھا اس کی سکھاں کامریڈ تھی ہماری ساتھی تھی، دہقانوں کے مزدوروں کے انقلاب کے دستے کی سپاہی تھی۔ جیل میں ان کے ہزاروں ملاقاتی تھے فقط ایک بارکے لیے۔ مگر جب وہ رہا ہوئے، نوابشاہ شہر میں ان کو بیل گاڑی پر بیٹھا کر لائے تھے۔ کتنا بڑا جلسہ تھا اور کتنا بڑا جلوس تھا۔ میں بالکل ان کی کرسی کے پیچھے ان کے گارڈ کی حیثیت سے کھڑا تھا۔
وہ دہقانوں کی اس تحریک کا تسلسل تھے ، جس میں میرے والد نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ وہ عکس تھا، وہ سایہ تھا، جوش تھا، جنون تھا۔ جام تھا صراحی تھا اور اس کے مٹکے سے ہم پیتے تھے بھر بھر کے صراحی عشق کی صراحی، انقلاب کی صراحی، سرخ انقلاب۔ جب لال پھول مہک اٹھیں گے جب اس دنیا میں کوئی غریب نہ رہے گا۔ جب اونچ اور نیچ کے سارے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ وہ صبح جس کے آنے کی رت میں ہم روز جی کر مرتے تھے۔ جام ساقی اس قافلے کا سفیر تھا، امین تھا۔ آج بھی اس کا ماضی عکس ہے میرے سامنے میرے اسٹڈی روم میں کارل مارکس مورتی کی صورت میں موجود ہے۔ جو بات فیض کہتے تھے۔
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کئی شام ہجرکی مدتیں
کارل مارکس تاریخ کو اورکچھ نہیں بس طبقاتی جدوجہد کا مجموعہ کہتے تھے۔ ہمارے جام ساقی کارل مارکس کے خیالوں کے اسیر تھے۔ وہ پابند سلاسل تھے۔ پروفیسر جمال نقوی اسپتال میں قید تھے اور امام علی نازش زیر زمین۔ ہم DSF کے ممبر تھے(کمیونسٹ پارٹی، طلبہ تنظیم) یہ وہی زمانہ تھا جب میں بچوں کی تنظیم کا مرکزی صدر تھا، جو ان کے زیر اثر تھی۔ کوئی تھا خیال تھا، خواب تھا خمار تھا، جستجو تھی۔ ہم نے اپنی جوانی چی گویرا، بھگت سنگھ کی تصویر سرہانے رکھ کر گزاری۔ میرے زندگی کا پہلا ناول، میکسم گورکی کی ''ماں'' تھا۔ کتاب چھوڑنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوجاتا تھا اور اماں بار بار کمرے میں آکر مجھے بتاتی تھیں۔ داس کیپٹل پڑھا، فیملی، پرائیویٹ پراپرٹیز اور اسٹیٹ پڑھا۔کمیونسٹ مینیفیسٹو پڑھا۔ اور یہ جملہ دماغ میں کارل مارکس کا رچ بس گیا تھا ''فلسفیوں نے ابھی تک صرف دنیا کی تشریح کی ہے مگر ضرورت اب دنیا کو تبدیل کرنے کی ہے۔''
چھوٹی سی عمر میں سندھ کے اتنے قصبے، گاؤں اورشہر میں نے دیکھے۔ لاہور، پنڈی، پشاور اور علاقہ غیر بھی جا پہنچے۔ انقلاب کی خاطر۔ زندگی کو اپنانے کی خاطر، تاریخ میں فرد کے کردارکی خاطر۔ایک دن خبرآئی کہ جام ساقی کی طبعیت جیل میں بہت خراب ہوگئی ہے، ہم سب پریشان ہوگئے۔ شاید یہ میری زندگی کی پہلی سطریں تھیں جو اب بھی بہت تازگی سے زبان پر آجاتی ہیں۔ جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
کون تھا وہ
اندھیارے میں
میرے پاس آیا تھا
چشم اس کا ٹوٹا دیکھا تھا
بلکتے بلکتے
گرتے سنبھلتے
مجھ کو بچاؤ
کہتے سنا تھا
اس کی آنکھوں میں بہت بڑے فریم والا چشما، بہت ہی موٹے ہونٹ،گھنگریالے بال، پرانا جوتا، پرانے کپڑے یہ تھا جام ساقی۔یہ تھی اس کی متاع حیات۔
میں اور میری ماں گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ وہ دس بچوں کی ماں تھی اور میں اس کی آخری اولاد تھا۔ ابا انتقال کرگئے تھے اور میں نے ابا کی راہ پکڑ لی، اماں بہت پریشان رہتی تھیں۔ اسے پتہ تھا کہ میرے نصیب میں بھی وہی جیل کی سلاخیں آئیں گی۔ میری فیملی بھی اسی طرح دکھ اور تکلیف میں رہے گی جس طرح ابا تھے۔ وہ عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ رہتی تھیں، نہ گاؤں جاتی نہ بیٹوں کے گھر جاتیں۔ میرے یہ خواہش تھی کہ وہ یہاں سے چلی جائیں اور میں خوب گھوم پھر سکوں، نگر نگر،گلی گلی جاؤں انقلاب کا سندیسہ لے کر، اماں کا ہونا مجھے گھر تک محدود کر دیتا تھا، لیکن سارے کامریڈ میرے گھر آتے، چائے کا دور چلتا،ورق لکھے جاتے، مینٹنگز ہوتی رہتی تھیں۔کامریڈوں کا خیال تھا کہ میں ابھی D کلاس میں نہیں ہوا ہوں، یعنی انقلاب کی Definition پر پورا نہیں اترتا۔ مجھے جیل کی یاترا بھی کرنی چاہیے تاکہ میری ٹریننگ مکمل ہواورمجھے یہ ڈرکے اگر میں جیل چلا جاؤں گا تو میری اماں یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائیںگی۔
جب جام ساقی نے نوابشاہ میں گھنٹہ گھر چوک پر جلسہ کیا تھا اور جلسے کے بعد پولیس نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تو مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر میں جیل چلا گیا تو اماں کو بہت صدمہ ہوگا، وہ کیا کریں گی۔ میں نے پولیس کا اپنی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ ہٹایا اور یوں تیز بھاگا کہ پولیس بیچاری بھاگنے میں میرا مقابلہ نہ کرسکی۔ ہمارے ابا کے ساتھی استاد رشید جو پرانے کمیونسٹ تھے اور لکھنو سے یہاں ہجرت کر آئے تھے۔ سب کامریڈ شام کو وہاں میٹنگ میں بیٹھے اور جب میں نے اپنا قصہ سنایا کہ میں نے گرفتاری نہیں دی تو استاد رشید نے مجھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے گرفتاری دینی چاہیے تھی۔
پھر پوری دنیا میں بائیں بازؤ کی تحریک آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگی۔ گوربا چوف کے آنے سے یہ بات اور واضح ہوئی کہ سویت یونین اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس طرح سویت یونین ٹوٹ گیا۔ ساری دنیا میں کمیونسٹ تحریک سکڑ گئی۔ سب کامریڈ نہ جانے کہاں ادھر، ادھر ہوگئے۔ دہقانوں کی پوری تحریک سندھ میں جیسے تاریک ہوگئی۔ جام ساقی نہ جانے کدھر کو رہ گئے۔ ان کے باقی زندگی کے پچیس سال اسی طرح گزرگئے اور پھر یہ خبر آئی کہ جام اب نہیں رہے۔
آخر شب کے ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح، رات نہ جانے کدھر نکل گئی
( فیض )
وہ نہ شیشہ تھا نہ مے تھا نہ جام تھا اور نہ ساقی تھا۔ وہ جو بھی تھا مگر سرور اتنے تھے کہ پوری صراحی پی کے بھی تشنگی سی رہ جاتی تھی۔ پابند سلاسل رہا تو دہائیاں کم پڑگئیں، جو چل نکلا تو فاصلے سمٹ گئے، وہ خواب گر تھا، خریدار خواب تھا اور خواب بیچتا تھا۔ خواب اس کے کوزے تھے اور وہ خوابوں کا حسن کوزہ گر تھا۔ بہت ہی سلیس، بہت ہی سادہ اور بہت ہی پختہ۔کسی آہن گرکی دکان سے پک کے راس ہوا آہن۔ تند شعلوں کی سیج پر سج کر نکھر کر بنا ہوا آہن۔اس کے پاس تھا بھی کیا؟کچھ بھی تو نہیں، وہ ہارتا توکیا ہارتا؟کچھ بھی تو نہیں، وہ بازیگر تھا۔
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈرکیسا
گر جیت گئے توکیا کہنا ہار ے بھی تو بازی مات نہیں
(فیض )
اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔آسمان اس کی چھت ٹہھری اور چاند بلب، سورج اس کی کھڑکی تھی اور زمین اس کا آنگن۔ وہ تھا تو سندھی مگر سندھ سے بھی بڑا تھا، برصغیرکی سرحدیںاس کے خوابوں کے سامنے تحلیل ہوجاتی تھیں۔ اس کا کوئی دیس نہ تھا مگر اس کا دیس سارا جہاں تھا۔ دھرتی اس کی ماں تھی اور بس وہ اک انسان تھا فقط ایک انسان۔ یہی کہا تھا اس نے اس کرنل کو جب اس پرکال کوٹھری کے اندر فوجی ٹرائل چلا تھا۔ غداری کا الزام تھا اس پر اس کیس کی گواہ بینظیر بھٹو تھیں۔
جام ساقی 5 مارچ 2018ء کو اپنا مقام تبدیل کرگئے اب کی بار لامکاں میں گھر بنایا یار نے۔ وہ یہاں تھے تو بھی تو بے مکاں تھے۔ بے گھر، بے چھت، نہ آنگن نہ کھڑکی اور جو اب نہیں ہے تو ان کے پاس کھونے کوکیا تھا۔
مگر ان کے سارے خواب ادھورے ہی رہے۔ جس دن سویت یونین ٹوٹا تھا، وہ بہت روئے تھے۔ شاید اس دن بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رات کے اندھیارے میں نہ روئے ہوں گے جب ان کی پویتر پتنی ''سکھاں'' نے گاؤں میں آپ گھات کی تھی۔ ایک رواجی انداز جو تھرکی وہ عورت کرتی ہے جب درد حد سے بڑھ کر فغاں ہوجاتے ہیں۔ جام نے اس درد کو بھی سمویا تھا، سنبھالا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ کوئی ''سکھاں' آپ گھات نہیں کرے گی۔
میری عمر صرف اٹھارہ برس تھی جب یہ خبر میرے کانوں میں پڑی تھی۔ آنسو ٹہرتے نہیں تھے۔ جام ہمارا رہبر تھا اس کی سکھاں کامریڈ تھی ہماری ساتھی تھی، دہقانوں کے مزدوروں کے انقلاب کے دستے کی سپاہی تھی۔ جیل میں ان کے ہزاروں ملاقاتی تھے فقط ایک بارکے لیے۔ مگر جب وہ رہا ہوئے، نوابشاہ شہر میں ان کو بیل گاڑی پر بیٹھا کر لائے تھے۔ کتنا بڑا جلسہ تھا اور کتنا بڑا جلوس تھا۔ میں بالکل ان کی کرسی کے پیچھے ان کے گارڈ کی حیثیت سے کھڑا تھا۔
وہ دہقانوں کی اس تحریک کا تسلسل تھے ، جس میں میرے والد نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ وہ عکس تھا، وہ سایہ تھا، جوش تھا، جنون تھا۔ جام تھا صراحی تھا اور اس کے مٹکے سے ہم پیتے تھے بھر بھر کے صراحی عشق کی صراحی، انقلاب کی صراحی، سرخ انقلاب۔ جب لال پھول مہک اٹھیں گے جب اس دنیا میں کوئی غریب نہ رہے گا۔ جب اونچ اور نیچ کے سارے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ وہ صبح جس کے آنے کی رت میں ہم روز جی کر مرتے تھے۔ جام ساقی اس قافلے کا سفیر تھا، امین تھا۔ آج بھی اس کا ماضی عکس ہے میرے سامنے میرے اسٹڈی روم میں کارل مارکس مورتی کی صورت میں موجود ہے۔ جو بات فیض کہتے تھے۔
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کئی شام ہجرکی مدتیں
کارل مارکس تاریخ کو اورکچھ نہیں بس طبقاتی جدوجہد کا مجموعہ کہتے تھے۔ ہمارے جام ساقی کارل مارکس کے خیالوں کے اسیر تھے۔ وہ پابند سلاسل تھے۔ پروفیسر جمال نقوی اسپتال میں قید تھے اور امام علی نازش زیر زمین۔ ہم DSF کے ممبر تھے(کمیونسٹ پارٹی، طلبہ تنظیم) یہ وہی زمانہ تھا جب میں بچوں کی تنظیم کا مرکزی صدر تھا، جو ان کے زیر اثر تھی۔ کوئی تھا خیال تھا، خواب تھا خمار تھا، جستجو تھی۔ ہم نے اپنی جوانی چی گویرا، بھگت سنگھ کی تصویر سرہانے رکھ کر گزاری۔ میرے زندگی کا پہلا ناول، میکسم گورکی کی ''ماں'' تھا۔ کتاب چھوڑنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوجاتا تھا اور اماں بار بار کمرے میں آکر مجھے بتاتی تھیں۔ داس کیپٹل پڑھا، فیملی، پرائیویٹ پراپرٹیز اور اسٹیٹ پڑھا۔کمیونسٹ مینیفیسٹو پڑھا۔ اور یہ جملہ دماغ میں کارل مارکس کا رچ بس گیا تھا ''فلسفیوں نے ابھی تک صرف دنیا کی تشریح کی ہے مگر ضرورت اب دنیا کو تبدیل کرنے کی ہے۔''
چھوٹی سی عمر میں سندھ کے اتنے قصبے، گاؤں اورشہر میں نے دیکھے۔ لاہور، پنڈی، پشاور اور علاقہ غیر بھی جا پہنچے۔ انقلاب کی خاطر۔ زندگی کو اپنانے کی خاطر، تاریخ میں فرد کے کردارکی خاطر۔ایک دن خبرآئی کہ جام ساقی کی طبعیت جیل میں بہت خراب ہوگئی ہے، ہم سب پریشان ہوگئے۔ شاید یہ میری زندگی کی پہلی سطریں تھیں جو اب بھی بہت تازگی سے زبان پر آجاتی ہیں۔ جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
کون تھا وہ
اندھیارے میں
میرے پاس آیا تھا
چشم اس کا ٹوٹا دیکھا تھا
بلکتے بلکتے
گرتے سنبھلتے
مجھ کو بچاؤ
کہتے سنا تھا
اس کی آنکھوں میں بہت بڑے فریم والا چشما، بہت ہی موٹے ہونٹ،گھنگریالے بال، پرانا جوتا، پرانے کپڑے یہ تھا جام ساقی۔یہ تھی اس کی متاع حیات۔
میں اور میری ماں گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ وہ دس بچوں کی ماں تھی اور میں اس کی آخری اولاد تھا۔ ابا انتقال کرگئے تھے اور میں نے ابا کی راہ پکڑ لی، اماں بہت پریشان رہتی تھیں۔ اسے پتہ تھا کہ میرے نصیب میں بھی وہی جیل کی سلاخیں آئیں گی۔ میری فیملی بھی اسی طرح دکھ اور تکلیف میں رہے گی جس طرح ابا تھے۔ وہ عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ رہتی تھیں، نہ گاؤں جاتی نہ بیٹوں کے گھر جاتیں۔ میرے یہ خواہش تھی کہ وہ یہاں سے چلی جائیں اور میں خوب گھوم پھر سکوں، نگر نگر،گلی گلی جاؤں انقلاب کا سندیسہ لے کر، اماں کا ہونا مجھے گھر تک محدود کر دیتا تھا، لیکن سارے کامریڈ میرے گھر آتے، چائے کا دور چلتا،ورق لکھے جاتے، مینٹنگز ہوتی رہتی تھیں۔کامریڈوں کا خیال تھا کہ میں ابھی D کلاس میں نہیں ہوا ہوں، یعنی انقلاب کی Definition پر پورا نہیں اترتا۔ مجھے جیل کی یاترا بھی کرنی چاہیے تاکہ میری ٹریننگ مکمل ہواورمجھے یہ ڈرکے اگر میں جیل چلا جاؤں گا تو میری اماں یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائیںگی۔
جب جام ساقی نے نوابشاہ میں گھنٹہ گھر چوک پر جلسہ کیا تھا اور جلسے کے بعد پولیس نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تو مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر میں جیل چلا گیا تو اماں کو بہت صدمہ ہوگا، وہ کیا کریں گی۔ میں نے پولیس کا اپنی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ ہٹایا اور یوں تیز بھاگا کہ پولیس بیچاری بھاگنے میں میرا مقابلہ نہ کرسکی۔ ہمارے ابا کے ساتھی استاد رشید جو پرانے کمیونسٹ تھے اور لکھنو سے یہاں ہجرت کر آئے تھے۔ سب کامریڈ شام کو وہاں میٹنگ میں بیٹھے اور جب میں نے اپنا قصہ سنایا کہ میں نے گرفتاری نہیں دی تو استاد رشید نے مجھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے گرفتاری دینی چاہیے تھی۔
پھر پوری دنیا میں بائیں بازؤ کی تحریک آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگی۔ گوربا چوف کے آنے سے یہ بات اور واضح ہوئی کہ سویت یونین اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس طرح سویت یونین ٹوٹ گیا۔ ساری دنیا میں کمیونسٹ تحریک سکڑ گئی۔ سب کامریڈ نہ جانے کہاں ادھر، ادھر ہوگئے۔ دہقانوں کی پوری تحریک سندھ میں جیسے تاریک ہوگئی۔ جام ساقی نہ جانے کدھر کو رہ گئے۔ ان کے باقی زندگی کے پچیس سال اسی طرح گزرگئے اور پھر یہ خبر آئی کہ جام اب نہیں رہے۔
آخر شب کے ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کدھر کو صبح، رات نہ جانے کدھر نکل گئی
( فیض )