تسلیم فاضلی خالص فلمی شاعر
تسلیم فاضلی کو فلم آئینہ، انسان اور آدمی اور تم ملے پیار ملا کے گیتوں پر نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
PANAMA CITY:
جس طرح ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں شاعر حسرت جے پوری اور آنند بخشی خالص فلمی شاعر تھے، اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مسرور انور اور تسلیم فاضلی کا شمار کامیاب ترین خالص فلمی شاعروں میں ہوتا ہے اور ان شاعروں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ یہ انتہائی آسان زبان میں گیت لکھتے تھے اور ان گیتوں کو بڑی شہرت حاصل ہوتی تھی۔
آنند بخشی کے کئی گیت ایسے منظر عام پر آئے کہ کردار آپس میں باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے کہ آنند بخشی کا ہدایت کار و فلمساز راجکپور کی فلم ''بوبی'' کے لیے لکھا گیا یہ گیت جسے اپنے دور میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اس کے بول بات چیت کے انداز میں تھے۔
باہر سے کوئی اندر نہ آ سکے
اندر سے کوئی باہر نہ جا سکے
سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو
ہم تم اک کمرے میں بند ہوں
اور چابی کھو جائے
مسرور انور کا لکھا ہوا یہ گیت جو فلم ''شرارت'' سے ہے، جس کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ اور سنگر مسعود رانا تھے۔
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے
اسی طرح تسلیم فاضلی کا فلم ''پھر صبح ہوگی'' میں لکھا ہوا یہ گیت جس کے موسیقار ناشاد تھے اور گیت کے بول تھے:
دیا رے دیا رے کانٹا چبھا، پاؤں میں
کانٹا نکال بلم پیپل کی چھاؤں میں
یا پھر سنگیتا کی فلم ''سوسائٹی گرل'' کے لیے لکھا ہوا ایک گیت۔ اتفاق سے جب یہ گیت لکھا جا رہا تھا اس وقت میں بھی سنگیتا پروڈکشن میں موجود تھا۔ موسیقار نذیر علی فلم سوسائٹی گرل کے پہلے گیت کی تیاری شاعر تسلیم فاضلی کے ساتھ کرنے میں مصروف تھے اور بات اس طرح ہو رہی تھی کہ تسلیم فاضلی نے سگریٹ سلگایا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہاکہ یار سوسائٹی گرل کیا ہوتی ہے، ایک کٹی پتنگ جسے پانے کے لیے بہت سے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں۔ پھر تسلیم فاضلی نے اپنے ترنم کے ساتھ موسیقار نذیر علی اور سنگیتا کو وہی الفاظ دہرا کے سنائے۔ اک کٹی پتنگ ہوتی ہے، سوسائٹی گرل، سوسائٹی گرل، سوسائٹی گرل۔ اور پھر جب ان الفاظ کو موسیقار نذیر علی نے ردھم کے ساتھ گا کر ادا کیا تو سب کو یہ الفاظ پسند آئے اور اس طرح فلم کا تھیم سانگ ہوگیا تھا۔ یہ گیت فلم میں بھی پسند کیا گیا تھا اور بڑا مقبول ہوا تھا۔
تسلیم فاضلی نے کبھی ادبی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس نے عام فہم انداز کے گیتوں کے ساتھ کچھ ادبی انداز کے بھی فلمی گیت لکھے، جنھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی، جیسے کہ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت جو غزل کے انداز میں لکھا تھا فلم زینت کے لیے:
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے
تسلیم فاضلی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت ہی تیز رفتار لکھنے والا نغمہ نگار تھا، وہ ایک سگریٹ پینے کے دوران گیت کا مکھڑا سوچتا تھا اور دوسرا سگریٹ ختم ہونے تک وہ گیت مکمل کرکے موسیقار کے ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔ یہ خوبی پاکستان میں تسلیم فاضلی سے پہلے ہندوستان کے نغمہ نگار حسرت جے پوری میں بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں تیز رفتار گیت نگار مشہور تھا۔ تسلیم فاضلی اور میں نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں بہت سی فلموں میں ایک ساتھ گیت لکھے، خاص طور پر سنگیتا پروڈکشن کی فلموں میں ہم دونوں مل کر گیت لکھا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ تسلیم فاضلی نے کہا ہمدم صاحب! آپ اس فلم میں اپنی پسند کی سچویشن لے لو اور پھر باقی سچویشن میرے لیے چھوڑدو، میری فاضلی سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی، وہ ایک بہت اچھا انسان تھا اور دوستی نبھانا جانتا تھا۔
میری تسلیم فاضلی سے پہلی ملاقات صدر میں چوہدری فرزند علی قلفی کی دکان پر ہوئی تھی، جہاں وہ موسیقار ناشاد کے ساتھ فلمساز رفیق چوہدری کی فلم پھر صبح ہوگی کے لیے پہلی بار گیت لکھنے کی غرض سے آیا تھا اور اپنے چند گیت سنانے کے بعد وہ فلم کا شاعر منتخب کرلیا گیا تھا۔
پھر لاہور میں وہ موسیقار ناشاد ہی کے ساتھ گیا۔ لاہور میں مشہور فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے موسیقار ناشاد نے بحیثیت گیت نگار اس کی ملاقات کرائی، اس طرح لاہور میں تسلیم فاضلی نے شوکت حسین رضوی کی فلم ''عاشق'' سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا پھر تسلیم فاضلی نے موسیقار ناشاد ہی کے ساتھ فلمساز عباس نوشہ کی فلم ''ایک رات'' کے لیے گیت لکھے، مگر یہ دونوں فلمیں فلاپ ہوگئیں۔ پھر سنگیتا کی فلم ''بہاروں کی منزل'' جس کے ہدایت کار جاوید فاضل تھے اس فلم کے گیتوں سے تسلیم فاضلی کی شہرت کے سفر کا آغاز ہوا۔ جس فلم میں موسیقار ناشاد ہوتے تسلیم فاضلی ضرور ہوتا تھا۔
لاہور میں موسیقار ناشاد اور تسلیم فاضلی کی جوڑی مشہور ہوگئی تھی اور کامیابی کی ضمانت بھی سمجھی جاتی تھی۔ پھر تسلیم فاضلی شباب کیرانوی کی پروڈکشن سے بھی وابستہ ہوگیا تھا اور شباب صاحب کی فلم انسان اور آدمی میں تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل
اس فلم کے بعد تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ''دنوا دنوا میں گنوں کب آئیںگے سانوریا' کی شہرت نے تسلیم فاضلی پر فلموں کی بارش کردی تھی اور لاہور فلم انڈسٹری میں تسلیم فاضلی کا طوطی بولنے لگا تھا۔ شباب پروڈکشن کی فلموں ''شمع شبانہ'' دامن اور چنگاری اور فلم 'میرا نام ہے محبت' کے گیتوں نے تسلیم فاضلی کو صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل کردیا تھا، ہر فلم میں تسلیم فاضلی کے گیتوں کی دھوم مچ جاتی تھی، چند گیت تو کلاسک ہٹ کا درجہ رکھتے ہیں، جیسے کہ چند یہ گیت ہیں۔
یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم (فلم میرا نام ہے محبت)
قدموں میں ترے جینا مرنا (فلم طلوع)
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے (فلم میرے حضور)
ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا (فلم دامن اور چنگاری)
بہت خوبصورت ہے میرا صنم
مجھے دل سے نہ بھلانا (فلم آئینہ)
تجھے دل میں بسالوں (فلم بندش)
جو درد ملا اپنوں سے ملا (فلم شبانہ)
آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں (فلم تم ملے پیار ملا)
خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے (فلم افشاں)
وعدے کرکے صنم کیوں نہ آئے (فلم اک سپیرا)
کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجادی (فلم شمع)
دل نہیں تو کوئی شیشہ کوئی پتھر ہی ملے (فلم اک نگینہ)
اور پھر بہت سے سپرہٹ گیت تسلیم فاضلی کے کریڈٹ پر ہیں۔ تسلیم کا ایک وہ دور بھی تھا کہ ایک دن میں تین تین فلموں کے گیت دن میں، شام اور رات میں لکھ کر رات دیر سے گھر جایا کرتا تھا اور چٹکی بجاکر گیت لکھنے کا محاورہ تسلیم فاضلی پر صادق آتا تھا۔
تسلیم فاضلی کو فلم آئینہ، انسان اور آدمی اور تم ملے پیار ملا کے گیتوں پر نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ تسلیم فاضلی کو اداکارہ نشو کے ساتھ شادی راس نہ آسکی تھی اور نشو سے علیحدگی کے بعد تسلیم فاضلی بیمار ہوگیا تھا اور پھر کراچی میں بیماری ہی کی حالت میں دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور صرف 32 سال کی عمر میں خوبصورت گیتوں کا خالق تسلیم فاضلی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ ایک عظیم نغمہ نگار بہت ہی کم عمری میں بڑی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر اس کے دلکش گیتوں کی بازگشت ہمیشہ اس کی یاد دلاتی رہیںگی۔
جس طرح ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں شاعر حسرت جے پوری اور آنند بخشی خالص فلمی شاعر تھے، اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مسرور انور اور تسلیم فاضلی کا شمار کامیاب ترین خالص فلمی شاعروں میں ہوتا ہے اور ان شاعروں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ یہ انتہائی آسان زبان میں گیت لکھتے تھے اور ان گیتوں کو بڑی شہرت حاصل ہوتی تھی۔
آنند بخشی کے کئی گیت ایسے منظر عام پر آئے کہ کردار آپس میں باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے کہ آنند بخشی کا ہدایت کار و فلمساز راجکپور کی فلم ''بوبی'' کے لیے لکھا گیا یہ گیت جسے اپنے دور میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اس کے بول بات چیت کے انداز میں تھے۔
باہر سے کوئی اندر نہ آ سکے
اندر سے کوئی باہر نہ جا سکے
سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو
ہم تم اک کمرے میں بند ہوں
اور چابی کھو جائے
مسرور انور کا لکھا ہوا یہ گیت جو فلم ''شرارت'' سے ہے، جس کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ اور سنگر مسعود رانا تھے۔
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے
اسی طرح تسلیم فاضلی کا فلم ''پھر صبح ہوگی'' میں لکھا ہوا یہ گیت جس کے موسیقار ناشاد تھے اور گیت کے بول تھے:
دیا رے دیا رے کانٹا چبھا، پاؤں میں
کانٹا نکال بلم پیپل کی چھاؤں میں
یا پھر سنگیتا کی فلم ''سوسائٹی گرل'' کے لیے لکھا ہوا ایک گیت۔ اتفاق سے جب یہ گیت لکھا جا رہا تھا اس وقت میں بھی سنگیتا پروڈکشن میں موجود تھا۔ موسیقار نذیر علی فلم سوسائٹی گرل کے پہلے گیت کی تیاری شاعر تسلیم فاضلی کے ساتھ کرنے میں مصروف تھے اور بات اس طرح ہو رہی تھی کہ تسلیم فاضلی نے سگریٹ سلگایا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہاکہ یار سوسائٹی گرل کیا ہوتی ہے، ایک کٹی پتنگ جسے پانے کے لیے بہت سے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں۔ پھر تسلیم فاضلی نے اپنے ترنم کے ساتھ موسیقار نذیر علی اور سنگیتا کو وہی الفاظ دہرا کے سنائے۔ اک کٹی پتنگ ہوتی ہے، سوسائٹی گرل، سوسائٹی گرل، سوسائٹی گرل۔ اور پھر جب ان الفاظ کو موسیقار نذیر علی نے ردھم کے ساتھ گا کر ادا کیا تو سب کو یہ الفاظ پسند آئے اور اس طرح فلم کا تھیم سانگ ہوگیا تھا۔ یہ گیت فلم میں بھی پسند کیا گیا تھا اور بڑا مقبول ہوا تھا۔
تسلیم فاضلی نے کبھی ادبی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس نے عام فہم انداز کے گیتوں کے ساتھ کچھ ادبی انداز کے بھی فلمی گیت لکھے، جنھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی، جیسے کہ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت جو غزل کے انداز میں لکھا تھا فلم زینت کے لیے:
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے
تسلیم فاضلی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت ہی تیز رفتار لکھنے والا نغمہ نگار تھا، وہ ایک سگریٹ پینے کے دوران گیت کا مکھڑا سوچتا تھا اور دوسرا سگریٹ ختم ہونے تک وہ گیت مکمل کرکے موسیقار کے ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔ یہ خوبی پاکستان میں تسلیم فاضلی سے پہلے ہندوستان کے نغمہ نگار حسرت جے پوری میں بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں تیز رفتار گیت نگار مشہور تھا۔ تسلیم فاضلی اور میں نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں بہت سی فلموں میں ایک ساتھ گیت لکھے، خاص طور پر سنگیتا پروڈکشن کی فلموں میں ہم دونوں مل کر گیت لکھا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ تسلیم فاضلی نے کہا ہمدم صاحب! آپ اس فلم میں اپنی پسند کی سچویشن لے لو اور پھر باقی سچویشن میرے لیے چھوڑدو، میری فاضلی سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی، وہ ایک بہت اچھا انسان تھا اور دوستی نبھانا جانتا تھا۔
میری تسلیم فاضلی سے پہلی ملاقات صدر میں چوہدری فرزند علی قلفی کی دکان پر ہوئی تھی، جہاں وہ موسیقار ناشاد کے ساتھ فلمساز رفیق چوہدری کی فلم پھر صبح ہوگی کے لیے پہلی بار گیت لکھنے کی غرض سے آیا تھا اور اپنے چند گیت سنانے کے بعد وہ فلم کا شاعر منتخب کرلیا گیا تھا۔
پھر لاہور میں وہ موسیقار ناشاد ہی کے ساتھ گیا۔ لاہور میں مشہور فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے موسیقار ناشاد نے بحیثیت گیت نگار اس کی ملاقات کرائی، اس طرح لاہور میں تسلیم فاضلی نے شوکت حسین رضوی کی فلم ''عاشق'' سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا پھر تسلیم فاضلی نے موسیقار ناشاد ہی کے ساتھ فلمساز عباس نوشہ کی فلم ''ایک رات'' کے لیے گیت لکھے، مگر یہ دونوں فلمیں فلاپ ہوگئیں۔ پھر سنگیتا کی فلم ''بہاروں کی منزل'' جس کے ہدایت کار جاوید فاضل تھے اس فلم کے گیتوں سے تسلیم فاضلی کی شہرت کے سفر کا آغاز ہوا۔ جس فلم میں موسیقار ناشاد ہوتے تسلیم فاضلی ضرور ہوتا تھا۔
لاہور میں موسیقار ناشاد اور تسلیم فاضلی کی جوڑی مشہور ہوگئی تھی اور کامیابی کی ضمانت بھی سمجھی جاتی تھی۔ پھر تسلیم فاضلی شباب کیرانوی کی پروڈکشن سے بھی وابستہ ہوگیا تھا اور شباب صاحب کی فلم انسان اور آدمی میں تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل
اس فلم کے بعد تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ''دنوا دنوا میں گنوں کب آئیںگے سانوریا' کی شہرت نے تسلیم فاضلی پر فلموں کی بارش کردی تھی اور لاہور فلم انڈسٹری میں تسلیم فاضلی کا طوطی بولنے لگا تھا۔ شباب پروڈکشن کی فلموں ''شمع شبانہ'' دامن اور چنگاری اور فلم 'میرا نام ہے محبت' کے گیتوں نے تسلیم فاضلی کو صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل کردیا تھا، ہر فلم میں تسلیم فاضلی کے گیتوں کی دھوم مچ جاتی تھی، چند گیت تو کلاسک ہٹ کا درجہ رکھتے ہیں، جیسے کہ چند یہ گیت ہیں۔
یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم (فلم میرا نام ہے محبت)
قدموں میں ترے جینا مرنا (فلم طلوع)
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے (فلم میرے حضور)
ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا (فلم دامن اور چنگاری)
بہت خوبصورت ہے میرا صنم
مجھے دل سے نہ بھلانا (فلم آئینہ)
تجھے دل میں بسالوں (فلم بندش)
جو درد ملا اپنوں سے ملا (فلم شبانہ)
آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں (فلم تم ملے پیار ملا)
خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے (فلم افشاں)
وعدے کرکے صنم کیوں نہ آئے (فلم اک سپیرا)
کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجادی (فلم شمع)
دل نہیں تو کوئی شیشہ کوئی پتھر ہی ملے (فلم اک نگینہ)
اور پھر بہت سے سپرہٹ گیت تسلیم فاضلی کے کریڈٹ پر ہیں۔ تسلیم کا ایک وہ دور بھی تھا کہ ایک دن میں تین تین فلموں کے گیت دن میں، شام اور رات میں لکھ کر رات دیر سے گھر جایا کرتا تھا اور چٹکی بجاکر گیت لکھنے کا محاورہ تسلیم فاضلی پر صادق آتا تھا۔
تسلیم فاضلی کو فلم آئینہ، انسان اور آدمی اور تم ملے پیار ملا کے گیتوں پر نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ تسلیم فاضلی کو اداکارہ نشو کے ساتھ شادی راس نہ آسکی تھی اور نشو سے علیحدگی کے بعد تسلیم فاضلی بیمار ہوگیا تھا اور پھر کراچی میں بیماری ہی کی حالت میں دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور صرف 32 سال کی عمر میں خوبصورت گیتوں کا خالق تسلیم فاضلی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ ایک عظیم نغمہ نگار بہت ہی کم عمری میں بڑی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر اس کے دلکش گیتوں کی بازگشت ہمیشہ اس کی یاد دلاتی رہیںگی۔