خیبرپختونخوا میں مشکوک ارکان کیخلاف کارروائی سے صوبائی حکومت کو خطرہ

سادہ اکثریت کے لیے63ارکان کی ضرورت ہے، پرویزخٹک حکومت کوجماعت اسلامی کو ملاکر 68 ارکان کی حمایت حاصل۔

4ارکان کیخلاف کارروائی سے اکثریت چلی جائیگی،اپوزیشن صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے،ذرائع۔ فوٹو:فائل

سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے خیبرپختونخوا کے مشکوک ارکان کے خلاف کارروائی سے صوبائی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی پاداش میں 4سے زائد ارکان کے خلاف کارروائی اور انھیں اسمبلی رکنیت سے فارغ کرنے کی صورت میں صوبائی حکومت اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے گی جس سے نیا بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا جس سے اپوزیشن فائدہ لینے کی کوشش کرسکتی ہے، سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی پاداش میں پی ٹی آئی نے اپنے کئی ارکان کو شک کے دائرے میں رکھا ہوا ہے جن کے خلاف تحقیقاتی عمل جاری ہے۔

پارٹی قیادت کی جانب سے بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ تحقیقات ٹھوس اور جامع انداز میں کی جائیں اور اس کے بعد ہی تمام تر ثبوتوں کے ساتھ اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان ارکان کے خلاف مقدمات کے اندراج ،ان کے کیس نیب کے حوالے کرنے ،ان کی اسمبلی رکنیت کے خاتمے اور ان کے گھروں کے باہر احتجاجی مظاہروں کے علاوہ آئندہ عام انتخابات میں ٹکٹ سے محرومی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔


مذکورہ کارروائی 4ارکان تک ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت محفوظ رہے گی تاہم چار سے زائد ارکان کے خلاف کارروائی ہونے اور مذکورہ ارکان کی اسمبلی رکنیت ختم کیے جانے کی صورت میں پرویزخٹک حکومت اسمبلی میں اکثریت کھوبیٹھے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف کے ارکان کی مجموعی تعداد60ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد7ہے اورصوبائی حکومت کو ایک آزاد رکن شاہ فیصل کی حمایت بھی حاصل ہے جس سے یہ تعداد مجموعی طورپر68بن جاتی ہے۔

ڈاکٹرمہرتاج روغانی کے ایوان بالا جانے سے تعداد 67رہ جائے گی جبکہ صوبائی حکومت کوسادہ اکثریت برقراررکھنے کیلیے کم ازکم63ارکان کی ضرورت ہے جو چار ارکان کیخلاف کارروائی تک تو برقرار رہ سکتی ہے تاہم چار سے زائد ارکان کیخلاف کارروائی ہونے کی صورت میں یہ اکثریت برقرار نہیں رہے گی ۔
Load Next Story