کرپشن کیسز ملزمان کی عدم موجودگی میں ضمانتوں کی منظوری غلہ ہے چیف جسٹس
بدعنوانی کی رقم واپس لینے کیلیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، افتخار چوہدری
DOHA:
سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے رہنما و سابق وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم سمیت5 ملزمان کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے غفلت برتنے والے ایف آئی اے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی اورکرپشن اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان امین قاسم دادا اور خالد انور کی گرفتاری کا حکم دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کرپشن کے مقدمات کا نوٹس لینا صرف عدالتوں کاکا م نہیں ، یہ رقم عدالت کو نہیں ملے گی بلکہ قومی خزانے میں جائے گی۔
بدعنوانی کی رقم کو واپس لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے این آئی سی ایل، اوگرا کرپشن کیس، اور دیگر اہم مقدمات کی سماعت کی۔این آئی سی ایل کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ442 ملین میں سے41 ملین امین فہیم کے اکاؤنٹ میں گئے، امین فہیم کے خلاف ٹرائل کورٹ میں چارج شیٹ تیارکر لی گئی ہے، وہ اکیلے نہیں ہیں۔ عدالت نے ملزمان کی عدم موجودگی میں ضمانتیں حاصل کرنے کا بھی سخت نوٹس لیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محسن وڑائچ اورمخدوم امین فہیم کو ضمانت دینے کے فیصلے کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایف آئی اے کے لیگل ڈائریکٹر اؑعظم خان نے کہا کہ مفرور ملزمان کو واپس لانے کیلیے وزارت خارجہ کے ذریعے رابطہ کیا ہے کیونکہ ملزمان برطانیہ میں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ غیر حاضری میں مفرور ملزمان کو حفاضتی ضمانت کیسے مل گئی؟ غیر حاضری میں ضمانتوں کی اجازت نہیں دینگے۔ ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے وکیل نے عدالت کے سامنے قاسم شاہ، عبدالوحید اور پرویزمشرف کی ضمانتوں کے حوالے دیے تھے جس کے بعد ضمانت دیدی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ غلط اقدام ہے، ضمانتوں کا ریکارڈ طلب کرکے دیکھیں گے اور اس کو ری وزٹ کریں گے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے2 رکنی بینچ نے اوگرا میگا کرپشن کیس کے شریک ملزم شہزاد سلیم بھٹی کو معافی دینے پر اور توقیر صادق کو نوٹس کی عدم تعمیل پر نیب سے وضاحت طلب کر لی ۔ عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کے بعد نیب کی طرف سے معافی دینے پر حیرت کا اظہارکیا اور آبزرویشن دی کہ ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد معافی نہیں دی جا سکتی۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے بتایاکہ نیب آرڈنینس کے تحت چیئرمین نیب کو یہ اختیار حاصل ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا معافی کی درخواست اعتراف جرم سے پہلے آنی چاہیے تھی ۔کے کے آغا نے بتایا کہ توقیر صادق کو نوٹس کی تعمیل نہیں ہو سکی، اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ پورے ملک کو معلوم ہے کہ توقیر صادق کہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے نوٹس کا جواب نہ دینے پر پنجاب بینک سے اربوں روپے کے قرضے حاصل کرنیوالی 4کمپنیوں ایم ٹیکس،کالونی گروپ، چناب گروپ اور اعجاز گروپ کمپنیوں کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیا، سپریم کورٹ نے سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کے دور حکومت میں قواعد سے ہٹ کر سی این جی اسٹیشن کے لائسنس جاری کرنے اور سی این جی سلنڈر کی درآمد کے بارے میں الزامات کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے شق وار جواب طلب
سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے رہنما و سابق وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم سمیت5 ملزمان کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے غفلت برتنے والے ایف آئی اے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی اورکرپشن اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان امین قاسم دادا اور خالد انور کی گرفتاری کا حکم دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کرپشن کے مقدمات کا نوٹس لینا صرف عدالتوں کاکا م نہیں ، یہ رقم عدالت کو نہیں ملے گی بلکہ قومی خزانے میں جائے گی۔
بدعنوانی کی رقم کو واپس لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے این آئی سی ایل، اوگرا کرپشن کیس، اور دیگر اہم مقدمات کی سماعت کی۔این آئی سی ایل کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ442 ملین میں سے41 ملین امین فہیم کے اکاؤنٹ میں گئے، امین فہیم کے خلاف ٹرائل کورٹ میں چارج شیٹ تیارکر لی گئی ہے، وہ اکیلے نہیں ہیں۔ عدالت نے ملزمان کی عدم موجودگی میں ضمانتیں حاصل کرنے کا بھی سخت نوٹس لیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محسن وڑائچ اورمخدوم امین فہیم کو ضمانت دینے کے فیصلے کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایف آئی اے کے لیگل ڈائریکٹر اؑعظم خان نے کہا کہ مفرور ملزمان کو واپس لانے کیلیے وزارت خارجہ کے ذریعے رابطہ کیا ہے کیونکہ ملزمان برطانیہ میں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ غیر حاضری میں مفرور ملزمان کو حفاضتی ضمانت کیسے مل گئی؟ غیر حاضری میں ضمانتوں کی اجازت نہیں دینگے۔ ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے وکیل نے عدالت کے سامنے قاسم شاہ، عبدالوحید اور پرویزمشرف کی ضمانتوں کے حوالے دیے تھے جس کے بعد ضمانت دیدی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ غلط اقدام ہے، ضمانتوں کا ریکارڈ طلب کرکے دیکھیں گے اور اس کو ری وزٹ کریں گے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے2 رکنی بینچ نے اوگرا میگا کرپشن کیس کے شریک ملزم شہزاد سلیم بھٹی کو معافی دینے پر اور توقیر صادق کو نوٹس کی عدم تعمیل پر نیب سے وضاحت طلب کر لی ۔ عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کے بعد نیب کی طرف سے معافی دینے پر حیرت کا اظہارکیا اور آبزرویشن دی کہ ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد معافی نہیں دی جا سکتی۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے بتایاکہ نیب آرڈنینس کے تحت چیئرمین نیب کو یہ اختیار حاصل ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا معافی کی درخواست اعتراف جرم سے پہلے آنی چاہیے تھی ۔کے کے آغا نے بتایا کہ توقیر صادق کو نوٹس کی تعمیل نہیں ہو سکی، اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ پورے ملک کو معلوم ہے کہ توقیر صادق کہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے نوٹس کا جواب نہ دینے پر پنجاب بینک سے اربوں روپے کے قرضے حاصل کرنیوالی 4کمپنیوں ایم ٹیکس،کالونی گروپ، چناب گروپ اور اعجاز گروپ کمپنیوں کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیا، سپریم کورٹ نے سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کے دور حکومت میں قواعد سے ہٹ کر سی این جی اسٹیشن کے لائسنس جاری کرنے اور سی این جی سلنڈر کی درآمد کے بارے میں الزامات کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے شق وار جواب طلب