چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

جام ساقی سمیت 200 طلبہ گرفتارکیے گئے، یوں سندھ میں 1967ء میں 4مارچ سے تاریخی تحریک شروع ہوئی۔

tauceeph@gmail.com

پاکستان کی کمیونسٹ تحریک کا باب اختتام کو پہنچا۔ جام ساقی73 سال کی عمر میںانتقال کرگئے۔ جام نے اپنی زندگی کے پندرہ سال ملک کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ انھیں لاہور کے شاہی قلعہ کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے سیف ہاؤسز میں تشدد برداشت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

جام ساقی، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کی حکومتوں میں اسیر رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں جب وہ لاپتہ ہوئے تو ان کی اہلیہ نے خودکشی کرلی مگر انھوں نے مردانہ وار مقدمات کا سامنا کیا ۔ جام ساقی نے پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو حیدرآباد میں طلبہ کے کنونشن میں مدعوکیا۔

بھٹو نے اس تقریب کے اختتام پرکہا کہ وہ جام کا احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔ یہ احسان اپنے دور اقتدار میں یحییٰ خان کے دور کی عدالت سے جام ساقی کو ان کی غیر موجودگی میں دی گئی سزا پر عملدرآمد کرا کے اتارا۔ جام ساقی کا تعلق تھرپارکرکے پسماندہ شہر چھاچھرو سے تھا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ملازمت کرے مگر جام نے جدوجہدکا راستہ اختیارکیا۔ جام ساقی نے نوجوانی میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے بارے میں پرجوش تقریرکی اور وہ عوامی زندگی میں روشناس ہوئے۔

جام ساقی کی زندگی کا پہلا دور طالب علمی کا ہے۔ دوسرا دورکمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہونے کا ہے جو 90 کی دہائی تک جاری رہا ۔ وہ ہاری تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک رہے اور پھر وزیر اعلیٰ عبداﷲ شاہ کے دور میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ جام ساقی کا شمار سندھ کے ان چند طالب علموں میں ہوتا تھا جنہوں نے 60ء کی دہائی میں گورنمنٹ کالج کالی موری میں داخلہ لیا تو سندھی زبان میں امتحان دینے کے حق، تمام میٹرک پاس طلبہ کو کالجوں میں داخلہ دینے اور فیسوں میں کمی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ پھر بقول سابق طالب علم رہنما یونس شر نے 1963ء میں کراچی میں تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف چلنے والی تحریک کی حمایت میں بھوک ہڑتال میں شرکت کی۔

جام ساقی نے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبہ سندھ کی بحالی کے لیے آگہی کی مہم شروع کی۔ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے 1964 ء میں حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ معروف وکیل یوسف لغاری تنظیم کے صدر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے حیدرآباد اور دیگر شہروں میں طلبہ کے حقوق اور جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف طلبہ کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جام ساقی نے 1966ء میں پیپلز پارٹی کے سابق رہنما رسول بخش تالپور کے اصرار پر ذوالفقار علی بھٹو کو حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کونسل سیشن میں مدعو کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی کے بعد یہ پہلی عوامی تقریر تھی۔ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے انتظامیہ کے دباؤ کے باوجود بھٹو کو اس کونسل سیشن میں شرکت کی دعوت دی۔ اس زمانے میں بھٹو معاہدہ تاشقند کے ناقد اور ون یونٹ کے حامی، جام اور اس کے ساتھی معاہدے کے حامی اور ون یونٹ کے مخالف تھے، یوں ایک مفاہمت کے تحت بھٹو نے اپنی تقریر کو ایوب خان کی آمریت پر تنقید تک محدود رکھا۔ بھٹوکی اس تقریر نے سندھی نوجوانوں کے دماغوں میں ان کے لیے راستے کھول دیے۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے اس تقریب کے اختتام پر جام سے کہا کہ ان کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے ۔

جام اپنے ایک استاد کے توسط سے کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوئے جس کی بناء پر ان میں طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کے ساتھ قومی اور طبقاتی حقوق کے لیے جدوجہد کا شعور بلند ہوا۔ انھوں نے ایک ہاری کانفرنس میں شرکت کی۔ ایوب حکومت کی خفیہ پولیس کے اہلکاروں کے لیے تھانے کے لاک اپ اور جیلوں کی بیرکوں کے دروازے کھل گئے۔ حیدرآباد کے ایک کمشنر کا اس سلسلے میں بدترین کردار ہے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر پر غیر قانونی دباؤ ڈالا اور وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے برطرف کرایا۔

اس کمشنر نے حیدرآباد میں اردو اور سندھی زبان بولنے والے گروہوں کے درمیان خلیج پیدا کی۔ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ نے کمشنر کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔ پولیس نے طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا۔ جام ساقی سمیت 200 طلبہ گرفتارکیے گئے، یوں سندھ میں 1967ء میں 4مارچ سے تاریخی تحریک شروع ہوئی۔ جام نے اس تحریک کو ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک سے منسلک کیا۔


60ء کی دہائی کے ابتدائی عشرے میں کمیونسٹ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی تقسیم کی بناء پر نیشنل عوامی پارٹی دو گروپوں میں بٹ گئی۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی این ایس ایف کاظمی اور رشید گروپ کے ناموں سے تقسیم ہوئی۔

کمیونسٹ پارٹی کی ایماء پر بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پختون خواہ ، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سندھ میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس کا قیام عمل میں آیا۔ جام ساقی سندھ این ایس ایف کے بانی صدر ندیم اختر، نائب صدر اور میر تھیبو سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1964ء کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح نے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ جام ساقی نے حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کو منظم کرنے میں بھرپورکردار ادا کیا۔

سندھ یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کے طالب علم ہوئے مگر ان کی سرگرمیوں میں فرق نہ آیا۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک کی بناء پر انتظامیہ کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ جام کو دیگر یونیورسٹیوں میں تبادلہ قبول کرنے کی صورت میں اسکالر شپ اور پھر خوشگوار مستقبل کی پیشکش ہوئی مگر جام ساقی نے کبھی سمجھوتے پر غور نہیں کیا تھا، لہذا انھیں سندھ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ جام ساقی ایوب حکومت کے خلاف تحریک میں گرفتار ہوئے۔ انھیں کراچی جیل منتقل کیا گیا جہاں جی ایم سید جیسے رہنما نظر بند رہے۔

جام ساقی پھر نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ جب مارچ 1971ء میں مشرقی بنگال میں آپریشن شروع کیا گیا تو جام ساقی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ بنگال کے عوام سے یکجہتی کے لیے نکالے جانے والے ایک جلوس میں ان کی اہلیہ بھی شریک ہوئیں، جام ساقی کے وارنٹ جاری ہوئے وہ زیر زمین چلے گئے۔

جام کے خلاف یہ پروپیگنڈا ہوا کہ وہ سرحد پار کر کے بھارت چلے گئے ہیں۔ آپریشن کے خلاف ان کے بیانات آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئے تو جام کے خلاف مذموم مہم شروع کی گئی ۔ ان کی غیر موجودگی میں قیدوبند کی سزا سنائی گئی۔ جام ساقی یحییٰ دور میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ جب 16 دسمبر 1971ء کو جنگ ختم ہوئی تو بنگلہ دیش وجود میں آیا تو جام ساقی نے سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو انھیں گرفتارکرکے ملتان جیل میں نظر بند کردیا گیا۔ جام ساقی رہا ہوئے تو بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی۔ جام ساقی نے بھٹو دور میں گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوشی اختیار کی۔ ضیاء کے دور میں خفیہ ایجنسیاں جام ساقی کی تلاش میں چھاپے مارتی رہیں۔

جام نے اپنا حلیہ بدل دیا، وہ فقیر کے روپ میں کمیونسٹ پارٹی کا لٹریچر تقسیم کرتے رہے۔ جام ساقی حیدرآباد سے گرفتار کرلیے گئے، انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں تیسرے درجے کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہی قلعہ اور دیگر ٹارچرکیمپوں میں جام کے اعصابی نظام کو کمزورکرنے کے لیے انجیکشن لگائے گئے، یوں ان کا اعصابی نظام کمزور ہوگیا۔

جام اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کراچی میں خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا، خفیہ سیف ہاؤس میں جام کے ساتھی نذیر عباسی شہید کردیے گئے تھے۔ اس مقدمے میں بے نظیر بھٹو، غوث بخش بزنجو اور ولی خان سمیت کئی سیاسی رہنما، صحافی، وکلاء جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کی صفائی کے گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔

وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں جام ساقی رہا ہوئے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ وزیر اعلیٰ مظفر شاہ نے جام ساقی کو علاج کے لیے لندن بھیجا۔ اب جام نے گزارے کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور نظریاتی اختلافات کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی سے علیحدہ ہوگئے، وہ بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ جام نے 1988ء میں تھرپارکر سے انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ وہ زندگی کے آخری وقت تک استحصال سے پاک وطن کے لیے کوشاں رہے۔ جام کا نعرہ تھا کہ:

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
Load Next Story