حیاتِ انسانی میں خوف و رِجا کا کردار
دنیاوی اعتبار سے بھی انسان کا یہ طرز عمل اسے ناکامیوں اور شکست خوردگی سے ہم کنار کرتا ہے۔
خوف انسان کے ذہن اور اس کے عمل پر دہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر خوف حد سے تجاوز کرجائے تو انسان کے اندر مایوسی، ناامیدی اور زندگی سے بے زاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور انسان زندگی کے ہر مقام پر پسپائی اختیار کرنے لگتا اور معاشرے میں عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے۔
دنیاوی اعتبار سے بھی انسان کا یہ طرز عمل اسے ناکامیوں اور شکست خوردگی سے ہم کنار کرتا ہے اور بعض اوقات خوف کی یہ شدت اللہ کی ذات اور اس کی شانِ غفاری سے بدگمانی کا باعث بھی بنتی ہے، اور انسان دل برداشتہ ہوکر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: '' (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ بخشنے والا مہر بان ہے۔'' ( الزمر)
لیکن اس اعتبار سے ایک دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے کہ انسان اگر خوف آخرت اور اللہ کے سامنے جواب دہی کی فکر سے آزاد ہوجائے تو پھر اسے گم راہی سے کوئی نہیں روک سکتا، پھر اس کے لیے سرکشی اور گناہ کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں سکون و راحت، ٹھیراؤ اور اطمینان اس کے فکر و عمل میں توازن و اعتدال سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی معاملے اور رویے میں افراط و تفریط اس کی زندگی میں انتشار و اضطراب کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خو ف کے ساتھ رجا یعنی امید کا احساس بھی ذہن میں مستحضر رہے تو زندگی کے گہرے سمندر میں تلاطم برپا نہیں ہوتا، اور زندگی کی ڈور کبھی الجھنے نہیں پاتی۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے:
'' وہ جو رات کے وقت میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔'' ( الزمر )
مذکورہ بالا آیت میں ایک ایسے انسان کا طرز عمل بیا ن ہوا ہے جو رات کو جاگ کر اپنے اللہ کے آگے سجدہ ریز بھی ہوتا ہے، اس کے دل میں خوف آخرت کے ساتھ اللہ کی رحمت و مغفرت کا سہارا بھی ہوتا ہے، اور یہی ایک متوازن فکر کے حامل انسان کی پہچان ہے۔ انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی حیاتِ دنیوی کی دو انتہاؤں کے درمیان اس طرح زندگی گزارے کہ خوف اور رجا دونوں کا شعوری احساس ہر لمحے اس کے پیش نظر رہے۔ اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو مواخذہ سے ڈرتا رہے اور فوری توبہ کرکے اس امید پر دل کی ڈھارس بندھائے کہ اللہ بہت غفور اور رحیم ہے وہ میری اس خطا کو معاف فرما دے گا، اور یہی طرز عمل راستی کہلاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی انسان کو اللہ کی ذات سے پُرامید رہنے اور اس کی شانِ غفاری پر کامل یقین رکھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
رسول مکرمؐ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے پاس رہتا ہوں۔'' (جامع ترمذی)
یعنی بندہ جیسی امید اللہ سے رکھتا ہے اللہ اس کے مطابق ہی فیصلہ فرماتا ہے۔ چناںچہ اللہ تعالی سے حسن ظن رکھنا ہی بندے کے حق میں سود مند ہے۔ یاس و ناامیدی اور بے خوفی اور سرکشی انسان کو توازن و اعتدال کی روش سے دور کر دیتی ہے اور یہ اس کی بقا و سلامتی کے لیے نقصان دہ عمل ہے۔
رسول مکرمؐ نے ارشاد فرما یا ہے، مفہوم : '' جس انسان کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور اللہ کی رحمت کی امید بھی ہو تو اللہ اس کو اس خوف سے مامون فرما دیتا ہے، جس سے وہ خوف زدہ رہتا تھا۔''
امام راغب اصفہانی '' مفرادات القرآن'' جلد اول میں لکھتے ہیں:
(اللہ تعالی سے ڈرنے) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالی کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے، بل کہ خوف الٰہی کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے اور اطاعت کو اختیار کرے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کر تا ہو، خائف یعنی اللہ تعالی سے ڈرنے والا نہیں۔''
اگر انسانی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے خوف کا سارا دار و مدار اس دنیائے فانی کے نفع و نقصان پر ہی ہے۔ دنیا کی ناکامی کا خوف، جان جانے کا خوف، دولت چھن جانے کا خوف اور دشمن کا خوف۔ یہ انسانی ذہن میں کلبلانے والے وہ وسوسے اور اوہام ہیں جو ہماری زندگی میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا کرتے رہتے ہیں، اور یہ نتیجہ ہے اس امر کا کہ ہمارے دل سے اللہ کا خوف یک سر نکل چکا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے دل میں کبھی بھی دو خوف جمع نہیں ہوسکتے۔ دل میں دنیا کا خوف غالب آئے گا تو اللہ کا خوف دل سے نکل جائے گا، اور اگر اللہ کا خوف اور ایک دن اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دینے کا تصور گہرا ہو تو دنیا اور اس کی ہر شے کا خوف جاتا رہے گا۔ اور اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی خوش نودی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے : '' اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔'' ( الرحمٰن )
گویا جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجا ئے تو اس کا ہر قدم اسی راہ میں اٹھتا ہے جس میں ربّ کی رضا شامل ہوتی ہے اور ربّ کی رضا ہی انسان کو جنت کا حق دار بناتی ہے۔ پھر اسے کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم۔ مرغوبات نفس، لذایذ دنیا، لالچ و خود غرضی، سرکشی و نافرمانی اور تکبر و ریاکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے انسان کا دامن آلودہ نہیں ہوتا۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کی کثافتوں سے دور رہتا ہے اور اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے ربّ کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ ایک بار اللہ کے رسول ﷺ نے (میدان جنگ سے واپسی کے موقع پر ) فرمایا، مفہوم :
'' ہم چھوٹے جہاد کی طر ف سے بڑے جہاد کی طرف پلٹ آئے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ وہ جہاد اکبر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا : '' آگاہ رہو وہ نفس کے خلاف مجاہدہ ہے۔''
جو لوگ خوف خدا سے غافل ہوکر زندگی گزارتے ہیں، وہ اپنی ذات کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں، ان کے اندر یہ احساس ہی باقی نہیں رہتا کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد اور ان کی زندگی کی اصل غرض و غایت کیا ہے۔
سورہ اعراف میں ایسے انسانوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے، مفہوم :
'' جن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے وہ نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بل کہ ان سے بھی زیادہ گم راہ اور یہی لوگ غافل ہیں۔''
قرآن حکیم کے اس تبصرے کے مصداق دراصل وہی لوگ ہیں جو اس فانی دنیا میں ہی دل لگا بیٹھے ہیں ان کے ذہن میں نہ خوف آخرت ہے اور نہ اللہ کے سامنے ایک دن کھڑے ہونے کا شعور۔ ایسے لوگو ں کا یہ طرزعمل ان کی دنیا کے راحت و سکون کو بھی تہہ و بالا کر تا رہتا ہے۔ ان کی نہ دنیا آسودہ ہوتی ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے۔ اس کا ثبوت موجودہ انسانوں کی بے چین اور بے سکونی ہے۔ آج ہر شخص ان گنت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ سکون نہ گھر میں ہے نہ گھر سے باہر۔ اس بے سکونی اور اللہ سے بے خوفی کی وجہ سے ہر شخص مشتعل ہے، غصہ ہر ایک کی ناک پر دھرا ہوا ہے، ہر شخص آپے سے باہر اور معمولی معمولی باتو ں پر لڑنے مرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ مادی وسائل اور تعیشات اور دنیاوی آسایشوں کے حصول کے باوجود ہر انسان دکھی ہے، زندگی سے بے زار لگتا ہے۔ آپس میں محبت ختم ہوتی جارہی ہے، رنجشوں اور عداوتوں نے دلوں کو اجاڑ دیا ہے۔ خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بڑے دھوم دھام کے ساتھ شادی ہوتی ہیں مگر کچھ عرصے میں طلاق ہوجاتی ہے، رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتے اور خاندان بکھر جاتے ہیں۔
آخر یہ ماجرا کیا ہے ۔۔۔۔۔ ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر گزارنے کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات کو ہم نے بُھلا دیا ہے۔ یہی انسانوں کی کھوکھلی زندگی کا شاخسانہ ہے۔ خوف خدا اور اللہ کی رحمت کی امید، یہ دونوں شامل حال ہوں تو راحت و اطمینان والی زندگی میسر آسکتی ہے، اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں !
دنیاوی اعتبار سے بھی انسان کا یہ طرز عمل اسے ناکامیوں اور شکست خوردگی سے ہم کنار کرتا ہے اور بعض اوقات خوف کی یہ شدت اللہ کی ذات اور اس کی شانِ غفاری سے بدگمانی کا باعث بھی بنتی ہے، اور انسان دل برداشتہ ہوکر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: '' (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ بخشنے والا مہر بان ہے۔'' ( الزمر)
لیکن اس اعتبار سے ایک دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے کہ انسان اگر خوف آخرت اور اللہ کے سامنے جواب دہی کی فکر سے آزاد ہوجائے تو پھر اسے گم راہی سے کوئی نہیں روک سکتا، پھر اس کے لیے سرکشی اور گناہ کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں سکون و راحت، ٹھیراؤ اور اطمینان اس کے فکر و عمل میں توازن و اعتدال سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی معاملے اور رویے میں افراط و تفریط اس کی زندگی میں انتشار و اضطراب کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خو ف کے ساتھ رجا یعنی امید کا احساس بھی ذہن میں مستحضر رہے تو زندگی کے گہرے سمندر میں تلاطم برپا نہیں ہوتا، اور زندگی کی ڈور کبھی الجھنے نہیں پاتی۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے:
'' وہ جو رات کے وقت میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔'' ( الزمر )
مذکورہ بالا آیت میں ایک ایسے انسان کا طرز عمل بیا ن ہوا ہے جو رات کو جاگ کر اپنے اللہ کے آگے سجدہ ریز بھی ہوتا ہے، اس کے دل میں خوف آخرت کے ساتھ اللہ کی رحمت و مغفرت کا سہارا بھی ہوتا ہے، اور یہی ایک متوازن فکر کے حامل انسان کی پہچان ہے۔ انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی حیاتِ دنیوی کی دو انتہاؤں کے درمیان اس طرح زندگی گزارے کہ خوف اور رجا دونوں کا شعوری احساس ہر لمحے اس کے پیش نظر رہے۔ اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو مواخذہ سے ڈرتا رہے اور فوری توبہ کرکے اس امید پر دل کی ڈھارس بندھائے کہ اللہ بہت غفور اور رحیم ہے وہ میری اس خطا کو معاف فرما دے گا، اور یہی طرز عمل راستی کہلاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی انسان کو اللہ کی ذات سے پُرامید رہنے اور اس کی شانِ غفاری پر کامل یقین رکھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
رسول مکرمؐ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے پاس رہتا ہوں۔'' (جامع ترمذی)
یعنی بندہ جیسی امید اللہ سے رکھتا ہے اللہ اس کے مطابق ہی فیصلہ فرماتا ہے۔ چناںچہ اللہ تعالی سے حسن ظن رکھنا ہی بندے کے حق میں سود مند ہے۔ یاس و ناامیدی اور بے خوفی اور سرکشی انسان کو توازن و اعتدال کی روش سے دور کر دیتی ہے اور یہ اس کی بقا و سلامتی کے لیے نقصان دہ عمل ہے۔
رسول مکرمؐ نے ارشاد فرما یا ہے، مفہوم : '' جس انسان کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور اللہ کی رحمت کی امید بھی ہو تو اللہ اس کو اس خوف سے مامون فرما دیتا ہے، جس سے وہ خوف زدہ رہتا تھا۔''
امام راغب اصفہانی '' مفرادات القرآن'' جلد اول میں لکھتے ہیں:
(اللہ تعالی سے ڈرنے) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالی کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے، بل کہ خوف الٰہی کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے اور اطاعت کو اختیار کرے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کر تا ہو، خائف یعنی اللہ تعالی سے ڈرنے والا نہیں۔''
اگر انسانی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے خوف کا سارا دار و مدار اس دنیائے فانی کے نفع و نقصان پر ہی ہے۔ دنیا کی ناکامی کا خوف، جان جانے کا خوف، دولت چھن جانے کا خوف اور دشمن کا خوف۔ یہ انسانی ذہن میں کلبلانے والے وہ وسوسے اور اوہام ہیں جو ہماری زندگی میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا کرتے رہتے ہیں، اور یہ نتیجہ ہے اس امر کا کہ ہمارے دل سے اللہ کا خوف یک سر نکل چکا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے دل میں کبھی بھی دو خوف جمع نہیں ہوسکتے۔ دل میں دنیا کا خوف غالب آئے گا تو اللہ کا خوف دل سے نکل جائے گا، اور اگر اللہ کا خوف اور ایک دن اس کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دینے کا تصور گہرا ہو تو دنیا اور اس کی ہر شے کا خوف جاتا رہے گا۔ اور اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی خوش نودی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے : '' اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔'' ( الرحمٰن )
گویا جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجا ئے تو اس کا ہر قدم اسی راہ میں اٹھتا ہے جس میں ربّ کی رضا شامل ہوتی ہے اور ربّ کی رضا ہی انسان کو جنت کا حق دار بناتی ہے۔ پھر اسے کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم۔ مرغوبات نفس، لذایذ دنیا، لالچ و خود غرضی، سرکشی و نافرمانی اور تکبر و ریاکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے انسان کا دامن آلودہ نہیں ہوتا۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کی کثافتوں سے دور رہتا ہے اور اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے ربّ کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ ایک بار اللہ کے رسول ﷺ نے (میدان جنگ سے واپسی کے موقع پر ) فرمایا، مفہوم :
'' ہم چھوٹے جہاد کی طر ف سے بڑے جہاد کی طرف پلٹ آئے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ وہ جہاد اکبر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا : '' آگاہ رہو وہ نفس کے خلاف مجاہدہ ہے۔''
جو لوگ خوف خدا سے غافل ہوکر زندگی گزارتے ہیں، وہ اپنی ذات کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں، ان کے اندر یہ احساس ہی باقی نہیں رہتا کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد اور ان کی زندگی کی اصل غرض و غایت کیا ہے۔
سورہ اعراف میں ایسے انسانوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے، مفہوم :
'' جن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے وہ نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بل کہ ان سے بھی زیادہ گم راہ اور یہی لوگ غافل ہیں۔''
قرآن حکیم کے اس تبصرے کے مصداق دراصل وہی لوگ ہیں جو اس فانی دنیا میں ہی دل لگا بیٹھے ہیں ان کے ذہن میں نہ خوف آخرت ہے اور نہ اللہ کے سامنے ایک دن کھڑے ہونے کا شعور۔ ایسے لوگو ں کا یہ طرزعمل ان کی دنیا کے راحت و سکون کو بھی تہہ و بالا کر تا رہتا ہے۔ ان کی نہ دنیا آسودہ ہوتی ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے۔ اس کا ثبوت موجودہ انسانوں کی بے چین اور بے سکونی ہے۔ آج ہر شخص ان گنت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ سکون نہ گھر میں ہے نہ گھر سے باہر۔ اس بے سکونی اور اللہ سے بے خوفی کی وجہ سے ہر شخص مشتعل ہے، غصہ ہر ایک کی ناک پر دھرا ہوا ہے، ہر شخص آپے سے باہر اور معمولی معمولی باتو ں پر لڑنے مرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ مادی وسائل اور تعیشات اور دنیاوی آسایشوں کے حصول کے باوجود ہر انسان دکھی ہے، زندگی سے بے زار لگتا ہے۔ آپس میں محبت ختم ہوتی جارہی ہے، رنجشوں اور عداوتوں نے دلوں کو اجاڑ دیا ہے۔ خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بڑے دھوم دھام کے ساتھ شادی ہوتی ہیں مگر کچھ عرصے میں طلاق ہوجاتی ہے، رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتے اور خاندان بکھر جاتے ہیں۔
آخر یہ ماجرا کیا ہے ۔۔۔۔۔ ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر گزارنے کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات کو ہم نے بُھلا دیا ہے۔ یہی انسانوں کی کھوکھلی زندگی کا شاخسانہ ہے۔ خوف خدا اور اللہ کی رحمت کی امید، یہ دونوں شامل حال ہوں تو راحت و اطمینان والی زندگی میسر آسکتی ہے، اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں !