نگرانوں کے دور میں
نگرانوں کی اس حکومت کے بارے میں چاہے جتنے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ ایک کامیاب حکومت ہوگی۔
جو لوگ گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والی بربادیوں کا راگ الاپ رہے ہیں، مجھے آج ان سے کچھ نہیں کہنا ہے۔ انھیں ان کا ماتم مبارک ہو۔ میرے مخاطب میرے وہ دوست ہیں جنھیں آدھا گلاس بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی بدترین صورت حال میں پھنسے رہنے کے باوجود ہم نہ صرف زندہ ہیں بلکہ چل پھر بھی رہے ہیں۔ ہم قدرت کی بنائی ہوئی وہ مضبوط ہڈی ہیں کہ اندرونی اور بیرونی درندوں کے جبڑے ٹوٹ جائیں گے مگر ہم چبائے نہ جا سکیں گے۔
ہماری معیشت کی بظاہر جو حالت ہے وہ ہمیں قابل رحم اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ ہم اسے عالمی تناظر میں پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے مہنگائی نے ہمارا جلوس نکال کے رکھ دیا ہے لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ کوئی جادو کی چھڑی گھما کے یا کوئی جناتی چراغ رگڑ کے قیمتوں کو آج سے پانچ سات برس پہلے کی سطح پر لے جا سکتا ہے تو اس سے بڑا دھوکے باز یا بے وقوف کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔
غلط منصوبہ بندی کے باعث یہ تو ہو سکتا ہے کہ ٹماٹر اور بھنڈی کی فصل ضرورت سے زیادہ لگا دی جائے اور پچاس روپے سے گر کے پانچ روپے میں کلو ملنے لگے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ سونا سات ہزار کا تولہ اور پٹرول بیس روپے کا لیٹر ہو جائے۔ پہلی صورت میں کسان کی بربادی کو سینے سے لگانا پڑے گا اور دوسری صورت میں پوری دنیا کی معیشت میں کوئی انقلابی دھماکا کرنا ہو گا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ ہمیں سیدھی طرح حقیقت کی دنیا میں لوٹ آنا چاہیے اور عبوری حکومت کی طرح ذرا ٹھنڈے ٹھار ہو کے صورت حال پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔
اسٹاک مارکیٹ کو اگر کسی بھی ملک کی معیشت کا بیرومیٹر کہا جاتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس کا پیمانہ اس وقت ہماری تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔ آج کے دور میں اسے مصنوعی طور پر بڑھانا اور ایک عرصے تک اس سطح پر قائم رکھنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس کا حقیقی لیول یہی ہے۔ یہ کامیابی کسی ایک وجہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی کم از کم اتنی ہی وجوہات ہیں جتنی اقسام کی صنعتیں اور کاروبار ہماری حصص کی مارکیٹ میں درج ہیں۔ مثلاً سیمنٹ کے تمام کارخانے بڑی تیزی سے منافع کمانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
گیس اور تیل کی کمی کے باعث انھیں جو مشکلات درپیش تھیں، گزشتہ کچھ عرصے میں کوئلے کے استعمال کا انتظام کر کے انھوں نے ان پر قابو پا لیا ہے۔ اسی طرح کھاد کی فیکٹریاں بھی گیس کی بندش کا شکار تھیں لیکن حال ہی میں ایک نئی اسکیم کے تحت وہ بھی گیس کمپنیوں سے براہ راست گیس خریدنے کے لیے آزاد ہوں گی اور گیس کمپنیاں اپنے بند اور بے کار کنوؤں سے کم پریشر والی گیس انھیں مہیا کر کے ان کا مسئلہ حل کر دیں گی۔
اب کی بار ملک میں کپاس گزشتہ برس سے 12 فیصد کم پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے ملک کی ٹیکسٹائل ملز کی عیش ہو گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر نے سال بھر کی ضرورت کی روئی اس وقت خرید لی تھی جب اس کے دام کم تھے۔ ادھر چین نے اپنے ملک میں کپاس کے دام ایسے مقرر کر دیے ہیں کہ ہماری کاٹن یارن کی برآمدات میں حیران کن اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح عالمی منڈی میں تیل کے نرخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری آئل کمپنیاں بھی نفع میں ہیں اور ڈالر کا ریٹ بڑھنے اور بجلی کی طلب میں اضافے کے باعث پاور سیکٹر کا نفع بھی بہت بڑھ گیا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ ہمارے ملک میں بھی الیکشن سے قبل کوئی نگران حکومت بنی ہے اس کے مختصر سے دور میں اسٹاک مارکیٹ بہتری کی طرف گامزن ہوئی ہے۔ کیوں؟ اس کے بارے میں آپ خود ہی اندازے لگائیں۔ آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ گزشتہ نگرانوں کے دور میں انڈکس کتنا بڑھا تھا:
بلخ شیر مزاری (1993) = 2.7 فیصد
معین قریشی (1993) = 14.14 فیصد
ملک معراج خالد (1996-97) = 15.3فیصد
میاں محمد سومرو (2007-08) = 15.4 فیصد
1990ء میں غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم بھی نگران وزیر اعظم بنے تھے لیکن ان کے دور کے فگرز مجھے نہیں مل سکے۔ ویسے اس دور میں اسٹاک مارکیٹ کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں۔روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہمارے ہاں مہنگائی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی وجہ سے ایک طویل عرصے تک یہاں Inflation کی شرح دس فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ نیچے آنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اسے کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے کئی بار الٹی سیدھی حرکات کیں اور سود کی شرح کو بڑھا بڑھا کر 14 فیصد تک لے گیا۔
اس سے صنعت اور کاروبار کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ آخر ایک سمجھدار گورنر نے آ کے سود کی شرح کو کم کرنا شروع کیا تو کاروبار کی جان میں جان آئی۔ اب شرح سود ساڑھے نو فیصد ہے اور مہنگائی کی شرح تقریباً ساڑھے چھ فیصد رہی ہے جو کہ گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے کم ہے۔ گویا حالات بہتری کی طرف مائل ہیں اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔
نگرانوں کی اس حکومت کے بارے میں چاہے جتنے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہوں اور اس کی ناتوانی و عمر رسیدگی کا جتنا بھی تمسخر اڑایا جا رہا ہو میرا خیال ہے کہ یہ ایک کامیاب حکومت ہوگی۔ میری طرح کچھ لوگوں کی درازی عمر اور گٹے گوڈے سلامت رہنے کی دعا آپ بھی کرتے رہیں۔ دھیرے دھیرے تمام اندیشے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
الیکشن نہ ہونے کی دھند چھٹ رہی ہے۔ مطلع صاف ہو رہا ہے اور ظاہر ہو چکا ہے کہ باری باری باہر سے تشریف لانے والے خطرے دراصل خطرے نہیں بلکہ تمسخر تھے۔ ایسے میں امکان یہی ہے کہ دل کھول کے سرمایہ کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھی خبریں آتی رہیں گی تو لوگوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہاں، جو لوگ مایوسی پھیلاتے ہیں میں ان کا بھی ایک استعمال آپ کو بتاتا ہوں۔ کبھی ادھار لینا ہو تو کسی قنوطی اور مایوس شخص سے لیں کیونکہ اسے اس کی واپسی کی امید ہی نہیں ہوتی۔
ہماری معیشت کی بظاہر جو حالت ہے وہ ہمیں قابل رحم اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ ہم اسے عالمی تناظر میں پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے مہنگائی نے ہمارا جلوس نکال کے رکھ دیا ہے لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ کوئی جادو کی چھڑی گھما کے یا کوئی جناتی چراغ رگڑ کے قیمتوں کو آج سے پانچ سات برس پہلے کی سطح پر لے جا سکتا ہے تو اس سے بڑا دھوکے باز یا بے وقوف کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔
غلط منصوبہ بندی کے باعث یہ تو ہو سکتا ہے کہ ٹماٹر اور بھنڈی کی فصل ضرورت سے زیادہ لگا دی جائے اور پچاس روپے سے گر کے پانچ روپے میں کلو ملنے لگے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ سونا سات ہزار کا تولہ اور پٹرول بیس روپے کا لیٹر ہو جائے۔ پہلی صورت میں کسان کی بربادی کو سینے سے لگانا پڑے گا اور دوسری صورت میں پوری دنیا کی معیشت میں کوئی انقلابی دھماکا کرنا ہو گا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ ہمیں سیدھی طرح حقیقت کی دنیا میں لوٹ آنا چاہیے اور عبوری حکومت کی طرح ذرا ٹھنڈے ٹھار ہو کے صورت حال پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔
اسٹاک مارکیٹ کو اگر کسی بھی ملک کی معیشت کا بیرومیٹر کہا جاتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس کا پیمانہ اس وقت ہماری تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔ آج کے دور میں اسے مصنوعی طور پر بڑھانا اور ایک عرصے تک اس سطح پر قائم رکھنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس کا حقیقی لیول یہی ہے۔ یہ کامیابی کسی ایک وجہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی کم از کم اتنی ہی وجوہات ہیں جتنی اقسام کی صنعتیں اور کاروبار ہماری حصص کی مارکیٹ میں درج ہیں۔ مثلاً سیمنٹ کے تمام کارخانے بڑی تیزی سے منافع کمانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
گیس اور تیل کی کمی کے باعث انھیں جو مشکلات درپیش تھیں، گزشتہ کچھ عرصے میں کوئلے کے استعمال کا انتظام کر کے انھوں نے ان پر قابو پا لیا ہے۔ اسی طرح کھاد کی فیکٹریاں بھی گیس کی بندش کا شکار تھیں لیکن حال ہی میں ایک نئی اسکیم کے تحت وہ بھی گیس کمپنیوں سے براہ راست گیس خریدنے کے لیے آزاد ہوں گی اور گیس کمپنیاں اپنے بند اور بے کار کنوؤں سے کم پریشر والی گیس انھیں مہیا کر کے ان کا مسئلہ حل کر دیں گی۔
اب کی بار ملک میں کپاس گزشتہ برس سے 12 فیصد کم پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے ملک کی ٹیکسٹائل ملز کی عیش ہو گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر نے سال بھر کی ضرورت کی روئی اس وقت خرید لی تھی جب اس کے دام کم تھے۔ ادھر چین نے اپنے ملک میں کپاس کے دام ایسے مقرر کر دیے ہیں کہ ہماری کاٹن یارن کی برآمدات میں حیران کن اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح عالمی منڈی میں تیل کے نرخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری آئل کمپنیاں بھی نفع میں ہیں اور ڈالر کا ریٹ بڑھنے اور بجلی کی طلب میں اضافے کے باعث پاور سیکٹر کا نفع بھی بہت بڑھ گیا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ ہمارے ملک میں بھی الیکشن سے قبل کوئی نگران حکومت بنی ہے اس کے مختصر سے دور میں اسٹاک مارکیٹ بہتری کی طرف گامزن ہوئی ہے۔ کیوں؟ اس کے بارے میں آپ خود ہی اندازے لگائیں۔ آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ گزشتہ نگرانوں کے دور میں انڈکس کتنا بڑھا تھا:
بلخ شیر مزاری (1993) = 2.7 فیصد
معین قریشی (1993) = 14.14 فیصد
ملک معراج خالد (1996-97) = 15.3فیصد
میاں محمد سومرو (2007-08) = 15.4 فیصد
1990ء میں غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم بھی نگران وزیر اعظم بنے تھے لیکن ان کے دور کے فگرز مجھے نہیں مل سکے۔ ویسے اس دور میں اسٹاک مارکیٹ کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں۔روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہمارے ہاں مہنگائی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی وجہ سے ایک طویل عرصے تک یہاں Inflation کی شرح دس فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ نیچے آنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اسے کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے کئی بار الٹی سیدھی حرکات کیں اور سود کی شرح کو بڑھا بڑھا کر 14 فیصد تک لے گیا۔
اس سے صنعت اور کاروبار کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ آخر ایک سمجھدار گورنر نے آ کے سود کی شرح کو کم کرنا شروع کیا تو کاروبار کی جان میں جان آئی۔ اب شرح سود ساڑھے نو فیصد ہے اور مہنگائی کی شرح تقریباً ساڑھے چھ فیصد رہی ہے جو کہ گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے کم ہے۔ گویا حالات بہتری کی طرف مائل ہیں اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔
نگرانوں کی اس حکومت کے بارے میں چاہے جتنے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہوں اور اس کی ناتوانی و عمر رسیدگی کا جتنا بھی تمسخر اڑایا جا رہا ہو میرا خیال ہے کہ یہ ایک کامیاب حکومت ہوگی۔ میری طرح کچھ لوگوں کی درازی عمر اور گٹے گوڈے سلامت رہنے کی دعا آپ بھی کرتے رہیں۔ دھیرے دھیرے تمام اندیشے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
الیکشن نہ ہونے کی دھند چھٹ رہی ہے۔ مطلع صاف ہو رہا ہے اور ظاہر ہو چکا ہے کہ باری باری باہر سے تشریف لانے والے خطرے دراصل خطرے نہیں بلکہ تمسخر تھے۔ ایسے میں امکان یہی ہے کہ دل کھول کے سرمایہ کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھی خبریں آتی رہیں گی تو لوگوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہاں، جو لوگ مایوسی پھیلاتے ہیں میں ان کا بھی ایک استعمال آپ کو بتاتا ہوں۔ کبھی ادھار لینا ہو تو کسی قنوطی اور مایوس شخص سے لیں کیونکہ اسے اس کی واپسی کی امید ہی نہیں ہوتی۔