میرٹ ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے
پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کے صدر سید شہریار علی کا ’’ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو
سید شہریار کا کہنا ہے کہ جس ادارے میں میرٹ کی پالیسی اپنائی جاتی ہے، وہ ایسوسی ایشنز بہت اوپر تک جاتی ہیں۔
پاکستان کو 1994ء میں4 کھیلوں کرکٹ، ہاکی، سنوکر اور سکواش میں عالمی چیمپئن رہنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے، یہ وہ دور تھا جب سید واجد علی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر تھے، ان کی صدارت میں نہ صرف ملکی کھیلوں نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی بلکہ ہاکی، سکواش، باکسنگ سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں نے بھی اپنے عمدہ کھیل سے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا، سید واجد علی کے بیٹے سید شاہد علی کی بھی سپورٹس خدمات سے انکار ممکن نہیں، وہ پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہنے کے ساتھ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے پاکستان میں ممبر بھی ہیں۔
اسی خاندان کے چشم وچراغ سید شہریار علی اس وقت پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، ان کی سربراہی میں پنجاب کی ٹیم اسلام آباد میں شیڈول قائد اعظم گیمز میں گولڈ میڈلزجیتنے میں بھی کامیاب رہی۔''ایکسپریس'' نے صدر ایسوسی ایشن سید شہریار علی سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔
سید شہریار علی کا ماننا ہے کہ پاکستان میں گنتی کے ہی کچھ ادارے ہیں جن کی کم عرصے میں بڑی بڑی کامیابیاں ہیں، بیس بال کے کھیل میں قومی ٹیم کی عالمی سطح پر کامیابیوں و کامرانیوں کا سہرا یقینی طور پر سابق صدر فیڈریشن سید خاور شاہ کو جاتا ہے جن کی انتھک محنت کی وجہ سے آج ہم ایشیا میں چھٹے اور عالمی درجہ بندی میں چوبیسویں نمبر پر ہیں، ان کے انتقال کے بعد فیڈریشن کی صدارت ان کے ہونہار بیٹے فخر شاہ نے سنبھالی ہے، سچ پوچھیں تو خاور شاہ کے بعد فخر شاہ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے پاس بیس بال کے انتظامی امور کا سب سے زیادہ تجربہ ہے، میری رائے میں کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں ایک ادارہ احسن انداز میں چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے،میری سپورٹ 110 فیصد فخر شاہ کے ساتھ ہے،جہاں وہ کہیں گے، میری خدمات حاصل ہوں گی۔
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جس ادارے میں میرٹ کی پالیسی اپنائی جاتی ہے، وہ ایسوسی ایشنز بہت اوپر تک جاتی ہیں، اسی پالیسی پر ہی عمل کرتے ہوئے ہم قومی اور صوبائی سطح کے ایونٹس میں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں،نتیجہ پنجاب کی بیس بال ٹیموں کا فتح و کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی ٹیمیں عالمی سطح پر بھی بہتری کی جانب گامزن ہیں، ایشیا بیس بال کا اہم مرکز ہے،جاپان، چین اور کوریا کی ٹیمیں تو اس کھیل میں بہت آگے ہیں، ان بڑی ٹیموں کے ہوتے ہوئے پاکستان کا ایشیائی سطح پر چھٹی پوزیشن پر رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔
رواں ماہ پشاور میں شیڈول بین الصوبائی گیمز کی تیاریوں کے حوالے سے سید شہر یار علی کا کہنا تھا کہ کسی بھی قومی یا انٹرنیشنل سطح کے ایونٹ کی تیاریوں کے لئے خاطر خواہ وسائل درکار ہوتے ہیں، ہمیں حکومت کی طرف سے بہت کم فنڈنگ ہوتی ہے، اس کے باوجود ہر بار کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پشاور گیمز کے لئے بھی لاہور میں کیمپ لگا دیا گیا ہے جہاں کھلاڑیوں کو ماہر کوچز کی نگرانی میں بھر پور تیاریوں کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ قائد اعظم گیمز کی طرح پنجاب بین الصوبائی مقابلوں میں بھی پنجاب کی ٹیم میڈل جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کے صدر کی رائے میں فرد واحد تو کسی حد تک ہی کوئی بڑا کام کر سکتا ہے، حکومت عوام سے اتنا زیادہ ٹیکسز اپنی قوم کی بہتری اور فلاح وبہبود کے لئے لیتی ہے،میری زندگی کا ایک حصہ باہر کے ملکوں میں گزرا ہے، میں نے وہاں دیکھا ہے کہ وہاں ہر ہم کام منظم اور پروفیشنل انداز میں کیا جاتا ہے، یہ چیزیں ہماری حکومت کو بھی ضرور سمجھنی چاہیے۔جو کھلاڑی اپنی غیر ملکی کارکردگی سے ملک وقوم کا نام روشن کرے، اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔انفرادی سطح پر جو کچھ ہو سکتا ہے ہم کرتے ہیں، ایونٹس کی فاتح ٹیموں کو انعام وکرام سے نوازا جاتا ہے،لیکن کم فنڈز ہونے کی وجہ سے یہ سرگرمیاں بھی محدود پیمانے پر ہی ہوتی ہیں۔
ہم اپنے طور پر کھلاڑیوں کے لئے بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ضرور ہیں لیکن اتنا نہیں کر پاتے جتنا کیا جانا چاہیے، سید شہریار علی کے مطابق سپورٹس ہمارے خون میں شامل ہیں، میرے دادا 26 سال تک پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہے، والد سید شاہد علی بھی پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہنے کے علاوہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے پاکستان میں ممبربھی ہیں، اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملکی سپورٹس کے لئے بہت کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔
صدر پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کی رائے میں ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے اسے ہی اس میدان میں آنا چاہیے۔یہاں لوگ دو،چار کروڑ لگاتے ہیں ، وہ یہ رقم اس لئے خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ 4کروڑ لگا کر 40کروڑ کما بھی لیں گے۔سپورٹس میں بھی یہی پریکٹس جاری ہے، انٹرنیشنل ایونٹس کے دوران اگر قومی پلیئرز 5 ہوں گے تو ان کے ساتھ بیرون ملک جانے والی آفیشلز کی تعداد 10 ہو گی۔
ہمارے ملکی کھیلوں کی آگے کی بجائے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری کھیلوں کے بڑوں کی دلچسپی گیمز کے فروغ کی بجائے کچھ اور ہی ہے۔ بیس بال ملک کی ان چند گیمز میں شامل ہے جس میں قومی ٹیموں کو اپنے خرچ پر باہر بجھوایا جاتا ہے، ذاتی طور پر ہم سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں تاہم حکومت کو بھی سپورٹس کے میدان میں آگے آنا چاہیے۔
پاکستان کو 1994ء میں4 کھیلوں کرکٹ، ہاکی، سنوکر اور سکواش میں عالمی چیمپئن رہنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے، یہ وہ دور تھا جب سید واجد علی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر تھے، ان کی صدارت میں نہ صرف ملکی کھیلوں نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی بلکہ ہاکی، سکواش، باکسنگ سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں نے بھی اپنے عمدہ کھیل سے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا، سید واجد علی کے بیٹے سید شاہد علی کی بھی سپورٹس خدمات سے انکار ممکن نہیں، وہ پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہنے کے ساتھ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے پاکستان میں ممبر بھی ہیں۔
اسی خاندان کے چشم وچراغ سید شہریار علی اس وقت پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، ان کی سربراہی میں پنجاب کی ٹیم اسلام آباد میں شیڈول قائد اعظم گیمز میں گولڈ میڈلزجیتنے میں بھی کامیاب رہی۔''ایکسپریس'' نے صدر ایسوسی ایشن سید شہریار علی سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔
سید شہریار علی کا ماننا ہے کہ پاکستان میں گنتی کے ہی کچھ ادارے ہیں جن کی کم عرصے میں بڑی بڑی کامیابیاں ہیں، بیس بال کے کھیل میں قومی ٹیم کی عالمی سطح پر کامیابیوں و کامرانیوں کا سہرا یقینی طور پر سابق صدر فیڈریشن سید خاور شاہ کو جاتا ہے جن کی انتھک محنت کی وجہ سے آج ہم ایشیا میں چھٹے اور عالمی درجہ بندی میں چوبیسویں نمبر پر ہیں، ان کے انتقال کے بعد فیڈریشن کی صدارت ان کے ہونہار بیٹے فخر شاہ نے سنبھالی ہے، سچ پوچھیں تو خاور شاہ کے بعد فخر شاہ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے پاس بیس بال کے انتظامی امور کا سب سے زیادہ تجربہ ہے، میری رائے میں کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں ایک ادارہ احسن انداز میں چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے،میری سپورٹ 110 فیصد فخر شاہ کے ساتھ ہے،جہاں وہ کہیں گے، میری خدمات حاصل ہوں گی۔
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جس ادارے میں میرٹ کی پالیسی اپنائی جاتی ہے، وہ ایسوسی ایشنز بہت اوپر تک جاتی ہیں، اسی پالیسی پر ہی عمل کرتے ہوئے ہم قومی اور صوبائی سطح کے ایونٹس میں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں،نتیجہ پنجاب کی بیس بال ٹیموں کا فتح و کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی ٹیمیں عالمی سطح پر بھی بہتری کی جانب گامزن ہیں، ایشیا بیس بال کا اہم مرکز ہے،جاپان، چین اور کوریا کی ٹیمیں تو اس کھیل میں بہت آگے ہیں، ان بڑی ٹیموں کے ہوتے ہوئے پاکستان کا ایشیائی سطح پر چھٹی پوزیشن پر رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔
رواں ماہ پشاور میں شیڈول بین الصوبائی گیمز کی تیاریوں کے حوالے سے سید شہر یار علی کا کہنا تھا کہ کسی بھی قومی یا انٹرنیشنل سطح کے ایونٹ کی تیاریوں کے لئے خاطر خواہ وسائل درکار ہوتے ہیں، ہمیں حکومت کی طرف سے بہت کم فنڈنگ ہوتی ہے، اس کے باوجود ہر بار کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پشاور گیمز کے لئے بھی لاہور میں کیمپ لگا دیا گیا ہے جہاں کھلاڑیوں کو ماہر کوچز کی نگرانی میں بھر پور تیاریوں کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ قائد اعظم گیمز کی طرح پنجاب بین الصوبائی مقابلوں میں بھی پنجاب کی ٹیم میڈل جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کے صدر کی رائے میں فرد واحد تو کسی حد تک ہی کوئی بڑا کام کر سکتا ہے، حکومت عوام سے اتنا زیادہ ٹیکسز اپنی قوم کی بہتری اور فلاح وبہبود کے لئے لیتی ہے،میری زندگی کا ایک حصہ باہر کے ملکوں میں گزرا ہے، میں نے وہاں دیکھا ہے کہ وہاں ہر ہم کام منظم اور پروفیشنل انداز میں کیا جاتا ہے، یہ چیزیں ہماری حکومت کو بھی ضرور سمجھنی چاہیے۔جو کھلاڑی اپنی غیر ملکی کارکردگی سے ملک وقوم کا نام روشن کرے، اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔انفرادی سطح پر جو کچھ ہو سکتا ہے ہم کرتے ہیں، ایونٹس کی فاتح ٹیموں کو انعام وکرام سے نوازا جاتا ہے،لیکن کم فنڈز ہونے کی وجہ سے یہ سرگرمیاں بھی محدود پیمانے پر ہی ہوتی ہیں۔
ہم اپنے طور پر کھلاڑیوں کے لئے بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ضرور ہیں لیکن اتنا نہیں کر پاتے جتنا کیا جانا چاہیے، سید شہریار علی کے مطابق سپورٹس ہمارے خون میں شامل ہیں، میرے دادا 26 سال تک پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہے، والد سید شاہد علی بھی پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہنے کے علاوہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے پاکستان میں ممبربھی ہیں، اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملکی سپورٹس کے لئے بہت کچھ کرنے کی کوشش کروں گا۔
صدر پنجاب بیس بال ایسوسی ایشن کی رائے میں ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے اسے ہی اس میدان میں آنا چاہیے۔یہاں لوگ دو،چار کروڑ لگاتے ہیں ، وہ یہ رقم اس لئے خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ 4کروڑ لگا کر 40کروڑ کما بھی لیں گے۔سپورٹس میں بھی یہی پریکٹس جاری ہے، انٹرنیشنل ایونٹس کے دوران اگر قومی پلیئرز 5 ہوں گے تو ان کے ساتھ بیرون ملک جانے والی آفیشلز کی تعداد 10 ہو گی۔
ہمارے ملکی کھیلوں کی آگے کی بجائے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری کھیلوں کے بڑوں کی دلچسپی گیمز کے فروغ کی بجائے کچھ اور ہی ہے۔ بیس بال ملک کی ان چند گیمز میں شامل ہے جس میں قومی ٹیموں کو اپنے خرچ پر باہر بجھوایا جاتا ہے، ذاتی طور پر ہم سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں تاہم حکومت کو بھی سپورٹس کے میدان میں آگے آنا چاہیے۔