مشاعرہ ولیمہ اور کتاب
ابتدائی دور میں وسیم احمد وسیم، اظہار حیدر، ظہور الاسلام جاوید اور ڈاکٹر زیدی اور گزشتہ چند برسوں میں مختلف تنظیموں۔۔۔
یو اے ای میں مشاعروں کا آغاز تو ستر کی دہائی میں ہی ہوگیا تھا لیکن کئی برسوں تک یہ گھروں میں منعقد کی جانے والی محفلوں تک محدود رہا۔ 1980ء کے لگ بھگ غالباً دبئی میں پہلا باقاعدہ پاک ہند مشاعرہ ہوا جس کے منتظمین میں وسیم احمد وسیم شامل تھے یہ نام مجھے اس لیے یاد رہ گیا کہ اس کے بعد والے مشاعرے میں، مَیں بھی مدعو تھا اور یہی وسیم صاحب اس کے بھی منتظمین میں شامل اور نمایاں تھے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس میں پاکستان سے جناب احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، عارف عبدالمتین، اختر حسین جعفری، شبنم شکیل کے علاوہ کچھ شعرا مدعو تھے۔
یہ میرے کیریئر کا پہلا بین الاقوامی مشاہرہ تھا اور ان دنوں کا دبئی شہر آج کے دبئی کے مقابلے میں بہت چھوٹا، کھلا کھلا اور کم آباد تھا۔ ہمیں الجواہر نامی جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اس کے اردگرد اکا دکا عمارتوں اور خشک بے آباد پتھریلی اور ریتلی زمین کے وسیع اور بے آباد قطعات کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس کا ایئرپورٹ بھی ہمارے ملتان کے پرانے ہوائی اڈے جیسا تھا۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں سلیم جعفری مرحوم نے شعرأ کے جشن اور پاک ہند مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات کے چند برس بعد تک بھی ان کی بیوہ شاہدہ بھابی اور قطر کے برادرم ملک معیب الرحمن کے اشتراک سے جاری رہا لیکن قضائے الٰہی سے یہ دونوں بھی بہت جلد اللہ کو پیارے ہوگئے اور یوں اب گزشتہ تقریباً پانچ برس سے یہ ادارہ ختم ہوچکا ہے لیکن اس کے دوران، قبل اور مابعد بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے مشاعروں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
ابتدائی دور میں وسیم احمد وسیم، اظہار حیدر، ظہور الاسلام جاوید اور ڈاکٹر زیدی اور گزشتہ چند برسوں میں مختلف تنظیموں کی طرف سے امجد اقبال امجد، بابر طاہر، پرویز صاحبان، اقبال پرنس، صلاح الدین اور ظہورالاسلام جاوید سمیت کئی اور احباب بھی وقتاً فوقتاً مشاعروں کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ ظہور الاسلام جاوید کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ وہ کم و بیش تینوں ادوار میں کسی نہ کسی حوالے سے شامل اور متحرک رہے ہیں اور ابوظہبی کی حد تک تو وہ ادبی پروگراموں کے حوالے سے اس قافلے اور قبیلے کے سینئر ترین رکن ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ان کے ترتیب دیے گئے آٹھویں عالمی مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا جس میں پاکستان سے میرے علاوہ انور شعور، عباس تابش، راشد نور اور اوج کمال، بھارت سے ندا فاضلی، پاپولر میرٹھی، عبدالمنان طرزی اور انا دہلوی اور امریکا سے ریحانہ قمر نے شرکت کی جب کہ مقامی شعرا میں ڈاکٹر صباحت عاصم وسطی، سرتاب روحانی، تسنیم عابدی اور ڈاکٹر ثروت زہرا سب سے نمایاں تھے۔ مشاعرہ تاخیر اور طوالت کے باوجود بہت اچھا اور کامیاب رہا۔ سامعین کی اکثریت باذوق خواتین و حضرات پر مشتمل تھی لہٰذا ہر اچھے شاعر اور شعر کو توجہ سے سناگیا۔
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی، شوکت واسطی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جن کا شمار اپنے دور کی اہم ترین ادبی اور ادب پرور شخصیات میں ہوتا تھا لیکن جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ڈاکٹر صباحت کا ایک اپنا ایسا منفرد انداز اور مقام ہے جو ہر طرح کے لاحقوں اور سابقوں سے آزاد اور بے نیاز ہے کہ وہ نہ صرف فنی حوالے سے ایک مضبوط اور باہنر شاعر ہیں بلکہ ان کا تعلق صنف غزل کے حوالے سے اس قبیلے سے ہے جس کے افراد اپنے فنی شعور، تازہ فکر اور اظہار کی پختگی اور گوناگونی کے باعث دور سے پہچانے جاتے ہیں۔
پاکستان، یورپ اور اب یو اے ای میں رہائش کے باعث ان کی غزل میں Cultural Diversity سے رشتہ آرا مضامین کی جو وسعت اور تنوع دکھائی دیتا ہے اس کی مثال معاصر اردو غزل میں کم کم دکھائی دیتی ہے اس پر مستزاد ان کا وہ منفرد لہجہ اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیت ہے جو ان کو اپنے ہم عصروں کی پہلی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔ جگہ کی تنگی کے باعث میں ان کے تازہ ترین مجموعے ''تیرا احسان'' غزل ہے، سے صرف چند اشعار درج کرنے پر ہی اکتفا کروں گا، یہ اور بات ہے کہ یہ کتاب اس طرح کے بے شمار اشعار سے بھری پڑی ہے۔
سست رفتار نہیں ہم کسی صورت عاصم
یار نکلے ہیںکسی اور سبب سے آگے
ہر اک نماز ادا ہو اس اہتمام کے ساتھ
گماں یہ ہو کہ یہی آخری عبادت ہے
میرا تیرا تعلق ہے کیا، یہ کسی کو نہیں ہے خبر
میرے تیرے تعلق پہ پھر بھی ہوئی، کو بہ کو گفتگو
بیٹھے تھے ایک بینچ پہ کچھ دیر پارک میں
اتنا سا واقعہ تھا مگر کیا خبر بنی
ڈھلوان پہ چلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے
گر گر کر سنبھلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے
دکھائیں پہلے تصاویر ایک صحرا کی
پھر اس کی آنکھ نے مجھ سے غزال باتیں کیں
دیار جہل میں لبیک ایک نے نہ کہا
سفیر علم پکارا کیا، کتاب، کتاب
جگہ کہاں کوئی تجویز کی گئی ہوگی
خلا نہیں تھا اگر کائنات سے پہلے
اس شام بچھڑنے کا مجھے دکھ تو نہیں تھا
اس رات مگر چین سے میں سو نہیں پایا
تیری مرضی مرے جس نقش کو جیسا کردے
اے مصور میری تصویر تیرے ہاتھ میں ہے
مجھ پہ ہیں کئی اور عنایات بھی لیکن
الہام کے مالک، تیرا احسان غزل ہے
اگلے دن دوپہر کا کھانا برادرم انوار شمسی کی طرف تھا جس کے بعد ایک مختصر شعری نشست کا بھی پروگرام تھا لیکن مجھے میزبانوں سے جلد رخصت لینا پڑی کہ عزیزی میاں منیر کی فرستادہ گاڑی میرے ہوٹل کے باہر پہنچ چکی تھی۔ طے یہی پایا تھا کہ میں ان کے بڑے بھائی میاں عمر کی صاحبزادی کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے دبئی پہنچ جائوں گا اور ولیمے کے بعد افتخار احمد بٹ اور عابد نواز ملک مجھے ساتھ لے لیں گے تاکہ اگلا دن برادرم فرخ مراد کے ساتھ مل کر تینوں ایک ساتھ گزار سکیں۔
لاہور کی اس میاں فیملی سے (جو اب مسقط، العین اور دبئی میں مقیم ہے) میرا تعارف میاں ریاض کی معرفت ہوا جو بھائیوں میں سب سے بڑے اور مسقط میں مقیم ہیں۔ بزنس میں بہت نام کمانے کے باوجود سب کے سب بھائی اپنے والد حاجی صاحب کی طرح سادہ طبیعت، محنتی، محبتی اور Down to earth ہیں لیکن ولیمے کی اس دعوت پر ان سے زیادہ ان کی اگلی نسل کا اثر نمایاں تھا کہ اس کا انداز خالص امریکی شادیوں جیسا تھا۔ شاید اس کی وجہ دبئی کی ایسٹ سوسائٹی پر امریکا کا بے طرح بڑھتا ہوا اثر ہو جو ہمیں نیشنل کم اور انٹرنیشنل زیادہ بناتا چلا جارہا ہے۔
یہ میرے کیریئر کا پہلا بین الاقوامی مشاہرہ تھا اور ان دنوں کا دبئی شہر آج کے دبئی کے مقابلے میں بہت چھوٹا، کھلا کھلا اور کم آباد تھا۔ ہمیں الجواہر نامی جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اس کے اردگرد اکا دکا عمارتوں اور خشک بے آباد پتھریلی اور ریتلی زمین کے وسیع اور بے آباد قطعات کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس کا ایئرپورٹ بھی ہمارے ملتان کے پرانے ہوائی اڈے جیسا تھا۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں سلیم جعفری مرحوم نے شعرأ کے جشن اور پاک ہند مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات کے چند برس بعد تک بھی ان کی بیوہ شاہدہ بھابی اور قطر کے برادرم ملک معیب الرحمن کے اشتراک سے جاری رہا لیکن قضائے الٰہی سے یہ دونوں بھی بہت جلد اللہ کو پیارے ہوگئے اور یوں اب گزشتہ تقریباً پانچ برس سے یہ ادارہ ختم ہوچکا ہے لیکن اس کے دوران، قبل اور مابعد بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے مشاعروں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
ابتدائی دور میں وسیم احمد وسیم، اظہار حیدر، ظہور الاسلام جاوید اور ڈاکٹر زیدی اور گزشتہ چند برسوں میں مختلف تنظیموں کی طرف سے امجد اقبال امجد، بابر طاہر، پرویز صاحبان، اقبال پرنس، صلاح الدین اور ظہورالاسلام جاوید سمیت کئی اور احباب بھی وقتاً فوقتاً مشاعروں کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ ظہور الاسلام جاوید کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ وہ کم و بیش تینوں ادوار میں کسی نہ کسی حوالے سے شامل اور متحرک رہے ہیں اور ابوظہبی کی حد تک تو وہ ادبی پروگراموں کے حوالے سے اس قافلے اور قبیلے کے سینئر ترین رکن ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ان کے ترتیب دیے گئے آٹھویں عالمی مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا جس میں پاکستان سے میرے علاوہ انور شعور، عباس تابش، راشد نور اور اوج کمال، بھارت سے ندا فاضلی، پاپولر میرٹھی، عبدالمنان طرزی اور انا دہلوی اور امریکا سے ریحانہ قمر نے شرکت کی جب کہ مقامی شعرا میں ڈاکٹر صباحت عاصم وسطی، سرتاب روحانی، تسنیم عابدی اور ڈاکٹر ثروت زہرا سب سے نمایاں تھے۔ مشاعرہ تاخیر اور طوالت کے باوجود بہت اچھا اور کامیاب رہا۔ سامعین کی اکثریت باذوق خواتین و حضرات پر مشتمل تھی لہٰذا ہر اچھے شاعر اور شعر کو توجہ سے سناگیا۔
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی، شوکت واسطی مرحوم کے صاحبزادے ہیں جن کا شمار اپنے دور کی اہم ترین ادبی اور ادب پرور شخصیات میں ہوتا تھا لیکن جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ڈاکٹر صباحت کا ایک اپنا ایسا منفرد انداز اور مقام ہے جو ہر طرح کے لاحقوں اور سابقوں سے آزاد اور بے نیاز ہے کہ وہ نہ صرف فنی حوالے سے ایک مضبوط اور باہنر شاعر ہیں بلکہ ان کا تعلق صنف غزل کے حوالے سے اس قبیلے سے ہے جس کے افراد اپنے فنی شعور، تازہ فکر اور اظہار کی پختگی اور گوناگونی کے باعث دور سے پہچانے جاتے ہیں۔
پاکستان، یورپ اور اب یو اے ای میں رہائش کے باعث ان کی غزل میں Cultural Diversity سے رشتہ آرا مضامین کی جو وسعت اور تنوع دکھائی دیتا ہے اس کی مثال معاصر اردو غزل میں کم کم دکھائی دیتی ہے اس پر مستزاد ان کا وہ منفرد لہجہ اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیت ہے جو ان کو اپنے ہم عصروں کی پہلی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔ جگہ کی تنگی کے باعث میں ان کے تازہ ترین مجموعے ''تیرا احسان'' غزل ہے، سے صرف چند اشعار درج کرنے پر ہی اکتفا کروں گا، یہ اور بات ہے کہ یہ کتاب اس طرح کے بے شمار اشعار سے بھری پڑی ہے۔
سست رفتار نہیں ہم کسی صورت عاصم
یار نکلے ہیںکسی اور سبب سے آگے
ہر اک نماز ادا ہو اس اہتمام کے ساتھ
گماں یہ ہو کہ یہی آخری عبادت ہے
میرا تیرا تعلق ہے کیا، یہ کسی کو نہیں ہے خبر
میرے تیرے تعلق پہ پھر بھی ہوئی، کو بہ کو گفتگو
بیٹھے تھے ایک بینچ پہ کچھ دیر پارک میں
اتنا سا واقعہ تھا مگر کیا خبر بنی
ڈھلوان پہ چلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے
گر گر کر سنبھلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے
دکھائیں پہلے تصاویر ایک صحرا کی
پھر اس کی آنکھ نے مجھ سے غزال باتیں کیں
دیار جہل میں لبیک ایک نے نہ کہا
سفیر علم پکارا کیا، کتاب، کتاب
جگہ کہاں کوئی تجویز کی گئی ہوگی
خلا نہیں تھا اگر کائنات سے پہلے
اس شام بچھڑنے کا مجھے دکھ تو نہیں تھا
اس رات مگر چین سے میں سو نہیں پایا
تیری مرضی مرے جس نقش کو جیسا کردے
اے مصور میری تصویر تیرے ہاتھ میں ہے
مجھ پہ ہیں کئی اور عنایات بھی لیکن
الہام کے مالک، تیرا احسان غزل ہے
اگلے دن دوپہر کا کھانا برادرم انوار شمسی کی طرف تھا جس کے بعد ایک مختصر شعری نشست کا بھی پروگرام تھا لیکن مجھے میزبانوں سے جلد رخصت لینا پڑی کہ عزیزی میاں منیر کی فرستادہ گاڑی میرے ہوٹل کے باہر پہنچ چکی تھی۔ طے یہی پایا تھا کہ میں ان کے بڑے بھائی میاں عمر کی صاحبزادی کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے دبئی پہنچ جائوں گا اور ولیمے کے بعد افتخار احمد بٹ اور عابد نواز ملک مجھے ساتھ لے لیں گے تاکہ اگلا دن برادرم فرخ مراد کے ساتھ مل کر تینوں ایک ساتھ گزار سکیں۔
لاہور کی اس میاں فیملی سے (جو اب مسقط، العین اور دبئی میں مقیم ہے) میرا تعارف میاں ریاض کی معرفت ہوا جو بھائیوں میں سب سے بڑے اور مسقط میں مقیم ہیں۔ بزنس میں بہت نام کمانے کے باوجود سب کے سب بھائی اپنے والد حاجی صاحب کی طرح سادہ طبیعت، محنتی، محبتی اور Down to earth ہیں لیکن ولیمے کی اس دعوت پر ان سے زیادہ ان کی اگلی نسل کا اثر نمایاں تھا کہ اس کا انداز خالص امریکی شادیوں جیسا تھا۔ شاید اس کی وجہ دبئی کی ایسٹ سوسائٹی پر امریکا کا بے طرح بڑھتا ہوا اثر ہو جو ہمیں نیشنل کم اور انٹرنیشنل زیادہ بناتا چلا جارہا ہے۔