سپریم واقعی کون
آئین اگر سپریم ہوتا تو اس میں ہر چیز کی وضاحت اور قوانین کی تشریح بھی ہوتی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین سپریم ہے اور آئین کے مطابق ہی سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی ترامیم اور حکومتی اقدامات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جو ملک کے لیے تو قوانین بنانے اور آئین میں قانون کے مطابق ترامیم لاسکتی ہے اور تمام ادارے آئین پر عمل کے پابند ہیں ۔ ان کے مطابق دیگر اداروں کی طرح پارلیمنٹ کا بھی احترام ہونا چاہیے اور کسی کو بھی منتخب عوامی نمایندوں کی توہین کرنے یا ان کے متعلق قابل اعتراض ریمارکس سے گریزکرنا چاہیے کیونکہ ہر ادارہ باعزت ہے۔
ملک کو 1973ء میں جو متفقہ آئین ملا تھا اسے 45 سال ہوگئے ہیں اور وہی ملک میں رائج ہے اور 70 سالہ ملکی تاریخ میں یہ واحد آئین ہے جو دو فوجی حکومتوں کے آنے کے باوجود اب تک منسوخ نہیں کیا گیا جب کہ ماضی میں جو آئین بنے وہ منسوخ ہوئے مگر 1973ء کے متفقہ آئین میں ترامیم ضرور ہوتی رہی اور ہر فوجی و سیاسی حکومت نے اپنے مفاد اور ضرورت کے مطابق اس آئین میں ترامیم کیں اور منسوخ بھی ہوئیں۔
1973ء کے آئین کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لیتی آئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد و اتفاق سے یہ آئین منظور ہوا تھا مگر اس آئین میں پسندیدہ ترامیم کی ابتدا بھی پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہی شروع ہوگئی تھی اور اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو نے اپنے اختیارات بڑھانے کے لیے ترامیم کی ابتدا کی تھی اور جمہوری آئین میں شخص واحد ہی آمر بنتا رہا اور اسی نے اختیارات حاصل کرکے آئین کو کمزور کیا اور جمہوریت اب تک اس ملک کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔
پاکستان کوکہنے کی حد تک تو جمہوری ملک کہا جاتا ہے مگر جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم جمہوری آمر بنے رہے اور انھوں نے ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط رکھی اور نام جمہوریت کا لیا جاتا رہا اور بار بار یہ جمہوریت فوجی جنرلوں کے ہاتھوں ختم ہوئی اور ہر فوجی آمر نے جمہوریت کے نام پر ترامیم کیں جو بعد میں پارلیمنٹ سے منظورکرائی گئیں اور حد تو یہ ہے کہ عدلیہ نے بھی فوجی جنرل کو آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار دیا حالانکہ یہ اختیارات صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اور عدلیہ خود بھی فوجی آمر کی طرح آئین میں ترامیم کی مجاز نہیں ہے۔
1973ء کے آئین کا اصل حلیہ کب کا بگڑچکا جس میں ہر حکومت نے اپنی مرضی کی ترامیم کیں جو بعد والوں نے ختم کرائیں جس کی وجہ سے یہ آئین ایسا آئین بن چکا ہے جو سیاستدانوں کی تو سمجھ میں نہیں آیا مگر سپریم کورٹ اس کو بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور آئین کی تشریح بھی ہو رہی ہے۔
1973ء کا آئین بنانے والوں کو پتہ نہیں تھا کہ چالیس سال بعد پارلیمنٹ کے منتخب وزیر اعظم کو عدلیہ نااہل بھی کرے گی اور آئین میں وزیر اعظم کی نااہلی کی مدت کا ذکر نہیں تھا اور یہ اختیار بھی سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم پر استعمال کیا اور دونوں کو گھر بھیج کر اپنے سپریم ہونے کا ثبوت دیا ، 1973ء کے آئین میں بہت کچھ واضح نہیں۔ یہ آئین ہر شخص کو سیاسی پارٹی بنانے کا حق تو دیتا ہے مگر اس کا کوئی اصول مقرر نہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پاناما کی بجائے اقامہ پر نااہل کرنے کے بعد اس نااہلی کے بعد یہ بھی فیصلہ دے دیا کہ آئین خاموش ہو تو نااہل شخص کسی پارٹی کی صدارت کا بھی حقدار نہیں اور اس کے لیے بھی وہ نااہل ہے خواہ اسے پارلیمنٹ ہی صدر قبول کرکے اور اس کی پارٹی اسے اپنا صدر بنائے مگر اب وہ مکمل نااہل ہے۔
قانون میں ہر سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ملتی ہے ہر شخص معمولی جرم پر پھانسی نہیں پاسکتا مگر آئین میں پارٹی صدر یا وزیر اعظم کی اہلیت و نااہلیت کی کوئی سزا کی مدت مقرر نہیں ہے۔ عدالت سے توہین عدالت کا مجرم بھی نااہل قرار پایا اور اقامہ کا مجرم بھی نااہل قرار دیا گیا۔
آئین اگر سپریم ہوتا تو اس میں ہر چیز کی وضاحت اور قوانین کی تشریح بھی ہوتی۔ آئین رکن اسمبلی کو منتخب ہونے کے بعد اپنی اسمبلی میں آنے کا پابند رکھتا ہے نہ وزیر اعظم کو ایک سال سینیٹ میں نہ آنے کی سزا دیتا ہے وزیر اعظم، وزرا اور ارکان اسمبلی اپنی مرضی کے مالک ہیں کہ وہ منتخب ہوکر پارلیمنٹ کو اہمیت دیں یا نہ دیں مگر ان کی نشست متاثر نہیں ہوتی۔
آئین جنرل ضیا کے بقول کاغذ کا ٹکڑا ہے جو ملک میں مارشل لا کو روک سکتا ہے نہ جمہوری حکمرانوں کو من مانیوں سے، تو آئین سپریم کیسے ہوا؟ 2018ء آچکا اور آئین 45 سال کا ہونے کے بعد بھی سپریم نہیں ہے۔ آئین بنانے والی پارلیمنٹ کو بھی سپریم کہا جا رہا ہے مگر خود اس پارلیمنٹ کو حکمران اور ارکان کتنی اہمیت دیتے ہیں وہ سب کو پتا ہے۔ پارلیمنٹ میں رہ کر مراعات حاصل کرنے والے اس پر بار بار لعنت بھی بھیجتے ہیں۔
کئی ماہ اعلانیہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے بعد تھوکا چاٹ کر اسی پارلیمنٹ میں واپس آجاتے ہیں۔ آئین میں پارلیمنٹ کی توہین کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ فوج اور عدلیہ پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ مارشل لا میں آئین منسوخ یا معطل ہوجاتا ہے، پارلیمنٹ توڑی جاسکتی ہے تو آئین اور پارلیمنٹ سپریم کیسے کہلاسکتے ہیں۔
آئین اور پارلیمنٹ کمزور ہوں تو سپریم کوئی اور ہی ثابت ہوتا ہے اور حاصل اختیارات کا بے دریغ استعمال کرسکتا ہے۔ کہنے کی حد تک آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ اس کی تابع ہے اور جب پارلیمنٹ میں آئین کا واقعی احترام نہیں ہوگا، سیاستدان پارلیمانی اور حکومت کے معاملات کو پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کو طے کرانا چاہیں گے، اپنی پگڑی دوسروں کے ہاتھ میں دیں گے تو مارشل لا بھی لگیں گے اور وزیر اعظم بھی نااہل ہوتے رہیں اور سپریم کوئی اور ہی رہے گا۔
ملک کو 1973ء میں جو متفقہ آئین ملا تھا اسے 45 سال ہوگئے ہیں اور وہی ملک میں رائج ہے اور 70 سالہ ملکی تاریخ میں یہ واحد آئین ہے جو دو فوجی حکومتوں کے آنے کے باوجود اب تک منسوخ نہیں کیا گیا جب کہ ماضی میں جو آئین بنے وہ منسوخ ہوئے مگر 1973ء کے متفقہ آئین میں ترامیم ضرور ہوتی رہی اور ہر فوجی و سیاسی حکومت نے اپنے مفاد اور ضرورت کے مطابق اس آئین میں ترامیم کیں اور منسوخ بھی ہوئیں۔
1973ء کے آئین کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لیتی آئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد و اتفاق سے یہ آئین منظور ہوا تھا مگر اس آئین میں پسندیدہ ترامیم کی ابتدا بھی پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہی شروع ہوگئی تھی اور اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو نے اپنے اختیارات بڑھانے کے لیے ترامیم کی ابتدا کی تھی اور جمہوری آئین میں شخص واحد ہی آمر بنتا رہا اور اسی نے اختیارات حاصل کرکے آئین کو کمزور کیا اور جمہوریت اب تک اس ملک کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔
پاکستان کوکہنے کی حد تک تو جمہوری ملک کہا جاتا ہے مگر جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم جمہوری آمر بنے رہے اور انھوں نے ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط رکھی اور نام جمہوریت کا لیا جاتا رہا اور بار بار یہ جمہوریت فوجی جنرلوں کے ہاتھوں ختم ہوئی اور ہر فوجی آمر نے جمہوریت کے نام پر ترامیم کیں جو بعد میں پارلیمنٹ سے منظورکرائی گئیں اور حد تو یہ ہے کہ عدلیہ نے بھی فوجی جنرل کو آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار دیا حالانکہ یہ اختیارات صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اور عدلیہ خود بھی فوجی آمر کی طرح آئین میں ترامیم کی مجاز نہیں ہے۔
1973ء کے آئین کا اصل حلیہ کب کا بگڑچکا جس میں ہر حکومت نے اپنی مرضی کی ترامیم کیں جو بعد والوں نے ختم کرائیں جس کی وجہ سے یہ آئین ایسا آئین بن چکا ہے جو سیاستدانوں کی تو سمجھ میں نہیں آیا مگر سپریم کورٹ اس کو بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور آئین کی تشریح بھی ہو رہی ہے۔
1973ء کا آئین بنانے والوں کو پتہ نہیں تھا کہ چالیس سال بعد پارلیمنٹ کے منتخب وزیر اعظم کو عدلیہ نااہل بھی کرے گی اور آئین میں وزیر اعظم کی نااہلی کی مدت کا ذکر نہیں تھا اور یہ اختیار بھی سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم پر استعمال کیا اور دونوں کو گھر بھیج کر اپنے سپریم ہونے کا ثبوت دیا ، 1973ء کے آئین میں بہت کچھ واضح نہیں۔ یہ آئین ہر شخص کو سیاسی پارٹی بنانے کا حق تو دیتا ہے مگر اس کا کوئی اصول مقرر نہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پاناما کی بجائے اقامہ پر نااہل کرنے کے بعد اس نااہلی کے بعد یہ بھی فیصلہ دے دیا کہ آئین خاموش ہو تو نااہل شخص کسی پارٹی کی صدارت کا بھی حقدار نہیں اور اس کے لیے بھی وہ نااہل ہے خواہ اسے پارلیمنٹ ہی صدر قبول کرکے اور اس کی پارٹی اسے اپنا صدر بنائے مگر اب وہ مکمل نااہل ہے۔
قانون میں ہر سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ملتی ہے ہر شخص معمولی جرم پر پھانسی نہیں پاسکتا مگر آئین میں پارٹی صدر یا وزیر اعظم کی اہلیت و نااہلیت کی کوئی سزا کی مدت مقرر نہیں ہے۔ عدالت سے توہین عدالت کا مجرم بھی نااہل قرار پایا اور اقامہ کا مجرم بھی نااہل قرار دیا گیا۔
آئین اگر سپریم ہوتا تو اس میں ہر چیز کی وضاحت اور قوانین کی تشریح بھی ہوتی۔ آئین رکن اسمبلی کو منتخب ہونے کے بعد اپنی اسمبلی میں آنے کا پابند رکھتا ہے نہ وزیر اعظم کو ایک سال سینیٹ میں نہ آنے کی سزا دیتا ہے وزیر اعظم، وزرا اور ارکان اسمبلی اپنی مرضی کے مالک ہیں کہ وہ منتخب ہوکر پارلیمنٹ کو اہمیت دیں یا نہ دیں مگر ان کی نشست متاثر نہیں ہوتی۔
آئین جنرل ضیا کے بقول کاغذ کا ٹکڑا ہے جو ملک میں مارشل لا کو روک سکتا ہے نہ جمہوری حکمرانوں کو من مانیوں سے، تو آئین سپریم کیسے ہوا؟ 2018ء آچکا اور آئین 45 سال کا ہونے کے بعد بھی سپریم نہیں ہے۔ آئین بنانے والی پارلیمنٹ کو بھی سپریم کہا جا رہا ہے مگر خود اس پارلیمنٹ کو حکمران اور ارکان کتنی اہمیت دیتے ہیں وہ سب کو پتا ہے۔ پارلیمنٹ میں رہ کر مراعات حاصل کرنے والے اس پر بار بار لعنت بھی بھیجتے ہیں۔
کئی ماہ اعلانیہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے بعد تھوکا چاٹ کر اسی پارلیمنٹ میں واپس آجاتے ہیں۔ آئین میں پارلیمنٹ کی توہین کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ فوج اور عدلیہ پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ مارشل لا میں آئین منسوخ یا معطل ہوجاتا ہے، پارلیمنٹ توڑی جاسکتی ہے تو آئین اور پارلیمنٹ سپریم کیسے کہلاسکتے ہیں۔
آئین اور پارلیمنٹ کمزور ہوں تو سپریم کوئی اور ہی ثابت ہوتا ہے اور حاصل اختیارات کا بے دریغ استعمال کرسکتا ہے۔ کہنے کی حد تک آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ اس کی تابع ہے اور جب پارلیمنٹ میں آئین کا واقعی احترام نہیں ہوگا، سیاستدان پارلیمانی اور حکومت کے معاملات کو پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کو طے کرانا چاہیں گے، اپنی پگڑی دوسروں کے ہاتھ میں دیں گے تو مارشل لا بھی لگیں گے اور وزیر اعظم بھی نااہل ہوتے رہیں اور سپریم کوئی اور ہی رہے گا۔