سماجی تحفظ کس کی ذمے داری
معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات یعنی امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
جب ہم سماجی تحفظ کی بات کرتے ہیںتو اس سے مراد غریبوں اورکمزور طبقات جیسے بچوں، عورتوں، بوڑھوں، معذوروں، بے گھر، بیروزگار اور بیمار افراد کی حفاظت اور مدد کرنا ہے۔ ان طبقات کے سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات سماجی تحفظ کے زمرے میں آتے ہیں۔
شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ آپ نے سیفٹی نیٹ کی اصطلاح بھی سنی ہوگی، یہ بھی سماجی تحفظ کی ایک شکل ہے۔ پاکستان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آپ سیفٹی نیٹ کہہ سکتے ہیں۔ سیفٹی نیٹ کا مطلب مشکل حالات میں لوگوں کی فوری ضروریات کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔ سماجی تحفظ کے دیگر اقدامات میں پائیدار ترقی کے لیے اقدامات اور لوگوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ غربت کی لکیرکو ہمیشہ کے لیے پیچھے چھوڑ دیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات یعنی امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اب صرف مارکس کی تعلیمات میں یقین رکھنے والے نہیں بلکہ سرمایہ داری کے علمبردار ماہرین اقتصادیات بھی چیخ اٹھے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ، اگر ہم صرف پاکستان کی بات کریںتو یہاں بھی طبقاتی فرق خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو چار یا پنج ستارہ ہوٹلو ں میں ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیںجب کہ دوسری طرف ایک محنت کش روزانہ بسوں میں دو تین گھنٹے دھکے کھاکرکام والی جگہ پر پہنچتا ہے اور مہینے بھر کی مشقت کے بعد اس کے ہاتھ میں دس بارہ ہزار آتے ہیں، اس میں اسے مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور اپنے کنبے کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے۔
اس صورتحال میں ان گھرانوں کی عورتوں کے لیے پیسے کمانا ضروری ہوجاتا ہے، وہ یا تو دوسروں کے گھروں میں صفائی،کپڑے دھونے اورکھانا بنانے کا کام کرتی ہیں یا اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر ٹھیکیدار یا مڈل مین کے ذریعے کارخانوں اورگارمنٹس فیکٹریوں سے کام لے لیتی ہیں، آخر الذکرکوگھر مزدور یا ہوم بیسڈ ورکرکہتے ہیں۔ان مزدورخواتین کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق سماجی تحفظ میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں۔
٭ حفاظتی اقدامات: وسائل کی محرومی دورکرنے کے اقدامات (مالی مدد کی اسکیمیں۔ پنشن وغیرہ)
٭ انسدادی اقدامات: وسائل کی محرومی کو ٹالنا یا رفع کرنا (بچت اسکیمیں)
٭ ترقی دینے والے اقدامات: آمدنی اور صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات
٭ انقلاب پذیر اقدامات: سماجی انصاف اور شمولیت۔
عالمی ادارہ محنت سارے محنت کشوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔معاشرے میں عدم مساوات کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔اس کے بغیر محنت کش عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار رہتے ہیں۔اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ سود پر قرضہ لے لیتے ہیں اور ساری عمر سود اتارنے میں لگے رہتے ہیں، اصل قرض وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ہم عالمی مالیاتی اداروںاور بینکوں کے قرضوں پر تو بہت شور مچاتے ہیںلیکن پاکستان کے غریب لوگ جو مقامی سود خوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں،ان کی کوئی بات نہیں کرتا۔
عالمی ادارہ ء محنت نے 2012ء میں دنیا کے ممالک کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کم ازکم سماجی تحفظ کی ایک حد مقررکی جائے اور اس سے نیچے کچھ تسلیم نہ کیا جائے۔ حکومتیں صحت کی لازمی سہولتیں فراہم کریں، بچوں کی تعلیم کے لیے مالی مدد دیں اور بچوں کی غذا اور کھیل کی سہولتوں کا بھی دھیان رکھیں۔اسی طرح بیروزگار نوجوانوں اور معذور افراد کے لیے روزگار اور دیگر سہولتیں، بزرگ افراد کو بھی پنشن اور دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔
سماجی تحفظ کی فراہمی میں کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ریاست ان سہولتوں کے لیے رقم مہیا کرے، اس کے لیے امیر لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے اور گورنینس کو بہتر بنایا جائے۔اس طرح کی منصوبہ بندی کی جائے کہ یہ لوگ خود اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائیں اور انھیں سرکار کی مدد کی ضرورت نہ رہے لیکن پاکستان میں حکومت اس طرح کی کوئی حکمت عملی نہیں بناتی کہ لوگوں کو خود اس قابل بنائیں، روز گار کے مواقعے پیدا کریں، زیادہ سے زیادہ کمانے والے پیدا کریں۔
دوسری طرف سماجی تحفظ کی اسکیموں کے بارے میں یہ مفروضہ بھی عام ہے کہ ایسی اسکیموں سے خزانہ خالی ہوجائے گا۔یہ غلط ہے کیونکہ پاکستان سے بھی زیادہ غریب ملک اپنے عوام کو سماجی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ یورپ نے یہ اسکیمیںاس زمانے میں شروع کی تھیں جب ان کی فی کس آمدنی ہم سے بھی کم تھی تو آج حکومت پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ عالمی ادارہ محنت اس کے لیے ٹیکنیکل اسپورٹ فراہم کر سکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کی کوئی اسکیم کم از کم سماجی تحفظ کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتی۔
لیبر ایکٹیوسٹ کرامت علی کی رائے میں ہمیں الگ الگ سیکٹرز کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔1965 ء میں جب سیسی (سندھ ایمپلایز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن) شروع کیا گیا تو یہ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے شروع کیا گیا تھا۔اس میں ایک فی صد حصہ ورکرز کی طرف سے تھا۔ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ 1972ء کی لیبر پالیسی میںسوشل سیکیورٹی کا دائرہ وسیع کیا گیا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔اس وقت صرف سولہ لاکھ محنت کش سوشل سیکیورٹی ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔
اگر ہم دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں تو 1910ء میں انگلستان میں عام لوگوں کی بات ہونے لگی تھی۔ پنشن کی بات ہوئی کہ معاشرہ بوڑھے ریٹائرڈ ورکرز کی ذمے داری اٹھائے۔معاشرتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے INHERITANCEٹیکس لگایا گیا تا کہ چند خاندانوں میں جمع ہو جانے والی دولت معاشرے میں واپس آئے۔ایک فرانسیسی فلاسفر کے بقول دولت مسروقہ مال ہے۔ اثاثوں کی از سر نو تقسیم ضروری ہے، اگر پاکستان کے ہاریوں میںفی کس پانچ ایکڑ زمیں بانٹ دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن پاکستان میں آج تک صحیح قسم کی زرعی اصلاحات ہوئی ہی نہیں۔ 45 فی صد زرعی لیبر فورس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
ہماری زرعی زمینوں کے مالک غیر حاضر زمیندار ہیں۔ زمینوں پر کام ہاری، مزارعین اور Bonded Laborکرتے ہیں، حق ملکیت انھیں ملنا چاہیے۔ہمیں سوشل سیکیورٹی کو وسیع معنوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔تیس فی صد سے زیادہ لوگ اجرت پرکام نہیں کرتے بلکہ self employed ہیں۔محنت کشوں کو منظم کرنا ضروری ہے، اگر حکومت قومی آمدنی کا ڈھائی یا تین فی صد حصہ مختص کر دے تو فنکشنل سوشل سیکیورٹی سسٹم شروع ہو سکتا ہے، لیکن جنوبی ایشیا میں حکومتوںکا سارا پیسا فوجی اخراجات پر اور اسلحے کی خریداری پر جا رہا ہے اور شہریوں کو سماجی تحفظ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ آپ نے سیفٹی نیٹ کی اصطلاح بھی سنی ہوگی، یہ بھی سماجی تحفظ کی ایک شکل ہے۔ پاکستان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آپ سیفٹی نیٹ کہہ سکتے ہیں۔ سیفٹی نیٹ کا مطلب مشکل حالات میں لوگوں کی فوری ضروریات کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔ سماجی تحفظ کے دیگر اقدامات میں پائیدار ترقی کے لیے اقدامات اور لوگوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ غربت کی لکیرکو ہمیشہ کے لیے پیچھے چھوڑ دیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات یعنی امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اب صرف مارکس کی تعلیمات میں یقین رکھنے والے نہیں بلکہ سرمایہ داری کے علمبردار ماہرین اقتصادیات بھی چیخ اٹھے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ، اگر ہم صرف پاکستان کی بات کریںتو یہاں بھی طبقاتی فرق خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو چار یا پنج ستارہ ہوٹلو ں میں ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیںجب کہ دوسری طرف ایک محنت کش روزانہ بسوں میں دو تین گھنٹے دھکے کھاکرکام والی جگہ پر پہنچتا ہے اور مہینے بھر کی مشقت کے بعد اس کے ہاتھ میں دس بارہ ہزار آتے ہیں، اس میں اسے مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور اپنے کنبے کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے۔
اس صورتحال میں ان گھرانوں کی عورتوں کے لیے پیسے کمانا ضروری ہوجاتا ہے، وہ یا تو دوسروں کے گھروں میں صفائی،کپڑے دھونے اورکھانا بنانے کا کام کرتی ہیں یا اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر ٹھیکیدار یا مڈل مین کے ذریعے کارخانوں اورگارمنٹس فیکٹریوں سے کام لے لیتی ہیں، آخر الذکرکوگھر مزدور یا ہوم بیسڈ ورکرکہتے ہیں۔ان مزدورخواتین کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق سماجی تحفظ میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں۔
٭ حفاظتی اقدامات: وسائل کی محرومی دورکرنے کے اقدامات (مالی مدد کی اسکیمیں۔ پنشن وغیرہ)
٭ انسدادی اقدامات: وسائل کی محرومی کو ٹالنا یا رفع کرنا (بچت اسکیمیں)
٭ ترقی دینے والے اقدامات: آمدنی اور صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات
٭ انقلاب پذیر اقدامات: سماجی انصاف اور شمولیت۔
عالمی ادارہ محنت سارے محنت کشوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔معاشرے میں عدم مساوات کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔اس کے بغیر محنت کش عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار رہتے ہیں۔اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ سود پر قرضہ لے لیتے ہیں اور ساری عمر سود اتارنے میں لگے رہتے ہیں، اصل قرض وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ہم عالمی مالیاتی اداروںاور بینکوں کے قرضوں پر تو بہت شور مچاتے ہیںلیکن پاکستان کے غریب لوگ جو مقامی سود خوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں،ان کی کوئی بات نہیں کرتا۔
عالمی ادارہ ء محنت نے 2012ء میں دنیا کے ممالک کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کم ازکم سماجی تحفظ کی ایک حد مقررکی جائے اور اس سے نیچے کچھ تسلیم نہ کیا جائے۔ حکومتیں صحت کی لازمی سہولتیں فراہم کریں، بچوں کی تعلیم کے لیے مالی مدد دیں اور بچوں کی غذا اور کھیل کی سہولتوں کا بھی دھیان رکھیں۔اسی طرح بیروزگار نوجوانوں اور معذور افراد کے لیے روزگار اور دیگر سہولتیں، بزرگ افراد کو بھی پنشن اور دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔
سماجی تحفظ کی فراہمی میں کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ریاست ان سہولتوں کے لیے رقم مہیا کرے، اس کے لیے امیر لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے اور گورنینس کو بہتر بنایا جائے۔اس طرح کی منصوبہ بندی کی جائے کہ یہ لوگ خود اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائیں اور انھیں سرکار کی مدد کی ضرورت نہ رہے لیکن پاکستان میں حکومت اس طرح کی کوئی حکمت عملی نہیں بناتی کہ لوگوں کو خود اس قابل بنائیں، روز گار کے مواقعے پیدا کریں، زیادہ سے زیادہ کمانے والے پیدا کریں۔
دوسری طرف سماجی تحفظ کی اسکیموں کے بارے میں یہ مفروضہ بھی عام ہے کہ ایسی اسکیموں سے خزانہ خالی ہوجائے گا۔یہ غلط ہے کیونکہ پاکستان سے بھی زیادہ غریب ملک اپنے عوام کو سماجی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ یورپ نے یہ اسکیمیںاس زمانے میں شروع کی تھیں جب ان کی فی کس آمدنی ہم سے بھی کم تھی تو آج حکومت پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ عالمی ادارہ محنت اس کے لیے ٹیکنیکل اسپورٹ فراہم کر سکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کی کوئی اسکیم کم از کم سماجی تحفظ کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتی۔
لیبر ایکٹیوسٹ کرامت علی کی رائے میں ہمیں الگ الگ سیکٹرز کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔1965 ء میں جب سیسی (سندھ ایمپلایز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن) شروع کیا گیا تو یہ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے شروع کیا گیا تھا۔اس میں ایک فی صد حصہ ورکرز کی طرف سے تھا۔ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ 1972ء کی لیبر پالیسی میںسوشل سیکیورٹی کا دائرہ وسیع کیا گیا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔اس وقت صرف سولہ لاکھ محنت کش سوشل سیکیورٹی ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔
اگر ہم دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں تو 1910ء میں انگلستان میں عام لوگوں کی بات ہونے لگی تھی۔ پنشن کی بات ہوئی کہ معاشرہ بوڑھے ریٹائرڈ ورکرز کی ذمے داری اٹھائے۔معاشرتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے INHERITANCEٹیکس لگایا گیا تا کہ چند خاندانوں میں جمع ہو جانے والی دولت معاشرے میں واپس آئے۔ایک فرانسیسی فلاسفر کے بقول دولت مسروقہ مال ہے۔ اثاثوں کی از سر نو تقسیم ضروری ہے، اگر پاکستان کے ہاریوں میںفی کس پانچ ایکڑ زمیں بانٹ دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن پاکستان میں آج تک صحیح قسم کی زرعی اصلاحات ہوئی ہی نہیں۔ 45 فی صد زرعی لیبر فورس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
ہماری زرعی زمینوں کے مالک غیر حاضر زمیندار ہیں۔ زمینوں پر کام ہاری، مزارعین اور Bonded Laborکرتے ہیں، حق ملکیت انھیں ملنا چاہیے۔ہمیں سوشل سیکیورٹی کو وسیع معنوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔تیس فی صد سے زیادہ لوگ اجرت پرکام نہیں کرتے بلکہ self employed ہیں۔محنت کشوں کو منظم کرنا ضروری ہے، اگر حکومت قومی آمدنی کا ڈھائی یا تین فی صد حصہ مختص کر دے تو فنکشنل سوشل سیکیورٹی سسٹم شروع ہو سکتا ہے، لیکن جنوبی ایشیا میں حکومتوںکا سارا پیسا فوجی اخراجات پر اور اسلحے کی خریداری پر جا رہا ہے اور شہریوں کو سماجی تحفظ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔